چین کا تائیوان کو ہتھیار فروخت کرنے والی امریکی کمپنیوں پر پابندی کا اعلان
چین کو اپنے قومی مفاد کے تحفظ کے لیے پابندیاں عائد کرنے سے بڑھ کر بھی اقدامات کرنا پڑے تو کرے گا، ترجمان دفتر خارجہ
چین نے تائیوان کو ہتھیار فروخت کرنے والی امریکی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا ہے
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق پیر کو چینی دفتر خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے پریس بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ چین کو اپنے قومی مفاد کے تحفظ کے لیے پابندیاں عائد کرنے سے بڑھ کر بھی اقدمات کرنا پڑے تو کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا اور تائیوان کے درمیان معاہدے کے لیے ہتھیار فراہم کرنے والی بڑی کمپنیوں لاکہیڈ مارٹن، بوئنگ ڈیفینس، ریتھیون اور دیگر پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ تائیوان کو امریکا کی جانب سے ہتھیار کی فروخت میں شریک کمپنیوں کے ساتھ افراد کو بھی کڑی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم ترجمان کی جانب سے پابندیوں کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
واضح رہے کہ امریکا نے تائیوان کو سینسرز، میزائل سسٹم اور گولہ بارود وغیرہ کا 1.8 ارب ڈالر کے جنگی سازو سامان فروخت کرنے کے معاہدے کی منظوری دی تھی۔ دیگر کئی ممالک کی طرح امریکا کے تائیوان کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم قانون کے تحت امریکا اس کی دفاعی ضروریات فراہم کرنے کا پابند ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: چین نے امریکا کو تصادم کے خطرے سے خبردار کردیا
دوسری جانب چین نہ صرف تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے بلکہ اس پر اختیار حاصل کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کو بھی جائز تصور کرتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے تائیوان کو دفاعی ساز و سامان کی فراہمی سمیت جنوبی بحیرہ چین، ہانگ کانگ اور انسانی حقوق سمیت کئی محاذ کھول رکھے ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیے: چین نے ایک ساتھ 5 جنگی مشقوں کا آغاز کردیا
چین کی جانب سے جن کمپنیوں پر پابندی کا اعلان کیا گیا ہے ان میں سے عالمی خبر رساں ادارے کے رابطہ کرنے پر بوئنگ اور لاکہیڈ مارٹن نے کہا ہے کہ وہ امریکی حکومت کے ضابطوں کی پابند ہیں اور ان کی چین میں موجودگی محدود نوعیت کی ہے۔ ریتھیون نے اس حوالے سے فوری کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: صدر شی جن پنگ کی چینی فوج کو جنگ کے لیے تیاررہنے کی ہدایت
یاد رہے کہ اس سے قبل تائیوان اور امریکا کے مابین بڑھتے ہوئے مراسم پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چینی صدر نے اپنی فوج کو ممکنہ جنگ کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی تھی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق پیر کو چینی دفتر خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے پریس بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ چین کو اپنے قومی مفاد کے تحفظ کے لیے پابندیاں عائد کرنے سے بڑھ کر بھی اقدمات کرنا پڑے تو کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا اور تائیوان کے درمیان معاہدے کے لیے ہتھیار فراہم کرنے والی بڑی کمپنیوں لاکہیڈ مارٹن، بوئنگ ڈیفینس، ریتھیون اور دیگر پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ تائیوان کو امریکا کی جانب سے ہتھیار کی فروخت میں شریک کمپنیوں کے ساتھ افراد کو بھی کڑی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم ترجمان کی جانب سے پابندیوں کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
واضح رہے کہ امریکا نے تائیوان کو سینسرز، میزائل سسٹم اور گولہ بارود وغیرہ کا 1.8 ارب ڈالر کے جنگی سازو سامان فروخت کرنے کے معاہدے کی منظوری دی تھی۔ دیگر کئی ممالک کی طرح امریکا کے تائیوان کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم قانون کے تحت امریکا اس کی دفاعی ضروریات فراہم کرنے کا پابند ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: چین نے امریکا کو تصادم کے خطرے سے خبردار کردیا
دوسری جانب چین نہ صرف تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے بلکہ اس پر اختیار حاصل کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کو بھی جائز تصور کرتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے تائیوان کو دفاعی ساز و سامان کی فراہمی سمیت جنوبی بحیرہ چین، ہانگ کانگ اور انسانی حقوق سمیت کئی محاذ کھول رکھے ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیے: چین نے ایک ساتھ 5 جنگی مشقوں کا آغاز کردیا
چین کی جانب سے جن کمپنیوں پر پابندی کا اعلان کیا گیا ہے ان میں سے عالمی خبر رساں ادارے کے رابطہ کرنے پر بوئنگ اور لاکہیڈ مارٹن نے کہا ہے کہ وہ امریکی حکومت کے ضابطوں کی پابند ہیں اور ان کی چین میں موجودگی محدود نوعیت کی ہے۔ ریتھیون نے اس حوالے سے فوری کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: صدر شی جن پنگ کی چینی فوج کو جنگ کے لیے تیاررہنے کی ہدایت
یاد رہے کہ اس سے قبل تائیوان اور امریکا کے مابین بڑھتے ہوئے مراسم پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چینی صدر نے اپنی فوج کو ممکنہ جنگ کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی تھی۔