فرانس کا بائیکاٹ اور ہماری معیشت

ہمیں اپنی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی سطح پر سنجیدہ پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے


خطیب احمد October 29, 2020
ہمیں اپنی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سنجیدہ پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

ترقی یافتہ ممالک، ترقی پذیر ممالک یا غریب ممالک ہوں، تمام ہی عالمی وبا کی وجہ سے بحران میں مبتلا تھے۔ مربوط معاشی حکمت عملی کی وجہ سے ترقی یافتہ ملکوں نے خود کو بچالیا لیکن باقی ممالک ابھی بھی معاشی طور پر غیر مستحکم ہیں۔ اس وجہ سے جنوب مشرقی ایشیا میں معاشی غیر یقینی صورت حال میں اضافہ ہوا ہے۔

ان ہی حالات میں فرانس کے میگزین نے پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کیے۔ جس وجہ سے کئی مسلم ممالک نے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا ہے، جن میں ترکی، کویت، اور قطر بھی شامل ہیں۔ بالکل اسی طرح جب ڈنمارک کے اخبار یولندے پوستن نے 2005 میں پیغمبرِ اسلام کے کارٹون شائع کیے تھے، تو اس وقت بھی کئی مسلم ممالک نے ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ پھر اسرائیل کی پالیسیوں اور یورپی اتحاد کی وجہ اسرائیل کا بھی بائیکاٹ کردیا گیا تھا۔

لیکن یہ حکمت عملی ہمیشہ کی طرح ناکام ہوجاتی ہے۔ کیونکہ مغربی ممالک مضبوط ترین معیشت کی وجہ سے کم نقصان برداشت کرلیتے ہیں جبکہ درآمد کرنے والے ممالک کو بہت نقصان پہنچتا ہے، جہاں بائیکاٹ کی وجہ سے اشیاء کی قلت ہوجاتی ہے۔ جب مسلم ممالک نے بائیکاٹ کیا، تو ممکنہ طور پر وہاں بھی اشیاء کی قلت ہوگی۔ جب کہ فرانس زیادہ تر خلیجی ریاستوں میں کھانے پینے کی اشیا برآمد کرتا ہے۔

اگر مجموعی طور پر دیکھیں، تو 2019 میں یورپ کی 18.29 ٹریلین ڈالر GDP تھی، جبکہ IMF کے مطابق 2016 میں مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کی 9.11 ٹریلین ڈالر GDP تھی، جو کم زیادہ ہوسکتی ہے۔ اگر عالمی سطح پر دیکھیں، تو فرانس کی برآمدات 563 ارب ڈالرز ہیں۔ فرانس کی زیادہ تر مصنوعات جرمنی سمیت یورپی ممالک اور امریکا برآمد کی جاتی ہیں، جب کہ مصنوعات کی برآمد کا بڑا مرکز چین بھی ہے۔ حیرت انگیز طور پر مسلم ممالک میں فرانس کی کُل برآمدات کا 2 فیصد سے بھی کم حصہ بنتا ہے۔

ماہرین نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اگر فرانس نے کسی بھی مسلم ملک کی برآمدات کا بائیکاٹ کردیا تو اس ملک کی معیشت کےلیے تباہ کن ہوگا۔ اگر پاکستان کی مثال لیں، تو اگر پاکستان کی 42 کروڑ ڈالرز مالیت کی مصنوعات کا فرانس میں بائیکاٹ شروع ہوجائے، تو پاکستان کی کمزور معیشت تباہ ہوسکتی ہے۔

اگر ہم فرانس کے تجارتی اتحادیوں پر نظر ڈالیں، تو ہمیں دن میں تارے نظر آجائیں گے، کیونکہ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل ترک صدر طیب اردگان نے کی تھی۔ جبکہ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں (ٹریڈنگ اینڈ اکنامکس ویب سائٹ) کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ترکی فرانس سے ساڑھے 6 ارب ڈالرز کی مصنوعات کی درآمدات کرتا ہے۔ ساتھ ہی یہ کہا کہ درآمد کا یہ حجم گزشتہ برسوں سے کم ہے۔

ٹریڈنگ اینڈ اکنامکس ویب سائٹ کے مطابق ان ہی بائیکاٹ کرنے والے ممالک میں سے قطر ہے، جو فرانس سے چار ارب 30 کروڑ ڈالرز کی درآمدات کرتا ہے۔ جبکہ گزشتہ سال فرانس نے کویت کو 58 کروڑ ڈالرز کی برآمدات کی ہیں اور متحدہ عرب امارات کو 27 کروڑ یوروز (32 کروڑ ڈالرز) کی برآمدات کی ہیں۔ فرانس کے تجارتی تعلقات دیگر عرب ممالک سے بھی قائم ہیں، جن میں الجزائر، تیونس اور مراکش شامل ہیں۔ ان ممالک کا بائیکاٹ کرنا ان کی معیشت کےلیے تباہی کا باعث ہوگا۔

اقوام متحدہ کے COMTRADE ڈیٹا بیس کے مطابق 2019 کے دوران فرانس سے پاکستان کی درآمد 420.09 ملین امریکی ڈالر تھی۔ پھر اسی سال جب ورلڈ بینگ اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں ایشیائی ممالک کو (جی ڈی پی) کے حجم کے لحاظ سے دنیا کی 5 بڑی معیشتوں میں شامل ہونے کا اعلان کیا تو، ان میں چین کو اول نمبر پر نامزد کیا جبکہ بھارت، انڈونیشیا اور جاپان شامل ہوں گے۔ لیکن پاکستان کا دور تک فہرست میں نام ہی نہیں ہے۔

چنانچہ فرانس کا بائیکاٹ مسئلے کا حل نہیں۔ کیونکہ گزشتہ دو سال سے ہماری معیشت بہت برے حال میں ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے اقتصادی ترقی بھی رک چکی ہے، جبکہ بے روزگاری اور مہنگائی بھی بڑھتی جارہی ہے، یہ ہماری حکومت کی ناقص کارکردگی کا ثبوت ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق جنوبی ایشیا میں کورونا کی وجہ سے 49.3 ملین سے 56.5 ملین کے درمیان افراد غربت کا شکار ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر حافظ پاشا اور شاہد کاردار کے مطابق پاکستان میں 15 لاکھ سے 20 لاکھ کے درمیان افراد کورونا وائرس کی وجہ سے غربت کا شکار ہوئے ہیں۔

لہٰذا ہمیں اپنی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی سطح پر سنجیدہ پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ جذبات میں اپنی معاشی تباہی کے ہم خود ذمے دار ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں