پیٹر او ٹول
’’لارنس آف عربیہ‘‘ ہی وہ فلم تھی جس نے پیٹر کو امریکی شائقین فلم سے متعارف کروایا۔
ہدایت کار ڈیوڈ لین کی شاہ کار فلم ''لارنس آف عربیہ'' کا نام سنتے ہی پردۂ تصور پر اس فلم کے مرکزی اداکار پیٹر او ٹول کی شبیہہ ابھر آتی ہے۔
''لارنس آف عربیہ'' پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی فوجی افسر تھامس ایڈورڈ لارنس کے عرب دنیا میں تجربات اور اس کی سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہے۔ آئرش اداکار کی لازوال اداکاری نے اس کردار کو ہالی وڈ کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔ ''لارنس آف عربیہ'' کا شمار تاریخ کی شاہ کار اور گہرے اثرات مرتب کرنے والی فلموں میں ہوتا ہے اور اس فلم میں پیٹر او ٹول کی اداکاری کو فلمی تاریخ کی بہترین پرفارمینس سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ آئرش اداکار نے کئی اور فلموں میں بھی یادگار کردار نبھائے مگر اسے عالم گیر شہرت اسی فلم سے ملی تھی اور آج بھی یہی فلم اس کا شناخت کا حوالہ سمجھی جاتی ہے۔
14 دسمبر 2013ء کو یہ بڑا اداکار ہمیشہ کے لیے اپنے مداحوں سے جدا ہوگیا۔ اس کی موت پر فلمی حلقوں میں دکھ کی لہر دوڑ گئی۔ ہالی وڈ کے فن کاروں کے ساتھ ساتھ پیٹر کے مداحوں نے اس کی موت کو فلم انڈسٹری کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پیٹر کی موت سے اداکاری کا ایک روشن باب اختتام پذیر ہوگیا۔
اس عظیم اداکار کی پیدائش 1932ء میں ہوئی تھی۔ کچھ ذرائع آئرلینڈ کی کاؤنٹی گیلوے کے علاقے کونیمیرا کو پیٹر کی جنم بھومی قرار دیتے ہیں۔ تاہم ان کی اصل جائے پیدائش سے کوئی واقف نہیں۔ خود پیٹر بھی اپنی جائے پیدائش سے لاعلم تھے۔ وہ ساؤتھ لیڈز کے صنعتی علاقے ہنسلیٹ میں پروان چڑھے۔ ان کی والدہ کا جین ایلیٹ کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے تھا۔ وہ ایک نرس تھیں۔ ان کے والد پیٹرل جوزف او ٹول کا آبائی وطن آئرلینڈ تھا اور پیشے کے لحاظ سے وہ قلعی گر، فٹبالر، اور ریس کورس کے بُک میکر تھے۔
اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پیٹر او ٹول ''یارک شائر ایوننگ پوسٹ'' میں زیرتربیت صحافی اور فوٹوگرافر کی حیثیت سے ملازم ہوگئے۔ بعدازاں جب انھیں بہ طور ''سگنلر'' فوجی خدمت انجام دینے کے لیے رائل نیوی میں طلب کرلیا گیا تو یہ ملازمت جاتی رہی۔ 2006ء میں ایک ریڈیو چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے پیٹر نے بتایا تھا کہ رائل نیوی میں خدمات کی انجام دہی کے دوران ان کے ایک افسر نے پوچھا تھا کہ وہ کیا بننا چاہتے ہیں؟ تو ان کا جواب تھا کہ شاعر یا پھر اداکار۔ یوں اداکار بننے کی خواہش ان کے دل میں شروع سے موجود تھی، اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے انھوں نے اداکاری کے اسرار و رموز سے واقفیت حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ اداکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنے کے لیے پیٹر نے پہلے ڈبلن میں واقع ڈائریکٹر ارنسٹ بلیتھ کے ''ایبی تھیٹر'' کے ڈراما اسکول سے اس سلسلے میں رابطہ کیا، مگر آئرش زبان سے ناواقفیت کی بنیاد پر انھیں داخلہ نہیں دیا گیا۔ بعدازاں پیٹر نے 1952ء میں رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ ( RADA) سے اسکالرشپ پر دو سال تک اداکاری کی تربیت لی۔
دوران تربیت ہی پیٹر نے اسٹیج ڈراموں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنا شروع کردیا تھا۔ تھیٹر میں ہونے والے تجربات نے ان کے خداداد ٹیلنٹ کو نکھارنے میں کلیدی کردار کیا۔ تھیٹر میں گزرے ڈیڑھ دو برسوں کے دوران پیٹر نے شیکسپیئر کے کئی ڈراموں میں مختلف کردار ادا کیے۔ اسی بنا پر انھیں ''شیکسپیئرین ایکٹر'' کہا جانے لگا تھا۔ 1954ء میں پیٹر کے کیریر میں نیا موڑ اس وقت آیا جب ٹیلی ویژن تک ان کی رسائی ہوئی۔ مِنی اسکرین پر انھوں نے چند برس گزارے۔ اس دوران پیٹر کا تھیٹر سے بھی ناتا برقرار رہا اور وہ دونوں شعبوں میں اپنی اداکاری کا جادو جگاتے رہے۔
ہر اداکار کی طرح پیٹر نے بھی سلور اسکرین کو منزل بنا رکھا تھا۔ فلمی دنیا میں ان کی آمد 1960ء میں The Day They Robbed the Bank of England سے ہوئی تھی۔ بینک ڈکیتی جیسے جرم کے موضوع پر بنائی گئی اس فلم میں پیٹر کا کردار محدود تھا۔ تاہم کیپٹن فِچ کے کردار میں پیٹر کی اداکاری پر فلمی مبصرین نے کہا تھا کہ ان میں ایک اچھا اداکار بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ اسی برس ریلیز ہونے والی فلم The Savage Innocents میں پیٹر ایک کینیڈین ٹروپر کے رول میں نظر آئے۔ اس فلم میں پیٹر کی آواز ڈب کی گئی تھی جس پر وہ ناراض ہوگئے تھے اور انھوں نے ڈائریکٹر سے مطالبہ کیا تھا کہ ان کا نام کاسٹ سے نکال دیا جائے۔
1962ء میں وہ معرکۃ الآرا فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی جس نے راتوں رات پیٹر او ٹول کو عالم گیر شہرت بخشی اور فلمی تاریخ میں ان کا نام امر کردیا۔ یہ فلم ہدایت کار ڈیوڈ لین کی فلم ''لارنس آف عربیہ '' تھی۔ فلم کے مرکزی کردار کی پیش کش پہلے مارلن برانڈو اور پھر البرٹ فنے کو کی گئی تھی۔ تاہم برانڈو مصروفیات کے پاس اس فلم کے لیے وقت نہیں نکال سکتے تھے، جب کہ البرٹ نے اس کردار کی ادائیگی سے انکار کردیا تھا۔ بعدازاں قرعۂ فال پیٹر او ٹول کے نام نکلا۔ ''لارنس آف عربیہ'' کی فقید المثال کام یابی اور تھامس ایڈورڈ لارنس کے کردار میں اپنی اداکاری کی پسندیدگی پر یقینی طور پر پیٹر مذکورہ اداکاروں کا احسان مند ہوئے ہوں گے کہ ان کے انکار نے پیٹر کی زندگی بدل ڈالی۔
اس فلم میں پیٹر کی اداکاری کو پریمیئر میگزین نے تاریخ کی بہترین پرفارمینس قرار دیا تھا۔ ''لارنس آف عربیہ'' ہی وہ فلم تھی جس نے پیٹر کو امریکی شائقین فلم سے متعارف کروایا۔ علاوہ ازیں آسکر ایوارڈ کے لیے ان کی اولین نام زدگی کا سبب بھی یہی فلم ٹھہری۔ کم و بیش پانچ عشروں پر مشتمل فلمی کیریر میں پیٹر کی آٹھ بار بہترین اداکار کے اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زدگی عمل میں آئی، مگر یہ اعزاز حاصل کرنے کی انھیں حسرت ہی رہی۔ پیٹر او ٹول واحد اداکار ہیں جنھیں آٹھ بار آسکر کی دوڑ میں شامل ہونے کا موقع ملا مگر وہ ایک دفعہ بھی یہ ایوارڈ حاصل نہ کرپائے۔
پیٹر کا شمار ان چند اداکاروں میں بھی ہوتا ہے جنھیں دو مختلف فلموں میں ایک ہی کردار ادا کرنے پر آسکر کے لیے نام زد کیا گیا۔ انھوں نے Becket (1964ء) اور پھر The Lion in Winter( 1968ء) میں شاہ ہنری دوم کا رول کیا تھا۔ فلمی دنیا میں نام وری حاصل کرنے کے باوجود تھیٹر سے اس کا رشتہ برقرار رہا۔ اس کے اسٹیج ڈراموں کی تعداد اگرچہ محدود ہوگئی تھی تاہم تھیٹر سے ناتا ٹوٹا نہیں تھا۔ 1963ء میں انھوں نے لارنس اولیور کی ہدایت کاری میں رائل نیشنل تھیٹر میں ہونے والے اسٹیج ڈرامے میں حصہ لیا۔ اس وقت تک پیٹر نے سنجیدہ کرداروں ہی میں اپنی صلاحیتیں منوائی تھیں، تاہم 1965ء میں ریلیز ہونے والی فلم What's New Pussycat? میں اس کی مزاحیہ اداکاری پر سب ہی حیران رہ گئے۔
اس فلم کا اسکرپٹ وُڈی ایلن کا تحریر کردہ تھا۔ پیٹر کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ''ایبی تھیٹر'' میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہر کرنا تھا۔ یہی وہی تھیٹر تھا جس کے تربیتی ادارے میں اداکاری کے اسرار و رموز سے واقفیت حاصل کرنے کی پیٹر کی درخواست مسترد کردی گئی تھی۔ مگر اب صورت حال چند برس قبل کے مقابلے میں مختلف تھی۔ اب پیٹر شعبۂ اداکاری میں خود کو منوانے کی رکھنے والا نوجوان نہیں تھے بلکہ ایک عالم ان کی صلاحیتوں کا گرویدہ ہوچکا تھا۔ چناں چہ 1970ء میں لیجنڈ اداکار کی یہ دیرینہ خواہش بالآخر پوری ہوگئی۔ ایبی تھیٹر میں انھیں سمیوئل بیکیٹ کے ڈرامے Waiting for Godot میں اداکاری کرنے کا موقع ملا۔
چند مزید فلموں میں مختلف النوع کرداروں میں عمدہ اداکاری کے بعد پیٹر کو 1980ء میں The Stunt Man کے مرکزی کردار کے لیے منتخب کیا گیا۔ ہدایت کار رچرڈ رش کی اس فلم میں پیٹر نے ایک ہدایت کار ہی کا کردار نبھایا تھا۔ فلمی مبصرین نے The Stunt Man میں پیٹر کی اداکاری کو خوب سراہا۔ 1982ء میں نام ور اداکار کے کیریر کی ایک اور یادگار فلم My Favorite Year کی صورت میں سامنے آئی۔ یہ رومانوی مزاحیہ فلم تھی جس کی ہدایات رچرڈ بینجمن نے دی تھیں۔ اس فلم میں خوب صورت اداکاری پر ادھیڑ عمر پیٹر کو اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا تھا۔ 1987ء میں پیٹر نے اسکاٹ لینڈ کے باشندے رینالڈ جونسٹن کا کردار نہایت خوبی سے نبھایا تھا۔
ان برسوں میں ٹیلی ویژن سے بھی پیٹر کا تعلق ازسرنو جُڑ گیا تھا اور وہ باقاعدگی سے مختلف ڈراما سیریز میں نظر آنے لگے تھے، جب کہ سلور اسکرین پر اب وہ صرف ادھیڑ عمر کرداروں تک محدود ہوگئے تھے۔علاوہ ازیں مختلف فلموں میں شان دار اداکاری نے انھیں چار گولڈن گلوب، ایک بافٹا اور ایک ایمی ایوارڈ کا بھی حق دار ٹھہرایا۔
حالیہ دور میں پیٹر او ٹول کی شان دار اداکاری Venus میں دیکھنے میں آئی۔ یہ فلم 2006ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ پیٹر کا اس فلم میں مرکزی کردار تھا۔ Venusمیں ایک بوڑھے اور بیمار اداکار کی کہانی دکھائی گئی تھی جو ایک نوجوان لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ اس فلم میں پیٹر کی پرفارمینس دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ Venus میں شان دار اداکاری پر پیٹر آٹھویں اور آخری بار آسکر کی دوڑ میں شامل ہوئے۔ دس جولائی 2012ء کو لیجنڈری اداکار نے اداکاری سے کنارہ کش ہونے کا اعلان کردیا تھا۔
بیشتر اداکاروں کی طرح پیٹر کی نجی زندگی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی۔ علاوہ ازیں جوانی ہی میں انھیں صحت کے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا جو آخری سانس تک ان کی ذات سے جُڑے رہے۔ 1959ء میں پیٹر نے ویلز سے تعلق رکھنے والی اداکارہ سیان فلپس کو شریک حیات چُنا۔ سیان سے ان کی دو بیٹیاں کیٹ اور پیٹریشیا پیدا ہوئیں۔ پیٹر اور سیان کا ازدواجی رشتہ دو عشرے تک قائم رہنے کے بعد 1979ء میں طلاق پر ختم ہوا۔ پچاس برس کی عمر میں پیٹر، لورکن پیٹرک او ٹول کا باپ بنا۔ پیٹرک کی ماں پیٹر کی دوست کیرن براؤن تھی۔
صحت کے مسائل نے 1970ء کی دہائی کے اواخر میں پیٹر کی زندگی تقریباً ختم ہی کردی تھی جب انھیں معدے کا سرطان تشخیص ہوا تھا۔ 1976ء میں پیٹر کا آپریشن ہوا اور ان کا لبلبہ اور معدے کا بڑا حصہ جسم سے نکال دیا گیا۔ نتیجتاً انھیں ذیابیطس ہوگئی۔ دو برس کے بعد وہ خون کی خرابی میں مبتلا ہوگئے۔ پیٹر نے ڈبلن، لندن، پیرس کے علاوہ کئی شہروں میں رہائش گاہیں تعمیر کروائی تھیں، مگر آخری عمر میں وہ لندن میں واقع گھر تک محدود ہوگئے تھے۔
کہتے ہیں کہ 1987ء میں پیٹر کو 'سر کا خطاب' دینے کی پیش کش کی گئی تھی مگر اس نے ذاتی اور سیاسی وجوہ کی بنیاد پر یہ پیش کش مسترد کردی تھی۔ پیٹر او ٹول شیکسپیئر کی شاعری کا بڑا مداح تھا۔ 2006ء میں انٹرویو دیتے ہوئے پیٹر نے کہا تھا کہ انھیں شیکسپیئر کی تمام 154نطمیں زبانی یاد ہیں۔ انھوں نے اپنی دو خود نوشتیں تحریر کی تھیں: Loitering With Intent: The Child اور Loitering With Intent: The Apprentice۔ ابتدائی خود نوشت میں جنگ عظیم دوم کے آغاز تک اپنے بچپن اور اس دور کے مختلف واقعات کا تذکرہ کیا ہے، جب کہ آخری خود نوشت رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ میں دوستوں کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کا احاطہ کرتی ہے۔ پیٹر کو رگبی اور کرکٹ سے بہت دل چسپی تھی۔ انھوں نے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ اسٹیڈیم جاکر رگبی کے کئی میچ دیکھے تھے۔ وہ کرکٹ کے بھی اچھے کھلاڑی تھے۔
2007ء میں ایک انٹرویو کے دوران پیٹر نے کہا تھا کہ وہ جس اداکار سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ ایرک پیٹر تھا۔ اسی انٹرویو کے دوران پیٹر نے اپنے اور موجودہ دور کے اداکاروں کے مابین فرق کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے دور کے اداکاروں کو صرف تھیٹر میں پرفارم کرنے کے لیے تربیت دی جاتی تھی۔ پیٹر کے مطابق ایک اداکار کے لیے اپنے تصورات کو اپنے جذبات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ پیٹر کے فلمی کیریر کی طرح ان کی زندگی کا سفر بھی ختم ہوا، مگر ''لارنس آف عربیہ'' کا کردار انھیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
''لارنس آف عربیہ'' پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی فوجی افسر تھامس ایڈورڈ لارنس کے عرب دنیا میں تجربات اور اس کی سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہے۔ آئرش اداکار کی لازوال اداکاری نے اس کردار کو ہالی وڈ کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔ ''لارنس آف عربیہ'' کا شمار تاریخ کی شاہ کار اور گہرے اثرات مرتب کرنے والی فلموں میں ہوتا ہے اور اس فلم میں پیٹر او ٹول کی اداکاری کو فلمی تاریخ کی بہترین پرفارمینس سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ آئرش اداکار نے کئی اور فلموں میں بھی یادگار کردار نبھائے مگر اسے عالم گیر شہرت اسی فلم سے ملی تھی اور آج بھی یہی فلم اس کا شناخت کا حوالہ سمجھی جاتی ہے۔
14 دسمبر 2013ء کو یہ بڑا اداکار ہمیشہ کے لیے اپنے مداحوں سے جدا ہوگیا۔ اس کی موت پر فلمی حلقوں میں دکھ کی لہر دوڑ گئی۔ ہالی وڈ کے فن کاروں کے ساتھ ساتھ پیٹر کے مداحوں نے اس کی موت کو فلم انڈسٹری کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پیٹر کی موت سے اداکاری کا ایک روشن باب اختتام پذیر ہوگیا۔
اس عظیم اداکار کی پیدائش 1932ء میں ہوئی تھی۔ کچھ ذرائع آئرلینڈ کی کاؤنٹی گیلوے کے علاقے کونیمیرا کو پیٹر کی جنم بھومی قرار دیتے ہیں۔ تاہم ان کی اصل جائے پیدائش سے کوئی واقف نہیں۔ خود پیٹر بھی اپنی جائے پیدائش سے لاعلم تھے۔ وہ ساؤتھ لیڈز کے صنعتی علاقے ہنسلیٹ میں پروان چڑھے۔ ان کی والدہ کا جین ایلیٹ کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے تھا۔ وہ ایک نرس تھیں۔ ان کے والد پیٹرل جوزف او ٹول کا آبائی وطن آئرلینڈ تھا اور پیشے کے لحاظ سے وہ قلعی گر، فٹبالر، اور ریس کورس کے بُک میکر تھے۔
اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پیٹر او ٹول ''یارک شائر ایوننگ پوسٹ'' میں زیرتربیت صحافی اور فوٹوگرافر کی حیثیت سے ملازم ہوگئے۔ بعدازاں جب انھیں بہ طور ''سگنلر'' فوجی خدمت انجام دینے کے لیے رائل نیوی میں طلب کرلیا گیا تو یہ ملازمت جاتی رہی۔ 2006ء میں ایک ریڈیو چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے پیٹر نے بتایا تھا کہ رائل نیوی میں خدمات کی انجام دہی کے دوران ان کے ایک افسر نے پوچھا تھا کہ وہ کیا بننا چاہتے ہیں؟ تو ان کا جواب تھا کہ شاعر یا پھر اداکار۔ یوں اداکار بننے کی خواہش ان کے دل میں شروع سے موجود تھی، اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے انھوں نے اداکاری کے اسرار و رموز سے واقفیت حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ اداکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنے کے لیے پیٹر نے پہلے ڈبلن میں واقع ڈائریکٹر ارنسٹ بلیتھ کے ''ایبی تھیٹر'' کے ڈراما اسکول سے اس سلسلے میں رابطہ کیا، مگر آئرش زبان سے ناواقفیت کی بنیاد پر انھیں داخلہ نہیں دیا گیا۔ بعدازاں پیٹر نے 1952ء میں رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ ( RADA) سے اسکالرشپ پر دو سال تک اداکاری کی تربیت لی۔
دوران تربیت ہی پیٹر نے اسٹیج ڈراموں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنا شروع کردیا تھا۔ تھیٹر میں ہونے والے تجربات نے ان کے خداداد ٹیلنٹ کو نکھارنے میں کلیدی کردار کیا۔ تھیٹر میں گزرے ڈیڑھ دو برسوں کے دوران پیٹر نے شیکسپیئر کے کئی ڈراموں میں مختلف کردار ادا کیے۔ اسی بنا پر انھیں ''شیکسپیئرین ایکٹر'' کہا جانے لگا تھا۔ 1954ء میں پیٹر کے کیریر میں نیا موڑ اس وقت آیا جب ٹیلی ویژن تک ان کی رسائی ہوئی۔ مِنی اسکرین پر انھوں نے چند برس گزارے۔ اس دوران پیٹر کا تھیٹر سے بھی ناتا برقرار رہا اور وہ دونوں شعبوں میں اپنی اداکاری کا جادو جگاتے رہے۔
ہر اداکار کی طرح پیٹر نے بھی سلور اسکرین کو منزل بنا رکھا تھا۔ فلمی دنیا میں ان کی آمد 1960ء میں The Day They Robbed the Bank of England سے ہوئی تھی۔ بینک ڈکیتی جیسے جرم کے موضوع پر بنائی گئی اس فلم میں پیٹر کا کردار محدود تھا۔ تاہم کیپٹن فِچ کے کردار میں پیٹر کی اداکاری پر فلمی مبصرین نے کہا تھا کہ ان میں ایک اچھا اداکار بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ اسی برس ریلیز ہونے والی فلم The Savage Innocents میں پیٹر ایک کینیڈین ٹروپر کے رول میں نظر آئے۔ اس فلم میں پیٹر کی آواز ڈب کی گئی تھی جس پر وہ ناراض ہوگئے تھے اور انھوں نے ڈائریکٹر سے مطالبہ کیا تھا کہ ان کا نام کاسٹ سے نکال دیا جائے۔
1962ء میں وہ معرکۃ الآرا فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی جس نے راتوں رات پیٹر او ٹول کو عالم گیر شہرت بخشی اور فلمی تاریخ میں ان کا نام امر کردیا۔ یہ فلم ہدایت کار ڈیوڈ لین کی فلم ''لارنس آف عربیہ '' تھی۔ فلم کے مرکزی کردار کی پیش کش پہلے مارلن برانڈو اور پھر البرٹ فنے کو کی گئی تھی۔ تاہم برانڈو مصروفیات کے پاس اس فلم کے لیے وقت نہیں نکال سکتے تھے، جب کہ البرٹ نے اس کردار کی ادائیگی سے انکار کردیا تھا۔ بعدازاں قرعۂ فال پیٹر او ٹول کے نام نکلا۔ ''لارنس آف عربیہ'' کی فقید المثال کام یابی اور تھامس ایڈورڈ لارنس کے کردار میں اپنی اداکاری کی پسندیدگی پر یقینی طور پر پیٹر مذکورہ اداکاروں کا احسان مند ہوئے ہوں گے کہ ان کے انکار نے پیٹر کی زندگی بدل ڈالی۔
اس فلم میں پیٹر کی اداکاری کو پریمیئر میگزین نے تاریخ کی بہترین پرفارمینس قرار دیا تھا۔ ''لارنس آف عربیہ'' ہی وہ فلم تھی جس نے پیٹر کو امریکی شائقین فلم سے متعارف کروایا۔ علاوہ ازیں آسکر ایوارڈ کے لیے ان کی اولین نام زدگی کا سبب بھی یہی فلم ٹھہری۔ کم و بیش پانچ عشروں پر مشتمل فلمی کیریر میں پیٹر کی آٹھ بار بہترین اداکار کے اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زدگی عمل میں آئی، مگر یہ اعزاز حاصل کرنے کی انھیں حسرت ہی رہی۔ پیٹر او ٹول واحد اداکار ہیں جنھیں آٹھ بار آسکر کی دوڑ میں شامل ہونے کا موقع ملا مگر وہ ایک دفعہ بھی یہ ایوارڈ حاصل نہ کرپائے۔
پیٹر کا شمار ان چند اداکاروں میں بھی ہوتا ہے جنھیں دو مختلف فلموں میں ایک ہی کردار ادا کرنے پر آسکر کے لیے نام زد کیا گیا۔ انھوں نے Becket (1964ء) اور پھر The Lion in Winter( 1968ء) میں شاہ ہنری دوم کا رول کیا تھا۔ فلمی دنیا میں نام وری حاصل کرنے کے باوجود تھیٹر سے اس کا رشتہ برقرار رہا۔ اس کے اسٹیج ڈراموں کی تعداد اگرچہ محدود ہوگئی تھی تاہم تھیٹر سے ناتا ٹوٹا نہیں تھا۔ 1963ء میں انھوں نے لارنس اولیور کی ہدایت کاری میں رائل نیشنل تھیٹر میں ہونے والے اسٹیج ڈرامے میں حصہ لیا۔ اس وقت تک پیٹر نے سنجیدہ کرداروں ہی میں اپنی صلاحیتیں منوائی تھیں، تاہم 1965ء میں ریلیز ہونے والی فلم What's New Pussycat? میں اس کی مزاحیہ اداکاری پر سب ہی حیران رہ گئے۔
اس فلم کا اسکرپٹ وُڈی ایلن کا تحریر کردہ تھا۔ پیٹر کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ''ایبی تھیٹر'' میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہر کرنا تھا۔ یہی وہی تھیٹر تھا جس کے تربیتی ادارے میں اداکاری کے اسرار و رموز سے واقفیت حاصل کرنے کی پیٹر کی درخواست مسترد کردی گئی تھی۔ مگر اب صورت حال چند برس قبل کے مقابلے میں مختلف تھی۔ اب پیٹر شعبۂ اداکاری میں خود کو منوانے کی رکھنے والا نوجوان نہیں تھے بلکہ ایک عالم ان کی صلاحیتوں کا گرویدہ ہوچکا تھا۔ چناں چہ 1970ء میں لیجنڈ اداکار کی یہ دیرینہ خواہش بالآخر پوری ہوگئی۔ ایبی تھیٹر میں انھیں سمیوئل بیکیٹ کے ڈرامے Waiting for Godot میں اداکاری کرنے کا موقع ملا۔
چند مزید فلموں میں مختلف النوع کرداروں میں عمدہ اداکاری کے بعد پیٹر کو 1980ء میں The Stunt Man کے مرکزی کردار کے لیے منتخب کیا گیا۔ ہدایت کار رچرڈ رش کی اس فلم میں پیٹر نے ایک ہدایت کار ہی کا کردار نبھایا تھا۔ فلمی مبصرین نے The Stunt Man میں پیٹر کی اداکاری کو خوب سراہا۔ 1982ء میں نام ور اداکار کے کیریر کی ایک اور یادگار فلم My Favorite Year کی صورت میں سامنے آئی۔ یہ رومانوی مزاحیہ فلم تھی جس کی ہدایات رچرڈ بینجمن نے دی تھیں۔ اس فلم میں خوب صورت اداکاری پر ادھیڑ عمر پیٹر کو اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا تھا۔ 1987ء میں پیٹر نے اسکاٹ لینڈ کے باشندے رینالڈ جونسٹن کا کردار نہایت خوبی سے نبھایا تھا۔
ان برسوں میں ٹیلی ویژن سے بھی پیٹر کا تعلق ازسرنو جُڑ گیا تھا اور وہ باقاعدگی سے مختلف ڈراما سیریز میں نظر آنے لگے تھے، جب کہ سلور اسکرین پر اب وہ صرف ادھیڑ عمر کرداروں تک محدود ہوگئے تھے۔علاوہ ازیں مختلف فلموں میں شان دار اداکاری نے انھیں چار گولڈن گلوب، ایک بافٹا اور ایک ایمی ایوارڈ کا بھی حق دار ٹھہرایا۔
حالیہ دور میں پیٹر او ٹول کی شان دار اداکاری Venus میں دیکھنے میں آئی۔ یہ فلم 2006ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ پیٹر کا اس فلم میں مرکزی کردار تھا۔ Venusمیں ایک بوڑھے اور بیمار اداکار کی کہانی دکھائی گئی تھی جو ایک نوجوان لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ اس فلم میں پیٹر کی پرفارمینس دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ Venus میں شان دار اداکاری پر پیٹر آٹھویں اور آخری بار آسکر کی دوڑ میں شامل ہوئے۔ دس جولائی 2012ء کو لیجنڈری اداکار نے اداکاری سے کنارہ کش ہونے کا اعلان کردیا تھا۔
بیشتر اداکاروں کی طرح پیٹر کی نجی زندگی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی۔ علاوہ ازیں جوانی ہی میں انھیں صحت کے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا جو آخری سانس تک ان کی ذات سے جُڑے رہے۔ 1959ء میں پیٹر نے ویلز سے تعلق رکھنے والی اداکارہ سیان فلپس کو شریک حیات چُنا۔ سیان سے ان کی دو بیٹیاں کیٹ اور پیٹریشیا پیدا ہوئیں۔ پیٹر اور سیان کا ازدواجی رشتہ دو عشرے تک قائم رہنے کے بعد 1979ء میں طلاق پر ختم ہوا۔ پچاس برس کی عمر میں پیٹر، لورکن پیٹرک او ٹول کا باپ بنا۔ پیٹرک کی ماں پیٹر کی دوست کیرن براؤن تھی۔
صحت کے مسائل نے 1970ء کی دہائی کے اواخر میں پیٹر کی زندگی تقریباً ختم ہی کردی تھی جب انھیں معدے کا سرطان تشخیص ہوا تھا۔ 1976ء میں پیٹر کا آپریشن ہوا اور ان کا لبلبہ اور معدے کا بڑا حصہ جسم سے نکال دیا گیا۔ نتیجتاً انھیں ذیابیطس ہوگئی۔ دو برس کے بعد وہ خون کی خرابی میں مبتلا ہوگئے۔ پیٹر نے ڈبلن، لندن، پیرس کے علاوہ کئی شہروں میں رہائش گاہیں تعمیر کروائی تھیں، مگر آخری عمر میں وہ لندن میں واقع گھر تک محدود ہوگئے تھے۔
کہتے ہیں کہ 1987ء میں پیٹر کو 'سر کا خطاب' دینے کی پیش کش کی گئی تھی مگر اس نے ذاتی اور سیاسی وجوہ کی بنیاد پر یہ پیش کش مسترد کردی تھی۔ پیٹر او ٹول شیکسپیئر کی شاعری کا بڑا مداح تھا۔ 2006ء میں انٹرویو دیتے ہوئے پیٹر نے کہا تھا کہ انھیں شیکسپیئر کی تمام 154نطمیں زبانی یاد ہیں۔ انھوں نے اپنی دو خود نوشتیں تحریر کی تھیں: Loitering With Intent: The Child اور Loitering With Intent: The Apprentice۔ ابتدائی خود نوشت میں جنگ عظیم دوم کے آغاز تک اپنے بچپن اور اس دور کے مختلف واقعات کا تذکرہ کیا ہے، جب کہ آخری خود نوشت رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ میں دوستوں کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کا احاطہ کرتی ہے۔ پیٹر کو رگبی اور کرکٹ سے بہت دل چسپی تھی۔ انھوں نے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ اسٹیڈیم جاکر رگبی کے کئی میچ دیکھے تھے۔ وہ کرکٹ کے بھی اچھے کھلاڑی تھے۔
2007ء میں ایک انٹرویو کے دوران پیٹر نے کہا تھا کہ وہ جس اداکار سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ ایرک پیٹر تھا۔ اسی انٹرویو کے دوران پیٹر نے اپنے اور موجودہ دور کے اداکاروں کے مابین فرق کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے دور کے اداکاروں کو صرف تھیٹر میں پرفارم کرنے کے لیے تربیت دی جاتی تھی۔ پیٹر کے مطابق ایک اداکار کے لیے اپنے تصورات کو اپنے جذبات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ پیٹر کے فلمی کیریر کی طرح ان کی زندگی کا سفر بھی ختم ہوا، مگر ''لارنس آف عربیہ'' کا کردار انھیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔