کیا آرٹیکل 6 میں ترمیم کی ضرورت ہے
کیا جمہوریت کے نام پرلوٹ مارکرنیوالے لٹیروں کو دھوکہ کرنے کے جرم میں فوجی جنرلوں سے زیادہ سخت سزا نہیں دی جانی چاہیے
پاکستان میں آج کل آئین کا آرٹیکل 6 ہر طرف زیر بحث ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف اس آرٹیکل کی زد میں ہیں، ہمارے محترم سیاست دانوں نے اس آرٹیکل کو آئین میں اس لیے شامل کیا تھا کہ یہ ایوبی دودھ کے جلے تھے اورآیندہ اس جلے دودھ سے بچنے کے لیے چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پی رہے تھے، ہمیں نہیں معلوم کہ دنیا کے دوسرے ملکوں کے آئین میں آرٹیکل 6 ٹائپ کی کوئی چیز موجود ہے یا نہیں اگرچہ ہم نے سیاسیات میں بھی ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے لیکن یہ ڈگری بھی ایوب خان کے دور میں ہی حاصل کی تھی اور اس حادثے کو گزرے اب لگ بھگ 40 سال ہورہے ہیں ۔
جمہوری طرز حکومت میں حکمراں چونکہ عوام کے منتخب کردہ ہوتے ہیں اس لیے انھیں یہ جمہوری حق حاصل ہوتاہے کہ وہ عوام کی بخشی ہوئی اپنے اقتدار کی مدت پوری کریں اور جو شخص یا گروہ رکاوٹ ڈالتاہے اسے اس غیر آئینی حرکت یعنی بغاوت کے جرم کا ارتکاب کرنے سے روکنے کے لیے ہمارے آئین میں آرٹیکل 6کو شامل کیا گیا، اس خوف کی وجہ 1958 میں ایک فوجی جنرل ایوب خان کا اقتدار پر قبضہ تھا۔ یہ جمہوریت سے بغاوت کرنے والے باغی کے لیے سزائے موت منصفانہ بھی ہے جمہوریت کے فروغ کے لیے ضروری بھی ہے لہٰذا کوئی جمہوریت پسند اس سزا کی مخالفت نہیں کرسکتا۔
لیکن اس سارے فسانے میں اس بات کا ذکر ہی نہیں ملتا جو جمہوریت کے عاشقوں کو ناگوار گزرتی ہے۔ دنیا میں آج تک جو سیاسی نظام متعارف کرائے گئے ہیں ان میں جمہوریت کو ایک ترقی یافتہ نظام نہ کہنا زیادتی ہوگی لیکن جمہوریت کو متعارف کرانے والوں نے جمہوریت کی ایک تعریف بھی کی ہے جسے ہم جمہوری کتاب کا پیش لفظ بھی کہہ سکتے ہیں اور وہ پیش لفظ یہ ہے ''عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے'' اس تین جملوں کے پیش لفظ میں پوری جمہوریت لپٹی ہوئی ہے اگر ہماری جمہوریت کا بغیر لاگ لپٹی کے جائزہ لینا ہو تو جمہوریت کے احترام سے دست کش ہونا بڑے گا اور یہ کام بڑے جان جوکھم کا ہے۔ جمہوریت کا مختصر مطلب عوام کو ان عذابوں سے نجات دلانا ہوتاہے جو سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام نے ان پر مسلط کیے ہیں، اس طرح جمہوریت عوامی مسائل کے حل سے مشروط ہوتی ہے، اسی بات کو جمہوریت متعارف کرانے والوں نے ''عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے'' کے کوزے میں بند کیا ہے۔
کیا جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کرنے والے لٹیروں کو عوام سے دھوکہ کرنے کے جرم میں ان فوجی جنرلوں سے زیادہ سخت سزا نہیں دی جانی چاہیے جو طاقت کے بل پر اقتدار پر قبضہ تو کرلیتے ہیں؟ ہمارے پڑوسی ملک بھارت ہی کو لے لیں جسے دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہے وہاں کی آبادی کا 40 فیصد حصہ بھی ہماری طرح غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہاہے۔ایکسپریس میں ایک معروف بھارتی دانشور اور صحافی کے کالم کا حوالہ دینا غلط نہیں ہوگا جس میں کلدیپ نائر نے کہا ہے ''جس چیز کا پارلیمنٹ کے منتخب جمہوری ارکان کو احساس ہے وہ یہ ہے کہ عوام سیاست دانوں سے متنفر اور بیزار ہوگئے ہیں حتیٰ کہ لفظ سیاست ہی تضحیک کا نشان بن چکا ہے'' بھارت کی فلموں میں راج نیتی (سیاست) اور راج نیتا سیاست دانوں کو جس قدر ذلیل کیا جاتاہے اسے دیکھ کر جمہوریت کی حقیقت کا اندازہ ہوتاہے۔ بھارت کی ''اس جمہوری کارکردگی'' سے ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیے جو سیاست دانوں کے اس بہانے سے متفق ہیں کہ ''پاکستان میں جمہوریت اس لیے ڈلیور نہیں کرسکی کہ یہاں فوجی آمروں نے بار بار مداخلت کرکے جمہوریت کو پروان چڑھنے ہی نہیں دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جمہوریت کے نام پر 35 سال سے عوام کے ساتھ جو فراڈ ہورہاہے، اس کے مجرموں کو آرٹیکل 6 کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔
ترقی ایک ارتقائی سفر کا نام ہے کوئی نظام مکمل نہیں، کوئی خیال، کوئی نظریہ، کوئی فلسفہ حتمی نہیں ہوتا، جمہوریت بھی سیاسی ارتقاء کا ایک حصہ ہے لیکن دانستہ یا نادانستہ اسے ارتقائی سفر کی آخری منزل سمجھ لیا گیا اگر کوئی نظریہ کوئی عقیدہ کوئی فلسفہ حتمی اور حرف آخر ہوجائے تو سماجی ارتقاء کی تھیوری بے معنی ہوجاتی ہے۔ ہم نے بار بار اپنے کالموں میں اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ سیاسی نظام عموماً اقتصادی نظام کی ڈھال کا کام انجام دیتاہے شخصی اور موروثی حکمرانوں اور نو آبادیاتی نظام کے آقائوں نے جاگیردارانہ نظام کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا، شخصی اور موروثی نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی جاگیردارانہ نظام کا کردار ختم ہوگیا۔ بھاپ کی زیارت کے بعد جو اقتصادی نظام فروغ پانے لگا وہ سرمایہ دارانہ نظام تھا اس نظام استحصال کے منصوبہ سازوں نے اس نظام کے تحفظ کے لیے جمہوری نظام ایجاد کیا اور اسے اپنے اقتصادی مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بنالیا۔ ہمارے ملک میں تو ابھی جاگیردارانہ ہی نہیں بلکہ قبائلی نظام موجود ہی نہیں بلکہ مستحکم بھی ہے اس نظام میں نام نہاد جمہوریت کا کردار کیا ہوسکتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کیوںکہ ہم اس کا مشاہدہ کررہے ہیں۔
آج اس جمہوریت کی کمزوری کا یہ عالم ہے کہ وہ قبائلی طاقتوں کے آگے بے بس ہوگئی ہے اور قبائلی نظام کے محافظ ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہہ رہے ہیں کہ ''ہم تمہاری جمہوریت کو ہٹاکر اپنا قبائلی نظام قائم کریںگے، جمہوریت کی اس کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ جمہوری حکمرانوں نے بھی ان طاقتوں کی پرورش میں اعانت کی، دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ جمہوریت نہ عوام کی حکومت ہے نہ عوام کے لیے ہے یہ خواص کی حکومت ہے خواص کے لیے ہے البتہ اسے عوام کے ذریعے لانے کا شاطرانہ طریقہ ضرور ایجاد کرلیا گیا ہے جس جمہوریت کا مقصد عوام کی بھلائی نہ ہو، جس جمہوریت کا مقصد عوامی مسائل کا حل نہ ہو، جس جمہوریت میں عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح استعمال کیا جاتا ہو، جس جمہوریت میں عوام کو تقسیم کرکے انھیں آپس میں لڑایا جاتا ہو اور اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے سے معذور رہتاہو، جس جمہوریت میں حکمرانوں اور اپوزیشن کا سب سے بڑا مقصد قومی دولت کی لوٹ مارہو، جس جمہوریت میں چھوٹے چھوٹے اداروں کے سربراہوں کو اربوں روپوں کی لوٹ مار کی آزادی ہو، اس جمہوریت کے کرتا دھرتائوں کو آرٹیکل 6 میں شامل نہیں کیاجانا چاہیے؟