شکست خوردہ ذہنیت

جسمانی غلامی سے تو آزادی مل سکتی ہے لیکن ذہنی غلامی نسلیں برباد کردیتی ہے

جسمانی غلامی اتنی خطرناک نہیں ہوتی جتنی ذہنی غلامی ہوتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایک دفعہ ایک بادشاہ اپنی والدہ کے ساتھ جوا کھیلنے لگا۔ کھیل بہت آسان تھا، ایک پانسہ تھا جس پر ایک سے لے کر چھ تک ہندسے لکھے ہوئے تھے۔ ایک نمبر بادشاہ لے لیتا اور ایک اس کی والدہ۔ پھر پانسہ پھینکا جاتا۔ اگر دونوں نمبر نہ آتے تو کھیل برابر اور اگر بادشاہ کا نمبر آجاتا تو والدہ اسے شرط پر لگی رقم دے دیتی اور اگر والدہ کا نمبر آجاتا تو بادشاہ شرط پر لگایا گیا ایک غلام ہار جاتا، جسے محترمہ کی جیت کی خوشی میں شوقیہ ذبح کردیا جاتا۔ اس طرح کئی غلام بے موت مارے جاتے۔ ایک اور بادشاہ کو نہ جانے کیا سوجھی کہ اس نے تیر اندازی کی مشق کے دوران تختہ مشق کی جگہ ایک لڑکے کو کھڑا کردیا اور اس کے باپ کے آنکھوں کے سامنے اس کا نشانہ لے کر اسے مار دیا اور اس کا باپ بادشاہ کے قدم چوم کر اس کی نشانہ بازی کی مبارک باد دیتا ہے۔ زبردست مارتا ہے اور رونے بھی نہیں دیتا۔

اس طرح کے کئی واقعات ہم نے پڑھ رکھے ہیں، اس لیے جب بھی بات غلامی کی آتی ہے تو ہمیں یہی سوجھتا ہے کہ غلاموں کی منڈی ہوتی تھی اور اس میں غلام بکتے تھے جو جسمانی اور ذہنی لحاظ سے اپنے خریدار کے پابند ہوتے تھے۔ خاندان غلاماں نے حکمرانی بھی کی مگر اب سلاطین کا دور نہیں رہا اور اس کے ساتھ ہی غلامی بھی ختم ہوگئی۔ مگر کیا واقعی غلامی اپنی موت آپ مرگئی؟ میرا خیال ہے کہ انسانوں کے سیاسی، معاشی، ثقافتی، ذہنی اور تمدنی تغیر کے ساتھ غلامی نے بھی اپنی ہیئت بدل لی ہے۔

دنیا میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اس میں ایک یہ بھی تھی کہ انسان اپنے آپ کو آزاد تصور کرے مگر اس کے پاؤں میں نہ دکھنے والی زنجیر ہو، اس کے گرد نہ محسوس ہونے والا پنجرہ ہو اور اس پر جو ظلم کیے جائیں وہ انہیں تقدیر کے کھاتے میں ڈال دے اور ظالموں کو نہ صرف بے قصور مانے بلکہ انہیں اپنا مسیحا گردانے۔

مسلمان جب تک ذہنی طور پر آزاد تھے اپنے فیصلے خود کرتے تھے، دنیا پر حکمرانی کرتے تھے۔ اسلام کو دنیا کے کونے کونے تک لے کر پہنچے۔ مگر پھر انگریزوں نے انہیں اپنا غلام بنا لیا، جس کے خلاف پوری ایک صدی مسلمان جدوجہد کرتے رہے مگر پھر اگلی صدی میں ان کی آنے والی نسل پوری طرح غلامی کو اپنا مقدر جان کر، اپنے آقاؤں کو خوش کرنے میں لگ گئی۔ وہ پڑھ لکھ کر انگریزوں کے نوکر بھرتی ہونے پر فخر کرنے لگے اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر و اعلیٰ تصور کرنے لگے۔ کچھ لوگ غلامی سے آزادی کےلیے جدوجہد کرتے ہیں اور کچھ لوگ غلامی کی شرائط کو بہتر بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آج ہم دوسرے طبقے کے لوگوں میں رہتے ہیں، جو اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ دیکھو ہمارا مطالبہ مان لیا گیا اور ہماری غلامی میں مزید بہتری آگئی۔

کتنا آسان ہے تائید کی خُو کر لینا
کتنا دشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا


ایسی غلامی کو ذہنی غلامی کہتے ہیں۔ جسمانی غلامی اتنی خطرناک نہیں ہوتی جتنی ذہنی غلامی ہوتی ہے۔ جسمانی غلامی سے تو آزادی مل سکتی ہے لیکن ذہنی غلامی نسلیں برباد کردیتی ہے۔ ذہنی غلامی ان رویوں کا باعث بنتی ہے جو غلامی کی زنجیروں کو اور مضبوط کرتی ہے۔ انگریز بڑی ذہین قوم تھی اور انہوں نے یہ ذہانت ہمارے ہی علمی سرمائے سے حاصل کی، جسے ہم نے پس پشت ڈال دیا۔ ایک صدی میں انہوں نے اس بات کا مکمل بندوبست کردیا کہ اگر ہماری حکمرانی ختم بھی ہوجائے تو ہم اپنے ایسے ذہنی غلام پیدا کرجائیں جو یہاں سے کما کر ہمیں ہمارے گھر میں سرمایہ بھیجتے رہیں۔ اور اس کےلیے انہوں نے یہاں کی اقلیت کو امیر تر بنادیا، کیونکہ اقلیت ہونے کے ناتے وہ اپنے زیادہ سرمایہ کو یہاں غیر محفوظ سمجھ کر ہمارے پاس جمع کرائیں گے اور یہی ہوا بھی۔ کیوں کہ کراچی جو کبھی پارسیوں کی جنت تھا اور وہ امیر ترین اقلیت تھے، مگر اب وہاں چند گھر انے ہی بچے ہیں، باقی سب اپنا مال سمیٹ کر اپنے آقاؤں کے پاس لے گئے۔

اسی طرح یہاں کی اکثریت کو یہ یقین دلا دیا کہ ان کے بہترین مستقبل کےلیے انگریز کا قانون کتنا ضروری ہے۔ اگر تم نے ترقی کرنی ہے تو ہماری غلامی میں ہی ہوسکتی ہے۔ انگریزوں نے ہم پر احسان کیا کہ بینک کا نظام، سود کا نظام، عدالتی نظام، قانون سب وہ ہمیں دے کر گئے اور ہم نے انہیں سرمایہ حیات بنا کر آج تک سینے سے لگایا ہوا ہے۔ ہم اسی میں اپنی نجات مانتے ہیں۔ اور جو نظام خالقِ کائنات نے ہمیں دیا، اسے ہم نے پس پشت ڈال دیا کہ وہ جدیدیت پر پورا نہیں اترتا۔ اس سے بدتر غلامی کی مثال شاید ہمیں تاریخ کے اوراق میں بھی نہ ملے جس غلامی میں ہم لوگ جی رہے ہیں۔

بظاہر ہمارا ملک آزاد ریاست، اسلام کا قلعہ ہے مگر غلامی کی نادیدہ زنجیروں سے لپٹے اور اسلام کی اصل سے نابلد لوگوں کا ایک مجموعہ ہے جو اسلام کے نام پر جان تو دے سکتے ہیں مگر اسلام نافذ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ کیوں کہ اس سے انگریز بہادر جو ناراض ہوجائے گا۔

کہتے ہیں کہ غلامی کی بدترین شکل وہ ہے، جب غلاموں کو اپنی زنجیروں سے پیار ہوجائے اور ہمیں تو عشق ہے صاحب ان زنجیروں سے۔ اسی لیے تو ہم ہر اچھے کام کی مثال کےلیے انگریزوں کو دیکھتے ہیں اور ہر برائی کو مسلمان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ اسی لیے تو ہمارے معاشرے میں یہ جملہ کثرت سے سنا جاتا ہے کہ ''ڈاڈھے نال پنگا نئی لینا، اسی ماڑے لوگ آں'' مطلب کیا ضرورت تھی ان سے لڑائی مول لینے کی، وہ طاقتور لوگ ہیں اور ہم غریب، ہمارا ان کا کیا مقابلہ۔ یعنی طاقتور کے آگے کھڑے نہیں ہونا، لڑنے سے پہلے ہی ہار مان لینا اور غریب پر اپنی زور آزمائی دکھا کر بہادری کی مثال قائم کردینا۔ یہی ہماری تعلیم ہے، یہی ہماری حکومت ہے، یہی ہماری معاشرت ہے اور یہی ہماری اصل۔


ایسے علوم، ایسی دانش اور تدبیر اور ایسی حکومت سازی کبھی نہیں پنپ سکتی جو غریب کا لہو چوس کر استوار کی جائے۔ جس کے تحت نعرے تو مساوات کے بلند کیے جائیں لیکن عملی طور پر غریب کو غریب تر بنادیا جائے اور وہ جیتے جی مر جائے۔ اسی لیے ہم ترقی پذیر سے کبھی ترقی یافتہ نہ بن سکے۔

اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے
چراغ ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنے لگے
ترقی کر گئے بیماریوں کے سوداگر
یہ سب مریض ہیں جو اب دوائیں کرنے لگے


ہماری ذہنی پستی کی میں کیا مثال دوں، یہی کیا کم ہے کہ ہم نے اپنے آقا کے کہنے پر روزمرہ زندگی میں قدرتی اشیاء جو ہماری صحت و تندرستی کےلیے بہت ضروری ہیں، کو چھوڑ کر انگریز بہادر کی بنائی ہوئی مصنوعی اشیاء استعمال میں لاتے ہیں۔ قدرتی پانی آلودہ اور منرل واٹر (جو منرلز نکال کر بنایا جاتا ہے) صحت کے اصولوں کے عین مطابق، دیسی گھی بدبودار جبکہ ڈالڈا گھی خوش ذائقہ، دودھ ملاوٹی اور کیمیکل کا پاؤڈر خالص، تازہ پھلوں کے جوس جراثیم سے بھرپور جبکہ ڈبے والا جوس اسٹرلائزڈ وغیرہ۔ مطلب قدرت کی پیداوار انسان کےلیے موت اور ان انگریزوں کی پیداوار انسان کےلیے آب حیات کا درجہ رکھتی ہے۔ پہلے لوگ آلودہ چیزیں کھا کر پہلوان بنتے تھے اور اب خالص اشیاء کھا کر ٹی بی اور یرقان کا علاج کراتے پھرتے ہیں۔

ذرا سا سونگھ لینے سے بھی انور
طبیعت سخت متلانے لگی ہے
مہذب اِس قدر میں ہوگیا ہوں
کہ دیسی گھی سے بو آنے لگی ہے


یہ شکست خوردہ ذہنیت کی انتہا ہے۔ ایسی قوم اپنے مفادات کا تحفظ کیا کرے گی جس کے تمام مفادات ہی ان سے جڑے ہوں، جن کو وہ بظاہر اپنا دشمن گردانتے ہوں۔ مسلمانوں کی اسی ذہنی شکستگی کو علامہ محمد اقبال نے محسوس کرکے اس طرح بیان کیا۔

سینے میں رہے رازِ ملوکانہ تو بہتر
کرتے نہیں محکوموں کو تیغوں سے کبھی زیر
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر


مسلمانوں کو ایک عظیم قوت بنانے کےلیے اپنی روحوں کو دوبارہ تسخیر کرکے ان عظیم روایات اور اصولوں پر سختی سے جم جانا چاہیے جو ان کے زبردست اتحاد کی بنیاد ہیں اور ان نادیدہ زنجیروں کو توڑ کر اپنے اسلامی تشخص کو بحال کرنا چاہیے کہ اسی میں دنیا اور آخرت کی نجات ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story