بُک شیلف

دنیا میں روزانہ بے شمار کتابیں شایع ہوتی ہیں مگر ان میں سے بہت کم عالمی سطح پر شہرت اور مقبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہیں،

بدقسمتی سے ہمارے ہاں خالصتاً فکری مواد پر مبنی دیگر زبانوں کی کتب کا ترجمہ بہت کم ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

تاریخ کا خاتمہ

مصنف: Francis Fukuyama،

مترجم: نورالدین انور

ناشر: سٹی بُک پوائنٹ، نوید اسکوائر، اردو بازار، کراچی

صفحات: 432،قیمت: 700



دنیا میں روزانہ بے شمار کتابیں شایع ہوتی ہیں، مگر ان میں سے بہت کم عالمی سطح پر شہرت اور مقبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہیں، اور ان تصانیف میں سے بھی چند ایک ہی ایسی ہوتی ہیں جو ایک مدت تک زیربحث رہیں اور بڑے پیمانے پر ذہن وفکر میں تبدیلی لانے کا سبب بنیں۔ "The end of history and the last man" بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے۔ معروف امریکی ماہر سیاسیات ومعاشیات فرانسس فوکویاما کی یہ تصنیف 1992میں شایع ہوکر ایک دنیا کو متاثر کرگئی۔ ایک اندازے کے مطابق اس تصنیف کا حوالہ سات سو سے زاید کتابوں کا حصہ بن چکا ہے اور اس پر اہل فکرودانش کے تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

''تاریخ کا خاتمہ'' اسی کتاب کا ترجمہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں خالصتاً فکری مواد پر مبنی دیگر زبانوں کی کتب کا ترجمہ کم ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں ''دی اینڈ آف ہسٹری'' جیسی کتاب کو اردو کے قالب میں ڈھال کر اور اس کی اشاعت کرکے مترجم اور ناشر نے قابل ستائش اقدام کیا ہے۔ یوں، اگرچہ دیر ہی سے کہی، اردو کے قارئین کو اس اہم کتاب کے مطالعے کا موقع فراہم ہوا ہے۔ کسی فکر اور نظریے کو لفظوں میں سموتی کتاب کا مطالعہ، چاہے وہ تصنیف ہمارے نظریات کے یکسر برعکس ہو، ذہن کو جلا بخشتا ہے۔ اس طرح کی کتابوں کا مطالعہ ہمارے اپنے اردگرد کی دنیا اور اس کی سوچ کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

مترجم نورالدین انور نے کتاب کا رواں ترجمہ کیا ہے اور ایک خالصتاً علمی وفکر کتاب کا روپ دینے میں حائل مشکلات کے باوجود اپنے مقصد میں خاصی حد تک کام یاب رہے ہیں۔ کتاب کے آخر میں دیا گیا اشاریہ اردوکے بہ جائے انگریزی میں ہے، جو یقیناً اصل تصنیف سے جوں کا توں لے کر ترجمہ شدہ کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اتنی اہم، بار بار پڑھنے کے لائق اور ریفرنس بک کا اشاریہ اردو ہی میں ہونا چاہیے تھا۔

نئے نام کی محبت

شاعرہ: تنویر انجم

ناشر: سٹی پریس بُک شاپ، مدینہ سٹی مال، عبداﷲ ہارون روڈ، کراچی

صفحات: 183،

قیمت:350روپے



تنویر انجم کی شاعری کا سفر لگ بھگ چالیس سال سے جاری ہے۔ انھوں نے ستر کی دہائی میں نثری نظم کی شاعرہ کی حیثیت سے اپنی شناخت بنالی تھی، جس کے بعد سے ان کی نظموں کے چار مجموعے ''ان دیکھی لہریں''، ''سفر اور قید میں نظمیں''،''طوفانی بارشوں میں رقصاں ستارے'' اور ''زندگی میرے پیروں سے لپٹ جائے گی'' شایع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ تنویر انجم کی غزلوں کا ایک مجموعہ ''سردبرگِ آرزو'' بھی منظرعام پر آچکا ہے۔

تنویر انجم کی نثری نظمیں ان کی فکری گہرائی اور وسعت کی عکاس ہیں۔ وہ زندگی کے بڑے عام سے مظاہر میں بہت گہرے معنی تلاش کرکے انھیں لفظوں میں ڈھالتی ہیں۔ بہ طور خاتون ان کی شاعری میں نسائی جذبات واحساسات کی بھرپور ترجمانی نظر آتی ہے، مگر بڑے منفرد انداز اور اسلوب میں۔ ساتھ ہی وہ زندگی کی ان بہت سی تلخ اور ترش حقیقتوں کو بھی لفظوں کا پیکر دیتی ہیں، جن کا صنف سے قطع نظر کسی بھی انسان کو سامنا ہوتا یا ہوسکتا ہے۔ ان نظموں کے عنوانات ہی شاعرہ کے ندرتِ کلام اور ان کے خیالات کے عمیق ہونے اور تہہ داری کا پتا دیتے ہیں، جیسے: ''بستر میں ایک چیونٹی''،''اسکریبل آن لائن اجنبی کے ساتھ''، ''آگ کی کہانیاں''، ''سسٹر کیرولین کی چتکبری بلیاں'' اور ''مسٹر صاحبہ کی پاور پوائنٹ فائل۔''فکری گہرائی کی حامل یہ نظمیں پڑھے جانے کے قابل ہیں۔

محور

شاعرہ: نسیمہ ہدیٰ نسیم،مرتبین: عابد عالم ناظری، شیریں نگار

ناشر: نجم الہدیٰ (علیگ)

صفحات:227،

قیمت: 150روپے



تحقیق کی دنیا میں یہ حادثہ تواتر سے پیش آتا رہا ہے کہ کوئی خوش فن تخلیق کار شہرت کے شہروں اور شاہ راہوں سے دور گم نامی کے ویرانوں میں جیا اور پھر موت کی وادی میں کھوگیا۔ یہ کتاب بھی ایک ایسی شاعرہ کا مجموعۂ کلام ہے، جو اظہار کے خوب صورت پیرائے اور اپنے الگ لہجے کی شاعری کرنے کے باوجود گم نام رہیں۔ یہ تھیں ہُدیٰ نسیم۔ ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولنے والی نسیم ہدیٰ جس خاندان کی بہو بنیں وہ بھی علم وادب کا گہوارہ تھا۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام ''مژگاں'' تھے، جو منظرعام پر آیا تو اصحاب علم چونک اٹھے تھے۔ اس کے بعد بھی ان کا شعری سفر جاری رہا، مگر کوئی مجموعہ سامنے نہ آسکا۔ اس مجموعے کی اشاعت کے تقریباً پندرہ برس بعد فروری 1997میں وہ اپنا غیرمطبوعہ شعری سرمایہ چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملیں۔ نسیم ہدیٰ نسیم کا یہ غیرمطبوعہ کلام ان کے صاحب زادے عابد عالم ناظری (ندیم) اور صاحب زادی شیریں زرنگار نے یک جا کرکے ''محور'' کے زیرعنوان شایع کیا ہے، جس میں چالیس غزلیں، تئیس نظمیں، سترہ قطعات اور گیت شامل ہیں۔ شاعری کے فن اور زندگی کے بارے میں پروفیسر سحر انصاری، نقاش کاظمی، تسلیم الٰہی زلفی، غالب ماجدی، سید ثروت ضحیٰ اور مرتبین کے مضامین بھی کتاب کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ کتاب میں نسیم ہدیٰ نسیم کی دو رنگین تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔

''محور، ایک مطالعہ'' کے زیرعنوان اپنے مضمون میں پرفیسر سحر انصاری لکھتے ہیں،''غزلوں کے بعض اشعار کی طرح نسیم کی نظمیں بھی اپنا ایک خاص رنگ وآہنگ رکھتی ہیں۔ کئی نظموں میں انھوں نے پیش پاافتادہ خیالات سے انحراف کیا ہے، جس سے ان کے کلام میں تازہ خیالی در آئی ہے۔۔۔۔ نسیم ادبی کلچر اور اس کے آداب سے واقف تھیں۔ کلاسیکی ادب اور فارسی کی تراکیب سے علاقہ ان کے تخلیقی شغف کی دلیل ہے۔''

کتاب کا سرورق خوب صورت اور طباعت عمدہ ہے۔

نعت رحمت

ترتیب وتقدیم: طاہر حسین طاہر سلطانی

ناشر: حمدونعت ریسرچ سینٹر۔۔۔جہان حمد پبلی کیشنز، نوشین سینٹر، اردو بازار، کراچی

صفحات: 760،

قیمت:1000



رسول اکرمﷺ کی محبت ہر مسلمان کا اثاثہ ہے۔ حُب رسول ؐ ہمارے ایمان کا وہ حصار ہے جو اگر خدانہ خواستہ سلامت نہ رہے تو ہمارا شہر ایمان آن کی آن میں لٹ جائے برباد ہوجائے۔ نعت بھی اس پاکیزہ اور جزوِایمان کا درجہ رکھنے والی محبت کے اظہار کا ایک خوب صورت ذریعہ ہے۔ صرف اردو زبان میں جتنی نعتیں کہی جاچکی ہیں انھیں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اردو کے کم ہی مسلمان شاعر ہوں گے جنہوں نے نبی کریمﷺ کی شان میں نعت کہنے کا اعزاز حاصل کیا۔ مسلمان ہی نہیں برصغیر کے ہندو اور سکھ شعراء بھی شان رسالت میں عقیدت کے پھول پیش کرتے رہے ہیں۔


زیرتبصرہ کتاب نعتوں کا انتخاب ہے، جن میں برصغیر کے چوٹی کے علماء اور نام ورترین شعراء کی نعتیں شامل ہیں۔ یہ کتاب دراصل نعتوں کے انتخاب کا حصہ اول ہے، جو ان شعراء کے کلام پر مبنی ہے جو دنیا سے جاچکے ہیں۔ اس کتاب کے مرتب لکھتے ہیں،''ہم نے متقدمین، متوسطین اور متاخرین مرحوم شعراء کے نعتیہ کلام سے 'نعت رحمت' کی تزئین کی ہے۔۔۔۔۔نعتیہ انتخاب میں 486 مرحوم شعراء و شاعرات کو نمائندگی حاصل ہوئی ہے۔ 627 ایمان افروز روح پرور نعتیں شامل کی گئی ہیں۔''

اس نعتیہ انتخاب کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مرتب نے کس قدر محنت اور جستجو کے بعد اسے ترتیب دے کر کتاب کی صورت میں پیش کرنے کی سعات حاصل کی ہے، جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

نادیدہ محبوب (ناول)

ناول نگار: پرویز بلگرامی،

ناشر: علی میاں پبلشر، لاہور،

صفحات:478،

قیمت:400



پرویز بلگرامی سینیر کہانی کار ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے لکھ رہے ہیں۔ اُن کے پڑھنے والوں کا ایک حلقہ موجود ہے۔ ڈائجسٹوں کی ادارت کا بھی وہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ''مِنی کہانیاں'' لکھنے والے اچھے تخلیق کاروں میں اُن کا شمار ہوتا ہے۔

''نادیدہ محبوب'' اُن کا تازہ ناول ہے، جو دو برس تک ایک ڈائجسٹ میں قسط وار شایع ہوا، پھر اُسے کتابی شکل دی گئی۔ کتابی صورت میں یہ اُن کا 18 واں ناول ہے۔ یہ ایک ایسی نواب زادی کا قصّہ ہے، جس کا حسن ایک جن کو اپنا اسیر بنا لیتا ہے۔ کہانی ڈرامائی انداز میں، پُراسرار اور مافوق الفطرت واقعات کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ اور قاری قصے کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔ کہانی قبل از تقسیم، لکھنؤ کے ماحول میں پروان چڑھتی ہے۔ اختتام قیام پاکستان کے سمے ڈھاکا میں ہوتا ہے۔

عجیب و غریب واقعات اور جادو کے امتزاج سے جنم لینے والی اِس کہانی کا اہم ترین پہلو دل چسپی کا عنصر ہے، جو اِس طرز کے ناولوں کی ضرورت بھی ہے۔ اِس محاذ پر مصنف کام یاب نظر آتے ہیں۔ زبان سادہ اور رواں ہے، اِس میں ادبی ذایقہ بھی ملتا ہے۔ الغرض پراسرار ناول پڑھنے والوں کے لیے ایک اچھی کتاب ہے، جو انھیں تخیل کی انوکھی دنیا میں لے جانے کی قوت رکھتی ہے۔

آتشِ رواں (کہانیوں کا انتخاب)

مرتب: زاہد حسن،

ناشر:Narratives پرائیویٹ لمیٹڈ،

صفحات:302،

قیمت:500



زیرتبصرہ کتاب اردو کے سینیر اور نئے لکھاریوں کے منتخب افسانوں پر مشتمل ہے، جسے زاہد حسن نے مرتب کیا ہے، جو خود بھی فکشن نگار ہیں۔ ایک ادبی جریدے کے وہ مدیر بھی ہیں۔

سرورق پر اِسے خوف سے جنم لینے والی کہانیوں کا انتخاب قرار دیا گیا ہے، البتہ اندرونی صفحات اِسے شدت پسندی پر لکھی کہانیاں کا انتخاب قرار دیتے ہیں۔ فہرست، بیک فلیپ پر نظر ڈالنے اور زاہد حسن کا پیش لفظ پڑھنے کے بعد دوسری بات زیادہ دُرست معلوم ہوتی ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتاب ان قصّوں کا انتخاب ہے، جن میں شدت پسندی کی صورت حال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ الطاف فاطمہ، منشا یاد، خالدہ حسین، اسد محمد خان اور زاہدہ حنا کے ساتھ نئے لکھنے والوں کی کہانیاں بھی شامل ہیں۔

واضح رہے کہ چند دہائیوں قبل، خصوصاً افغان وار کے سمے، اِس خطے میں شدت پسندی کی ابتدائی شکل ظاہر ہوئی تھی۔ جنگ کا خاتمہ ہوا، تو 9/11 کا خوف ناک سانحہ ہوگیا، جس کے بعد زمین میں موجود شدت پسندی کے بیج میں جان پڑی گئی۔ آج ہم اِس عفریت کے نرغے میں ہیں۔ اِس نقطۂ نگاہ سے 26 افسانوں پر مشتمل یہ کتاب اہم ہے کہ اِس کے ذریعے ہمیں سینیر اور نئے لکھاریوں کے، اِس موضوع پر احساسات اور خیالات کا اندازہ ہوتا ہے۔

مجموعی طور پر یہ ایک اچھا انتخاب ہے، جس کے ذریعے میں اپنے ماضی قریب کی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔

The Judiciary of Pakstan and its Role in Political Crises

مصنف: سید سمیع احمد، سینیر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ

ناشر: رائل بک کمپنی، ریکس سینٹر، فاطمہ جناح روڈ، کراچی،

صفحات: 352 ،

قیمت: 1000 روپے



ملک کی چھیاسٹھ سالہ تاریخ میں پیش آمدہ واقعات کے معروضی تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک کے کہنہ اضطراب کی اصل وجہ ہماری سول اور ملٹری بیوروکریسی کی اقتدار کے لیے نہ مٹنے والی خواہش کے باعث پیدا ہونے والا سیاسی عدم استحکام رہا ہے۔ خبطِ اقتدار کے اولین مظاہر خود قائد اعظم کی زندگی ہی میں سامنے آنے لگے تھے۔ لیکن جب بدقسمتی نے ملک کو بابائے قوم کی راہ نمائی سے محروم کردیا تو اس مسموم بیماری نے ایک طاعون کی شکل اختیار کرلی۔ یوں لگتا ہے ان دو عناصر نے سیاسی آزادی کے حصول کو حقیقی آزادی کے راستے کی پہلی منزل نہیں سمجھا۔ نہ انہوں نے یہ بات محسوس کی کہ ابھی قوم کو نوآبادیاتی ماضی کی تمام علامات سے پاک ایک ریاست قائم کرنے کا محض حق اور موقع ملا ہے۔ یہ دو عناصر اس حقیقت کا ادراک کرنے میں بھی ناکام رہے کہ یہ ایک ایسے نئے دور کا نقطۂ آغاز ہے جو ان کی طرف سے اعلیٰ فراست کے اظہار اور بے غرضانہ جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ ان کا طرز عمل ایسا تھا گویا ان کا اصل کام 14 اگست 1947 کو مکمل ہوگیا تھا اور اب وہ ملک اور قوم کے حوالے سے اپنی ہر ذمہ داری سے عہدہ برا ہوچکے ہیں اور ہر قسم کی اخلاقیات اور عزت نفس کو فراموش کرکے حصول اقتدار کے لیے دیوانہ وار کوششیں کرسکتے ہیں۔

ایسا طرز عمل ہمیشہ ابتری اور تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے، اور پاکستان کے معاملے میں بھی یہی کچھ ہوا۔ آزادی کے چند سال کے اندر اندر قوم کی امید، قومی جدوجہد میں اپنا حصہ ادا کرنے کی خواہش، تفاخر اور اعتماد معدوم ہوتے گئے اور ان کی جگہ مایوس کُن بے چینی، خدشات اور قومی معاملات سے لاتعلقی نے لے لی، جس کے باعث پاکستانی قوم کا جان ومال کے تحفظ، سیاسی استحکام، خواندگی اور معاشی ترقی کے حصول کا خواب آج تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا۔ ہمارے سیاسی اور فوجی حکم رانوں میں جوابدہی کا احساس اتنا کم رہا کہ وہ انتخابی حلقوں کی حد بندیاں اپنی مرضی کے مطابق کرتے اور ملکی وسائل کو ناجائز طریقے سے اپنے مفاد میں استعمال کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو بلاکسی الزام کے یا مقدمہ چلائے بغیر قید و نظر بند کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے اپنے ظالمانہ اقدامات اور منتقمانہ دہشت کا جواز قائم کرنے کے لیے اپنے مخالفین کے خلاف قتل کے مقدمات قائم کرنے سمیت مختلف سازشوں پر عمل کیا۔

سید سمیع احمد نے 2007 سے قبل کی اعلیٰ عدلیہ کے کردار پر اپنے تبصرے میں ان تمام فیصلوں کا بھی احاطہ کیا ہے جو قوم کے لیے مہلک ثابت ہوئے۔ انہوں نے مستند کتب سے قابل اعتماد مثالیں دے کر ثابت کیا ہے کہ مولوی تمیزالدین خان کیس میں اپیل کی سماعت سے قبل گورنر جنرل اور ان کے حلیفوں نے سپریم کورٹ میں اپنی مرضی کا بینچ تشکیل دیا۔ اس بینچ کا فیصلہ ایک عظیم الجثّہ تودہ ثابت ہوا جو ملک کے پورے جمہوری ڈھانچے کو اپنے ساتھ گھسیٹ لے گیا۔ اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا ہی میں بدقسمت قوم کو ایک انوکھی قسم کے عدالتی طرز عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ 'نظریہ ضرورت'، جسے سپریم کورٹ نے پہلی مرتبہ گورنر جنرل کے 1955 کے ریفرنس میں متعارف کرایا تھا، ایک مثال بن گیا اور بعد میں عدالت عظمی نے یوسف پٹیل کیس، دوسو کیس، نصرت بھٹو کیس اور ظفر علی شاہ کیس میں اسی نظریے کا اطلاق کیا۔

جسٹس منیر احمد، جو چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر سب سے طویل عرصے تک براجمان رہے اور جنہوں نے سب سے بڑی تعداد میں متنازعہ فیصلے دیے، نے کئی سال بعد 'ڈان' کو ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ انہوں نے مولوی تمیزالدین کیس کا فیصلہ سیاسی مصالح کی بنیاد پر دیا تھا۔ اسی طرح ان کے بعد آنے والے ایک چیف جسٹس نسیم حسن شاہ ایک ٹی وی میزبان کے روبرو تسلیم کرتے ہیں کہ 'جب تک فوجی حکومت قائم ہے کوئی جج غیرجانب دار نہیں ہوسکتا، کیوںکہ کوئی بھی جج سولی پر چڑھنا پسند نہیں کرتا۔

تاہم ہماری عدلیہ نے بہ تدریج اپنی حیثیت کو منوانا شروع کیا۔ اس عمل کا آغاز 1999 میں اس وقت ہوا جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت چھے ججوں نے پی سی او کے تحت نیا حلف لینے سے انکار کیا۔ جسٹس افتخار چوہدری نے جنرل پرویز مشرف سے وفاداری کا حلف تو لے لیا اور چیف جسٹس بھی بن گئے لیکن جلد ہی ان میں تبدیلیاں آنا شروع ہوگئیں۔ پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری سمیت مختلف معاملات میں ان کے فیصلوں نے حکومت کو بہت برانگیختہ کیا۔ تاہم ہماری عدالتی تاریخ میں کانٹے کا موڑ 9 مارچ 2007 کو آیا جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو آرمی ہاؤس بلا کر ان سے استعفیٰ طلب کیا گیا۔ استعفیٰ دینے سے ان کا انکار قوم کے لیے ایک رحمت ثابت ہوا اور اسی دن سے ہماری اعلیٰ عدلیہ حکومت کے ایک طاقتور ستون کے طور پر ابھرنا شروع ہوئی۔

سید سمیع احمد مولوی تمیزالدین خان کیس سے لے کر آج تک ہونے والے ان تمام واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ وہ تاریخی واقعات کو سند کے ساتھ بیان کرنے کے ماہر ہیں۔ امید ہے کہ ان کی یہ کتاب آزادی کے بعد کی پاکستانی تاریخ پر لکھی جانے والی کتابوں میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگی۔
Load Next Story