مہنگائی سب سے بڑا چیلنج

جمہوری نظام کی یہی توخوبی ہے کہ وہ عوام کو مہنگائی میں اضافہ کے ذمے داروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتی۔


Editorial October 29, 2020
جمہوری نظام کی یہی توخوبی ہے کہ وہ عوام کو مہنگائی میں اضافہ کے ذمے داروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتی۔ فوٹو؛ فائل

وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں منگل کو بھی ایک بار پھر مہنگائی پر طویل بحث ہوئی، بادی النظر میں صاف نظر آتا ہے کہ وزیر اعظم مہنگائی کے مسئلہ پر سخت دل گرفتہ ہیں اور ان کا یہ عزم کہ وہ مسئلہ کے حل تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

ان کی معاشی ٹیم کے لیے ویک اپ کال ہے جو عوام کو روزمرہ اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سدباب میں کامیاب نہیں ہوسکی اور بیوروکریسی کو صورتحال کا ذمے دار سمجھتی ہے۔

مہنگائی واقعی بڑا مسئلہ ہے، دوسری طرف وزیر اعظم وزراء کی کارکردگی سے بھی خوش نہیں، کیونکہ ایک مضبوط اور مستحکم معیشت کو ضرورت ایسے اقتصادی اور معاشی مسیحاؤں کی ہوتی ہے جو عوام کو حکومتی روڈ میپ کے مطابق مہنگائی سے نجات دلائیں، مارکیٹ میکنزم پر ان کی گرفت اور حکمت عملی کی رینج مائیکرو اکنامک اصولوں، سپلائی اور ڈیمانڈ کے فالٹ فری سسٹم اور چیک اینڈ بیلنس کی روشنی میں ایک چلتی دوڑتی منڈی اور بے ہنگم تجارتی سرگرمیوں کے ہم دوش ہو۔

بلاشبہ عوام کو درپیش مہنگائی سے نجات کے لیے حکومت سنجیدگی سے اقدامات کا سوچ رہی ہے جب کہ کابینہ کو گندم، چینی سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کی دستیابی پر بریفنگ بھی دی گئی۔ کابینہ کے وزراء نے بیوروکریسی کو مہنگائی کا ذمے دار قراردیتے ہوئے کہا کہ وہ مہنگائی کم کرنے سے متعلق حکومتی احکامات پر عمل نہیں کر رہی، غلط اعداد و شمار دینے والے افسران کی نشاندہی ہونی چاہیے، وزراء نے وزارت فوڈ سیکیورٹی حکام پر تنقید کی، وزراء کا کہنا تھا کہ اشیاء کی پیداوار، دستیابی اور استعمال سے متعلق غلط اعداد و شمار پیش کیے گئے۔

وزراء کی تنقید پر وفاقی وزیر فوڈ سیکیورٹی نے وزیر اعظم سے کہا کہ وہ ان کے سپوزل پر ہیں، وہ اور سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی اپریل میں آئے، فروری میں کیے گئے فیصلوں کے ذمے دار نہیں۔ سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی نے کہا30 سال سے ملک کی خدمت کر رہے ہیں، مہنگائی کا ذمے دار ٹھہرایا جانا مناسب نہیں، کوتاہی برتنے والے افسران کی نشاندہی کریں گے تاہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا حکومت کی پوری توجہ مہنگائی کم کرنے پر ہے، مہنگائی میں کمی ترجیح ہے، قیمتوں میں کمی تک چین سے نہیں بیٹھوں گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ عوام کی مشکلات کا مکمل احساس ہے۔ حکومتی اقدامات کے باعث حالات میں کچھ بہتری نظر آئی ہے، آنے والے دنوں میں مہنگائی کم ہوجائے گی۔ دریں اثنا وزیر منصوبہ بندی نے کابینہ کو بنیادی معاشی اعشاریوں پر تفصیلی بریفنگ دی۔

بہر کیف مہنگائی عوام کی زندگی سے جڑی ایک تلخ حقیقت ہے، گڈ گورننس کی بیلاگ سکروٹنی عوام اور صارفین زمینی اور مارکیٹ کے ٹھوس حقائق کی روشنی میں کرتے ہیں، سوچئے مہنگائی کے ساتھ ایک وبائی عفریت بھی عوام کی زندگی کو دوبارہ امتحان میں ڈالے ہوئے ہے، کورونا کی دوسری لہر آئی ہے، کورونا وائرس سے مزید10 افراد انتقال کر گئے جس سے کل اموات 6752 ہوگئیں، گزشتہ روز809 نئے مریض سامنے آنے کے بعد مصدقہ کیسز کی تعداد 3 لاکھ 29 ہزار 797 ہوگئی جن میں سے 3 لاکھ 11ہزار 940 صحتیاب ہو چکے ہیں جب کہ فعال کیسز کی تعداد بڑھ کر 11105ہوگئی۔

علاوہ ازیں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ پاکستان میں کورونا کی دوسری شدید لہر شروع ہوچکی ہے۔ عوامی اور پر ہجوم مقامات پر ماسک پہننے سمیت دیگر ایس او پیز پر عمل درآمد میں غفلت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کورونا پابندیوں کو مزید سخت کرنا پڑیگا۔

حقیقت یہ ہے کہ عوام کو ماسک اور سماجی فاصلہ کی ہدایت دینا صائب ہے مگر حکومت ان کے معاشی مسائل اور غربت کا بھی ازالہ کرے، جنھیں دو وقت کی روٹی نہیں ملتی ان پر کورونا کی اضافی مشکلات کو حکمراں شیئر کرنے کا عملی طریقہ نکالیں، عوام کو ریلیف دیں، وائرس کی ملک میں ہلاکت خیزی کا منظرنامہ بلاشبہ عالمی صورتحال سے مطابقت نہیں رکھتا، برطانیہ، امریکا، فرانس اور دیگر ملکوں میں وبا تیزی سے پھیل رہی ہے مگر ہمیں بھی اپنے وسائل کو سمیٹنا چاہیے، قوم ایک بار اس امتحان میں سرخرو ہوئی مگر شاید ہم روایتی بے اعتدالی کا شکار ہو رہے ہیں اس سے بچنے کی ضرورت ہے، کوشش ہونی چاہیے کہ مہنگائی اور غربت کے ہاتھوں مشکلات میں مبتلا عوام کو مخیر حضرات بھی امداد اور بحالی کے کاموں میں معاونت کریں، تب ہی حکومت کو پھر سے کورونا سے نمٹنے میں تقویت مل سکے گی۔

عوام کا کہنا ہے کہ وہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کے سامنے سرنڈر کرنے پر مجبور ہیں، عوامی پریشانی اور اضطراب کا اندازہ محکمہ شماریات کی جاری کردہ فہرست سے لگا یا جاسکتا ہے یا میڈیا پر روزمرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی جو گونج سنائی دیتی ہے اس سے ادراک کرنا چاہیے کہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں بے حد مشکل میں ہیں، ملک کی تمام سبزی اور فروٹ منڈیوں، مارکیٹس، شاپنگ سینٹرز، ٹھیلوں، پتھاروں اور دکانداروں پر دستیاب چیزیں ایک سیمابی کیفیت سے دوچار ہیں۔

تقریباً ضرورت کی ہر موسمی سبزی، مسالہ جات، دودھ دہی، ادرک، لہسن، پیاز، دار چینی،ہلدی ، الائچی، کدو، گھیا، ٹماٹر، آلو، بندگوبھی، لوکی، مولی، چقندر، کریلا، بینگن، دھنیہ پودینہ، پالک سمیت مچھلی، چکن، گائے بکرے اور بچھیا کا گوشت عوام کی قوت خرید سے باہر ہے، ہر شے اپنے مدار سے ہٹی ہوئی ہے اور دکاندار اس میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں، گندم، چینی، آٹے کے ذخیرہ اندوزوں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور مافیاؤں کو عبرتناک سزا دینے کے دعوے سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔

ارباب اختیار کو عوامی احتیاج، غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کی روک تھام کے لیے بنیادی اقتصادی میکنزم اور مارکیٹ اکنامی کی جبریت سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے، کوئی طاقت ایسی ہے جو ٹماٹر، ادرک، لہسن، ٹیٹرا پیک دودھ، دہی اور دیگر فلیورز کی قیمتوں میں بے خوفی سے اضافہ کرتی ہے۔

ٹماٹر 200 روپے میں بک رہا ہے، حکومتی اقتصادی بریک تھرو کے لیے منظم کارروائی اور کریک ڈاؤن کرے۔ مارکیٹ کو کسی قاعدے قانون کا پابند بھی حکومت ہی کر سکتی ہے، ایک آہنی سسٹم ہی عوام کو مہنگائی سے نجات دلا سکتا ہے۔

جمہوری نظام کی یہی توخوبی ہے کہ وہ عوام کو مہنگائی میں اضافہ کے ذمے داروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتی۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ مہنگائی کا خاتمہ کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے، درحقیقت اس پیغام میں پوری حکومتی معاشی ٹیم کی آواز شامل ہونی چاہیے، عوام کو چیزیں بلا تاخیر سستی ملنی چاہئیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں