بھارتی عام آدمی سب کے لیے خاص بن گیا
اروند ان 5 بھارتی سیاست دانوں میں شامل ہیں جو سوشل میڈیا فیس بک اور ٹوئٹر پر سب سے زیادہ موضوع بحث رہتے ہیں۔
KUALA LUMPUR:
میں آدمی ہوں عام سا
اک قصہ ناتمام سا
نہ لہجہ بے مثال ہے
نہ بات میں کمال ہے
ہوں دیکھنے میں عام سا
اداسیوں کی شام سا
نہ مہ رُخوں سے ربط ہے
نہ شہرتوں کا خبط ہے
میں پیکر اخلاص ہوں
وفا، دعا اور آس ہوں
میں شخص خود شناس ہوں
اب تم ہی فیصلہ کرو
میں آدمی ہوں عام سا
یا پھر بہت ہی خاص ہوں!!
شاعر نے تو یہ بات کہہ کر یہ سوال چھوڑ دیا تھا کہ اب لوگ فیصلہ کر لیں کہ میں عام آدمی ہوں یا خاص؟ لیکن بھارتی ریاستی انتخابات کے حالیہ معرکے میں بھارتی سیاست دانوں اور عوام کو اِس سوال کا جواب ''عام آدمی پارٹی'' (AAM AADMI PARTY) کی زبردست کام یابی سے مل ہی گیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں اور مبصرین نے الیکشن سے قبل ''عام آدمی پارٹی'' کو سیاسی بساط کا ایک اور اہم مہرہ قرار دیا تھا، لیکن شاید انھیں بھی ایسی توقع نہیں تھی کہ یہ ''عام آدمی'' بھارتی سیاست کے ہر ''خاص'' لیڈر کے لیے بہت بڑا چیلینج بن جائے گا۔ زیرنظر مضمون میں ہم ''عام آدمی پارٹی'' اور اس کے روحِ رواں اروند کیجری وال (Arvind Kejriwal) کے بارے میں کچھ معلومات پیش کررہے ہیں، تاکہ قارئین کو اندازہ ہو جائے کہ بھارتی سیاست میں تہلکہ مچا دینے والوں کی یہ فتح محض اتفاق نہیں بلکہ اس کے پیچھے شب و روز کی محنت اور سیاسی ریاضت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
''عام آدمی پارٹی'' کے سربراہ اروند کیجری وال 16 اگست 1968 کو ہریانہ میں پیدا ہوئے، میکنیکل انجینئرنگ میں ڈگری اور پھر سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ ''عام آدمی'' کے حقوق کے تحفظ اور اس کی فلاح و بہبود کے جذبے نے انھیں سیاسی میدان میں بھی کافی متحرک رکھا اور وہ مختلف طریقوں سے عوام کی بھلائی کے لیے کوششیں کرتے رہے۔اروند نے بھارتی انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے ہوئے ہر ممکن کوشش کی کہ ''عام آدمی'' ہر حال میں خوش رہے۔ ان کے والد گوبندرام کیجری وال اور والدہ گیتا دیوی کی اچھی تعلیم و تربیت ہی کا نتیجہ ہے کہ اروند اور ان کے چھوٹے بہن اور بھائی کے کردار و عمل میں بھی روشن خیالی اور عوام کا درد نمایاں ہے۔
اروند کا بچپن اور لڑکپن شمالی بھارت کے علاقوں سونی پت، غازی آباد اور حصار میں گزرا۔ کیجری وال کی اہلیہ سیتا دیوی اور 2 بچے (ایک بیٹا اور ایک بیٹی) بھی ان کی انتخابی کام یابی پر خوش رہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم بھی اروند کی ہی طرح لوگوں کے کام آتے رہیں۔ دسمبر 1999 میں سرکاری ملازمت کے دوران ہی اروند کیجری وال نے مختلف معاملات میں عوام کو آگاہی فراہم کرنے اور انکم ٹیکس، بجلی اور راشن کے معاملات میں موجود بدعنوانیوں کے راز فاش کرنے کے لیے ''پری ورتن'' کے نام سے تحریک شروع کی جس کا مطلب ہی تبدیلی ہے۔ اس کے علاوہ اطلاعات تک رسائی کے قانون کو عوام تک پہنچانے کے لیے بھی اروند نے بے حد کوششیں کیں اور انا ہزارے کے ساتھ مل کر ''جن لوک پال بل'' متعارف کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔2012 میں اروند کیجری وال نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر ''عام آدمی پارٹی'' کی بنیاد رکھی جس کا باقاعدہ افتتاح 26 نومبر 2012 کو ہوا۔ اروند ان 5 بھارتی سیاست دانوں میں شامل ہیں جو سوشل میڈیا فیس بک اور ٹوئٹر پر سب سے زیادہ موضوع بحث رہتے ہیں۔ اروند کی خوش قسمتی ہے کہ سوشل میڈیا پر انھیں موضوع بحث بنانے والے انھیں مثبت خیالات اور اچھی آرا سے مخاطب کرتے ہیں۔
سرکاری اور سیاسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اروند نے ''سواراج'' Swaraj کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔ انھیں زندگی کے مختلف ادوار میں بہت سے ایوارڈ اور اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
2004 میں اشوکا فیلو (Ashoka Fellow) ایوارڈ انھیں ملا، حکومتی امور میں شفافیت لانے کے لیے 2005 میں اروند کو ''ستیندرا کے ڈوبے میموریل ایوارڈ'' سے نوازا گیا۔ پُرعزم اور متاثرکن قیادت کے اعتراف میں 2006 میں ''ریمون میگ سے سے'' Ramon Magsay say ایوارڈ انھیں دیا گیا، اسی سال عوامی خدمات کے عوض ''انڈین آف دی ایئر'' ان کے حصے میں آیا۔ 2009 میں کھرگ پور انسٹی ٹیوٹ میں انھیں ایک اور ایوارڈ دیا گیا، 2010 میں اکنامک ٹائمز ایوارڈ انھیں ملا جب کہ 2011 میں انا ہزارے کے ساتھ انھیں انڈین آف دی ایئر کا اعزاز ملا۔
ریاستی انتخابات سے پہلے مختلف انٹرویوز دیتے ہوئے اروند ''عام آدمی'' پارٹی کی کام یابی کے حوالے سے بہت پُرعزم تھے۔ ان کا کہنا تھا،''ہم جیتنے جارہے ہیں، بہت سے سروے اور رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ عام آدمی پارٹی کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہو رہی ہے اور الیکشن کے روز ووٹر یقینی طور پر ہمارے حق میں فیصلہ کریں گے۔'' اروند نے کہا تھا کہ دہلی کے تقریباً 47 فی صد ووٹر ہمارے ساتھ ہیں جو ''عام آدمی'' کو ایک موقع ضرور دینا چاہتے ہیں جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حق میں 29 فی صد اور کانگریس کے ساتھ 25 فی صد ووٹر ہیں۔ اروند کا دعویٰ انتخابی نتائج کے حوالے سے بالکل صحیح ثابت ہوا، کیوںکہ ووٹروں نے حکم راں کانگریس کی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے ''عام آدمی پارٹی'' کی ووٹوں کے ذریعے بھرپور پذیرائی کی۔ نئی دہلی میں کانگریس کی وزیراعلیٰ شیلا ڈکشت کا 15 سالہ راج ''عام آدمی'' نے ختم کر دیا۔ شیلا ڈکشت اور کانگریس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ان کی حکومت ختم بھی ہوسکتی ہے۔ایک موقع پر اروند نے کہا تھا کہ ہمارے حریفوں کو سوچنا چاہیے کہ آخر کوئی تو وجہ ہے کہ لوگ ہمارے ساتھ آرہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ سچائی ہے، بے شک ہمارے پاس دوسرے لوگوں کی طرح دولت یالائولشکر نہیں لیکن یہ چیزیں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں، اصل چیز عوام کا اعتماد اور اُن کی محبت ہے۔ ہم نے سچ کے ساتھ ہی انا ہزارے کی تحریک میں کام یابی حاصل کی تھی اور سچائی کے ذریعے ہی ہم نے اُس تحریک کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں کا مقابلہ کیا اور اب الیکشن میں بھی عوام ہمارے ساتھ ہیں۔
جب اروند سے پوچھا گیا کہ سیاسی تجزیہ کار اور مبصرین آپ کو اور ''عام آدمی پارٹی'' کو کنگ میکر قرار دے رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ہماری مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہے اور کانگریس اور بی جے پی کی مقبولیت کا گراف نیچے آرہا ہے۔ یہی چیز ووٹنگ میں بھی نظر آئے گی۔ ہمیں کنگ میکر اس لیے کہا جارہا ہے کہ اگر معلق پارلیمنٹ (Hung Parliment) وجود میں آئی تو ہم بی جے پی کا ساتھ دیں گے نہ کانگریس کا، اور یہ دونوں جماعتیں آپس میں بھی ہاتھ نہیں ملائیں گی، اگر حکومت بنانے کے لیے کسی جماعت کو واضح اکثریت نہ ملی تو دوبارہ الیکشن ہوں گے اور ان میں ہم اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئیں گے۔
عام آدمی پارٹی کے روح رواں اروند کیجری وال کے مطابق بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ بار بار انتخابات وقت اور پیسے کا ضیاع ہے اور اتنی بھاری مشق بار بار کرنا آسان نہیں، لیکن اگر آپ کو غیرجانب دار اور شفاف حکومت بنانی ہے تو کچھ پیسوں کا نقصان اہمیت نہیں رکھتا۔ اگر آپ بی جے پی اور کانگریس کے شاہانہ طور طریقے دیکھیں تو دوبارہ الیکشن کے انعقاد پر خرچ ہونے والی رقم ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہوگی۔جب اروند کیجری وال سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ عام آدمی پارٹی بھاری اور واضح اکثریت حاصل کرسکتی ہے؟ تو ان کا جواب تھا کہ اس کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے ہمیں نہیں۔ عوام کو سوچنا ہوگا کہ ''عام آدمی'' کو ووٹ نہیں ملے تو پھر دوبارہ طویل عرصے تک انھیں ان ہی حکم رانوں کو برداشت کرنا ہوگا جنھوں نے عام آدمی کے لیے کچھ نہیں کیا اور صرف خود نام نہاد عوامی نمائندے بنے رہے۔ ہم تو صرف اپنا فرض ادا کررہے ہیں، مجھے الیکشن کے نتائج کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور واقعی ایسا ہی ہوا، اروند کو الیکشن کے حوالے سے پریشان ہونا ہی نہیں پڑا اور عوام نے خود فیصلہ کردیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
اروند کا کہنا ہے کہ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی دولت اور طاقت کے مقابلے میں جذبہ اور جنون آتا ہے تو جیت ہمیشہ جذبے اور جنون کو ملتی ہے۔ انا ہزارے کی تحریک جب ہم نے شروع کی تھی تو اس وقت ہمارے پاس صرف 80 ہزار روپے تھے، لیکن چند دن کے اندر ہمارے اکائونٹ میں ایک کروڑ سے زاید روپے آگئے اور ملک بھر سے لوگوں نے ہمارے ساتھ اظہار یک جہتی کیا۔ پھر انتخابی معرکے سے قبل بھی بہت سے لوگ اپنی ملازمتیں چھوڑ کر ہماری پارٹی کے ساتھ آگئے، انھوں نے اپنی تن خواہوں اور دیگر سہولتوں کی قربانی ملک میں بڑی تبدیلی کے لیے دی اور وہ تبدیلی ضرور آئے گی۔
اروند کی ایک اور بات ان کے کھرے پن کی روشن مثال ہے، وہ کہتے ہیں،''پیسے کی اہمیت معمولی ہے، لیکن اسے بہت زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے بہت سے لوگوں کو سچ کی طاقت کا صحیح اندازہ ہی نہیں ہے، اگر انھیں حق اور سچ کی اہمیت کا پتا چل جائے تو وہ دولت کے پیچھے بھاگنا چھوڑدیں گے۔''
اروند کہتے ہیں کہ ہمارا مقابلہ جن پارٹیوں سے ہے ان کے پاس بہت دولت ہے لیکن ہمارے ساتھ عام آدمی کی حمایت ہے جو سب سے قیمتی اور اہم چیز ہے۔ جب بھی دولت اور جنون کی جنگ ہوتی ہے تو ہمیشہ جنون کو فتح اور دولت کو شکست ہوتی ہے اور یہی زندگی کا سب سے بڑا سچ ہے۔ ''عام آدمی پارٹی'' سچ کے راستے پر ہے اور ہمیں کوئی نہیں ہرا سکتا۔اروند کیجری وال اور ان کی ''عام آدمی پارٹی'' کے حوصلے بہت بلند اور نظریات روشن ہیں۔ ان میں عوام کے لیے کام کرنے کا جذبہ ہے۔ وہ بھارت میں تبدیلی لانے کے لیے اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے مشن کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے میدان سیاست میں آئے ہیں۔ ان کا مقابلہ بھارتی سیاسی تاریخ کے انتہائی مضبوط کرداروں سے ہے چاہے وہ کوئی شخصیت ہو یا سیاسی جماعت، الیکشن کی سیاست کا راستہ ؟؟ اور مشکلات سے بھرا ہوا ہے، یہاں انتخابی فتوحات کے بعد بھی چیلینجوں کے ساتھ سازشوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، حریفوں کی روایتی بیان بازی، الزامات کی سیاست، عوامی توقعات کو پورا کرنے کے چیلینج، انتخابی دعووں اور وعدوں کو پورا کرنے کا مِشن اور بہت سے چیلینج ایسے ہیں جنھیں تکمیل تک پہنچانے کی سعی ہر انتخاب میدان میں فتوحات حاصل کرنے والے کا اصل امتحان ہیں۔ یہی امتحان اروند کیجری وال اور ''عام آدمی پارٹی'' کو درپیش ہے۔
''عام آدمی پارٹی'' کے حوالے سے اروند کہتے ہیں کہ اسے بھارت کے عام آدمیوں، عورتوں اور بچوں نے بنایا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو روایتی سیاست اور سیاست دانوں سے عاجز آچکے ہیں۔ اب ہماری کوششوں سے ایک عام آدمی بھی پارلیمنٹ میں جائے گا اور ہماری پارٹی بھارتی سیاست کی شکل بدل دے گی۔بھارت کا تو ہر عام آدمی دعا کر رہا ہے کہ ''عام آدمی پارٹی'' اپنے منشور کو پورا کرنے اور عام آدمی کی زندگی بدلنے میں کامیاب رہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ''عام آدمی پارٹی'' بھارت کے ہر عام آدمی کی توقعات پر کس حد تک پورا اتؔرتی ہے۔
میں آدمی ہوں عام سا
اک قصہ ناتمام سا
نہ لہجہ بے مثال ہے
نہ بات میں کمال ہے
ہوں دیکھنے میں عام سا
اداسیوں کی شام سا
نہ مہ رُخوں سے ربط ہے
نہ شہرتوں کا خبط ہے
میں پیکر اخلاص ہوں
وفا، دعا اور آس ہوں
میں شخص خود شناس ہوں
اب تم ہی فیصلہ کرو
میں آدمی ہوں عام سا
یا پھر بہت ہی خاص ہوں!!
شاعر نے تو یہ بات کہہ کر یہ سوال چھوڑ دیا تھا کہ اب لوگ فیصلہ کر لیں کہ میں عام آدمی ہوں یا خاص؟ لیکن بھارتی ریاستی انتخابات کے حالیہ معرکے میں بھارتی سیاست دانوں اور عوام کو اِس سوال کا جواب ''عام آدمی پارٹی'' (AAM AADMI PARTY) کی زبردست کام یابی سے مل ہی گیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں اور مبصرین نے الیکشن سے قبل ''عام آدمی پارٹی'' کو سیاسی بساط کا ایک اور اہم مہرہ قرار دیا تھا، لیکن شاید انھیں بھی ایسی توقع نہیں تھی کہ یہ ''عام آدمی'' بھارتی سیاست کے ہر ''خاص'' لیڈر کے لیے بہت بڑا چیلینج بن جائے گا۔ زیرنظر مضمون میں ہم ''عام آدمی پارٹی'' اور اس کے روحِ رواں اروند کیجری وال (Arvind Kejriwal) کے بارے میں کچھ معلومات پیش کررہے ہیں، تاکہ قارئین کو اندازہ ہو جائے کہ بھارتی سیاست میں تہلکہ مچا دینے والوں کی یہ فتح محض اتفاق نہیں بلکہ اس کے پیچھے شب و روز کی محنت اور سیاسی ریاضت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
''عام آدمی پارٹی'' کے سربراہ اروند کیجری وال 16 اگست 1968 کو ہریانہ میں پیدا ہوئے، میکنیکل انجینئرنگ میں ڈگری اور پھر سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ ''عام آدمی'' کے حقوق کے تحفظ اور اس کی فلاح و بہبود کے جذبے نے انھیں سیاسی میدان میں بھی کافی متحرک رکھا اور وہ مختلف طریقوں سے عوام کی بھلائی کے لیے کوششیں کرتے رہے۔اروند نے بھارتی انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے ہوئے ہر ممکن کوشش کی کہ ''عام آدمی'' ہر حال میں خوش رہے۔ ان کے والد گوبندرام کیجری وال اور والدہ گیتا دیوی کی اچھی تعلیم و تربیت ہی کا نتیجہ ہے کہ اروند اور ان کے چھوٹے بہن اور بھائی کے کردار و عمل میں بھی روشن خیالی اور عوام کا درد نمایاں ہے۔
اروند کا بچپن اور لڑکپن شمالی بھارت کے علاقوں سونی پت، غازی آباد اور حصار میں گزرا۔ کیجری وال کی اہلیہ سیتا دیوی اور 2 بچے (ایک بیٹا اور ایک بیٹی) بھی ان کی انتخابی کام یابی پر خوش رہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم بھی اروند کی ہی طرح لوگوں کے کام آتے رہیں۔ دسمبر 1999 میں سرکاری ملازمت کے دوران ہی اروند کیجری وال نے مختلف معاملات میں عوام کو آگاہی فراہم کرنے اور انکم ٹیکس، بجلی اور راشن کے معاملات میں موجود بدعنوانیوں کے راز فاش کرنے کے لیے ''پری ورتن'' کے نام سے تحریک شروع کی جس کا مطلب ہی تبدیلی ہے۔ اس کے علاوہ اطلاعات تک رسائی کے قانون کو عوام تک پہنچانے کے لیے بھی اروند نے بے حد کوششیں کیں اور انا ہزارے کے ساتھ مل کر ''جن لوک پال بل'' متعارف کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔2012 میں اروند کیجری وال نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر ''عام آدمی پارٹی'' کی بنیاد رکھی جس کا باقاعدہ افتتاح 26 نومبر 2012 کو ہوا۔ اروند ان 5 بھارتی سیاست دانوں میں شامل ہیں جو سوشل میڈیا فیس بک اور ٹوئٹر پر سب سے زیادہ موضوع بحث رہتے ہیں۔ اروند کی خوش قسمتی ہے کہ سوشل میڈیا پر انھیں موضوع بحث بنانے والے انھیں مثبت خیالات اور اچھی آرا سے مخاطب کرتے ہیں۔
سرکاری اور سیاسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اروند نے ''سواراج'' Swaraj کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔ انھیں زندگی کے مختلف ادوار میں بہت سے ایوارڈ اور اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
2004 میں اشوکا فیلو (Ashoka Fellow) ایوارڈ انھیں ملا، حکومتی امور میں شفافیت لانے کے لیے 2005 میں اروند کو ''ستیندرا کے ڈوبے میموریل ایوارڈ'' سے نوازا گیا۔ پُرعزم اور متاثرکن قیادت کے اعتراف میں 2006 میں ''ریمون میگ سے سے'' Ramon Magsay say ایوارڈ انھیں دیا گیا، اسی سال عوامی خدمات کے عوض ''انڈین آف دی ایئر'' ان کے حصے میں آیا۔ 2009 میں کھرگ پور انسٹی ٹیوٹ میں انھیں ایک اور ایوارڈ دیا گیا، 2010 میں اکنامک ٹائمز ایوارڈ انھیں ملا جب کہ 2011 میں انا ہزارے کے ساتھ انھیں انڈین آف دی ایئر کا اعزاز ملا۔
ریاستی انتخابات سے پہلے مختلف انٹرویوز دیتے ہوئے اروند ''عام آدمی'' پارٹی کی کام یابی کے حوالے سے بہت پُرعزم تھے۔ ان کا کہنا تھا،''ہم جیتنے جارہے ہیں، بہت سے سروے اور رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ عام آدمی پارٹی کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہو رہی ہے اور الیکشن کے روز ووٹر یقینی طور پر ہمارے حق میں فیصلہ کریں گے۔'' اروند نے کہا تھا کہ دہلی کے تقریباً 47 فی صد ووٹر ہمارے ساتھ ہیں جو ''عام آدمی'' کو ایک موقع ضرور دینا چاہتے ہیں جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حق میں 29 فی صد اور کانگریس کے ساتھ 25 فی صد ووٹر ہیں۔ اروند کا دعویٰ انتخابی نتائج کے حوالے سے بالکل صحیح ثابت ہوا، کیوںکہ ووٹروں نے حکم راں کانگریس کی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے ''عام آدمی پارٹی'' کی ووٹوں کے ذریعے بھرپور پذیرائی کی۔ نئی دہلی میں کانگریس کی وزیراعلیٰ شیلا ڈکشت کا 15 سالہ راج ''عام آدمی'' نے ختم کر دیا۔ شیلا ڈکشت اور کانگریس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ان کی حکومت ختم بھی ہوسکتی ہے۔ایک موقع پر اروند نے کہا تھا کہ ہمارے حریفوں کو سوچنا چاہیے کہ آخر کوئی تو وجہ ہے کہ لوگ ہمارے ساتھ آرہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ سچائی ہے، بے شک ہمارے پاس دوسرے لوگوں کی طرح دولت یالائولشکر نہیں لیکن یہ چیزیں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں، اصل چیز عوام کا اعتماد اور اُن کی محبت ہے۔ ہم نے سچ کے ساتھ ہی انا ہزارے کی تحریک میں کام یابی حاصل کی تھی اور سچائی کے ذریعے ہی ہم نے اُس تحریک کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں کا مقابلہ کیا اور اب الیکشن میں بھی عوام ہمارے ساتھ ہیں۔
جب اروند سے پوچھا گیا کہ سیاسی تجزیہ کار اور مبصرین آپ کو اور ''عام آدمی پارٹی'' کو کنگ میکر قرار دے رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ہماری مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہے اور کانگریس اور بی جے پی کی مقبولیت کا گراف نیچے آرہا ہے۔ یہی چیز ووٹنگ میں بھی نظر آئے گی۔ ہمیں کنگ میکر اس لیے کہا جارہا ہے کہ اگر معلق پارلیمنٹ (Hung Parliment) وجود میں آئی تو ہم بی جے پی کا ساتھ دیں گے نہ کانگریس کا، اور یہ دونوں جماعتیں آپس میں بھی ہاتھ نہیں ملائیں گی، اگر حکومت بنانے کے لیے کسی جماعت کو واضح اکثریت نہ ملی تو دوبارہ الیکشن ہوں گے اور ان میں ہم اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئیں گے۔
عام آدمی پارٹی کے روح رواں اروند کیجری وال کے مطابق بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ بار بار انتخابات وقت اور پیسے کا ضیاع ہے اور اتنی بھاری مشق بار بار کرنا آسان نہیں، لیکن اگر آپ کو غیرجانب دار اور شفاف حکومت بنانی ہے تو کچھ پیسوں کا نقصان اہمیت نہیں رکھتا۔ اگر آپ بی جے پی اور کانگریس کے شاہانہ طور طریقے دیکھیں تو دوبارہ الیکشن کے انعقاد پر خرچ ہونے والی رقم ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہوگی۔جب اروند کیجری وال سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ عام آدمی پارٹی بھاری اور واضح اکثریت حاصل کرسکتی ہے؟ تو ان کا جواب تھا کہ اس کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے ہمیں نہیں۔ عوام کو سوچنا ہوگا کہ ''عام آدمی'' کو ووٹ نہیں ملے تو پھر دوبارہ طویل عرصے تک انھیں ان ہی حکم رانوں کو برداشت کرنا ہوگا جنھوں نے عام آدمی کے لیے کچھ نہیں کیا اور صرف خود نام نہاد عوامی نمائندے بنے رہے۔ ہم تو صرف اپنا فرض ادا کررہے ہیں، مجھے الیکشن کے نتائج کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور واقعی ایسا ہی ہوا، اروند کو الیکشن کے حوالے سے پریشان ہونا ہی نہیں پڑا اور عوام نے خود فیصلہ کردیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
اروند کا کہنا ہے کہ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی دولت اور طاقت کے مقابلے میں جذبہ اور جنون آتا ہے تو جیت ہمیشہ جذبے اور جنون کو ملتی ہے۔ انا ہزارے کی تحریک جب ہم نے شروع کی تھی تو اس وقت ہمارے پاس صرف 80 ہزار روپے تھے، لیکن چند دن کے اندر ہمارے اکائونٹ میں ایک کروڑ سے زاید روپے آگئے اور ملک بھر سے لوگوں نے ہمارے ساتھ اظہار یک جہتی کیا۔ پھر انتخابی معرکے سے قبل بھی بہت سے لوگ اپنی ملازمتیں چھوڑ کر ہماری پارٹی کے ساتھ آگئے، انھوں نے اپنی تن خواہوں اور دیگر سہولتوں کی قربانی ملک میں بڑی تبدیلی کے لیے دی اور وہ تبدیلی ضرور آئے گی۔
اروند کی ایک اور بات ان کے کھرے پن کی روشن مثال ہے، وہ کہتے ہیں،''پیسے کی اہمیت معمولی ہے، لیکن اسے بہت زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے بہت سے لوگوں کو سچ کی طاقت کا صحیح اندازہ ہی نہیں ہے، اگر انھیں حق اور سچ کی اہمیت کا پتا چل جائے تو وہ دولت کے پیچھے بھاگنا چھوڑدیں گے۔''
اروند کہتے ہیں کہ ہمارا مقابلہ جن پارٹیوں سے ہے ان کے پاس بہت دولت ہے لیکن ہمارے ساتھ عام آدمی کی حمایت ہے جو سب سے قیمتی اور اہم چیز ہے۔ جب بھی دولت اور جنون کی جنگ ہوتی ہے تو ہمیشہ جنون کو فتح اور دولت کو شکست ہوتی ہے اور یہی زندگی کا سب سے بڑا سچ ہے۔ ''عام آدمی پارٹی'' سچ کے راستے پر ہے اور ہمیں کوئی نہیں ہرا سکتا۔اروند کیجری وال اور ان کی ''عام آدمی پارٹی'' کے حوصلے بہت بلند اور نظریات روشن ہیں۔ ان میں عوام کے لیے کام کرنے کا جذبہ ہے۔ وہ بھارت میں تبدیلی لانے کے لیے اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے مشن کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے میدان سیاست میں آئے ہیں۔ ان کا مقابلہ بھارتی سیاسی تاریخ کے انتہائی مضبوط کرداروں سے ہے چاہے وہ کوئی شخصیت ہو یا سیاسی جماعت، الیکشن کی سیاست کا راستہ ؟؟ اور مشکلات سے بھرا ہوا ہے، یہاں انتخابی فتوحات کے بعد بھی چیلینجوں کے ساتھ سازشوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، حریفوں کی روایتی بیان بازی، الزامات کی سیاست، عوامی توقعات کو پورا کرنے کے چیلینج، انتخابی دعووں اور وعدوں کو پورا کرنے کا مِشن اور بہت سے چیلینج ایسے ہیں جنھیں تکمیل تک پہنچانے کی سعی ہر انتخاب میدان میں فتوحات حاصل کرنے والے کا اصل امتحان ہیں۔ یہی امتحان اروند کیجری وال اور ''عام آدمی پارٹی'' کو درپیش ہے۔
''عام آدمی پارٹی'' کے حوالے سے اروند کہتے ہیں کہ اسے بھارت کے عام آدمیوں، عورتوں اور بچوں نے بنایا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو روایتی سیاست اور سیاست دانوں سے عاجز آچکے ہیں۔ اب ہماری کوششوں سے ایک عام آدمی بھی پارلیمنٹ میں جائے گا اور ہماری پارٹی بھارتی سیاست کی شکل بدل دے گی۔بھارت کا تو ہر عام آدمی دعا کر رہا ہے کہ ''عام آدمی پارٹی'' اپنے منشور کو پورا کرنے اور عام آدمی کی زندگی بدلنے میں کامیاب رہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ''عام آدمی پارٹی'' بھارت کے ہر عام آدمی کی توقعات پر کس حد تک پورا اتؔرتی ہے۔