روایت اور سائنس کا موازنہ چند حقائق جان لیجئے
قدیم اور جدید طب میں انسانی فلاح کو مرکز مان کر کوششوں کی ضرورت ہے
دنیا بھر میں ایک غلط فہمی تواتر اور وثوق سے پھیلائی جاتی ہے کہ بیماریاں موروثیت میں نسل در نسل پھیل رہی ہیں حالانکہ اس نظریے کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔
سائنسی طور پر جو موروثیت DNA سے ثابت ہوتی ہے، اس سے متعلق ہر ذی شعور جانتا ہے کہ تما م انسانوں میں پایا جانے والا ڈی این اے 99 فیصد تقریباً ایک جیسا ہی ہوتا ہے،صرف ایک فیصد انفرادی مادہ ہوتا ہے جو کسی بھی صاحب DNA کی حیثیت کو دوسروں سے جدا ثابت کرتا ہے۔
ان گنت اور بے شمار خلیات،بافتوں، اعضاء،اعصاب اور نظاموں کی موجودگی میں بھلا ایک فیصد اتنی بڑی اور مہلک بیماریوں کو کیسے نسل در نسل منتقل کرنے کا ذمہ دار ہو سکتا ہے۔ہمارے نزدیک خورونوش عادات، روز مرہ معمولات اور طو ر اطوار موروثی ہوتے ہیں۔ کسی بھی خاندان کے باورچی خانے میں استعمال ہونے والے غذائی اجزاء، مسالہ جات اور پکوان اس خاندان کی صحت مندی اور بیماری پر بہت زیادہ اثرات مرتب کرتے ہیں۔ایسے خاندان جن کے گھروں میں گوشت خوری، مرغن خوراک اورسہل پسندی نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے۔
ان کے افراد میں یورک ایسڈ، کولیسٹرول کی زیادتی کے مسائل عام دیکھنے کو ملیں گے۔ بعد ازاں کولیسٹرول کی متواتر زیادتی خون کی نالیوں کی تہوں کوسخت کرکے نظام دوران خون میں خرابی کا سبب بن کر امراض قلب،بلڈ پریشر،فالج اور برین ہیمبریج جیسے موذی اور جان لیوا امراض کا باعث بنتی ہے۔
اسی طرح یورک ایسڈ اور یوریا کی زیادتی شائیٹیکا پین،کمر درد،اتھرائیٹس اور گردے ناکارہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ جو افراد حفظان صحت کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی خورونوش کی عادات اور روز مرہ معمولات میں تعمیری اور مثبت تبدیلی پیدا کرلیتے ہیں وہ خاندان کے دوسرے افراد کی نسبت بہتر اور صحت مند زندگی کے ساتھ طویل عمر پاتے ہیں۔ ترقی پزیر ممالک کے صاحبانِ دانش مغربی علوم سے اس قدر مرعوب ہیںکہ وہ مغربی چال چلن اور طور اطوار کی اندھی تقلید میں ہی نجات سمجھتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق جدید میڈیکل سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود دنیا کی86 فیصد آبادی آج بھی قدرتی ادویات استعمال کر رہی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ادارہ ''پاپولیشن فنڈ کے مطابق پاکستان کی76 فیصد آبادی مختلف امراض کے سلسلے میں نیچرل میڈیسنز کا استعمال کرتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق فطری طرز علاج اور روایتی ادویات دور حاضر کی بیماریوں کا موثر علاج ثابت ہو رہی ہیں لہٰذا انہیں صحت کی ابتدائی دیکھ بھال میں شامل کرنا چاہیے۔ڈبلیو ایچ او بھی قدرتی ادویات اور فطری طرز علاج کو متبادل طریقہ علاج کے طور پر تسلیم کر چکی ہے۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں لہسن، ملٹھی، بنفشہ ، جن سنگ ، تلسی ، سونف ، دارچینی ، ادرک ، پودینہ، الائچی اور کچن میں استعمال کے دیگر اجزاء پھول، پھل، سبزیاں، اجناس اور ترکاریوں کا بطور دوا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے۔
جدید طبی نظریات میں بھی کافی حد تک کجی اور کمی دیکھنے کو عام ملتی ہے۔ عام اور کم پڑھا لکھا فرد بھی جانتا ہے کہ بیماریاں خوراک کی کمی سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ غیر ضروری خورو نوش اور بے اعتدالی سے پیدا ہورہی ہیں۔ دنیا بھر میں سروے کرکے دیکھ لیں ، لوگ بھوک اور افلاس سے اس قدر نہیں مر رہے جتنے بسیار خوری (Over eating) سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
جدید میڈیکل سائنس کے پیرو کار ذیابیطس کے مریضوں کو ہر گھٹے ، دو گھنٹے بعد کھانے پینے کی ترغیب دیتے ہیں جو بذات خود ان کے مرض میںاضافہ کرنے کے مترادف ہے۔ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ اگر شوگر کا مریض اپنی خورونوش کی عادات پر قابو پالے اورخوراک میں اعتدال پیدا کر لے تو مرض کی سنگینی سے مکمل محفوط رہ سکتا ہے۔ اس حوالے سے دوران ماہ رمضان ہم نے شوگر کی مریضوں کی کثیر تعداد کو بہ سہولت اور بہ آسانی16 گھنٹے کا روزہ نبھاتے دیکھا ہے۔
اگر شوگر کا مریض حالت روزہ میں16 گھنٹے تک بھوک اور پیاس برادشت کرسکتا ہے تو عام دنوں میں کیا امر مانع ہے کہ وہ مناسب وقفے کے ساتھ خوراک استعمال نہ کرسکے۔ ہمارے ہاں ایک خاص ذہنیت کار فرما ہے جس کا مفاد مبینہ طور پر دوافروشی سے منسلک ہے۔''غذا کھاؤ یا نہ کھاؤ لیکن دوا ہر صورت کھاؤ''کے نظریے اور رجحان کوپروان چڑھانا کسی طور بھی انسان دوست رویہ نہیں ہوسکتا۔
اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو سائنسی ترقی بھی مبینہ طور پر کاروباری مائنڈ سیٹ اپ کے زیر اثر دکھائی دے رہی ہے۔ دنیا بھر میں سامنے آنے والی ایجادات اور سائنسی دریافتوں کے ثمرات چند کاروباری اداروں افرادکو نوازتے دکھائی دیتے ہیں۔ جدید سائنسی ارتقاء انسانی فلاح وبہبود کے لیے کسی طور بھی کام کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ کیا آتشین اسلحہ سے لے کر جدید جنگی آلات کی تیاری،ایٹمی آلات اور زہریلے مواد کی ایجادات انسان دوستی ہے؟
ماضی قریب و بعید پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو بے شمار سائنسی پروپیگنڈے جو کل تک مفید تھے آج مضر اور بے معنی ثابت کیے جا رہے ہیں۔ابھی کل کی بات ہے قدرتی غذا دیسی گھی سے دوری پیدا کرنے کی غرض سے بناسپتی کے فوائد بڑھا چڑھا کے پیش کیے جاتے تھے کہ عام انسان نے اسے صحت مندی کا سب سے بڑا ذریعہ مان کر اس کا بے دریغ استعمال شروع کردیا۔
اب یار لوگوں نے بناسپتی سے اگلے درجے کی ایجاد کوکنگ آئل کر لی تو بناسپتی تمام بیماریوں کا سبب کہلانے لگا۔ تازہ دودھ ، لسی، ستو اور سکنجبین سے ڈرا کر کیمیائی اجزاء سے تیار شدہ مشروبات کی ترویج کی گئی اور انہی سافٹ ڈرنکس کو مضر صحت قرار دیا جارہا ہے۔ دیسی مٹھاس کے حامل گڑ اور شکر کے خلاف خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا حالانکہ سفید چینی نے شوگر کی بیماری تحفے میں دیدی۔ نصف صدی قبل امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں میدے کی افادیت اور استعمال کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی لیکن آج انہی ممالک میں میدے کے نقصان کو سامنے لاکر میدہ استعمال کرنے کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے۔
اسی طرح جدید ادویات کا حال ہے، ہم نے کئی ادویات جو کبھی بے حد فوائد کا سبب سمجھ کر ڈاکٹرز حضرات لکھا کرتے تھے لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دنیا بھر میں ان کا استعمال ترک کردیا گیا۔ متروک ہونے والی ادویات میں زینٹیک(رینی ٹائیڈ)پمپ بلاکر اور موثر پروٹون پر اس لیے پابندی لگانی پڑی کہ اس کا استعمال بعد ازاں کینسر جیسا موذی ومہلک مرض پیدا کرنے کا باعث بننے لگا تھا۔
اسی طرح میٹا میزول سوڈیم جو پیٹ درد کی موثر دوا مانی جاتی تھی اسے بھی جسم انسانی کے خون میں سفید خلیات کی کمی واقع ہونے کے سبب ترک کردیا گیا۔ والسر ٹن بلڈ پریشر کے لیے استعمال کی جانے والی جدید دوا کو بھی کینسر کا مرض پیدا کرنے کی وجہ سے ترک کیا گیا۔
میتھورفارن کھانسی کے لیے مفید سمجھی جانے والی دوا محض اس لیے ترک کرنی پڑی کہ اسے استعمال کرنے والا کھانسی سے تو جان چھڑا لیتا تھا لیکن اس کا عادی ہوکر اس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوجاتا تھا۔ فیورزولیڈون پیٹ کے امراض میں موثر اینٹی بائیوٹیک سمجھ کر استعمال کی جاتی رہی لیکن اسے بھی دل کی دھڑکن میں زیادتی اور کینسر جیسے مہلک امراض کا سبب بننے کے باعث ترک کردیا گیا۔
ہمارا مقصد سائنس کے خلاف مقدمہ باندھنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ سائنسی نظریات یا علوم حتمی نہیں ہیں بلکہ وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق ان میں ردو بدل بھی کیا جانا انسانی مجبوری بن جاتی ہے۔ جدید میڈیکل سائنس کی ایجادات اور دریافتوں سے کوئی ذی شعور انسان کسی طور انکاری ہوہی نہیں سکتا۔ طبی شعبے میں زندگی بچانے والی ادویات، طبی آلات اور روز مرہ سہولیات کی دریافتیں جدید میڈیکل سائنس کی انسان دوست کامیابیوں کے طور پر رہتی دنیا تک یاد گار رہیں گی۔
حاصل مضمون صرف اتنا ہے کہ سائنسی سہولیات کی طرح قدیم روایات کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیا جائے۔ مان لیا جائے کہ فی زمانہ کئی روایات اشرافیہ میں متروک ہوچکی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ان کی افادیت و اہمیت ہی ختم ہوگئی ہے۔جیسا کہ الیکٹرک فین اور ائیر کنڈیشنر کی جدید سہولیات میسر ہونے سے ہاتھ والے پنکھوں کا استعمال تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے لیکن آج بھی جن علاقوں اور خاندانوں میں جہاں بجلی کی آمد و رفت لگی رہتی ہے ہاتھ کے پنکھے کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
جدید اور قدیم طبی ماہرین کو چاہیے کہ مثبت اور انسان دوست سوچ اور اپروچ اپناتے ہوئے باہم مشترکہ ادویات، طبی آلات اور انسانی فلاح کے لیے مفید دریافتوں پر کام کریں۔یوں قدیم طبی روایات کی کجیاں اور کمیاں بھی دور ہوجائیںگی اور جدید سائنس کی مفید سہولیات سے استفادہ بھی مزید عام ہو جائے گا۔
سائنسی طور پر جو موروثیت DNA سے ثابت ہوتی ہے، اس سے متعلق ہر ذی شعور جانتا ہے کہ تما م انسانوں میں پایا جانے والا ڈی این اے 99 فیصد تقریباً ایک جیسا ہی ہوتا ہے،صرف ایک فیصد انفرادی مادہ ہوتا ہے جو کسی بھی صاحب DNA کی حیثیت کو دوسروں سے جدا ثابت کرتا ہے۔
ان گنت اور بے شمار خلیات،بافتوں، اعضاء،اعصاب اور نظاموں کی موجودگی میں بھلا ایک فیصد اتنی بڑی اور مہلک بیماریوں کو کیسے نسل در نسل منتقل کرنے کا ذمہ دار ہو سکتا ہے۔ہمارے نزدیک خورونوش عادات، روز مرہ معمولات اور طو ر اطوار موروثی ہوتے ہیں۔ کسی بھی خاندان کے باورچی خانے میں استعمال ہونے والے غذائی اجزاء، مسالہ جات اور پکوان اس خاندان کی صحت مندی اور بیماری پر بہت زیادہ اثرات مرتب کرتے ہیں۔ایسے خاندان جن کے گھروں میں گوشت خوری، مرغن خوراک اورسہل پسندی نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے۔
ان کے افراد میں یورک ایسڈ، کولیسٹرول کی زیادتی کے مسائل عام دیکھنے کو ملیں گے۔ بعد ازاں کولیسٹرول کی متواتر زیادتی خون کی نالیوں کی تہوں کوسخت کرکے نظام دوران خون میں خرابی کا سبب بن کر امراض قلب،بلڈ پریشر،فالج اور برین ہیمبریج جیسے موذی اور جان لیوا امراض کا باعث بنتی ہے۔
اسی طرح یورک ایسڈ اور یوریا کی زیادتی شائیٹیکا پین،کمر درد،اتھرائیٹس اور گردے ناکارہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ جو افراد حفظان صحت کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی خورونوش کی عادات اور روز مرہ معمولات میں تعمیری اور مثبت تبدیلی پیدا کرلیتے ہیں وہ خاندان کے دوسرے افراد کی نسبت بہتر اور صحت مند زندگی کے ساتھ طویل عمر پاتے ہیں۔ ترقی پزیر ممالک کے صاحبانِ دانش مغربی علوم سے اس قدر مرعوب ہیںکہ وہ مغربی چال چلن اور طور اطوار کی اندھی تقلید میں ہی نجات سمجھتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق جدید میڈیکل سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود دنیا کی86 فیصد آبادی آج بھی قدرتی ادویات استعمال کر رہی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ادارہ ''پاپولیشن فنڈ کے مطابق پاکستان کی76 فیصد آبادی مختلف امراض کے سلسلے میں نیچرل میڈیسنز کا استعمال کرتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق فطری طرز علاج اور روایتی ادویات دور حاضر کی بیماریوں کا موثر علاج ثابت ہو رہی ہیں لہٰذا انہیں صحت کی ابتدائی دیکھ بھال میں شامل کرنا چاہیے۔ڈبلیو ایچ او بھی قدرتی ادویات اور فطری طرز علاج کو متبادل طریقہ علاج کے طور پر تسلیم کر چکی ہے۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں لہسن، ملٹھی، بنفشہ ، جن سنگ ، تلسی ، سونف ، دارچینی ، ادرک ، پودینہ، الائچی اور کچن میں استعمال کے دیگر اجزاء پھول، پھل، سبزیاں، اجناس اور ترکاریوں کا بطور دوا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے۔
جدید طبی نظریات میں بھی کافی حد تک کجی اور کمی دیکھنے کو عام ملتی ہے۔ عام اور کم پڑھا لکھا فرد بھی جانتا ہے کہ بیماریاں خوراک کی کمی سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ غیر ضروری خورو نوش اور بے اعتدالی سے پیدا ہورہی ہیں۔ دنیا بھر میں سروے کرکے دیکھ لیں ، لوگ بھوک اور افلاس سے اس قدر نہیں مر رہے جتنے بسیار خوری (Over eating) سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
جدید میڈیکل سائنس کے پیرو کار ذیابیطس کے مریضوں کو ہر گھٹے ، دو گھنٹے بعد کھانے پینے کی ترغیب دیتے ہیں جو بذات خود ان کے مرض میںاضافہ کرنے کے مترادف ہے۔ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ اگر شوگر کا مریض اپنی خورونوش کی عادات پر قابو پالے اورخوراک میں اعتدال پیدا کر لے تو مرض کی سنگینی سے مکمل محفوط رہ سکتا ہے۔ اس حوالے سے دوران ماہ رمضان ہم نے شوگر کی مریضوں کی کثیر تعداد کو بہ سہولت اور بہ آسانی16 گھنٹے کا روزہ نبھاتے دیکھا ہے۔
اگر شوگر کا مریض حالت روزہ میں16 گھنٹے تک بھوک اور پیاس برادشت کرسکتا ہے تو عام دنوں میں کیا امر مانع ہے کہ وہ مناسب وقفے کے ساتھ خوراک استعمال نہ کرسکے۔ ہمارے ہاں ایک خاص ذہنیت کار فرما ہے جس کا مفاد مبینہ طور پر دوافروشی سے منسلک ہے۔''غذا کھاؤ یا نہ کھاؤ لیکن دوا ہر صورت کھاؤ''کے نظریے اور رجحان کوپروان چڑھانا کسی طور بھی انسان دوست رویہ نہیں ہوسکتا۔
اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو سائنسی ترقی بھی مبینہ طور پر کاروباری مائنڈ سیٹ اپ کے زیر اثر دکھائی دے رہی ہے۔ دنیا بھر میں سامنے آنے والی ایجادات اور سائنسی دریافتوں کے ثمرات چند کاروباری اداروں افرادکو نوازتے دکھائی دیتے ہیں۔ جدید سائنسی ارتقاء انسانی فلاح وبہبود کے لیے کسی طور بھی کام کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ کیا آتشین اسلحہ سے لے کر جدید جنگی آلات کی تیاری،ایٹمی آلات اور زہریلے مواد کی ایجادات انسان دوستی ہے؟
ماضی قریب و بعید پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو بے شمار سائنسی پروپیگنڈے جو کل تک مفید تھے آج مضر اور بے معنی ثابت کیے جا رہے ہیں۔ابھی کل کی بات ہے قدرتی غذا دیسی گھی سے دوری پیدا کرنے کی غرض سے بناسپتی کے فوائد بڑھا چڑھا کے پیش کیے جاتے تھے کہ عام انسان نے اسے صحت مندی کا سب سے بڑا ذریعہ مان کر اس کا بے دریغ استعمال شروع کردیا۔
اب یار لوگوں نے بناسپتی سے اگلے درجے کی ایجاد کوکنگ آئل کر لی تو بناسپتی تمام بیماریوں کا سبب کہلانے لگا۔ تازہ دودھ ، لسی، ستو اور سکنجبین سے ڈرا کر کیمیائی اجزاء سے تیار شدہ مشروبات کی ترویج کی گئی اور انہی سافٹ ڈرنکس کو مضر صحت قرار دیا جارہا ہے۔ دیسی مٹھاس کے حامل گڑ اور شکر کے خلاف خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا حالانکہ سفید چینی نے شوگر کی بیماری تحفے میں دیدی۔ نصف صدی قبل امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں میدے کی افادیت اور استعمال کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی لیکن آج انہی ممالک میں میدے کے نقصان کو سامنے لاکر میدہ استعمال کرنے کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے۔
اسی طرح جدید ادویات کا حال ہے، ہم نے کئی ادویات جو کبھی بے حد فوائد کا سبب سمجھ کر ڈاکٹرز حضرات لکھا کرتے تھے لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دنیا بھر میں ان کا استعمال ترک کردیا گیا۔ متروک ہونے والی ادویات میں زینٹیک(رینی ٹائیڈ)پمپ بلاکر اور موثر پروٹون پر اس لیے پابندی لگانی پڑی کہ اس کا استعمال بعد ازاں کینسر جیسا موذی ومہلک مرض پیدا کرنے کا باعث بننے لگا تھا۔
اسی طرح میٹا میزول سوڈیم جو پیٹ درد کی موثر دوا مانی جاتی تھی اسے بھی جسم انسانی کے خون میں سفید خلیات کی کمی واقع ہونے کے سبب ترک کردیا گیا۔ والسر ٹن بلڈ پریشر کے لیے استعمال کی جانے والی جدید دوا کو بھی کینسر کا مرض پیدا کرنے کی وجہ سے ترک کیا گیا۔
میتھورفارن کھانسی کے لیے مفید سمجھی جانے والی دوا محض اس لیے ترک کرنی پڑی کہ اسے استعمال کرنے والا کھانسی سے تو جان چھڑا لیتا تھا لیکن اس کا عادی ہوکر اس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوجاتا تھا۔ فیورزولیڈون پیٹ کے امراض میں موثر اینٹی بائیوٹیک سمجھ کر استعمال کی جاتی رہی لیکن اسے بھی دل کی دھڑکن میں زیادتی اور کینسر جیسے مہلک امراض کا سبب بننے کے باعث ترک کردیا گیا۔
ہمارا مقصد سائنس کے خلاف مقدمہ باندھنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ سائنسی نظریات یا علوم حتمی نہیں ہیں بلکہ وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق ان میں ردو بدل بھی کیا جانا انسانی مجبوری بن جاتی ہے۔ جدید میڈیکل سائنس کی ایجادات اور دریافتوں سے کوئی ذی شعور انسان کسی طور انکاری ہوہی نہیں سکتا۔ طبی شعبے میں زندگی بچانے والی ادویات، طبی آلات اور روز مرہ سہولیات کی دریافتیں جدید میڈیکل سائنس کی انسان دوست کامیابیوں کے طور پر رہتی دنیا تک یاد گار رہیں گی۔
حاصل مضمون صرف اتنا ہے کہ سائنسی سہولیات کی طرح قدیم روایات کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیا جائے۔ مان لیا جائے کہ فی زمانہ کئی روایات اشرافیہ میں متروک ہوچکی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ان کی افادیت و اہمیت ہی ختم ہوگئی ہے۔جیسا کہ الیکٹرک فین اور ائیر کنڈیشنر کی جدید سہولیات میسر ہونے سے ہاتھ والے پنکھوں کا استعمال تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے لیکن آج بھی جن علاقوں اور خاندانوں میں جہاں بجلی کی آمد و رفت لگی رہتی ہے ہاتھ کے پنکھے کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
جدید اور قدیم طبی ماہرین کو چاہیے کہ مثبت اور انسان دوست سوچ اور اپروچ اپناتے ہوئے باہم مشترکہ ادویات، طبی آلات اور انسانی فلاح کے لیے مفید دریافتوں پر کام کریں۔یوں قدیم طبی روایات کی کجیاں اور کمیاں بھی دور ہوجائیںگی اور جدید سائنس کی مفید سہولیات سے استفادہ بھی مزید عام ہو جائے گا۔