متصادم سوچ
حکومت کیلیے لازم ہوگیا ہے کہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ایک فعال خارجہ پالیسی کی تشکیل کیلیے وزارت خارجہ کو متحرک کیاجائے
KARACHI:
آج کل لوگ اندازِحکمرانی کے بارے میں کہیں سرگوشیوںمیں کہیں برملا سوالات اور تبصرے کرتے نظر آتے ہیں۔ان سے عوام میں پھیلی بے چینی اور اضطراب کے علاوہ حکومت کی بعض اہم امور میں غیر سنجیدگی یاکمتر اہلیت کا بھی اندازہ ہوتا۔ایک سوال جو عموماً ہر تقریب میں پوچھا جارہاہے کہ اس وقت ملک کا حقیقی وزیراعظم کون ہے اور وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان مزیدکتنی وزارتوں کی نگرانی فرمارہے ہیں؟یہ سوال بھی ہر خاص وعام میں گردش کر رہا ہے کہ قومی اسمبلی کے فلور یا پریس کانفرنس میںوہ جوکچھ کہتے ہیں،کیاان پر انھیں وزیر اعظم کی حمایت و تائیدحاصل ہوتی ہے یا ان میںکچھ ان کے اپنے جذبات کی بھی آمیزش ہوتی ہے؟لوگوں کو اس بات پر بھی خاصی تشویش ہے کہ ایک ایسے وقت میںجب خطے میں دور رس تبدیلیاں رونماء ہونے کو ہیں،وزارت خارجہ خاصی حد تک غیر فعال ہے۔گو کہ وزارت خارجہ کا قلمدان خود وزیراعظم نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے، مگرایسامحسوس ہورہاہے کہ اس کے بیک وقت کئی ترجمان ہیں۔ہر وزیر، مشیر یا پارٹی عہدیدار کاجب جی چاہتا ہے اور جو جی میں آتا ہے اس بارے میں سوچے سمجھے بغیر کہہ دیتاہے، جس کا خمیازہ بہر حال عالمی سطح پرپاکستان کو بھگتنا پڑتاہے۔
اس تناظر میںسب سے پہلے وفاقی وزارت داخلہ کی کارکردگی پر گفتگو کی ضرورت ہے، جس کی وزیر چوہدری نثار علی خان ہیں۔ان کا معاملہ عجیب وغریب ہے۔ جس وزارت کی ذمے داری ان کے کاندھوں پر ہے،وہ ان سے چل نہیں پارہی۔ امن وامان کی صورتحال کو قابو میں لانے میں وہ تقریباً ناکام ہیں۔جرائم کی شرح میںاضافہ ہواہے۔کراچی میں قتل وغارت گری اور اسٹریٹ کرائمز کے اعداد وشمار یہ بتارہے ہیں کہ آپریشن کے نتیجے میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ کراچی سمیت ملک بھر میں متشددفرقہ وارانہ آویزش میں اضافے کے ساتھ شدت آئی ہے۔مگراپنی وزارت کی ان تمام ناکامیوں کے باوجود عالم یہ ہے کہ وہ اپنے سوا کابینہ کے دیگر تمام وزراء کونااہل سمجھتے ہوئے دوسری وزارتوں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں۔ البتہ ان کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ باقاعدگی کے ساتھ قومی اسمبلی میں جاتے ہیںاور وہاںاپنی خطابت کے جوہردکھاتے ہیں۔لیکن ان کا یہ جوہربھی اکثر وبیشتر خودان کی جماعت کے لیے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
دوماہ قبل جب ڈرون حملوں میں مارے جانے والے افراد کے بارے میں وزارت دفاع نے سپریم کورٹ میں جو اعداد وشمارجمع کرائے،اس پربھی وزیر موصوف خاصے برہم تھے،کیونکہ وہ ان کی خواہشات کے برعکس تھے۔ حالانکہ وزارت دفاع کے جمع کردہ اعداد وشمار حقیقت پر مبنی تھے۔اسی طرح حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے میں مارے جانے پر قومی اسمبلی اور اس کے بعد پریس کانفرنس میں انھوں نے جس اندازمیں نوحہ خوانی کی،ایسی نوحہ خوانی تو شاید اس کے اہل خانہ اور طالبان کی حامی سیاسی ومذہبی جماعتوں تک نے نہیں کی۔ابھی اس مسئلے پر ذرا سی گرد پڑی تھی کہ بنگلہ دیش کی ایک خصوص عدالت نے جماعت اسلامی کے رہنماء ملاعبدالقادر کو پھانسی کی سزا سنادی ،جس کی توثیق وہاں کی سپریم کورٹ نے بھی کردی۔مگر ہمارے وزیر داخلہ جو خود کو وزیر خارجہ بھی سمجھتے ہیںاور خارجہ امور پر اظہارِخیال اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں،قومی اسمبلی میں بنگلہ دیش حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ایک دھواں دھارجذباتی تقریر کے علاوہ قرارداد مذمت بھی پیش کردی۔جو کہ ایک آزاد ملک کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف عمل ہے۔ وہ تو بھلا ہوپیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور اے این پی کا کہ انھوں نے سفارتی اصول وضوابط کاادراک کرتے ہوئے اس متنازع قرارداد پر دستخط کرنے سے انکار کرکے پاکستان کا کسی حد تک بھرم قائم رکھنے کی اپنی سی کوشش کی۔یہ بات ریکارڈ پر رہنا چاہیے کہ بنگلہ دیش میں پاکستان مخالف مظاہرے اور پاکستانی پرچم کو نذر آتش کرنے کے واقعات قومی اسمبلی کی اس متنازع قرارداد کی منظوری کے بعدشروع ہوئے ۔جس کے بعد مشیر خارجہ سرتاج عزیز کووضاحتی بیان جاری کرناپڑا۔
اسی طرح وہ تقریر کرتے ہوئے الفاظ کے چنائومیںاس حد تک بداحتیاطی کا شکار ہوجاتے ہیںکہ اکثر اوقات ان کے الفاظ اور جملے دیگر اراکین کی توہین کا باعث بن جاتے ہیں۔ ایک ماہ قبل ان کے ایک بیان کی وجہ سے سینیٹ کے اراکین نے بائیکاٹ کیا اور اپنا اجلاس کئی روز تک شاہراہ دستور پرمنعقد کیا۔ گزشتہ دنوں انھوں نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنمائوں کو اپنے ایک جملے سے ناراض کرکے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور کردیا۔ ان کے بارے میں ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ وہ تحکمانہ ذہن رکھتے ہیں۔جس کا اظہار نادرا کے چیئرمین طارق ملک کی برخاستگی کے علاوہ راولپنڈی ڈویژن میں انتظامی اہلکاروں اور پولیس کے محکمے میںمن پسند تقرریوں سے ظاہرہوتا ہے۔طارق ملک چونکہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے تھے،اس لیے عدالت عالیہ نے انھیں بحال کردیا۔ مگر اس کارروائی سے حکومت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کی جس طرح سبکی ہوئی،وہ اس جماعت کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔مگر کسی لیگی رہنماء کو چوہدری صاحب پر تنقید کرنے کی جرأت نہیں ہوسکی۔ ہوسکتا ہے کہ اندرون خانہ کچھ اہم وزراء نے ان کی روش اور رویوں کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیاہو۔اب جہاں تک تحکمانہ ذہن کاتعلق ہے تواس کے کئی نفسیاتی اسباب ہوتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ وہ ایک زمیندار خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں،تحکم جس کی سرشت یاGenesمیں شامل ہوتاہے۔ دوسرے انھوں نے ایچی سن میں تعلیم حاصل کی۔
ایک بڑی قومی سیاسی جماعت میںجو کسی مخصوص نظریے کے بجائے کثیرالفکری رجحانات کی حامل ہو،مختلف الخیال افراد کی موجودگی کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہوتی۔اس لیے مبصرین کا خیال ہے کہ مسلم لیگ(ن) میں بھی اس قسم کے فکری تنوع (Diversity)کا پایا جانا فطری بات ہے۔مگربعض ایسے امور جو پارٹی کی سیاست کے ستوں ہوں،ان پر مفاہمت یا خاموشی اس جماعت کے لیے مسائل ومصائب پیداکرنے کا سبب بنتی ہے۔ میاں نواز شریف کے بارے میں ایک عمومی رائے یہ ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہونے اورپڑوسی ممالک کے ساتھ سیاسی،ثقافتی اور تجارتی تعلقات کی بحالی پر دوٹوک اور قطعی موقف رکھتے ہیں،جس پر وہ کسی قسم کی مفاہمت پسند نہیںکرتے۔لیکن گزشتہ 7ماہ کے دوران ان کے وزیر داخلہ نے انھی امور کو متنازع بنانے کی اپنی سی پوری کوشش کی ہے۔مگر وزیراعظم نے ان کے کسی بھی بیان یا اقدام پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ یاتووزیراعظم پر کوئی نادیدہ دبائو ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے وزیر داخلہ کے متنازع اقدامات اوربیانات سے صرفِ نظر کرنے پر مجبور ہیںیاپھر ذاتی طورپروہ ان اقدامات کے حامی ہیں۔ اگر وہ اپنے وزیر داخلہ کے اقدامات اور بیانات کے حامی ہیں تو اس مطلب یہ ہواکہ وہ جو کچھ کہتے رہے ہیں وہ محض دل کو بہلانے کی باتیں تھیں۔یہ رویہ سیاسی جماعتوں کے بارے میں عوام پائی جانے والی منفی سوچ کو مزید مستحکم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں جب آیندہ برس اس خطے میں بڑے پیمانے پرتبدیلیاں متوقع ہیں۔خاص طورپر افغانستان میں ایساف افواج کی تعداد کم ہونے جارہی ہواور بھارت کے عام انتخابات میں بی جے پی کی حکومت کا قیام متوقع ہو، پاکستان کے لیے نئے مسائل پیدا ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ اس لیے حکومت پاکستان کے لیے لازمی ہوگیا ہے کہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ایک فعال خارجہ پالیسی کی تشکیل کے لیے وزارت خارجہ کو متحرک کیاجائے۔اس مقصد کے لیے ایک کل وقتی ماہر وزیر خارجہ کی تعیناتی کی اشد ضرورت ہے۔اس کے علاوہ دیگر وزراء بالخصوص وزیر داخلہ کو خارجہ امور پر رائے زنی سے روکنے کی بھی ضرورت ہے،کیونکہ ان کے بیانات اور اقدامات پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔