انتہا پسندی کا عفریت اور حکومت کی ذمے داری

امن عمل میں بلا امتیاز تمام پاکستانیوں کو شریک کیا جائے، انتہا پسندی کے پھیلائو کی ایک بڑی وجہ جہالت اور غربت بھی ہے


Editorial December 22, 2013
امن عمل میں بلا امتیاز تمام پاکستانیوں کو شریک کیا جائے۔ انتہا پسندی کے پھیلائو کی ایک بڑی وجہ جہالت اور غربت بھی ہے. فوٹو:فائل

اس وقت ملک میں دہشت گردی اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ چکی ہے اتنے زیادہ کہ حکومتی اداروں اور دہشت گردوں میں باقاعدہ محاذ آرائی شروع ہو چکی ہے۔ دہشت گرد حکومتی اداروں کو باقاعدہ نشانہ بنا کر انھیں شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان انتہا پسندوں کو تقویت بھی حکومتی اداروں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے دی۔ ریاستی اداروں نے باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت مذہبی گروہوں کی پشت پناہی شروع کی' انھیں مالی اور اسلحہ ہر دو طرح کی امداد فراہم کی گئی یہاں تک کہ انھیں پھلنے پھولنے اور معاشرے میں بااثر حیثیت اختیار کرنے کے لیے قانونی چھتری تک فراہم کی گئی۔ رفتہ رفتہ حکومتی آشیر باد سے پلنے والے یہ مخصوص مذہبی گروہ اتنے طاقتور ہو گئے کہ ریاست کے لیے باقاعدہ ایک چیلنج بن گئے۔

ہفتہ کو گورنر ہائوس لاہور میں کرسمس کا کیک کاٹنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو بھی یہ کہنا پڑا کہ چند گمراہ لوگ پاکستان میں فساد برپا کرتے ہیں' بعض لوگ مذہب کو دنیاوی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں' مذہبی منافرت پھیلانے والے لوگوں کا راستہ روکنا اور انھیں ناکام بنانا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ مذہبی منافرت پھیلانے والے ریاستی اداروں کی پشت پناہی سے اس قدر با اثر اور مضبوط ہو چکے ہیں کہ نہ صرف عوامی معاملات میں دخل اندازی اپنا حق سمجھتے ہیں بلکہ حکومتی معاملات کو بھی اپنی مرضی سے چلانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں منائے جانے والے مختلف مقامی تہوار ان انتہا پسندوں کی مداخلت کے باعث ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ان تہواروں کی بدولت جہاں لوگوں کو خوشی کے اظہار کے مواقع ملتے تھے وہاں معاشی سرگرمیوں میں بھی تیزی آتی تھی۔ آج یہ تہوار انتہا پسندوں کی مداخلت کی بھینٹ چڑھ کر تاریخ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اب کوئی ایسا تہوار باقی نہیں رہا جو معاشی سرگرمیوں کو فروغ دے کر لوگوں کو روزگار فراہم کرے۔ کاروباری سرگرمیوں کے ماند پڑنے کی ایک وجہ ان تہواروں کا بند ہونا بھی ہے۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ بعض لوگ مذہب کو دنیاوی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں' ایسے لوگوں کی دکان اسی طرح سے چلتی ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ مذہب کو اپنے دنیاوی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے رہنمائوں نے لوگوں کو مختلف فرقوں میں تقسیم کر کے انھیں ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا ہے۔ آج ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے ذمے دار مذہب کو دنیاوی فوائد کے لیے استعمال کرنے والے یہ ٹھیکیدار ہی ہیں۔ انھی مذہبی ٹھیکیداروں نے محبت کی جگہ عداوت اور امن کی جگہ دشمنی کو فروغ دیا۔ یہ فرقہ وارانہ نفرت پیدا کرنے والے تعداد میں کم ہیں اور عوام کی اکثریت میں انھیں پذیرائی حاصل نہیں۔ عوام انتخابات میں نفرت کو جنم دینے والے ان لوگوں کا راستہ روک دیتے ہیں مگر یہ لوگ آہستہ آہستہ بااثر ہوتے جا رہے ہیں' ریاستی اداروں میں نہ صرف ان کے حمایتی بڑی تعداد میں موجود ہیں بلکہ جمہوری عمل میں شریک کچھ مذہبی جماعتیں ان انتہا پسندوں کی حمایت کررہی ہیں۔ آج وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ ہم کسی کو پاکستان کا اصل چہرہ مسخ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن موجودہ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی نے پاکستان کے اصل چہرے کو مسخ کر رکھا ہے۔ دہشت گردوں نے تمام مذاہب کے ماننے والوں پر حملے کیے ہیں۔

پشاور میں گرجاگھر میں انسانی جانوں سے خون کی ہولی کھیلی گئی، تجارتی اور کاروباری مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ امن و امان کی بگڑتی صورت حال نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے عمل کو شدید متاثر کیا۔ غیر ملکی سرمایہ کار نے تو ادھر کا رخ کیا چھوڑنا تھا ملکی سرمایہ کار بھی امن کی تلاش میں بیرون ملک جانے میں عافیت سمجھنے لگا ہے۔ آج ملک میں اقتصادی سرگرمیوں کے ماند پڑنے کی وجہ انتہا پسندوں کی کارروائیوں کا بڑا حصہ ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں انتہا پسند سیکیورٹی اداروں پر حملے کر رہے ہیں۔ آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا، اب حکومت کو اپنی پالیسی بدلنا ہو گی اور دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرنا ہو گی۔ حکومت نے دہشت گردوں کو بارہا مذاکرات کی دعوت دی مگر انھوں نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر بار یہ دعوت مسترد کر دی اور جواب میں سیکیورٹی اداروں پر حملے تیز کر دیے۔

علاوہ ازیں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ہفتہ کو کور ہیڈ کوارٹرز پشاور کے دورہ کے موقع پر واضح کر دیا کہ دہشت گردوں کی جانب سے حملے کسی صورت برداشت نہیں کیے جائیں گے ان حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ پاک فوج حکومت کی زیر قیادت جاری امن عمل کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ پاک فوج نے ملک میں امن کے قیام کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ باعث تحسین ہیں۔ ترک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی جاری رکھے گی' اگرچہ مذاکرات کے اس عمل میں بعض رکاوٹیں حائل ہیں' ہم خطے میں امن و استحکام کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ انتہا پسند تو امن عمل کے لیے حکومتی پیشکش کا مثبت جواب ہی نہیں دے رہے ایسے میں حکومت کی مذاکرات کی کوششیں آگے کیسے بڑھ سکتی ہیں۔ایک قوم کا تصور تب ہی مضبوط ہو سکتا ہے اور مذہبی منافرت پھیلانے والوں کا راستہ تب ہی روکنا ممکن ہو گا جب ریاستی ادارے ان کی حمایت ترک کریں گے اور ایسے عناصر کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے گا۔ امن عمل میں بلا امتیاز تمام پاکستانیوں کو شریک کیا جائے۔ انتہا پسندی کے پھیلائو کی ایک بڑی وجہ جہالت اور غربت بھی ہے۔ جب تک حکومت جہالت اور غربت کے خاتمے اور امن و خوشحالی لانے کے لیے مخلصانہ کوششیں نہیں کرے گی تو مذہبی منافرت پھیلانے اور لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کرنے والوں کا راستہ نہیں روکا جا سکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں