امریکا اور بھارت میں حساس سیٹلائٹ معلومات کے تبادلے کا معاہدہ
بھارت کو دفاعی ٹیکنالوجی کی فراہمی جنوبی ایشیا کے امن کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوگا، پاکستان کا اظہار تشویش
بھارت اور امریکا کے مابین حساس سیٹلائٹ معلومات کے تبادلے کا معاہد طے پاگیا جس پر پاکستان نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اور سیکریٹری دفاع مارک ایسپر کے دورۂ بھارت کے دوران خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے رسوخ کو روکنے کے لیے دفاعی مذاکرات ہوئے جس میں دنوں ممالک کے مابین عسکری معاہدے طے پائے۔ جن میں بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ (بی ای سی اے) پر دستخط کیے گئے ہیں۔ اس معاہدے کے نتیجے میں بھارت کو امریکا کے عسکری سیٹلائٹس اور ٹوپوگرافیکل امیج جیسی ٹیکنالوجیز تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔
بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ جے سبھری منیئم سے ملاقات کے بعد مائیک پومپیو نے کہا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ امریکا چین کی کمیونسٹ پارٹی سے متعلق خطرات اور خدشات کی روک تھام کے لیے ہر ممکن اقدامات کررہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری قیادت اور شہریوں کا اس بات پر یقین پختہ ہوتا جارہا ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی جمہوریت، قانون کی حکمرانی، شفافیت اور آزادی کی حامی نہیں۔ اس موقعے پر بھارت اور امریکا کے مابین عسکری مقاصد کے لیے سیٹلائٹ ڈیٹا کے تبادلے کے معاہدے پر بھی دستخط کیے گئے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: چین کا تائیوان کو ہتھیار فروخت کرنے والی امریکی کمپنیوں پر پابندی کا اعلان
واضح رہے کہ امریکا اور چین کے مابین تجارتی جنگ کے آغاز کے بعد سے مختلف سفارتی محاذوں پر کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ امریکا کی جانب سے تائیوان کے ساتھ مراسم بڑھانے اور ہتھیاروں کی فروخت کے ساتھ ساتھ جنوبی بحیرہ چین، ہانگ کانگ اور انسانی حقوق سمیت کئی محاذ پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔
دوسری جانب لداخ میں کشیدگی کے باعث بھارت اور چین کے تعلقات 1962 کی جنگ کے بعد کشیدگی کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ ا س کے علاوہ ہمالیائی خطے میں دونوں ممالک کے مابین تصادم کے بادل بھی منڈلا رہے ہیں۔
پاکستان کا ردّ عمل
دفتر خارجہ کی جانب سے بھارت امریکا معاہدے پر جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان مسلسل بھارت کو جدید فوجی ساز و سامان ، معلومات اور ٹیکنالوجی کی فراہمی کی صورت میں جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کو درپیش خطرات اجاگر کرتا رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ متعدد بین الاقوامی ماہرین بھارت کی جانب سے جدید ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی خریداری، جوہری ہتھیاروں اور میزائل تجربات میں اضافے سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے۔ ان حالات میں بھارت کو اعلیٰ دفاعی ٹیکنالوجی کی فروخت پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں اور اسے نہ صرف عالمی اقدار کی پامالی بلکہ جنوبی ایشیا کے استحکام کے لیے بھی خطرہ قرار دیتے ہیں۔
یہ خبر بھی دیکھیے: صدر شی جن پنگ کی چینی فوج کو جنگ کے لیے تیاررہنے کی ہدایت
واضح رہے امریکی کمپنیاں بھارت کو 2007 سے اب تک 21 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کرچکی ہیں اور طویل عرصے سے امریکا بھارت پر عسکری استعمال کے لیے حساس معلومات کے تبادلے کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اور سیکریٹری دفاع مارک ایسپر کے دورۂ بھارت کے دوران خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے رسوخ کو روکنے کے لیے دفاعی مذاکرات ہوئے جس میں دنوں ممالک کے مابین عسکری معاہدے طے پائے۔ جن میں بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ (بی ای سی اے) پر دستخط کیے گئے ہیں۔ اس معاہدے کے نتیجے میں بھارت کو امریکا کے عسکری سیٹلائٹس اور ٹوپوگرافیکل امیج جیسی ٹیکنالوجیز تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔
بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ جے سبھری منیئم سے ملاقات کے بعد مائیک پومپیو نے کہا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ امریکا چین کی کمیونسٹ پارٹی سے متعلق خطرات اور خدشات کی روک تھام کے لیے ہر ممکن اقدامات کررہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری قیادت اور شہریوں کا اس بات پر یقین پختہ ہوتا جارہا ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی جمہوریت، قانون کی حکمرانی، شفافیت اور آزادی کی حامی نہیں۔ اس موقعے پر بھارت اور امریکا کے مابین عسکری مقاصد کے لیے سیٹلائٹ ڈیٹا کے تبادلے کے معاہدے پر بھی دستخط کیے گئے۔
یہ خبر بھی پڑھیے: چین کا تائیوان کو ہتھیار فروخت کرنے والی امریکی کمپنیوں پر پابندی کا اعلان
واضح رہے کہ امریکا اور چین کے مابین تجارتی جنگ کے آغاز کے بعد سے مختلف سفارتی محاذوں پر کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ امریکا کی جانب سے تائیوان کے ساتھ مراسم بڑھانے اور ہتھیاروں کی فروخت کے ساتھ ساتھ جنوبی بحیرہ چین، ہانگ کانگ اور انسانی حقوق سمیت کئی محاذ پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔
دوسری جانب لداخ میں کشیدگی کے باعث بھارت اور چین کے تعلقات 1962 کی جنگ کے بعد کشیدگی کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ ا س کے علاوہ ہمالیائی خطے میں دونوں ممالک کے مابین تصادم کے بادل بھی منڈلا رہے ہیں۔
پاکستان کا ردّ عمل
دفتر خارجہ کی جانب سے بھارت امریکا معاہدے پر جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان مسلسل بھارت کو جدید فوجی ساز و سامان ، معلومات اور ٹیکنالوجی کی فراہمی کی صورت میں جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کو درپیش خطرات اجاگر کرتا رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ متعدد بین الاقوامی ماہرین بھارت کی جانب سے جدید ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی خریداری، جوہری ہتھیاروں اور میزائل تجربات میں اضافے سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے۔ ان حالات میں بھارت کو اعلیٰ دفاعی ٹیکنالوجی کی فروخت پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں اور اسے نہ صرف عالمی اقدار کی پامالی بلکہ جنوبی ایشیا کے استحکام کے لیے بھی خطرہ قرار دیتے ہیں۔
یہ خبر بھی دیکھیے: صدر شی جن پنگ کی چینی فوج کو جنگ کے لیے تیاررہنے کی ہدایت
واضح رہے امریکی کمپنیاں بھارت کو 2007 سے اب تک 21 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کرچکی ہیں اور طویل عرصے سے امریکا بھارت پر عسکری استعمال کے لیے حساس معلومات کے تبادلے کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا۔