شبنم یا شعلے
ملک میں زرعی اصلاحات نہیں بلکہ زرعی انقلاب کی ضرورت ہے جس میں زراعت کو نئے پہلوؤں سے جانچا جائے۔
جب بھی جلسوں کا موسم آتا ہے تو اس میں عوام کے لیے شبنم کا عطیہ ہوتا ہے یا کہ عوام مزید شعلوں میں گھر جاتے ہیں۔ مجھے اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کا پہلا جلسہ جو ڈاؤ میڈیکل کالج میں ہوا اور جسے این ایس ایف کے لیڈروں نے منعقد کیا یاد آ رہا ہے۔ کیونکہ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی کوئی پارٹی نہ تھی۔
یہ طلباء جو میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے اور جو دوسرے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے آئے تھے یہی ان کے کارکن تھے۔ اسٹیج سجانا، کرسیاں لگانا سب ڈاؤ کے طلباء نے کیا جس کے مہتمم ڈاکٹر باقر عسکری (این ایس ایف کے صدر) تھے۔
جب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تقریر کا آغاز کیا تو فلک شگاف نعروں سے فضا گونجنے لگی اور اردگرد کی سڑکیں اور گلیاں ان کی تقریر سننے کے لیے جمع ہوگئی تھیں۔ انھوں نے اپنی تقریر میں تاشقند کی جنگ بندی کی بے اصولی پر تنقید کی اس کے علاوہ انھوں نے بین الاقوامی طور پر پاکستان کے وقار اور ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور عوام کی زبان بندی کا تذکرہ کیا۔ اس کے علاوہ ملک میں سیٹو اور سینٹو کے امریکی معاہدے اور اس سے ملک کو جو نقصانات پہنچ رہے تھے ان کا ذکر کیا۔
یہ تو تھی تقریر ایک مدبر کی جس میں طلبا کی بہتر زندگی کا ذکر کیا اور ڈاکٹروں کے حالات کو بہتر بنانے کی بھی بات کی۔ ملازمتوں کے لیے انھوں نے یہ بھی کہا کہ پوری دنیا کے بند دروازے وہ کھول دیں گے اور انھوں نے کھول کر دکھایا مگر آج کل جو انتخابی جلسے ہو رہے ہیں اس میں کسی قسم کا نہ وعدہ نہ وعید۔ بس ایک دوسروں کے لیے بدکلامی موجودہ جلسوں میں یہ بھی نہیں کہا گیا کہ ان کی آمد کے بعد جی ایس ٹی کا بوجھ کمزور اور مضبوط پہ یکساں ڈالا گیا۔
یا اس کی کوئی تدبیر وضع کی جائے گی بلکہ جلسہ گاہ میں خاص مزار قائد کے اوپر ایک پارٹی نے جو بدنظمی کا مظاہرہ کیا اس پر منتظمین جلسہ نے ہلڑ کرنے کی کوئی بھی تادیب نہ کی۔ البتہ جلسوں میں بدنظمی تو ہو ہی جایا کرتی ہے مگر ایک پارٹی قائد اعظم کے مزار کے اندر نعرے لگا رہی تھی جو پاکستانی عوام کے شایان شان نہ تھا۔ البتہ ایک پارٹی نے ٹائیگر فورس پر تنقید کی یہ واقعی نہایت موزوں تھا۔ کیونکہ لفظ فورس سے غیر جمہوری طاقت کا اشارہ ہو جاتا ہے۔ جب کہ حکومت کے پاس جمہوری دائرے میں کام لینے کے ذرایع موجود رہتے ہیں۔
البتہ اردو کے متعلق ایک لیڈر نے نہایت نازیبا الفاظ ادا کیے جب کہ تمام مقامی زبانوں کے لیے اچھے الفاظ استعمال کیے یقینا ہر زبان قابل احترام ہے کیونکہ عوام اپنی زبان میں اپنا مدعا بیان کرتے ہیں کہ انھیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ اس طرح اردو کو بھی جو اس کا حق ہے اس کو برصغیر کے عوام نے دیا۔ بلکہ یہی نہیں جب انگریز حکومت کرنے آئے اور انھوں نے فورٹ ولیم کالج اور اردو کی پرورش کی۔ اس طرح رفتہ رفتہ صرف انگریزی خواص کی زبان میں شامل ہو گئی۔
پاکستان میں اردو کسی آرڈیننس کے ذریعے نافذ نہیں کی گئی ہے بلکہ یہ عوام کی زبان ہے۔ بھارت میں حکومتوں نے اس کو دبانا چاہا مگر فلم انڈسٹری نے اس کو گود لے کر اپنی افزائش کی اور کوئی بھی فلم بھارت میں مقبول تر ہونے کے لیے اردو کے گانوں کا سہارا لیتی ہے بلکہ انتہا یہ ہے کہ کراچی کے جلسے میں اردو کو اردو زبان میں ہی زد و کوب کیا گیا۔ اس وقت مجھے فاضل لیڈر عبدالصمد خان اچکزئی مرحوم یاد آئے جو جناح روڈ کوئٹہ میں اپنی بیٹھک پر اردو زبان کے دانشوروں سے مباحثے کیا کرتے تھے اور اردو زبان میں شاعری کرنے والوں کو اپنی آرام گاہ پر بلایا کرتے تھے۔
موصوف کو ایک زمانے میں لوگ بلوچی گاندھی بھی کہتے تھے جب کہ کے پی کے میں خان عبدالغفار خان سرحدی گاندھی کہلاتے تھے۔ زبان و بیان کے جھگڑوں سے نہ قومیں ترقی کرتی ہیں اور نہ ہی خود زبان کو ترقی ملتی ہے۔ حبیب جالبؔ جن کی مادری زبان پنجابی تھی اور فیض احمد فیضؔ بھی پنجابی زبان لے کر پیدا ہوئے لیکن ان دونوں لیڈروں نے اہل پنجاب اور بھارت میں ایسا نام پیدا کیا کہ گزشتہ دنوں بھارت میں مسلمان قومیت پر جو مظاہرے کیے گئے تو بھارت کے ہر کالج اور یونیورسٹیوں میں فیضؔ اور جالبؔ کی نظمیں پڑھی گئیں۔
اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ کسی ایک قوم یا خطے کی زبان نہیں ہے بلکہ بلوچی اور پشتو دکاندار جب کسی سودے کے نرخ پر بحث کرتے ہیں تو میں نے خود دیکھا کہ وہ اپنی اپنی زبانیں چھوڑ کر اردو میں بات کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوا کہ اردو محض بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والوں کی زبان نہیں بلکہ رفتہ رفتہ یہ عالمی زبان کا درجہ لیتی جا رہی ہے۔ ان آنکھوں نے کراچی میں یہ بھی دیکھا کہ چند ماہ کراچی میں بسنے والی چینی نژاد خاتون دکاندار سے باقاعدہ روانی سے اردو میں بات کر رہی ہے۔ اس موقع پر داغ کا یہ شعر یاد آتا ہے:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
لہٰذا کسی بھی زبان کو ہم کم درجہ نہیں دے سکتے۔ کیونکہ ہر زبان کے بولنے والے اپنی زبان سے محبت کرتے ہیں۔ اس کو شعلہ نہیں بلکہ اپنی زبان ہو یا بولی میں بات کر کے شبنم جیسی فرحت محسوس کرتے ہیں۔ زبانیں وہ ہیں جن کے رسم الخط ہوتے ہیں اور بول چال میں بھی ان کے حروف استعمال ہوتے ہیں جب کہ بولی اسے کہتے ہیں جس سے صرف مفہوم ادا کیا جاتا ہے اور ایک دوسرے سے ملاپ کا ذریعہ ہے۔ یعنی اس سے محض بات چیت کی جاتی ہے۔
پاکستان میں جن لیڈروں کو عوامی مسائل پر دسترس نہیں اور وہ عوام کی فلاح سے ناواقف ہیں وہ ایک دوسرے کی زبان کو برا کہہ کر اپنی لیڈری کو چمکاتے ہیں۔ جیساکہ اوپر بیان کیا جاتا ہے کہ اردو زبان کو فروغ دینے میں فورٹ ولیم کالج کا بھی ہاتھ ہے مگر اردو زبان کو فروغ دینے میں ہزارہا شعرا اور ادبا کے علاوہ ترقی پسند ادب کا نمایاں کردار ہے۔ اس میں کرشن چندر، پریم چند کا جس قدر اہم کردار ہے اس سے کہیں بڑھ کر ان شعرا کا ہاتھ ہے جنھوں نے اردو زبان کی دھار کو زنگ آلود ہونے سے بچائے رکھا۔ ان میں آتشؔ اور فانیؔ کا نمایاں کردار ہے۔
شاعری کی ہر صنف اور نثر کا ہر موڑ عوام کے لیے ایک تحفہ جانفزا ہے۔ یہ زبان ہی ہے جب نرم لہجے میں اور دل سے کوئی بات کہی جاتی ہے تو سامع کو ایسا لگتا ہے کہ اس پر شبنم کے قطرے پڑ رہے ہیں اور جب انسان کوئی مدعا اس طرح بیان کرتا ہے جس میں کرختگی اور ناپسندیدگی بھرپور طریقے سے موجود ہو تو یہ انسان کو مخالفت پر آمادہ کرتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل جو جلسے ہو رہے ہیں ان میں نہ کوئی عوامی مسائل کے حل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اور نہ ہی یہ کہ اقتدار کو کس طرح سے حاصل کیا جائے گا اس پر کوئی مباحثہ ہے۔
بس ہر لیڈر یہ کہہ رہا ہے کہ جو اقتدار میں ہے وہ نااہل ہے اور ہم اہلیت سے بھرپور ہیں۔ اس لیے اقتدار ہماری ملکیت ہے۔ جیساکہ گفتگو کے آغاز میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے پہلے جلسے میں ایوب خان کی حکومت کا تجزیہ کیا اس کے نشیب و فراز پر گفتگو کی گئی۔ اب لیڈران محض ایک دوسرے کی ہجو کرنا ہی جلسے کی کامیابی تصور کرتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں حکومت گرانے کے لیے برسر اقتدار حاکم کی خامیاں بتانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر ہم اقتدار میں آئیں گے تو ہمارے آنے سے عوام کو کیا فائدے ہوں گے۔ صحت کے میدان میں ہم عام آدمی کے علاوہ غریبوں کو کن فوائد سے نوازیں گے۔ تعلیم کے شعبے میں کیا آسانیاں اور بیروزگاروں کے لیے کیا اور کیسے روزگار فراہم کریں گے۔
گزشتہ سالوں سے بیروزگاری کا ایک طوفان امڈتا چلا آ رہا ہے جسے حزب اقتدار تو روک نہیں پا رہی۔ تو حزب اختلاف کو یہ بتانا چاہیے کہ وہ بیروزگاری کو کیسے روکے گی۔ ملک کے اقتصادی حالات کو کیسے درست کرے گی۔ محض ٹیکس لگانا اور ہر خسارے کو اضافی ٹیکس لگا کر خوش ہونا عوام کو مایوسی کی طرف دھکیلنا ہے۔ اگر صورتحال کو حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں نے مل کر اس ملک کو سدھارنے کا نہ سوچا تو حالات مزید ابتر ہونے کا امکان ہے اور نئے اقتدار میں آنے والے بھی اس عذاب سے بچ نہ سکیں گے۔
ملک میں زرعی اصلاحات نہیں بلکہ زرعی انقلاب کی ضرورت ہے جس میں زراعت کو نئے پہلوؤں سے جانچا جائے اور زرعی زمین کی تقسیم کا فارمولا ملک کو عطیہ کے طور پر دیا جائے۔ ورنہ جی ایس ٹی لگانے سے بھی ملک کے حالات تبدیل نہ ہوں گے اور جن جن شعبوں میں شبنم کی طرح آسودگی ہے وہاں وہاں بھی شعلے بھڑکیں گے جس سے ملک میں فسق و فساد کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔
یہ طلباء جو میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے اور جو دوسرے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے آئے تھے یہی ان کے کارکن تھے۔ اسٹیج سجانا، کرسیاں لگانا سب ڈاؤ کے طلباء نے کیا جس کے مہتمم ڈاکٹر باقر عسکری (این ایس ایف کے صدر) تھے۔
جب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تقریر کا آغاز کیا تو فلک شگاف نعروں سے فضا گونجنے لگی اور اردگرد کی سڑکیں اور گلیاں ان کی تقریر سننے کے لیے جمع ہوگئی تھیں۔ انھوں نے اپنی تقریر میں تاشقند کی جنگ بندی کی بے اصولی پر تنقید کی اس کے علاوہ انھوں نے بین الاقوامی طور پر پاکستان کے وقار اور ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور عوام کی زبان بندی کا تذکرہ کیا۔ اس کے علاوہ ملک میں سیٹو اور سینٹو کے امریکی معاہدے اور اس سے ملک کو جو نقصانات پہنچ رہے تھے ان کا ذکر کیا۔
یہ تو تھی تقریر ایک مدبر کی جس میں طلبا کی بہتر زندگی کا ذکر کیا اور ڈاکٹروں کے حالات کو بہتر بنانے کی بھی بات کی۔ ملازمتوں کے لیے انھوں نے یہ بھی کہا کہ پوری دنیا کے بند دروازے وہ کھول دیں گے اور انھوں نے کھول کر دکھایا مگر آج کل جو انتخابی جلسے ہو رہے ہیں اس میں کسی قسم کا نہ وعدہ نہ وعید۔ بس ایک دوسروں کے لیے بدکلامی موجودہ جلسوں میں یہ بھی نہیں کہا گیا کہ ان کی آمد کے بعد جی ایس ٹی کا بوجھ کمزور اور مضبوط پہ یکساں ڈالا گیا۔
یا اس کی کوئی تدبیر وضع کی جائے گی بلکہ جلسہ گاہ میں خاص مزار قائد کے اوپر ایک پارٹی نے جو بدنظمی کا مظاہرہ کیا اس پر منتظمین جلسہ نے ہلڑ کرنے کی کوئی بھی تادیب نہ کی۔ البتہ جلسوں میں بدنظمی تو ہو ہی جایا کرتی ہے مگر ایک پارٹی قائد اعظم کے مزار کے اندر نعرے لگا رہی تھی جو پاکستانی عوام کے شایان شان نہ تھا۔ البتہ ایک پارٹی نے ٹائیگر فورس پر تنقید کی یہ واقعی نہایت موزوں تھا۔ کیونکہ لفظ فورس سے غیر جمہوری طاقت کا اشارہ ہو جاتا ہے۔ جب کہ حکومت کے پاس جمہوری دائرے میں کام لینے کے ذرایع موجود رہتے ہیں۔
البتہ اردو کے متعلق ایک لیڈر نے نہایت نازیبا الفاظ ادا کیے جب کہ تمام مقامی زبانوں کے لیے اچھے الفاظ استعمال کیے یقینا ہر زبان قابل احترام ہے کیونکہ عوام اپنی زبان میں اپنا مدعا بیان کرتے ہیں کہ انھیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ اس طرح اردو کو بھی جو اس کا حق ہے اس کو برصغیر کے عوام نے دیا۔ بلکہ یہی نہیں جب انگریز حکومت کرنے آئے اور انھوں نے فورٹ ولیم کالج اور اردو کی پرورش کی۔ اس طرح رفتہ رفتہ صرف انگریزی خواص کی زبان میں شامل ہو گئی۔
پاکستان میں اردو کسی آرڈیننس کے ذریعے نافذ نہیں کی گئی ہے بلکہ یہ عوام کی زبان ہے۔ بھارت میں حکومتوں نے اس کو دبانا چاہا مگر فلم انڈسٹری نے اس کو گود لے کر اپنی افزائش کی اور کوئی بھی فلم بھارت میں مقبول تر ہونے کے لیے اردو کے گانوں کا سہارا لیتی ہے بلکہ انتہا یہ ہے کہ کراچی کے جلسے میں اردو کو اردو زبان میں ہی زد و کوب کیا گیا۔ اس وقت مجھے فاضل لیڈر عبدالصمد خان اچکزئی مرحوم یاد آئے جو جناح روڈ کوئٹہ میں اپنی بیٹھک پر اردو زبان کے دانشوروں سے مباحثے کیا کرتے تھے اور اردو زبان میں شاعری کرنے والوں کو اپنی آرام گاہ پر بلایا کرتے تھے۔
موصوف کو ایک زمانے میں لوگ بلوچی گاندھی بھی کہتے تھے جب کہ کے پی کے میں خان عبدالغفار خان سرحدی گاندھی کہلاتے تھے۔ زبان و بیان کے جھگڑوں سے نہ قومیں ترقی کرتی ہیں اور نہ ہی خود زبان کو ترقی ملتی ہے۔ حبیب جالبؔ جن کی مادری زبان پنجابی تھی اور فیض احمد فیضؔ بھی پنجابی زبان لے کر پیدا ہوئے لیکن ان دونوں لیڈروں نے اہل پنجاب اور بھارت میں ایسا نام پیدا کیا کہ گزشتہ دنوں بھارت میں مسلمان قومیت پر جو مظاہرے کیے گئے تو بھارت کے ہر کالج اور یونیورسٹیوں میں فیضؔ اور جالبؔ کی نظمیں پڑھی گئیں۔
اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ کسی ایک قوم یا خطے کی زبان نہیں ہے بلکہ بلوچی اور پشتو دکاندار جب کسی سودے کے نرخ پر بحث کرتے ہیں تو میں نے خود دیکھا کہ وہ اپنی اپنی زبانیں چھوڑ کر اردو میں بات کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوا کہ اردو محض بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والوں کی زبان نہیں بلکہ رفتہ رفتہ یہ عالمی زبان کا درجہ لیتی جا رہی ہے۔ ان آنکھوں نے کراچی میں یہ بھی دیکھا کہ چند ماہ کراچی میں بسنے والی چینی نژاد خاتون دکاندار سے باقاعدہ روانی سے اردو میں بات کر رہی ہے۔ اس موقع پر داغ کا یہ شعر یاد آتا ہے:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
لہٰذا کسی بھی زبان کو ہم کم درجہ نہیں دے سکتے۔ کیونکہ ہر زبان کے بولنے والے اپنی زبان سے محبت کرتے ہیں۔ اس کو شعلہ نہیں بلکہ اپنی زبان ہو یا بولی میں بات کر کے شبنم جیسی فرحت محسوس کرتے ہیں۔ زبانیں وہ ہیں جن کے رسم الخط ہوتے ہیں اور بول چال میں بھی ان کے حروف استعمال ہوتے ہیں جب کہ بولی اسے کہتے ہیں جس سے صرف مفہوم ادا کیا جاتا ہے اور ایک دوسرے سے ملاپ کا ذریعہ ہے۔ یعنی اس سے محض بات چیت کی جاتی ہے۔
پاکستان میں جن لیڈروں کو عوامی مسائل پر دسترس نہیں اور وہ عوام کی فلاح سے ناواقف ہیں وہ ایک دوسرے کی زبان کو برا کہہ کر اپنی لیڈری کو چمکاتے ہیں۔ جیساکہ اوپر بیان کیا جاتا ہے کہ اردو زبان کو فروغ دینے میں فورٹ ولیم کالج کا بھی ہاتھ ہے مگر اردو زبان کو فروغ دینے میں ہزارہا شعرا اور ادبا کے علاوہ ترقی پسند ادب کا نمایاں کردار ہے۔ اس میں کرشن چندر، پریم چند کا جس قدر اہم کردار ہے اس سے کہیں بڑھ کر ان شعرا کا ہاتھ ہے جنھوں نے اردو زبان کی دھار کو زنگ آلود ہونے سے بچائے رکھا۔ ان میں آتشؔ اور فانیؔ کا نمایاں کردار ہے۔
شاعری کی ہر صنف اور نثر کا ہر موڑ عوام کے لیے ایک تحفہ جانفزا ہے۔ یہ زبان ہی ہے جب نرم لہجے میں اور دل سے کوئی بات کہی جاتی ہے تو سامع کو ایسا لگتا ہے کہ اس پر شبنم کے قطرے پڑ رہے ہیں اور جب انسان کوئی مدعا اس طرح بیان کرتا ہے جس میں کرختگی اور ناپسندیدگی بھرپور طریقے سے موجود ہو تو یہ انسان کو مخالفت پر آمادہ کرتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل جو جلسے ہو رہے ہیں ان میں نہ کوئی عوامی مسائل کے حل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اور نہ ہی یہ کہ اقتدار کو کس طرح سے حاصل کیا جائے گا اس پر کوئی مباحثہ ہے۔
بس ہر لیڈر یہ کہہ رہا ہے کہ جو اقتدار میں ہے وہ نااہل ہے اور ہم اہلیت سے بھرپور ہیں۔ اس لیے اقتدار ہماری ملکیت ہے۔ جیساکہ گفتگو کے آغاز میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے پہلے جلسے میں ایوب خان کی حکومت کا تجزیہ کیا اس کے نشیب و فراز پر گفتگو کی گئی۔ اب لیڈران محض ایک دوسرے کی ہجو کرنا ہی جلسے کی کامیابی تصور کرتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں حکومت گرانے کے لیے برسر اقتدار حاکم کی خامیاں بتانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر ہم اقتدار میں آئیں گے تو ہمارے آنے سے عوام کو کیا فائدے ہوں گے۔ صحت کے میدان میں ہم عام آدمی کے علاوہ غریبوں کو کن فوائد سے نوازیں گے۔ تعلیم کے شعبے میں کیا آسانیاں اور بیروزگاروں کے لیے کیا اور کیسے روزگار فراہم کریں گے۔
گزشتہ سالوں سے بیروزگاری کا ایک طوفان امڈتا چلا آ رہا ہے جسے حزب اقتدار تو روک نہیں پا رہی۔ تو حزب اختلاف کو یہ بتانا چاہیے کہ وہ بیروزگاری کو کیسے روکے گی۔ ملک کے اقتصادی حالات کو کیسے درست کرے گی۔ محض ٹیکس لگانا اور ہر خسارے کو اضافی ٹیکس لگا کر خوش ہونا عوام کو مایوسی کی طرف دھکیلنا ہے۔ اگر صورتحال کو حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں نے مل کر اس ملک کو سدھارنے کا نہ سوچا تو حالات مزید ابتر ہونے کا امکان ہے اور نئے اقتدار میں آنے والے بھی اس عذاب سے بچ نہ سکیں گے۔
ملک میں زرعی اصلاحات نہیں بلکہ زرعی انقلاب کی ضرورت ہے جس میں زراعت کو نئے پہلوؤں سے جانچا جائے اور زرعی زمین کی تقسیم کا فارمولا ملک کو عطیہ کے طور پر دیا جائے۔ ورنہ جی ایس ٹی لگانے سے بھی ملک کے حالات تبدیل نہ ہوں گے اور جن جن شعبوں میں شبنم کی طرح آسودگی ہے وہاں وہاں بھی شعلے بھڑکیں گے جس سے ملک میں فسق و فساد کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔