مصر فوجی حکمرانوں کی ڈولتی نیا کوسہاروں کی تلاش

اخوان المسلمون پر جس عجلت میں پابندیاں عائد کی گئیں اس کے منفی اثرات اسی تیزی کے ساتھ رو نما ہونا شروع ہوگئے ہیں۔


عبدالقیوم فہمید December 22, 2013
اخوان المسلمون کو دیوار سے لگانے کی پالیسی مہنگی پڑگئی۔ فوٹو: فائل

مصرمیں 3جولائی2013ء کو فوج کے ہاتھوں منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت معزولی کو پانچ ماہ ہوچکے ہیں، لیکن ملکی حالات فوجی سرکار کی گرفت سے نکلتے جا رہے ہیں۔

معیشت بدترین تباہی سے دوچار ہے، ہنگامی حالت کے نفاذ کے باعث ذرائع آمدن کا سب سے بڑ ا شعبہ سیاحت، تجارت اور غیرملکی سرمایہ کاری ختم ہو کر رہ گئے ہیں۔ رہی سہی کسر فوج مخالف اورمرسی حامی قوتوں کے مظاہروں نے نکال دی ہے۔

فوج کی چھتری تلے قائم عبوری حکومت نے ایک متنازعہ آئین بھی مرتب کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس آئین کو صرف فوج نواز قوتوں کے سوا کسی نمائندہ قومی طبقے کی حمایت حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ مذہبی حلقوں میں سلفی مسلک کے حامیوں نے اس ''متنازعہ'' آئین پرمہرتصدیق ثبت کی ہے کیونکہ سلفیوں کو اخوان المسلمون کی اعتدال پسند حکومت سے فوج کی آمریت زیادہ ''راس '' آتی ہے۔ سلفیوں کے98 فی صد شیوخ نے نئے آئین کی حمایت کی ہے، مگر ملک کی سب سے بڑی علمی درسگاہ جامعہ الازھر دو حصوں میں بٹ چکی ہے۔ گوکہ اعلانیہ طورپر جامعہ الازھرمیں فوج مخالف عناصرنے اس آئین کی مخالفت نہیں کی ہے مگرممتاز عالم دین علامہ یوسف القرضاوی کے جامعہ کی علماء کونسل کی رکنیت سے استعفے کے بعد ادارے میں پھوٹ کھل کرسامنے آنے لگی ہے۔

معاصر جریدہ ''الیوم لسابع'' نے اپنے اداریے میں نئے آئین پرشبہات کا اظہار کیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ''فوج کی منشاء کے مطابق بنائے گئے نئے آئین کا انجام بھی مرسی دور میں مرتب کردہ دستور سے مختلف نہیں ہوگا''۔ جس طرح اخوان المسلمون کے دور میں بنایا گیا عبوری آئین چندماہ بھی نہ چل سکا اسی طرح فوجی آمریت کی چھتری تلے وضع کردہ دستور کا مستقبل بھی محفوظ نہیں ہوگا۔

مصرکے موجودہ عبوری ڈھانچے نے ملک کی سب سے بڑی اور منظم جماعت اخوان المسلمون پر جس عجلت میں پابندیاں عائد کی ہیں، اس کے منفی اثرات اسی تیزی کے ساتھ رو نما ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اخوانی رہ نماؤں اور کارکنوں کے لیے جیلیں کاٹنا اور پابندیوں کا سامنا کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کی تربیت ہی ایک ایسے ماحول میں ہوئی ہے کہ وہ ان کی کم ہی پرواہ کریں گے۔ اخوا ن کی صف اول اور دوم کی قیادت قید یا نظربند کی جاچکی ہے مگر اس کے باوجود متحرک کارکنوں نے ایمرجنسی قوانین اور احتجاجی مظاہروں پرپابندی کے عبوری قوانین کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔ مصری حکومت اور فوج کے مقرب خیال کیے جانے والے اخبار''الاھرام'' نے بجا طور پراعتراف کیا ہے کہ فوج اپنی طاقت کے استعمال کے باوجود مرسی کے حامیوں کی ''روح احتجاج'' کو کچلنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس امرسے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ مرسی کے حامی سڑکوں پر نکلتے تھے اور اب کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ قاہرہ ، اسماعیلیہ، اسکندریہ، بنی سویف، شرم الشیخ اور دوسرے بڑے شہروں میں حکومت کے خلاف ریلیاں نہ نکالی جاتی ہوں۔

 photo Generalsisi_zps7cf0c800.jpg

احتجاج صرف سیاسی کارکنوں کے مظاہروں تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ ملک کی بڑی جامعات بالخصوص جامعہ الازھر، جامعہ عین الشمس او ر جامعہ المنصورہ سمیت بڑے کالجز کے گراؤنڈ طلباء و طالبات اور پولیس کے مابین میدان جنگ بن چکے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت مخالف مظاہروں میں کم سے کم 1500ء طلباء طالبات کو حراست میں لیا گیا، تاہم ان میں سے اکثریت کو رہا کردیا گیا ۔ مگر گرفتاریوں اور رہائی کا سلسلہ روز مرہ کی بنیاد پر جاری ہے۔ جامعہ الازھر کے سربراہ ڈاکٹر احمد الطیب اور دیگر فوج نواز عہدیداروں نے جامعہ کے ایک ہزارطلباء کی فہرست مرتب کی تھی جنہیں مرسی کی حمایت میں ریلیوں میں شرکت کی پاداش میں یونیورسٹی کالجوں سے نکالنے کی سفارش کی گئی تھی تاہم اندرونی دباؤ کے باعث اس تجویز پرعمل درآمد نہیں کیا جاسکا ہے۔ البتہ اصلاح کی آڑمیں سیکڑوں طلبہ کو تادیبی کونسلوں کے حوالے کیا گیا ہے۔

مصرمیںحکومت مخالف احتجاجی تحریک میں پولیس خو د بھی کود پڑی ہے۔ گوکہ پولیس معزول صدر محمد مرسی کی بحالی کا مطالبہ تو نہیں کر رہی ہے مگر ملک کی ابتر معاشی صورت حال نے پولیس اہلکاروںکو بھی احتجاج پر مجبور کردیا ہے۔ مصری ذرائع ابلاغ نے پولیس اور طلباء کے احتجاجی مظاہروں کو نتائج کے اعتبار سے نہایت خطرناک قرار دیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ پولیس حکام سول مظاہرین کے معاملے میں معمولی نرمی کا مظاہرہ کریں تواخوان المسلمون اور معزول صد رمرسی کے حامی عبوری صدر منصور العدلی کی حکومت کا تختہ الٹ سکتے ہیں۔ معزول صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے حامیوں ، جامعات کے طلباء، اساتذہ، پولیس حتی کہ عدالتوں کے ججوں کی جانب سے فوجی حکومت کے خلاف غم وغصے کی لہر میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ مصر کی ایک عدالت کے قائم کردہ کئی ججوں پر مشتمل بنچ نے اخوانی قیادت کے مقدمات کی ''ضمیر کی آواز'' پر سماعت سے انکار فوج اور عبوری حکومت کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ معاشی ابتری اور بدامنی نے فوجی حکومت کو چاروں شانے چت کردیا ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق صدر منصور العدلی اور ان کی موجودہ کابینہ اس وقت تک ملک کو سنبھالا دینے میں ناکامی کا سامنا کرسکتے ہیں جب تک وہ احتجاج کرنے والوں کو کسی نہ کسی طرح رام نہیں کرلیتے۔ لیکن عدالتوں کی جانب سے فوج نوازی پر مبنی رویہ سرد پڑنے کے بعد عبوری حکمرانوں کے لیے مشکلات اور بھی بڑھ گئی ہیں۔

 photo Egypt_zpsdd06788e.jpg

اخبار''مصر الیوم'' نے ملکی حالات کی موجودہ حالات پر باریک بینی سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فوج کی نگرانی میں کام کرنے والی موجودہ عبوری حکومت کو بحران سے نکلنے کے لیے مغرب، امریکا، اسرائیل ، اردن اور سعودی عرب جیسے اتحادیوں کی ہنگامی مدد درکار ہے۔ عبوری حکومت پس چلمن فوجی حکومت کی حامی قوتوں سے رابطے قائم کیے ہوئے ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے قاہرہ کا کوئی خاص مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا ہے، کیونکہ یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین آشٹن نے بحران کے آغاز کے بعد متعدد مرتبہ اخوان اور فوج کے درمیان مفاہمت کی بھرپور کوششیں کیں مگر فوجی حکومت نے ان کی مفاہمتی مساعی کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی ہے۔ اب جب فوجی حکومت کو یورپی یونین کی مدد کی ضرورت پڑی ہے تو ان کی جانب سے سرد مہری کا مٖظاہرہ کیا جا رہا ہے''۔

ایک دوسری رپورٹ کے مطابق مصرمیں مرسی حکومت کی برطرفی کے بعد یورپ کی کوئی قد آور شخصیت مصر کے دورے پر نہیں آسکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یورپ اور قاہرہ کے درمیان پائے جانے والے اختلافات ہیں۔ جب تک فوجی حکومت یورپی ممالک کے تحفظات دور نہیں کرے گی، اس وقت تک قاہرہ کے ساتھ کسی قسم کا تعاون ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مصر کی عبوری حکومت نے بعض مسلمان بہی خواہوں کی بھی ناراضگی مول لی ہے، جس کے نتیجے میں قاہرہ کو مسلم دنیا میں بھی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مصری حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ ترکی، ایران اور قطر جیسے ممالک کے ساتھ بھی اپنے تعلقات مستحکم کرتی مگر بدقسمتی سے عبوری حکومت نے ان تینوں ملکوں کے ساتھ مخاصمت کی راہ اپنائی۔ خاص طورپر ترکی اور قطر کے ساتھ جو رویہ اپنایا گیا و ہ کسی طور پر بھی جمہوری قرار نہیں دیاجاسکتا۔ قاہرہ سرکار کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا کہ دوحہ اور انقرہ اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہونے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کو پناہ دے رہے ہیں۔ عبوری حکومت کے نزدیک دہشت گردوں سے مراد اخوان المسلمون کی قیادت ہے۔ یہ اس حد تک درست ہے کہ اخوان المسلمون نے ترکی سے''رابعہ'' کے نام سے ایک ٹیلی ویژن چینل لانچ کیا ہے اوراسی نام سے قطر سے ایک اخبار کے اجراء کے لیے بھی کوششیں شروع کردی ہیں۔

 photo Egypt1_zps194ffd55.jpg

گوکہ مصر میں دکھانے کو یک عدد عبوری صدر بھی ہیں مگر ملک کی اصل سپرپاور فوج اور جنرل عبدالفتاح السیسی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر قاہرہ کے اندرونی معاملات سے متعلق کوئی بھی بات چیت یا دباؤ براہ راست فوج پر پڑ رہا ہے۔ ملک میں ایک متنازعہ آئین مرتب کرنے اور معزول صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے حامیوں کو طاقت کے زور پرکچلنے کی پالیسی پر فوج کو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگرچہ امریکا نے جنرل سیسی کی حمایت کا فیصلہ کر لیا ہے، یورپی یونین تاحال فوجی اقدام کی سخت ناقد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین کی کوئی قدآور شخصیت قاہرہ کے دورے سے گریزاں ہے۔ خلیجی ممالک میں بھی مصر کی فوجی حکومت کے حوالے سے دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ سعودی عرب نے فوری طورپر مصرکو عبوری امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم ابھی تک بیرونی امداد کا کوئی قابل ذکر حصہ نہیں مل پایا ہے جس کے باعث ملکی معیشت مزید تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔

قطری ٹی وی الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق بیرونی دباؤ کے باعث فوجی سرکار اخوان المسلمون کے ساتھ کسی مفاہمتی فریم ورک پر غور بھی کر رہی ہے، تاہم فوج میں ایسے عناصرموجود ہیں جو مفاہمت سے گریز کی پالیسی پرسختی سے عمل پیرا ہیں۔ انہی میں فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی بھی شامل ہیں۔ مفاہمت سے گریز کے حامیوں کا خیال ہے کہ اخوان بارے نرمی کا مظاہرہ فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا۔ اس باب میں مثبت سوچ رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون کی قیادت سے ہاتھ ملانے یا کم سے کم نرمی کا مظاہرہ کرنے سے ملکی معیشت کو سنبھالا دینے اور عالمی برادری کا اعتماد حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔

اخبار''مصر ٹوڈے'' نے بھی ملک کے مستقبل پر تشویش بھرے انداز میں تبصرہ کیا ہے ۔ اخبار لکھتا ہے کہ ''فوج اور سیاست دانوں بالخصوص اعتدال پسند مذہبی جماعتوںکے ساتھ مفاہمت ناگزیر ہے۔ اگرایسا نہ کیا گیا تو مصرکا مستقبل تاریک ہو سکتا ہے''۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ اخوان المسلمون کے ایک سالہ دورحکومت میں بہت سی غلطیاں ہوئیں جن کے نتیجے میں فوج کو اقتدار پر قبضے کا موقع ملا۔ اب وہی غلطیاں فوج بھی دہرائے جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں ملک معاشی اور سیاسی طورپر تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے۔

 photo Egypt2_zpsa715d10d.jpg

اسرائیل اور امریکا آخری امید!

مصر میں فوج کے ہاتھوں اسلام پسند صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی برطرفی سے اگرکسی ملک کو سب سے زیادہ مسرت پہنچی تو وہ اسرائیل ہے۔ العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق اخوان المسلمون کی حکومت گرانے میں جن بیرونی عناصرنے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا ان میں اسرائیل سر فہرست ہے۔ اسرائیلی میڈیا اور سفارت کاروں نے مکمل ایک سال تک اخوان حکومت اور صدر مرسی کے خلاف عالمی سطح پر منظم انداز میں اشتعال انگیز مہم چلائے رکھی۔ اسرائیلی سیاست دان اور دانشور بھی اس امر کی تصدیق کرچکے ہیں کہ تل ابیب نے قاہرہ میں فوجی حکومت کے ''ٹیک اوور'' میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق مصر کی عبوری حکومت کے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور صدر شمعون پیریز کے ساتھ خفیہ رابطے ہوئے ہیں۔ یہ خفیہ رابطے صرف سیاسی حلقوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ عسکری قیادت میں بھی قربتیں بڑھی ہیں۔ پیش آئند عرصے میں امکان ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم یا وزیرخارجہ مصر کا دورہ کریں گے۔ اسرائیلی کابینہ کا سیکرٹریز کی سطح کا ایک وفد حال ہی میں قاہرہ کا دورہ کر چکا ہے۔ اس دورے میں دونوں ملکوں کے مابین تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق مصری حکومت اسرائیل کو موجودہ بحران کے حل میں ایک مخلص دوست کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ اخوان المسلمون کو دیوار سے لگانے کے بعد اسرائیل کے لیے مصر میں اپنے مفادات کے حصول کی راہ بھی ہموار ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر مرسی کے دور صدارت میں خدشہ تھا کہ اسرائیل کے ساتھ طے پایا''کیمپ ڈیوڈ '' سمجھوتہ ختم ہو جائے گا، تاہم ایسا نہیں ہوسکا۔ اب موجودہ فوجی حکومت کے ہوتے ہوئے تل ابیب کو کوئی پریشانی نہیں رہی ہے۔ اسرائیل کو یہ پریشانی ضرور کھائے جا رہی ہے کہ اگر مصری فوج اور اخوان کے درمیان مفاہمت ہوئی تو صیہونی ریاست کے مفادات پر ایک مرتبہ پھر ضرب لگ سکتی ہے۔ تل ابیب مصری عبوری حکومت یا فوج کی اخوان المسلمون کے ساتھ مفاہمت کی راہ میں ہرممکن رکاوٹ کھڑی کرے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔