اڑارہر اور غر
حرف ’’ڑ‘‘سب سے قدیم حروف یا آوازوں میں سے ہے جو سنسکرت میں بھی موجود نہیں ہے۔
اس سے پہلے جب ہم نے کوہ،کاس،قاز اور قاف کے موضوع پر بات کی تھی تو کہا تھا کہ اس پہاڑ بلکہ پہاڑی سلسلے کا ایک اور نام بھی ہے اور وہ نام ہے ار (ar)''کاس'' تو خاص پہاڑ اور اس کی ظاہری شکل و شباہت یا ماہیت پرمبنی نام تھا لیکن ''ار''بمعنی گھر،بستی جائے سکونت کے ہے اور اسی لفظ سے ''آریا''کا نام بھی مشتق ہے۔لیکن اس''ار''کی اصل شکل بھی ''اڑ''ہے اور یہاں شروع ہونے والی پہلی انسانی زبان کا لفظ ہے۔
اس لفظ ''اڑ''کے معنی جب ہم تلاش کرنے نکلتے ہیں تو یہ بھی ہمیں ''کاس''کی طرح پشتو میں اپنے اصل اور تمام تر مفہوم کے ساتھ مل جاتا ہے۔اردو میں بھی اس اڑنا، اڑانا،اڑی آڑا آر جسے الفاظ بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ پشتو میں خالص معنی اس کے ''رکنا''یا رکنے کا آخری مقام۔ چنانچہ آج کل بھی کسی چیز کو گرانے پھینکنے اور زمین پر پہنچانے کے لیے اڑ،اڑتاو،اڑتیدل اڑتول جسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں کوئی گرے تو کہاجاتا ہے ''اڑتاوشو'' اڑتاو ہو جاوگے، مہ اڑتوہ(مت گراو مت پھینکو) اڑتیدلے پھینکے ہوئے اور گرے ہوئے کے لیے بولا جاتا ہے اور سب کچھ گرتے گرتے زمین پر ہی گرتاہے یعنی پھینکنے کا گرنے کا آخری مقام۔اس لفظ کی تعویت ''اڑول'' سے بھی ہوتی ہے زمین جوتنے کو ''اڑول'' کہا جاتا ہے۔
یہاں یہ وضاحت ازحد ضروری ہے کہ حرف ''ڑ''سب سے قدیم حروف یا آوازوں میں سے ہے جو سنسکرت میں بھی موجود نہیں ہے سنسکرت میں اس حرف کی ادائیگی کے لیے اپناکوئی لفظ''الف با''میں نہیں ہے چنانچہ''ڑ''کے لیے ہمیشہ ''ڈ''کا حرف استعمال کیاجاتا ہے سنسکرت میں سڑک کو سڈک، گڑھے کو گڈھا، بوڑھے کو بوڈھا،لڑائی کو لٹائی،لڑنے کو لڑنا لکھا جاتا ہے۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ ''ڑ''بہت ہی قدیم زمانوں یا انسانی بچپن کا حرف ہے جس طرح بچے آج کل زیادہ تر''ڑا ڑا'' کرکے بولتے ہیں اور کافی دیر تک''ر''کی جگہ ''ڑ'' استعمال کرتے ہیں مطلب یہ کہ ''ڑ''ناپختہ ناممکن اور کچے کی نشانی ہے ''ڑ''کی جگہ ''ر'' کا استعمال بہت بعد میں شروع ہوا ہے موجودہ دور میں یہ قرب وجوار کے کسی بھی لسانی گروپ میں موجود نہیں ہے اس کی جگہ ''ر''یا کہیں کہیں (ل) استعمال ہوتاہے سامی زبانوں میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہندیورپی زبانوں میں بھی ''ڑ'' کسی بھی زبان میں نہیں صرف ہند میں بولی جانے والی زبانوں میں ''ڑ''ہوتی ہے کیونکہ یہ لفظ بنیادی طور پر قبل آریائی زبانوں کا ہے جن میں ہند کی جنوبی زبانیں تامل ملیالم کیرل اوڑی وغیرہ شامل ہیں ''اوڑی''کو بھی سنسکرت میں اوڈی اور اڑیسہ کو ہندی والے اوڈیسہ بولتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر صرف ''ڑ'' اصل میں کس زبان یا لسانی گروپ کا لفظ ہے تو بات یا تو ان ساوتھ کی زبانوں تک پہنچتی ہے اور یاپھر ''پشتو'' تک۔اردو پنجابی سندھی یا دوسری زبانوں میں بھی اب''ڑ''موجود ہے لیکن یہ زبانیں نسبتاً کم عمر ہے اور سنسکرت یاہندی کے راستے آیا ہے،اگر کوئی پتہ لگانا چاہتے تو ساوتھ کی قبل آریائی زبانوں میں ''ڑ'' کا استعمال ہواہے لیکن پھر بھی پشتو سے بہت زیادہ کم۔ پشتو میں ایسا جملہ کوشش سے بنایا جاسکتا ہے جس میں ''ڑ''نہ ہو تمام افعال میں ''ڑ''ہے اوڑے دے کڑے دے مڑے دے۔ راوڑہ واوڑہ۔ مڑے، مڑ، سڑے، واڑہ زاڑہ اوڑہ چاڑہ ماڑہ غواڑہ مہ غواڑہ لاڑو، راڑو،موڑ شوم،مڑ پڑ وڑ۔یہاں تک کہ کسی بھی زبان میں کوئی لفظ' 'ڑ'' سے شروع نہیں ہوتا اردو کی لغتوں میں جب''ڑ''کی باری آتی ہے تو لکھا جاتاہے کہ حروف تہجی کے اس پندرہویں حرف سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا۔
لیکن پشتو میں بے شمار الفاظ ''ڑ''سے شروع ہوجاتے ہیں ڑوند(اندھا) ڑاندہ(اندھے) ڑک (ہلنا) ڑش (کانپنا)ڑنگ(بگاڑنا) ڑت(پتلا شوربا وغیرہ) ڑتاوہ (ملغوبہ)پشتو اور جنوبی زبانوں کے علاوہ سب سے زیادہ''ڑ''سندھی زبان میں پائی جاتی ہے کیونکہ قدیم درواڑی دور سے سندھی کا تعلق بھی ہے یا سومیری دور بھی کہہ سکتے ہیں جب زبانوں کا بچپن تھا اور بچوں کی طرح نامکمل مخرج میں ''ڑ''بہت زیادہ ہوتی تھی۔
موئن جو داڑو کی مہریں ابھی تک اس لیے پڑھی نہ جاسکی ہیں کہ سکہ بند اور وائٹ سپرمیسی کے علمبردار لوگ ''وائٹ'' زبانوں میں اس کے راستے ڈھونڈتے ہیں جب کہ اس کی بنیادیں چھوٹی چھوٹی اور بلیک زبانوں میں ہوسکتی ہیں۔ اسی المیے کا شکار پشتو بھی ہوئی ہے دنیا اور قرب وجوار کی کسی بھی قوم یا حکومت کے ساتھ اس نے کچھ اچھا ''دل'' نہیں چھوڑا ہے۔اس لیے پشتو کا ذکر جب روایتی اور نصابی لسانیات میں آتاہے تواسے مغربی ہندیورپی کی ایک شاخ یا فارسی کا ایک لہجہ قرار دے کر چھوڑا جاتاہے اتنے بے شمار علماء میں صرف میجر راورٹی ایسا شخص ہے جس نے پشتو گرائمر پرلکھتے ہوئے کہاہے کہ پشتو اور پشتونوں کا تعلق نہ ایرانی گروپ سے ہے نہ ہندی سے۔ بلکہ یہ ایک الگ اور خود ایک گروپ ہے۔
خیربات اپنے اصل موضوع پرلاتے ہیں جوزمین کے لیے بولا جانے والا قدیم ترین لفظ ہے ''اڑ'' جہاں سب کچھ بھکرجاتا ہے ''اڑ'' جاتا ہے اور اس سے آگے اور کوئی''اڑ'' یا مقام نہیں ہے۔ بعد کے دوسرے دور میں جب ''اڑ'' کا ''ار'' بن گیا تو اس کا بھی پشتو میں کثرت ہے۔ ''ارت'' کا مطلب وسیع،پھیلا ہوا،بے کنار۔ مجازی معنی میں یہ ''طول''کا متضاد ہے۔اور اتفاق سے عربی ''عرض'' کا ہم معنی ہے۔
(جاری ہے)
اس لفظ ''اڑ''کے معنی جب ہم تلاش کرنے نکلتے ہیں تو یہ بھی ہمیں ''کاس''کی طرح پشتو میں اپنے اصل اور تمام تر مفہوم کے ساتھ مل جاتا ہے۔اردو میں بھی اس اڑنا، اڑانا،اڑی آڑا آر جسے الفاظ بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ پشتو میں خالص معنی اس کے ''رکنا''یا رکنے کا آخری مقام۔ چنانچہ آج کل بھی کسی چیز کو گرانے پھینکنے اور زمین پر پہنچانے کے لیے اڑ،اڑتاو،اڑتیدل اڑتول جسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں کوئی گرے تو کہاجاتا ہے ''اڑتاوشو'' اڑتاو ہو جاوگے، مہ اڑتوہ(مت گراو مت پھینکو) اڑتیدلے پھینکے ہوئے اور گرے ہوئے کے لیے بولا جاتا ہے اور سب کچھ گرتے گرتے زمین پر ہی گرتاہے یعنی پھینکنے کا گرنے کا آخری مقام۔اس لفظ کی تعویت ''اڑول'' سے بھی ہوتی ہے زمین جوتنے کو ''اڑول'' کہا جاتا ہے۔
یہاں یہ وضاحت ازحد ضروری ہے کہ حرف ''ڑ''سب سے قدیم حروف یا آوازوں میں سے ہے جو سنسکرت میں بھی موجود نہیں ہے سنسکرت میں اس حرف کی ادائیگی کے لیے اپناکوئی لفظ''الف با''میں نہیں ہے چنانچہ''ڑ''کے لیے ہمیشہ ''ڈ''کا حرف استعمال کیاجاتا ہے سنسکرت میں سڑک کو سڈک، گڑھے کو گڈھا، بوڑھے کو بوڈھا،لڑائی کو لٹائی،لڑنے کو لڑنا لکھا جاتا ہے۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ ''ڑ''بہت ہی قدیم زمانوں یا انسانی بچپن کا حرف ہے جس طرح بچے آج کل زیادہ تر''ڑا ڑا'' کرکے بولتے ہیں اور کافی دیر تک''ر''کی جگہ ''ڑ'' استعمال کرتے ہیں مطلب یہ کہ ''ڑ''ناپختہ ناممکن اور کچے کی نشانی ہے ''ڑ''کی جگہ ''ر'' کا استعمال بہت بعد میں شروع ہوا ہے موجودہ دور میں یہ قرب وجوار کے کسی بھی لسانی گروپ میں موجود نہیں ہے اس کی جگہ ''ر''یا کہیں کہیں (ل) استعمال ہوتاہے سامی زبانوں میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہندیورپی زبانوں میں بھی ''ڑ'' کسی بھی زبان میں نہیں صرف ہند میں بولی جانے والی زبانوں میں ''ڑ''ہوتی ہے کیونکہ یہ لفظ بنیادی طور پر قبل آریائی زبانوں کا ہے جن میں ہند کی جنوبی زبانیں تامل ملیالم کیرل اوڑی وغیرہ شامل ہیں ''اوڑی''کو بھی سنسکرت میں اوڈی اور اڑیسہ کو ہندی والے اوڈیسہ بولتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر صرف ''ڑ'' اصل میں کس زبان یا لسانی گروپ کا لفظ ہے تو بات یا تو ان ساوتھ کی زبانوں تک پہنچتی ہے اور یاپھر ''پشتو'' تک۔اردو پنجابی سندھی یا دوسری زبانوں میں بھی اب''ڑ''موجود ہے لیکن یہ زبانیں نسبتاً کم عمر ہے اور سنسکرت یاہندی کے راستے آیا ہے،اگر کوئی پتہ لگانا چاہتے تو ساوتھ کی قبل آریائی زبانوں میں ''ڑ'' کا استعمال ہواہے لیکن پھر بھی پشتو سے بہت زیادہ کم۔ پشتو میں ایسا جملہ کوشش سے بنایا جاسکتا ہے جس میں ''ڑ''نہ ہو تمام افعال میں ''ڑ''ہے اوڑے دے کڑے دے مڑے دے۔ راوڑہ واوڑہ۔ مڑے، مڑ، سڑے، واڑہ زاڑہ اوڑہ چاڑہ ماڑہ غواڑہ مہ غواڑہ لاڑو، راڑو،موڑ شوم،مڑ پڑ وڑ۔یہاں تک کہ کسی بھی زبان میں کوئی لفظ' 'ڑ'' سے شروع نہیں ہوتا اردو کی لغتوں میں جب''ڑ''کی باری آتی ہے تو لکھا جاتاہے کہ حروف تہجی کے اس پندرہویں حرف سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا۔
لیکن پشتو میں بے شمار الفاظ ''ڑ''سے شروع ہوجاتے ہیں ڑوند(اندھا) ڑاندہ(اندھے) ڑک (ہلنا) ڑش (کانپنا)ڑنگ(بگاڑنا) ڑت(پتلا شوربا وغیرہ) ڑتاوہ (ملغوبہ)پشتو اور جنوبی زبانوں کے علاوہ سب سے زیادہ''ڑ''سندھی زبان میں پائی جاتی ہے کیونکہ قدیم درواڑی دور سے سندھی کا تعلق بھی ہے یا سومیری دور بھی کہہ سکتے ہیں جب زبانوں کا بچپن تھا اور بچوں کی طرح نامکمل مخرج میں ''ڑ''بہت زیادہ ہوتی تھی۔
موئن جو داڑو کی مہریں ابھی تک اس لیے پڑھی نہ جاسکی ہیں کہ سکہ بند اور وائٹ سپرمیسی کے علمبردار لوگ ''وائٹ'' زبانوں میں اس کے راستے ڈھونڈتے ہیں جب کہ اس کی بنیادیں چھوٹی چھوٹی اور بلیک زبانوں میں ہوسکتی ہیں۔ اسی المیے کا شکار پشتو بھی ہوئی ہے دنیا اور قرب وجوار کی کسی بھی قوم یا حکومت کے ساتھ اس نے کچھ اچھا ''دل'' نہیں چھوڑا ہے۔اس لیے پشتو کا ذکر جب روایتی اور نصابی لسانیات میں آتاہے تواسے مغربی ہندیورپی کی ایک شاخ یا فارسی کا ایک لہجہ قرار دے کر چھوڑا جاتاہے اتنے بے شمار علماء میں صرف میجر راورٹی ایسا شخص ہے جس نے پشتو گرائمر پرلکھتے ہوئے کہاہے کہ پشتو اور پشتونوں کا تعلق نہ ایرانی گروپ سے ہے نہ ہندی سے۔ بلکہ یہ ایک الگ اور خود ایک گروپ ہے۔
خیربات اپنے اصل موضوع پرلاتے ہیں جوزمین کے لیے بولا جانے والا قدیم ترین لفظ ہے ''اڑ'' جہاں سب کچھ بھکرجاتا ہے ''اڑ'' جاتا ہے اور اس سے آگے اور کوئی''اڑ'' یا مقام نہیں ہے۔ بعد کے دوسرے دور میں جب ''اڑ'' کا ''ار'' بن گیا تو اس کا بھی پشتو میں کثرت ہے۔ ''ارت'' کا مطلب وسیع،پھیلا ہوا،بے کنار۔ مجازی معنی میں یہ ''طول''کا متضاد ہے۔اور اتفاق سے عربی ''عرض'' کا ہم معنی ہے۔
(جاری ہے)