اکتاہٹ اور تنہائی پسندی ڈیمنشیا کی علامات بھی ہوسکتی ہیں تحقیق

دماغی خلیے تیزی سے مرنے کے نتیجے میں الزائیمرز اور پارکنسنز جیسی بیماریوں کو مجموعی طور پر ڈیمنشیا کہا جاتا ہے


ویب ڈیسک October 27, 2020
بزرگوں میں تنہائی پسندی، اکتاہٹ اور ارد گرد کے ماحول سے لاتعلقی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کی وجہ سے انسان اکتاہٹ اور تنہائی پسندی کا شکار ہوجاتا ہے لیکن امریکا میں کی گئی ایک طویل تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہی دونوں کیفیات ڈیمنشیا کی علامت بھی ہوسکتی ہیں۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو میں 70 سے 80 سال کے 2000 سے زائد مریضوں پر 9 سال تک جاری رہنے والی اس تحقیق میں ڈیمنشیا اور تنہائی پسندی/ اکتاہٹ کے درمیان واضح تعلق سامنے آیا ہے۔

ریسرچ جرنل ''نیورولوجی'' کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کی مرکزی مصنفہ ڈاکٹر میریڈتھ باک کا کہنا ہے کہ یہ تعلق اس قدر نمایاں ہے کہ اسے ڈیمنشیا کی علامت بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ رویہ ڈیمنشیا کی وجہ ہر گز نہیں۔

واضح رہے کہ ڈیمنشیا کوئی ایک بیماری نہیں بلکہ مختلف دماغی امراض کا مجموعی نام ہے؛ اور ان سب کی وجہ دماغی خلیوں کا تیزی سے ختم ہونا ہے جس کے نتیجے میں الزائیمرز اور پارکنسنز جیسی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔

اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ جن بزرگوں میں تنہائی پسندی اور خلافِ معمول اکتاہٹ کی علامات جتنی زیادہ تھیں، ان کے ڈیمنشیا میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی اتنے ہی زیادہ اور نمایاں تھے۔

حتی کہ وہ بزرگ جو شدید قسم کی تنہائی پسندی اور اکتاہٹ میں مبتلا تھے، ان میں دوسرے صحت مند اور معمول کے مطابق میل جول رکھنے والے بزرگوں کے مقابلے میں ڈیمنشیا کا شکار ہونے کا امکان 80 فیصد زیادہ تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔