ماسی مصیبتے
دن کے ڈھلتے ماسی تو اپنے گھر چلی جاتی ہے لیکن پھر سارا دن وہ پالیٹکس چلتی ہے جس کی جڑ ماسی ہوتی ہے
لاہور:
دنیا کے کسی بھی حصے میں کیوں نہ ہوں اگر آپ پاکستانی ہیں تو جانتے ہوں گے کہ پاکستان میں جہاں بجلی پانی اور مہنگائی ایک بڑا مسئلہ ہے وہیں خواتین کے لیے گھر میں کام کرنے والی ''ماسی'' کا مسئلہ بھی کسی قومی مسئلے سے کم نہیں ہے، ملک کا لیڈر صحیح طرح کام نہ کرے اپنے وعدے پورے نہ کرے تو خواتین کو اتنا غصہ نہیں آتا جتنا غصہ اس وقت آتا ہے جب گھر میں کام کرنے والی ماسی اپنا کام کرنے سے چوک جائے۔
ماسی کے کام پر آدھے گھنٹے دیر سے آنے اور میز کے نیچے کچرا چھوڑ دینے پر خواتین کا آگ بگولہ ہونا اتنا ہی عام ہے جتنا آج کل مارننگ شوز میں ایک ہی سیلیبرٹی کی بار بار شادی ہوتے دکھانا ہے۔ ٹی وی پر مارننگ شو ہوسٹ چیخ رہی ہوتی ہیں اور ٹی وی کے باہر موجود خاتون خانہ، ان کا شوگر، بلڈ پریشر، ٹمپریچر اور آواز سب اس لیے ہائی ہوتی ہے کیوں کہ ماسی گھر کے کام صحیح طرح نہیں کر رہی ہوتی اور اسی طرح ہوتا ہے ہمارے بیشتر پاکستانی گھروں میں صبح کا آغاز۔
دن کے ڈھلتے ماسی تو اپنے گھر چلی جاتی ہے لیکن پھر سارا دن وہ پالٹکس چلتی ہے جس کی جڑ ماسی ہوتی ہے ''اس گھر کی باجی نے یہ کہا تو اس گھر کی باجی نے یہ خرید لیا'' محلے کے ہر گھر کی کرکٹ میچ کی کمنٹری جہاں جس گھر میں یہ کام کرنے جاتی ہیں سنا دیتی ہیں۔
انٹرنیٹ، فیس بُک، ٹوئٹر بعد میں آئے پہلے آیا ''ماسی ٹو ماسی'' نیٹ ورک جس میں کوئی بھی خبر ایک ماسی سے دوسری ماسی تک پہنچ جاتی ہے اور منٹوں میں گھر میں پھیل جاتی ہے، گھر میں کسی کی لڑکی کا رشتہ آیا ہو تو لڑکے والے ابھی لڑکی کے گھر سے نکلے بھی نہیں ہوتے کہ ماسی نیٹ ورک کے ذریعے خبر صبح کے اخبار کو شام میں پڑھنے جیسی پرانی ہوچکی ہوتی ہے۔
چار گھر چھوڑ کر رہنے والی شائستہ کا سامنے والی فرزانہ سے بغیر کبھی بات کیے ماسی ٹو ماسی نیٹ ورک کی وجہ سے ایسا جھگڑا ہوچکا ہوتا ہے کہ کبھی ایک دوسرے کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتیں۔
ماسی نے ٹیبل کے نیچے سے جھاڑو لگا بھی دی تو میم صاحب کا پارہ اس لیے چڑھا ہوتا ہے کیوں کہ ماسی کی خبروں کے مطابق پڑوسن نے میم صاحب کے کسی فیشن کا مذاق اڑایا۔
گھر میں شام کو تھکے ہارے آئے صاحب بیگم صاحبہ کا مسئلہ ماسی کی ایکسپریس نیوز سے زیادہ بریکنگ نیوز سننے کے بعد یہ کہہ کر بات ٹال دیتے ہیں کہ چھوڑو بیگم یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
ہم ان سارے ہی حضرات کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ ماسی بڑا نہیں ہے کہ یہ مسئلہ اتنا بڑا ہے کہ ایک ''ماسی'' کی وجہ سے امریکا اور انڈیا لڑنے پر تیار ہوگئے ہیں، فلم اسٹار شاہ رخ خان کو امریکن ایئرپورٹ سیکیورٹی نے ہوائی اڈے پر دو گھنٹے بٹھائے رکھا تو انڈیا نے کچھ نہیں بولا۔ بالکل برا نہیں مانا۔ سابق صدر ابوالکلام کے ساتھ بھی امریکن ایئرپورٹ پر کچھ ایسا ہی برتاؤ ہوا۔ یہ بات بھی انڈیا نے برداشت کرلی۔ انڈیا بہت دور کی سوچتا ہے وہ امریکا سے اپنے تعلقات ہر حال میں اچھے رکھنا چاہتا ہے جتنے تجارتی تعلقات امریکا نے سافٹ ویئر انڈسٹری، آؤٹ سورسنگ اور امپورٹ میں انڈیا سے بڑھائے ہیں پچھلے دس سال میں کسی بھی دوسرے ایشین ملک سے نہیں بڑھائے یعنی کل ملاکر امریکا انڈیا پکی والی سہیلیاں ہیں لیکن اب ان کے بیچ ''ماسی'' آگئی۔دیویانی کوبرا جادی انتالیس سالہ ایک ہندوستانی سفارتکار ہیں جو نیویارک کے انڈین قونصلیٹ میں ڈپٹی قونصلر کے عہدے پر مامور تھیں، دسمبر 12 کو مین ہٹن کے علاقے میں دیویانی جب اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے کے بعد گاڑی میں بیٹھ رہی تھیں تو انھیں امریکن مارشل نے گرفتار کرلیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنے اسٹیشن لے جاکر جامہ تلاشی بھی کی اور ڈرگس میں ملوث ملزمان کے ساتھ سیل میں بند کردیا۔ ان کا جرم تھا اپنی ''ماسی'' کو پوری تنخواہ نہ دینا۔
دیویانی نے اپنی ماسی کو انڈیا سے بلوایا تھا اور ویزا درخواست میں یہ لکھا تھا کہ وہ انھیں کم ازکم 9.75 ڈالر فی گھنٹہ کی تنخواہ دیں گی جو نیویارک اسٹیٹ میں لیبر لا کے مطابق کم سے کم تنخواہ ہے لیکن انھوں نے صرف 3.31 ڈالر فی گھنٹہ تنخواہ دی۔ کئی سال کام کرنے کے بعد دیویانی کو لگا کہ ماسی گھر میں چوریاں کرتی ہے اور اس سے پہلے کہ ماسی کو وہ رنگے ہاتھوں پکڑ پاتی ماسی ان کے گھر سے فرار ہوگئی۔
جون 2013 میں ماسی نے انڈین گورنمنٹ کو دھمکی دی کہ وہ امریکن حکومت سے مدد مانگیں گی اور دیویانی کے خلاف شکایت کریں گی۔ انڈین ہائی کمیشن نے ماسی سے کہا کہ انھیں جو بھی شکایت ہے وہ ان سے کہیں۔ اس معاملے کو امریکن حکام تک نہ لے جائیں، لیکن ماسی کا ارادہ پکا تھا اور بالآخر دسمبر میں اس کی شکایت پر یو ایس مارشلز نے دیویانی کو گرفتار کرلیا اور اس وقت تک حراست میں رکھا جب تک قونصلیٹ والوں نے بانڈ بھر کر انھیں رہا نہیں کروایا۔ ٹی وی سے لے کر اخبار اور عام لوگوں تک امریکا کے خلاف غصہ۔۔۔۔ہم پر ڈرون گرنا انڈیا کو بڑی بات نہیں لگتی لیکن ایک ماسی کی شکایت پر پورا انڈیا مچل اٹھا، کسی ٹی وی شو پر دیویانی کے والد بیٹھے اور کسی پر ان کی پرانی پڑوسن بیٹھی، دیویانی کے اچھے کردار کے قصے سناتے دکھائی دیے۔ مسئلہ ان کا کردار نہیں مسئلہ ہے ماسی کا جن کو انھوں نے تنخواہ بھی کم دی اور اوپر سے چوری کا الزام بھی لگادیا۔ جس طرح امریکا ہم سے اسامہ بن لادن کو ہمارے حوالے کردو والی مانگ کر رہا تھا ویسے ہی ہندوستان آج ماسی کو ہمارے حوالے کردو والی درخواست امریکا سے کر رہا ہے۔
امریکا میں ہندوستانی جگہ جگہ احتجاج کر رہے ہیں ہمارے ساتھ بہت غلط ہوا، امریکا نے ہمارے ساتھ بہت غلط کیا۔ امریکا کو ہم سے معافی مانگنی چاہیے وہی ہندوستانی جو ہر کچھ دن میں امریکا کی سڑکوں پر ہولی دیوالی مناتے نظر آتے ہیں آج کل ایسے غصے میں ہیں جیسے اگلے ہفتے ہی سب بوریا بسترا باندھ کر انڈیا چلے جائیں گے۔
اب اگر انڈیا اور امریکا کے تعلقات یہاں سے خراب ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور وہ کچھ عرصے میں دشمن بن جاتے ہیں تو اس کا سہرا تین ڈالر گھنٹے۔۔۔۔ہمارا مطلب ہے نو ڈالر گھنٹے پر کام کرنے والی ماسی کو جاتا ہے۔
برصغیر کے یا ساؤتھ ایشین انجینئرز، ڈاکٹرز اور سائنسدان سے زیادہ طاقتور آج ایک ماسی ہوچکی ہے، یہ دو ملکوں کو لڑوانے کی طاقت رکھتی ہے اس لیے اگلی بار میز کے نیچے کچرا چھوڑ دینے پر ماسی پر غصہ کرنے سے پہلے ذرا سوچ لیجیے گا!