گلشن دھماکے کے متاثرین گھر اور معاوضے سے محروم عمارت بھی منہدم کردی گئی

متاثرین نے مجبوراً اپنے عزیز و اقارب اور رشتے داروں کے گھروں میں پناہ لے لی


Staff Reporter October 27, 2020
 دھماکے کے متاثرین کا حکومت سے مالی معاوضہ فراہم کرنے اور عمارت دوبارہ تعمیر کروانے کا مطالبہ ۔ فوٹو : فائل

QUETTA: گلشن اقبال مسکن چورنگی دھماکے کے متاثرین کو تاحال کوئی معاوضہ اور متبادل جگہ فراہم نہیں کی جاسکی جب کہ عمارت بھی منہدم کردی گئی ہے۔

گلشن اقبال مسکن چورنگی پر واقع عمارت اللہ نور اپارٹمنٹس میں 21 اکتوبر بروز بدھ کو ہونے والے دھماکے کے متاثرین کو تاحال حکومت کی جانب سے کوئی معاوضہ اور رہائش گاہ فراہم نہیں کی گئی، عمارت کے متاثرہ حصے کے اطراف ٹیپ لگا کر سیل کیا ہوا ہے جسکی وجہ سے عمارت سے متصل قائم ایک ریسٹورانٹ اور کیفے بھی گزشتہ ایک ہفتے سے بند پڑا ہے۔

عمارت کے متاثرہ خاندانوں کا سازو سامان جس میں فرنیچر، برتن، بستر، کپڑے سمیت دیگر اشیاء شامل ہیں اپارٹمنٹس میں دھوپ میں پڑا خراب ہورہا ہے، عمارت کے متاثرہ خاندانوں نے اپنے رشتے داروں اور عزیز و اقارب کے گھروں پر عارضی پناہ لے رکھی ہے، عمارت کے پہلی منزل پر دھماکا ہوا تھا جو گراؤنڈ فلور پر واقع بینک کا حصہ تھا جب کہ اس سے اوپر دوسری، تیسری اور چوتھی منزل پر خاندان رہائش پزیر تھے جن میں سے دوسری منزل کا رہائشی خالد سلطان حادثے میں جاں بحق ہوچکا ہے جب کہ تیسری منزل کے رہائشی مسرور رضا کے پیر میں فریکچر آیا ہے اور چوتھی منزل کے رہائشی خاندان کو خوش قسمتی سے کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔

اپارٹمنٹ انتظامیہ نے متاثرہ عمارت کے 2 خاندانوں کو اپارٹمنٹ کے خالی فلیٹس میں عارضی طور پر منتقل کردیا ہے، عمارت کے متاثرین نے حکومت سے معاوضہ دینے اور عمارت کو دوبارہ تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ اپارٹمنٹ کے دیگر رہائشیوں نے حکومت سے عمارت کی دوبارہ تعمیر کرانے سمیت واقعے کی شفاف تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔



اس حوالے سے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے متاثرہ عمارت کی تیسری منزل کا رہائشی مسرور رضا کا کہنا تھا کہ پہلی منزل پر دھماکا ہوا تھا، متاثرین کی مدد کرنے یا معاوضہ دینے کے حوالے سے اب تک صوبائی سطح پر باقاعدہ طور پر کوئی اعلان نہیں ہوا، نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ عمارت دوبارہ تعمیر کی جائے گی یا نہیں، حکومت کو چاہیے کہ معاملے کی شفاف تحقیقات کروائے جس میں بینک انتظامیہ کو بھی شامل کیا جائے اور ان سے بھی پوچھ گچھ کی جائے اور دھماکا ہونے کی اصل وجہ بتائی جائے، ہم بالکل سڑک پر آگئے ہیں، اپارٹمنٹ انتظامیہ نے تعاون کیا ہے، عارضی طور پر پلاٹ رہنے کے لئے دیا ہے لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے، حکومت ہمیں مستقل رہنے کے لئے جگہ فراہم کرے۔

اپارٹمنٹ کی ایک رہائشی خاتون افت کا کہنا تھا کہ کسی نے متاثرین کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا کوئی پوچھنے کے لئے نہیں آیا، متاثرین کے گھر کا سامان بھی سب باہر پڑا ہوا ہے، خاندان تباہ ہوگئے ہیں، ہر گز یہ گیس لیکج سے دھماکا نہیں ہوا ہے، جب دھماکا ہوا تب نہ چنگاری تھی نہ آگ تھی صرف دھول مٹی تھی، حکومت کو چاہیے کہ متاثرہ عمارت کی دوبارہ تعمیر کرے۔

ایک اور عمارت کے رہائشی اعجاز الحق کا کہنا تھا کہ میں کچھ دوری پر موجود تھا جب دھماکا ہوا، جتنے شدید زخمی افراد تھے وہ سیلنڈر دھماکے کے زخمی نہیں تھے، ساڑھے نو بجے کے قریب دھماکا ہوا ہے، تین سے چار سیکنڈ میں نیچے اترے اسوقت کوئی مدد کے لئے نہیں پہنچا تھا، اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین کو عمارت سے باہر نکالا، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس عمارت کو گیس لیکج دھماکے کی وجہ بتاکر کلئرنگ سرٹیفکیٹ کیسے دے دیا گیا، بینک انتظامیہ سوئی گیس کمپنی اور سندھ حکومت کو چاہیے متاثرین کو معاوضہ دیں انکی مالی مدد کریں۔



دوسری جانب اللہ نور اپارٹمنٹس کے جنرل سیکرٹری سید عسکری زیدی کا کہنا تھا کہ جیسے ہی حادثہ ہوا میں دس منٹ بعد جائے حادثہ پر موجود تھا، جو تیسری اور چوتھی منزل کا رہائشی تھا اسے ریسکیو کیا، دوسری منزل پر رہنے والے خالد صاحب انتقال کرگئے تھے، اپارٹمنٹ کی پہلی منزل جہاں دھماکا ہوا وہ بینک کے پاس ہے لیکن وہاں گیس کا کوئی نام و نشان نہیں ہے یا کوئی بدبو یا کوئی سیلنڈر مجھے نظر نہیں آیا، حکومت کا کام ہے کہ وہ تفتیش کرے، ہم نے تمام حکام سے رابطہ کیا ہے، وزیر اعلی سندھ سمیت ناصر حسین شاہ اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے حکام کو بھی خط لکھے ہیں لیکن انکی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے صرف دو مطالبے ہیں کہ جو عمارت گری ہے اسکو حکومت ویسے ہی دوبارہ تعمیر کروایا جائے اور واقع کی شفاف تحقیقات کروائی جائے، دھماکا اتنا شدید تھا کہ پوری عمارت ہل گئی تھی، کئی افراد ہلاک بھی ہوچکے ہیں۔

دریں اثنا عمارت کو مخدوش ہونے کے سبب ایس بی سی اے نے منہدم کردیا۔ قبل ازیں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی حکام نے متاثرہ عمارت کا جائزہ لینے کے بعد عمارت کے مخصوص حصے کو مخدوش قرار دیتے ہوئے اسے گرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ جس کے بعد عمارت کے مخصوص حصے کو رہائشی اپارٹمٹ سے الگ کرنے کا کام شروع کیا گیا اور 7 روز تک مزدور روایتی طریقے سے عمارت کی چھت، پلر اور بیم کا سریا کاٹتے رہے۔

سات روز کے بعد متاثرہ عمارت کا سریا کاٹ کر اسے محفوظ رہنے والی عمارت سے الگ کردیا گیا اورمنگل کی دوپہر ہیوی کرین کے ذریعے عمارت کے متاثرہ حصے کو مسمار کردیا گیا جس کے بعد عمارت کا ملبہ ہٹانے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ مسکن چورنگی دھماکے میں اب تک 7 افراد ہلاک جبکہ 20 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔