پاک افغان تعلقات میں استحکام ناگزیر

پاکستان اور افغانستان تاریخ ،ثقافت اور مذہب کے حوالے صدیوں پرانی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔


Editorial October 28, 2020
پاکستان اور افغانستان تاریخ ،ثقافت اور مذہب کے حوالے صدیوں پرانی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

بھارت،افغانستان کو پاکستان میں انتشاراورعدم استحکام پھیلانے کے لیے استعمال کرے گا۔ اس خدشے کا اظہار وزیر اعظم عمران خان نے پاک افغان تجارت و سرمایہ کاری فورم سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔

ہم اس بات سے کیسے انکارکرسکتے ہیں کہ خدشات وشبہات اسی وقت جنم لیتے ہیں، جب ماضی میں کوئی تلخ تجربہ ہوچکا ہو۔ ہم نے افغانستان کو بچاتے بچاتے خودکو تباہ کرلیا، جس کا ہمیں ملال بھی نہیں ہے، افغانستان کی طرف سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی آنا چاہیے، اس بات کی طرف وزیراعظم اشارہ کررہے ہیں،کیونکہ ماضی میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو بھی حکومت افغانستان میں بنی اس نے بھارت کی خوشنودی کی خاطر پاکستان پر تیر برسائے، ایسا محسوس ہوا کہ محبت کے بدلے ، اظہار ناپسندیدگی اور دشنام طرازی پاکستان کا مقدر ہے۔

ہمیں اس حقیقت کو مدنظررکھنا چاہیے کہ عالمی منظرنامہ بہت تیزی سے تبدیل ہورہا ہے، ہمیں اس منظرنامے میں اپنی جگہ قائم رکھنی ہے، دنیا کے ساتھ بھی چلنا ہے، مسائل کی دلدل سے بھی ملک کو نکالنا ہے اور ماضی کی تلخ یادوں کو بھول کر سنہرے مستقبل کے خوابوں کو بھی خوبصورت تعبیر دینی ہے، لہٰذا صائب فیصلے کرنے کی تمام تر ذمے داری پی ٹی آئی حکومت کے کندھوں پرآن پڑی ہے۔

یہ درست سہی کہ پاکستان اور افغانستان تاریخ ،ثقافت اور مذہب کے حوالے صدیوں پرانی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں اورایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں،لیکن اس کا کیا کیجیے کہ چاردہائیوں سے افغانستان میں جاری بدامنی کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑا ہے۔ افغانستان کا ساتھ نبھاتے نبھاتے ہم نے بھی بہت سے زخم کھائے ہیں،اٹھارہ برس کی طویل ترین جنگ جو دہشتگردی کے خلاف پاکستان لڑرہا ہے،اس میں وسیع پیمانے پرہمیں جو مالی وجانی نقصان اٹھانا پڑا ہے، اس کی تلافی بھی آسان نہیں ، لیکن اب ہمیں ماضی کو بھول کر مستقبل کی طرف دیکھنا ہے۔

امریکا اپنا بوریا بستر لپیٹ کر واپس جانا چاہتا ہے، باقی رہ جاتے ہیں ، افغانستان اور پاکستان۔ لہٰذا پاکستان کو تزویراتی گہرائی والے نظریے کو ترک کرکے زمینی حقائق کے تناظر میں فیصلہ کرنا ہے، ہم یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ افغانستان اپنے فیصلے خودکرتاہے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہمیں ماضی سے نکل کر تجارت،معیشت اور امن کی جانب جانا چاہیے، افغانستان سے تجارت کے فروغ کے لیے چیمبر آف کامرس سے تعلقات بڑھانے کوکہا گیا ہے، تجارت کے ذریعے خطے میں خوشحالی آئے گی۔

عمران خان کی سوچ حقائق کا درست تجزیہ پیش کررہی ہے، ہمیں آگے بڑھنا ہے تاکہ خطے میں امن وخوشحالی کے نئے دورکا آغاز ہو، لیکن ایک رکاوٹ بھارت کی صورت میں موجود ہے، خطے کے ہر ملک میں مداخلت اور سازشوں کی طویل تاریخ رکھنے والے بھارت سے افغانستان کی آنے والی قیادت کو محتاط رہنا ہوگا، کیونکہ افغانستان، پاکستان کی مدد اور امداد کے ذریعے اپنے پاؤں پرکھڑا ہوسکتا ہے۔

اس حقیقت سے بھی نظریں چرائی نہیں جاسکتی ہیں کہ خطے کا مستقبل امن، تعاون اور تجارت سے وابستہ ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی تجارت سے ہی خوشحالی آ سکتی ہے، افغانستان ہمارا قدرتی شراکت دار ہے۔افغانستان کی قیادت کو یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ امن کے لیے کوئی اور ملک اتنی کوشش نہیں کر رہا جتنا پاکستان کررہا ہے کیونکہ ہمارا مستقبل افغانستان اور وسط ایشیا کے ساتھ تجارتی فروغ سے وابستہ ہے۔ افغانستان میں امن نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے، پاکستان کی خواہش ہے کہ وہاں پرکاروباری سرگرمیاں بڑھیں اور لوگوں کو روزگار کے مواقعے ملیں۔

دراصل افغانستان ایک بڑا روٹ ہے جو وسطی ایشیائی ممالک کو ملاتا ہے، ہم توقع کرسکتے ہیں کہ پاکستان کو مستقبل میں افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیائی ممالک میں تجارت کے لیے ایک بڑی مارکیٹ دستیاب ہوگی۔ اس ضمن میں افغان ویزہ پالیسی میں تبدیلی بھی پاکستانی حکومت کا بڑا اقدام ہے، افغانیوں کو اب بارڈر پر ہی ویزے ملیں گے۔ یہاں پر یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں جو منفی رحجانات آتے ہیں ان کو مستقل بنیادوں پر ختم کیا جائے۔

وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے بھارت سے دوستی کی کوشش کی لیکن ناکام رہے، ہمیں احساس ہوا کہ بھارت نظریاتی طور پر پاکستان کے خلاف ہے، بھارت میں مودی حکومت اپنے ملک کے ہی مسلمانوں کے خلاف ہے، بھارت میں مسلمانوں سے جو سلوک ہو رہا ہے وہ کبھی نہیں ہوا۔

وزیراعظم عمران خان کے فکرانگیز خطاب کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ دو برادر اسلامی ملکوں کو اپنے اختلافات کو بھلا کر آگے بڑھنے کے لیے قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے۔ حرف آخر پاکستان اور افغانستان کی قیادت اگر تدبر، فہم وفراست اور مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے تو بھارت کبھی بھی دونوں ممالک کے درمیان بد اعتمادی پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں