عامل دھاگہ اور طوطے
بالائی طبقہ جو پورے نظام پر قابض ہے،اس کے علم میں ہے کہ وہ میرٹ یا صیح طریقے سے اوپر نہیں پہنچا
KARACHI:
کسی بھی ملک کے عوام بالکل اسی طریقے سے اپنارد عمل ظاہر کرتے ہیں جس طرح کے نظام میں وہ زندگی گزار رہے ہوں۔یہ ایک مکمل طور پر فطری اصول ہے کہ ہم شعوری اور لاشعوری طور پر ہر گھڑی اس ڈگر پر چلتے رہے ہیں،جس جانب ہمیں مخصوص سماجی،سیاسی،اقتصادی اور مذہبی نظریات با ضابطہ طریقے سے لے کر جا رہے ہوتے ہیں۔زندگی تو ظاہر ہے اُسی نظام کے تابع ہو جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے خواب،خیالات اور جذبات بھی اُسی رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔ہر وہ پُر اعتماد نظام جس میں انصاف روزگار اور خوش رہنے کے مواقع موجود ہوں،ہر طرز پر اپنے لوگوں کو بھی ذہنی طور پر آسودہ ،منظم اور خوشحال بنا دیتا ہے۔اس کے برعکس وہ تمام معاشرے جن میں عدم تحفظ،لاقانونیت اور معاشرتی نا انصافی ہو گی،اس میں رہنے والے تمام لوگ بھی وہم،خوف اور لا چارگی کا شکار ہوںگے۔اس میں معاشرے کے تمام طبقات شامل ہیںاورامیر،غریب،حاکم اور محکوم کی کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی۔اہم بات یہ ہے کہ ہر طبقہ کا اپناسچ ہوتا ہے اور وہ بہت کم تبدیل ہوتا ہے۔اسی طرح ہر طبقہ کا اپنا خوف ہوتا ہے جو بالکل اٹل نوعیت کا ایک پیہم رویہ بن جاتا ہے۔ ہمارا نظام یا معاشرہ شدید بے چارگی کا شکار ہے۔اس نظام کی بنیاد ہی عدم تحفظ پر ہے۔
بالائی طبقہ جو پورے نظام پر قابض ہے،اس کے علم میں ہے کہ وہ میرٹ یا صیح طریقے سے اوپر نہیں پہنچا۔اس کو شعور ہے کہ اس کی طاقت کا اصل منبع ریاستی و سائل کا ناجائز استعمال،مذہب کی ایک خاص شکل اور جھوٹ پر ہے۔ان وجوہات سے وہ شدید عدم تحفظ اور خوف میں رہتے ہیں۔محکوم طبقہ ایک دوسری طرح کے عذاب میں مبتلا ہے۔اُسے زندگی گزارنے کے لیے ہر سہولت بچے ہوئے دستر خوان کے اس حصہ سے دی جاتی ہے جو نیچے گرنے سے معرضِ وجود میں آتی ہے۔ان کی پوری زندگی گرے ہوئے ٹکڑے چننے میںبسرہو جاتی ہے۔شعوری طور پر بالائی طبقہ کا ہر دکھ اور ذلت ان کے لیے راحت ہے۔ان کے ذہن میں ایک انجانا خوف اور عدم تحفظ سانپ کی طرح ڈیرے ڈال چکاہوتاہے۔اس ساری صورت حال میں ایک خاص کاروباری گروہ کی چاندی ہو جاتی ہے جو عاملوں،جادوگروں،جعلی پیروں، نجومیوں اور شعبدہ بازوں پر مشتمل ہے۔یہ لوگ اس قدر اہم ہیں اور ہمارے معاشرہ میں ان کا اتنا اہم رول ہے کہ وہ ہمارے اہم ترین فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔یہ اثر محسوس کیا جا سکتا ہے مگر نظر نہیں آتا۔
ایک وفاقی وزیر سے چند سال پہلے نشست ہو ئی ان کے متعلق مشہور تھا کہ وہ اُس وقت کے وزیر اعظم کے بہت نزدیک ہیں۔ایک دن وزیراعظم نے انھیں رات گئے بلایا اور حکم دیا کہ وہ ان کا سرکاری جہاز لے کر فوری طور پر اسلام آباد سے کراچی چلے جائیں اور ان کے خاص مہمان کو عزت سے اسلام آباد لے کر آئیں۔وہ موصوف بھاگم بھاگ مخصوص طیارہ لے کر اسی رات کراچی سے اسلام آباد واپس آئے۔اُس مہمان کا قیام وزیراعظم ہائوس میں تھا۔یہ خاص مہمان بنگلہ دیش کا ایک مشہور عامل تھا۔یہ عامل تقریباً ایک ماہ سرکاری مہمان رہا۔ایک شب کو وزیراعظم نے دوبارہ اُس وزیر کو بلایا۔جب وہ وزیراعظم کے کمرے میں گئے تو وہاں ایک پانی کا بھرا ہوا تسلہ موجود تھا اور وزیراعظم ناک بند کر کے اپنا سر اس تسلے میں ڈال دیتے تھے۔آدھ گھنٹے کے بعد وزیراعظم نے بتایا کہ یہ خاص عمل ہے جو ان کی حکومت بچانے کے لیے اُس عامل نے بڑی مہربانی فرما کر ان کو بتایا ہے۔اب ان کی حکومت بالکل محفوظ ہے۔پھر اُس عامل کو وزیراعظم کے طیارے پر پورے پاکستان کی سیر کرائی گئی اور پچاس لاکھ روپیہ ان کی نذر کیا گیا۔اُس وزیراعظم کی حکومت ٹھیک تین سے چار ماہ کے بعد ختم ہو گئی۔لیکن اس مختصر وقت میں اُس عامل موصوف نے کئی افسروں کی ٹرانسفر،پروموشن اور دیگر مسائل حل کیے۔ان تمام مہربانیوں کی فیس بالکل الگ تھی۔
بڑا عرصہ ہوا کہ ایک سابق صدر کے معتمد خاص فرماتے تھے کہ وہ ان کے صدر ہر بلا سے محفوظ ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ صدر محترم کے عامل اپنے کام میں ماہر ہیں۔ اس عامل نے صدر محترم کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر اسلام آباد سے کسی ایسی جگہ پر چلے جائیں جہاں سمندر ہوں۔چنانچہ آدھا قصر صدارت کراچی شفٹ کیا گیا۔افسران،ملازمین اور نزدیکی وزراء کراچی چلے گئے۔وہاں وہ موصوف دو ماہ رہے۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ سورج ڈوبتے وقت ان کو سمندر کے پانی میں ایک ٹانگ بھگونی تھی اور دوسری ٹانگ خشکی پر رکھنی تھی۔وہ موصوف پورے پچیس دن یہ عمل کرتے رہے اور ان کا تمام اسٹاف یہ تماشا دیکھتا رہا۔ان کے ساتھ سیاسی زندگی میں جو کچھ ہوا وہ میں ابھی بتا نہیں سکتا۔ہمارے وہ سیاسی رہنما اپنی ایک ٹانگ پانی میں بھگونے کے باوجود اپنی حکومت نہ بچا سکے۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر افسر نسبتاً کم اہم سیٹ پر پوسٹ ہو گئے۔وہ ایک زمانہ ساز بیوروکریٹ مشہور تھے۔ان کے ذہن میں ایک خاص بات بیٹھ گئی کہ ان کے مخالف افسران نے ان پر دھاگہ،تعویز اور جادو کرایا ہے۔وہ چند ماہ کے لیے بالکل غائب ہو گئے۔پتہ چلا کہ موصوف روز اسلام آباد کے نزدیک ایک دیہی آبادی میں پائے جاتے ہیں۔یہ آبادی اب اسلام آباد کا حصہ بن چکی ہے اور اس کا نام بھارہ کوہ ہے۔وہ صاحب موصوف ایک نجومی جو جادو گر مشہور تھا کے زیر اثر اپنے مخالفین پر جادو کراتے رہے۔ایک دن انھوں نے سینہ ٹھوک کر فرمایا کہ ان کے دن بدلنے والے ہیں اور انھوں نے اپنے مخالف افسران کے لیے "ہانڈی" چلوا دی ہے اور یہ جادو کی ہانڈی ان کے تمام مخالفین کو برباد کر دے گی۔اس جادو کے لیے موصوف نے تقریباً تیس لاکھ روپیہ خرچ ڈالے۔موصوف اس ہنڈیا کے باوجود اپنی کم اہم پوسٹ پر رہے اور وہیں سے ریٹائرڈ ہوئے۔
وزیراعظم کا سیکریٹری بہت اہم پوسٹ ہے۔تقریباً دس بارہ سال پہلے ہمارا ایک دوست ایک غیر ملکی کورس کر کے واپس آیا تو صاحب موصوف نے پوسٹنگ کے لیے اُس افسر کو اپنے گھر طلب کیا۔و ہ افسر مقررہ وقت پر ان کے گھر حاضر ہوا۔ وہ ایک گھنٹہ تک سیکریٹری صاحب کے ڈرائنگ روم میں انتظار کرتا رہا۔مگر سیکریٹری صاحب تشریف نہ لائے۔ تنگ آ کر وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ سیکریٹری صاحب اپنے مالی کے ساتھ گھاس پر بیٹھے ہیں۔اور بڑی سنجیدہ گفتگو ہو رہی ہے۔سیکریٹری صاحب کے ہاتھ میں کچھ تعویز تھے جو مالی نے گھاس میں سے برآمد کیے تھے۔بحث کا لُب لباب یہ تھا کہ یہ تعویز میرے دشمنوں نے میری اہم پوسٹ اور خانگی زندگی میں رخنہ ڈالنے کے لیے گھاس میں چھپائے ہیں۔موصوف کی تین شادیاں تھیں۔ان کی خانگی صورت حال میں میری دانست میں کسی کو رخنہ ڈالنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کام کے لیے وہ خود ہی کافی تھے ۔ان کے مطابق وہ تمام تعویز شدید گرم تھے۔مالی ان کو سمجھا رہا تھا کہ جہاں سے یہ کاغذات نکلے وہاں نزدیک گرم پانی کا پائپ ہے جس کی وجہ سے یہ تعویز گرم محسوس ہورہے ہیں۔مگر سیکریٹری صاحب بضدتھے کہ ان پر جادو کا وار کیا گیا ہے۔صاحبان،یہ ہمارے پڑھے لکھے اور صاحب اختیار لوگوں کا حال ہے۔عام آدمی کی ضعیف العادی تو اور بھی شدید ہے۔
لاہور کے ایک مشہور کاروباری شخصیت کو اپنے کاروبار میں بہت شدید نقصان ہوا۔ان کی کپڑا بنانے کی تین ملیں تھیں۔بینکوں نے بر وقت ادائیگی نہ کرنے پر ان کی ملوں پر قبضہ کر لیا۔ان کے کاروباری مسائل بہت بڑھ گئے۔ڈی جی خان کے ایک حکیم صاحب نے ان کے گھر پڑائو ڈال لیا۔وہ تقریباً دو سال ان کے گھر پر رہے۔ اس پورے عرصہ میں اس کاروباری شخص نے سونا بنانے کے طریقے سیکھنے شروع کر دیے۔حکیم صاحب ہر جگہ ان کے ہمراہ جاتے تھے۔بقول حکیم صاحب ،ہر جگہ ان کے ہمراہ دو چڑیلیں اور دو سو سال کی عمر کا ایک بے ضرر جن بھی ان کے ساتھ ہوتاہے۔کسی میزبان یا مہمان کو نہ وہ جن کا بچہ نظر آتا تھا اور نہ وہ چڑیلیں مگر حکیم صاحب لاہور کے معتبرحلقوں میں بہت اہم ہو گئے۔حد تو یہ ہے کہ مجھے بتایا گیا کہ اُس وقت کے ایک انتہائی اہم فوجی ادارہ کے سربراہ بھی ان کے نیاز مندوں میں شامل ہو چکے ہیں۔حکیم صاحب ایک عمل پڑھ کر ایک دھاگہ عطا کرتے تھے جو آپ کو اپنے داہنے پیر کی چھوٹی انگلی میں پہننا ہوتا تھا۔ان کے پاس ایک بڑا طوطا بھی تھا جو لفافوں سے لوگوں کے لیے فال اور حل نکالتا تھا۔
آپ کو ہمارے ملک کے ہر محلے،آبادی،گائوں اور شہر میں،اس طرح کے عامل،جادوگر اور گنڈا تعویز کرنے والے لوگ ملیں گے جو عام اور خاص لوگوں کی مجبوری اور عدم تحفظ کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔اس پہلو میں بہت سی خوفناک حقیقتیں بھی چھپی ہوئی ہیں۔قبرستانوں سے لاشوں کے بال اور ہڈیاں،پرندوں کے پَر اور خون،نیز دیگر لوازمات ان عاملوں کے پاس تسلسل سے آتی رہتی ہیں۔کیوں اور کیسے؟کیونکہ یہ فراہمی بھی ایک بہت بڑا کاروبار ہے۔
دنیا کی واحد سُپر پاور کا صدر جس کے ہر فیصلے سے کروڑوں نہیں بلکہ اربوں لوگ متاثر ہوتے ہیں،اس کا کوئی عامل بابا نہیں ہے۔وہ مغربی رہنما جو ملکوں کی تقدیر بدلتے ہیں اور ہمارے جیسے ملکوں میں حکومتیں لے کر آتے ہیں اور کئی حکومتوں کو چلتا کر دیتے ہیں،ان کے پاس کوئی دھاگہ دینے والا شخص نہیں ہے۔ ان کے پرندے بھی بڑے آرام سے کھلی فضا میں پرواز کرتے ہیں۔ کیونکہ انھیں یقین ہے کہ وہ اپنے نظام میں میرٹ پر اوپر آئے ہیں۔ان ممالک کے شہریوں کو بھی علم ہے کہ قانون کی حکمرانی کیا ہے اور معاشی انصاف کیا ہوتا ہے؟ ہم بے بس اور خوف زدہ لوگ تو دھاگوں اور طوطوں کے درمیان اپنی زندگی برباد کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟مگر شکر ہے کہ کہیں تو ہمارے حکمران اور عام لوگ برابری کی سطح پر عذاب میں مبتلا ہیں؟ــ
کسی بھی ملک کے عوام بالکل اسی طریقے سے اپنارد عمل ظاہر کرتے ہیں جس طرح کے نظام میں وہ زندگی گزار رہے ہوں۔یہ ایک مکمل طور پر فطری اصول ہے کہ ہم شعوری اور لاشعوری طور پر ہر گھڑی اس ڈگر پر چلتے رہے ہیں،جس جانب ہمیں مخصوص سماجی،سیاسی،اقتصادی اور مذہبی نظریات با ضابطہ طریقے سے لے کر جا رہے ہوتے ہیں۔زندگی تو ظاہر ہے اُسی نظام کے تابع ہو جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے خواب،خیالات اور جذبات بھی اُسی رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔ہر وہ پُر اعتماد نظام جس میں انصاف روزگار اور خوش رہنے کے مواقع موجود ہوں،ہر طرز پر اپنے لوگوں کو بھی ذہنی طور پر آسودہ ،منظم اور خوشحال بنا دیتا ہے۔اس کے برعکس وہ تمام معاشرے جن میں عدم تحفظ،لاقانونیت اور معاشرتی نا انصافی ہو گی،اس میں رہنے والے تمام لوگ بھی وہم،خوف اور لا چارگی کا شکار ہوںگے۔اس میں معاشرے کے تمام طبقات شامل ہیںاورامیر،غریب،حاکم اور محکوم کی کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی۔اہم بات یہ ہے کہ ہر طبقہ کا اپناسچ ہوتا ہے اور وہ بہت کم تبدیل ہوتا ہے۔اسی طرح ہر طبقہ کا اپنا خوف ہوتا ہے جو بالکل اٹل نوعیت کا ایک پیہم رویہ بن جاتا ہے۔ ہمارا نظام یا معاشرہ شدید بے چارگی کا شکار ہے۔اس نظام کی بنیاد ہی عدم تحفظ پر ہے۔
بالائی طبقہ جو پورے نظام پر قابض ہے،اس کے علم میں ہے کہ وہ میرٹ یا صیح طریقے سے اوپر نہیں پہنچا۔اس کو شعور ہے کہ اس کی طاقت کا اصل منبع ریاستی و سائل کا ناجائز استعمال،مذہب کی ایک خاص شکل اور جھوٹ پر ہے۔ان وجوہات سے وہ شدید عدم تحفظ اور خوف میں رہتے ہیں۔محکوم طبقہ ایک دوسری طرح کے عذاب میں مبتلا ہے۔اُسے زندگی گزارنے کے لیے ہر سہولت بچے ہوئے دستر خوان کے اس حصہ سے دی جاتی ہے جو نیچے گرنے سے معرضِ وجود میں آتی ہے۔ان کی پوری زندگی گرے ہوئے ٹکڑے چننے میںبسرہو جاتی ہے۔شعوری طور پر بالائی طبقہ کا ہر دکھ اور ذلت ان کے لیے راحت ہے۔ان کے ذہن میں ایک انجانا خوف اور عدم تحفظ سانپ کی طرح ڈیرے ڈال چکاہوتاہے۔اس ساری صورت حال میں ایک خاص کاروباری گروہ کی چاندی ہو جاتی ہے جو عاملوں،جادوگروں،جعلی پیروں، نجومیوں اور شعبدہ بازوں پر مشتمل ہے۔یہ لوگ اس قدر اہم ہیں اور ہمارے معاشرہ میں ان کا اتنا اہم رول ہے کہ وہ ہمارے اہم ترین فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔یہ اثر محسوس کیا جا سکتا ہے مگر نظر نہیں آتا۔
ایک وفاقی وزیر سے چند سال پہلے نشست ہو ئی ان کے متعلق مشہور تھا کہ وہ اُس وقت کے وزیر اعظم کے بہت نزدیک ہیں۔ایک دن وزیراعظم نے انھیں رات گئے بلایا اور حکم دیا کہ وہ ان کا سرکاری جہاز لے کر فوری طور پر اسلام آباد سے کراچی چلے جائیں اور ان کے خاص مہمان کو عزت سے اسلام آباد لے کر آئیں۔وہ موصوف بھاگم بھاگ مخصوص طیارہ لے کر اسی رات کراچی سے اسلام آباد واپس آئے۔اُس مہمان کا قیام وزیراعظم ہائوس میں تھا۔یہ خاص مہمان بنگلہ دیش کا ایک مشہور عامل تھا۔یہ عامل تقریباً ایک ماہ سرکاری مہمان رہا۔ایک شب کو وزیراعظم نے دوبارہ اُس وزیر کو بلایا۔جب وہ وزیراعظم کے کمرے میں گئے تو وہاں ایک پانی کا بھرا ہوا تسلہ موجود تھا اور وزیراعظم ناک بند کر کے اپنا سر اس تسلے میں ڈال دیتے تھے۔آدھ گھنٹے کے بعد وزیراعظم نے بتایا کہ یہ خاص عمل ہے جو ان کی حکومت بچانے کے لیے اُس عامل نے بڑی مہربانی فرما کر ان کو بتایا ہے۔اب ان کی حکومت بالکل محفوظ ہے۔پھر اُس عامل کو وزیراعظم کے طیارے پر پورے پاکستان کی سیر کرائی گئی اور پچاس لاکھ روپیہ ان کی نذر کیا گیا۔اُس وزیراعظم کی حکومت ٹھیک تین سے چار ماہ کے بعد ختم ہو گئی۔لیکن اس مختصر وقت میں اُس عامل موصوف نے کئی افسروں کی ٹرانسفر،پروموشن اور دیگر مسائل حل کیے۔ان تمام مہربانیوں کی فیس بالکل الگ تھی۔
بڑا عرصہ ہوا کہ ایک سابق صدر کے معتمد خاص فرماتے تھے کہ وہ ان کے صدر ہر بلا سے محفوظ ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ صدر محترم کے عامل اپنے کام میں ماہر ہیں۔ اس عامل نے صدر محترم کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر اسلام آباد سے کسی ایسی جگہ پر چلے جائیں جہاں سمندر ہوں۔چنانچہ آدھا قصر صدارت کراچی شفٹ کیا گیا۔افسران،ملازمین اور نزدیکی وزراء کراچی چلے گئے۔وہاں وہ موصوف دو ماہ رہے۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ سورج ڈوبتے وقت ان کو سمندر کے پانی میں ایک ٹانگ بھگونی تھی اور دوسری ٹانگ خشکی پر رکھنی تھی۔وہ موصوف پورے پچیس دن یہ عمل کرتے رہے اور ان کا تمام اسٹاف یہ تماشا دیکھتا رہا۔ان کے ساتھ سیاسی زندگی میں جو کچھ ہوا وہ میں ابھی بتا نہیں سکتا۔ہمارے وہ سیاسی رہنما اپنی ایک ٹانگ پانی میں بھگونے کے باوجود اپنی حکومت نہ بچا سکے۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر افسر نسبتاً کم اہم سیٹ پر پوسٹ ہو گئے۔وہ ایک زمانہ ساز بیوروکریٹ مشہور تھے۔ان کے ذہن میں ایک خاص بات بیٹھ گئی کہ ان کے مخالف افسران نے ان پر دھاگہ،تعویز اور جادو کرایا ہے۔وہ چند ماہ کے لیے بالکل غائب ہو گئے۔پتہ چلا کہ موصوف روز اسلام آباد کے نزدیک ایک دیہی آبادی میں پائے جاتے ہیں۔یہ آبادی اب اسلام آباد کا حصہ بن چکی ہے اور اس کا نام بھارہ کوہ ہے۔وہ صاحب موصوف ایک نجومی جو جادو گر مشہور تھا کے زیر اثر اپنے مخالفین پر جادو کراتے رہے۔ایک دن انھوں نے سینہ ٹھوک کر فرمایا کہ ان کے دن بدلنے والے ہیں اور انھوں نے اپنے مخالف افسران کے لیے "ہانڈی" چلوا دی ہے اور یہ جادو کی ہانڈی ان کے تمام مخالفین کو برباد کر دے گی۔اس جادو کے لیے موصوف نے تقریباً تیس لاکھ روپیہ خرچ ڈالے۔موصوف اس ہنڈیا کے باوجود اپنی کم اہم پوسٹ پر رہے اور وہیں سے ریٹائرڈ ہوئے۔
وزیراعظم کا سیکریٹری بہت اہم پوسٹ ہے۔تقریباً دس بارہ سال پہلے ہمارا ایک دوست ایک غیر ملکی کورس کر کے واپس آیا تو صاحب موصوف نے پوسٹنگ کے لیے اُس افسر کو اپنے گھر طلب کیا۔و ہ افسر مقررہ وقت پر ان کے گھر حاضر ہوا۔ وہ ایک گھنٹہ تک سیکریٹری صاحب کے ڈرائنگ روم میں انتظار کرتا رہا۔مگر سیکریٹری صاحب تشریف نہ لائے۔ تنگ آ کر وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ سیکریٹری صاحب اپنے مالی کے ساتھ گھاس پر بیٹھے ہیں۔اور بڑی سنجیدہ گفتگو ہو رہی ہے۔سیکریٹری صاحب کے ہاتھ میں کچھ تعویز تھے جو مالی نے گھاس میں سے برآمد کیے تھے۔بحث کا لُب لباب یہ تھا کہ یہ تعویز میرے دشمنوں نے میری اہم پوسٹ اور خانگی زندگی میں رخنہ ڈالنے کے لیے گھاس میں چھپائے ہیں۔موصوف کی تین شادیاں تھیں۔ان کی خانگی صورت حال میں میری دانست میں کسی کو رخنہ ڈالنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کام کے لیے وہ خود ہی کافی تھے ۔ان کے مطابق وہ تمام تعویز شدید گرم تھے۔مالی ان کو سمجھا رہا تھا کہ جہاں سے یہ کاغذات نکلے وہاں نزدیک گرم پانی کا پائپ ہے جس کی وجہ سے یہ تعویز گرم محسوس ہورہے ہیں۔مگر سیکریٹری صاحب بضدتھے کہ ان پر جادو کا وار کیا گیا ہے۔صاحبان،یہ ہمارے پڑھے لکھے اور صاحب اختیار لوگوں کا حال ہے۔عام آدمی کی ضعیف العادی تو اور بھی شدید ہے۔
لاہور کے ایک مشہور کاروباری شخصیت کو اپنے کاروبار میں بہت شدید نقصان ہوا۔ان کی کپڑا بنانے کی تین ملیں تھیں۔بینکوں نے بر وقت ادائیگی نہ کرنے پر ان کی ملوں پر قبضہ کر لیا۔ان کے کاروباری مسائل بہت بڑھ گئے۔ڈی جی خان کے ایک حکیم صاحب نے ان کے گھر پڑائو ڈال لیا۔وہ تقریباً دو سال ان کے گھر پر رہے۔ اس پورے عرصہ میں اس کاروباری شخص نے سونا بنانے کے طریقے سیکھنے شروع کر دیے۔حکیم صاحب ہر جگہ ان کے ہمراہ جاتے تھے۔بقول حکیم صاحب ،ہر جگہ ان کے ہمراہ دو چڑیلیں اور دو سو سال کی عمر کا ایک بے ضرر جن بھی ان کے ساتھ ہوتاہے۔کسی میزبان یا مہمان کو نہ وہ جن کا بچہ نظر آتا تھا اور نہ وہ چڑیلیں مگر حکیم صاحب لاہور کے معتبرحلقوں میں بہت اہم ہو گئے۔حد تو یہ ہے کہ مجھے بتایا گیا کہ اُس وقت کے ایک انتہائی اہم فوجی ادارہ کے سربراہ بھی ان کے نیاز مندوں میں شامل ہو چکے ہیں۔حکیم صاحب ایک عمل پڑھ کر ایک دھاگہ عطا کرتے تھے جو آپ کو اپنے داہنے پیر کی چھوٹی انگلی میں پہننا ہوتا تھا۔ان کے پاس ایک بڑا طوطا بھی تھا جو لفافوں سے لوگوں کے لیے فال اور حل نکالتا تھا۔
آپ کو ہمارے ملک کے ہر محلے،آبادی،گائوں اور شہر میں،اس طرح کے عامل،جادوگر اور گنڈا تعویز کرنے والے لوگ ملیں گے جو عام اور خاص لوگوں کی مجبوری اور عدم تحفظ کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔اس پہلو میں بہت سی خوفناک حقیقتیں بھی چھپی ہوئی ہیں۔قبرستانوں سے لاشوں کے بال اور ہڈیاں،پرندوں کے پَر اور خون،نیز دیگر لوازمات ان عاملوں کے پاس تسلسل سے آتی رہتی ہیں۔کیوں اور کیسے؟کیونکہ یہ فراہمی بھی ایک بہت بڑا کاروبار ہے۔
دنیا کی واحد سُپر پاور کا صدر جس کے ہر فیصلے سے کروڑوں نہیں بلکہ اربوں لوگ متاثر ہوتے ہیں،اس کا کوئی عامل بابا نہیں ہے۔وہ مغربی رہنما جو ملکوں کی تقدیر بدلتے ہیں اور ہمارے جیسے ملکوں میں حکومتیں لے کر آتے ہیں اور کئی حکومتوں کو چلتا کر دیتے ہیں،ان کے پاس کوئی دھاگہ دینے والا شخص نہیں ہے۔ ان کے پرندے بھی بڑے آرام سے کھلی فضا میں پرواز کرتے ہیں۔ کیونکہ انھیں یقین ہے کہ وہ اپنے نظام میں میرٹ پر اوپر آئے ہیں۔ان ممالک کے شہریوں کو بھی علم ہے کہ قانون کی حکمرانی کیا ہے اور معاشی انصاف کیا ہوتا ہے؟ ہم بے بس اور خوف زدہ لوگ تو دھاگوں اور طوطوں کے درمیان اپنی زندگی برباد کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟مگر شکر ہے کہ کہیں تو ہمارے حکمران اور عام لوگ برابری کی سطح پر عذاب میں مبتلا ہیں؟ــ