چھ بہادر جج
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں جسٹس افتخارچوہدری کا نام ان پانچ ججوں کے ساتھ لیا جائے گا جنھیں ہم نے بہادر جج قراردیا
لاہور:
''دور افتخار'' اپنے اختتام کو پہنچا۔ ایک ٹی وی چینل پر جسٹس افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ پر ایک مذاکرہ تھا۔ رخصت ہونے والے جج کے فیصلوں پر تعریف و تنقید کا ہجوم ہے۔ ایسے میں راقم نے کہا کہ اب وہ تاریخ کے حوالے ہیں۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ان کا نام ان پانچ ججوں کے ساتھ لیا جائے گا جنھیں ہم نے بہادر جج قرار دیا۔ الیکٹرانک چینلز کے مباحثوں میں گفتگو مختصراً ہوا کرتی ہے۔ کالم نگاری یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ اس بات کو تفصیل سے قارئین کے سامنے بیان کیا جائے۔
جسٹس عبدالرشید پاکستان کے پہلے بہادر جج تھے۔ انھیں قائد اعظم سے بطور گورنر جنرل کا حلف لینے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ لیاقت علی خان وزیر اعظم تھے اور انھوں نے جسٹس رشید کو ایک تقریب میں مدعو کیا۔ پاکستان کے چیف جسٹس نے وزیر اعظم کی دعوت شکریہ کے ساتھ مسترد کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے سیکڑوں مقدمات عدالت کے رو برو پیش ہوتے ہیں جن میں انتظامیہ فریق ہوتی ہے۔ اب ملک کے چیف ایگزیکٹیو کی دعوت قبول کرنے کا مطلب ایک فریق مقدمہ کی پذیرائی قرار پائے گا جو دوسرے فریق کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ ملک نیا نیا آزاد ہوا تھا اور لیاقت علی خان بانی پاکستان کے دست راست تھے۔ ان کی مقبولیت اور تحریک آزادی میں قربانیاں عوام کے سامنے تھیں۔ اس کے باوجود بھی ایک منصف نے بغیر کسی دباؤ کو قبول کیے انصاف کے راستے کی پہلی شمع روشن کی۔ دوسری شمع سندھ کی اعلیٰ عدلیہ نے روشن کی جب انھوں نے مولوی تمیز الدین کی درخواست کو پذیرائی بخشی۔ گورنر جنرل غلام محمد کے اسمبلی توڑنے کے اقدام کو غلط قرار دے دیا گیا۔ اس فیصلے کو بعد میں فیڈرل کورٹ کے سربراہ جسٹس منیر نے کالعدم قرار دے دیا۔ ایک صوبے کی کورٹ کا یہ اجتماعی فیصلہ تھا جس میں کوئی ایک بہادر جج تو ابھر کر سامنے نہیں آسکا لیکن تاریخ اس فیصلے کو پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کا پہلا شاندار فیصلہ قرار دے رہی ہے۔
ایوب دور اپنے عروج پر تھا۔ جسٹس کارنیلئس پاکستان کے چیف جسٹس تھے۔ حکومت نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کردی اور معاملہ مغربی و مشرقی پاکستان کی ہائی کورٹ کے حوالے کردیا گیا۔ ڈھاکہ میں فیصلہ حکومت کے خلاف اور لاہور میں حق میں آیا۔ دونوں نے سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ یہ 1964 کی بات ہے جب ایوب خان ملک کے بظاہر بے تاج بادشاہ تھے۔ ان کی خواہش کے مطابق فیصلہ نہ دے کر جسٹس کارنیلئس نے ثابت کیا کہ وہ جسٹس عبدالرشید کے بعد دوسرے بہادر جج ہیں۔ اسی دور میں جسٹس ایم آر کیانی نے بھی ایک بہادر و بے باک مقرر و قلمکار ہونے کا ثبوت دیا۔ کیانی صاحب کو پاکستان کی عدلیہ کا سربراہ بننے کا موقع تو نہ ملا لیکن انھوں نے ثابت کیا کہ سچائی پر ثابت قدم رہا جاسکتا ہے۔ مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے سربراہ محمد رستم کیانی صرف نام کے نہیں بلکہ کام اور کلام کے بھی رستم ثابت ہوئے۔ سول سروس سے عدلیہ میں جانے والے جسٹس کیانی کی بے باک و بے خوف تقاریر نے مارشل لائی خوف سے عوام کو نکالا۔ 62 میں ریٹائر ہونے والے اس جج نے اسی سال وفات پائی۔ ہم جسٹس ایم آر کیانی کو پاکستان کا تیسرا بہادر جج کہہ سکتے ہیں۔
جنرل ضیا کا مارشل لا تھا۔ پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو زیر عتاب تھے۔ ابتدائی دور کی فوجی حکومت بڑی سخت ہوا کرتی ہے، حکومت نے محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں بھٹو کو جیل میں ڈال دیا۔ جسٹس صمدانی کے رو برو ان کی درخواست ضمانت کی سماعت ہوئی۔ ایک طرف حکومت کی خواہش تھی تو دوسری طرف سابق وزیر اعظم زیر حراست تھے۔ اقتدار کا ہما عوامی نمایندے کے بجائے فوجی جنرل کے سر پر سجا ہوا تھا۔ ایسے میں حکومت کی منشا کے خلاف بھٹو کو ضمانت دے کر جسٹس خواجہ محمد صمدانی نے ایک اور بہادر جج ہونے کا ثبوت دیا۔ وہ کسی صوبائی عدالت کے بھی چیف نہ تھے بلکہ ہائی کورٹ کے ایک جج تھے۔ گو کہ مارشل لا دور میں بڑے عہدے کی زیادہ اہمیت نہیں کہ یہاں تو پاکستان کے چیف جسٹس کو بھجوانے کی کئی کہانیاں موجود ہیں۔ ان تمام تر کمزوریوں کے باوجود جسٹس ایم کے صمدانی نے تاریخ کے روبرو اپنے آپ کو ایک نڈر جج ثابت کیا۔ 81 میں پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھا کر انھوں نے بے باکی کا ایک اور ثبوت پیش کردیا تو پھر کیوں نہ ہم انھیں پاکستان کا چوتھا بہادر جج کہیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ کو پاکستان کا پانچواں بہادر جج قرار دیا جاسکتا ہے۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی سربراہی اور ریٹائرمنٹ ان کی ضرور متنازعہ رہی ہیں۔ وہ سینیارٹی میں چوتھے نمبر پر تھے۔ گو کہ بے نظیر دور میں پاکستان کی عدلیہ کی سربراہی کے لیے سینیارٹی کی آئینی شرط نہ تھی لیکن روایت ضرور تھی۔ جب سجاد علی شاہ کو پاکستان کا چیف جسٹس بنایا گیا تو ان سے کچھ حکومتی ضروریات کے تقاضے نبھانے کی توقعات تھیں۔ جسٹس شاہ سے الفت کے تقاضے نہ نبھائے گئے۔ مارچ 96 میں انھوں نے عدلیہ کو انتظامیہ کی گرفت سے نکالنے کے لیے مشہور ''ججز کیس'' کا فیصلہ دیا۔ تقریباً دو عشرے گزر جانے پر ممکن ہے کہ سیاست اور قانون کے طالب علم اس کشمکش کو بھلا بیٹھے ہوں، وہ کشمکش جس سے ایک چیف جسٹس کو سابقہ پیش آیا۔ دو مقبول ترین وزرا اعظم سے الجھاؤ اور اپنے ساتھی ججوں سے تنازعہ۔
پاکستان کے پانچویں بہادر جج نے واقعتاً آزاد عدلیہ کی بنیاد رکھی۔ اس دور میں صوبائی عدالتوں کو دباؤ میں رکھنے کے لیے قائم مقام چیف جسٹس بنائے جاتے۔ حکومت کی مرضی کے مطابق فیصلہ نہ دینے والے ججوں کو سزا دینے کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ بھیج دیا جاتا۔ چیف جسٹس کی بنچ توڑنے کے لیے انھیں قائم مقام گورنر بنا دیا جاتا۔ ہائی کورٹ کے مستقل ججوں کو سپریم کورٹ بھجوایا جاتا تو عبوری جج بنا کر۔ عدالت عظمیٰ کے جج کو صوبے کا قائم مقام چیف جسٹس بنا کر غیر یقینی کی کیفیت پیدا کردی جاتی۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے فیصلہ دے کر انتظامیہ اور حکومت کے ہاتھوں سے وہ قینچی چھین لی جو وہ عدلیہ کے پر کاٹنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ طبع نازک پر یہ فیصلہ گراں گزرا۔ بے نظیر حکومت سے جسٹس شاہ کی کشمکش شروع ہوئی کہ انھوں نے پیپلز پارٹی کے من پسند وکلا کو جج بنانے سے انکار کردیا۔ بے نظیر کے فاروق لغاری سے اختلاف پیدا ہوئے اور صدر نے حکومت برطرف کردی۔ انتخابات ہوئے تو فروری 97 میں نواز شریف برسر اقتدار آگئے۔
نواز شریف نے بطور قائد حزب اختلاف جسٹس شاہ کے فیصلوں کو سراہا۔ جب ان کے دور اقتدار میں چیف جسٹس نے لاہور ہائیکورٹ کے دو سینئر ججوں کو سپریم کورٹ طلب کیا تو حکومت نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ ایک بار پھر نواز حکومت اور سجاد علی شاہ کا تنازعہ شروع ہوا۔ توہین عدالت کے الزام میں وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ میں حاضر ہوئے۔ دوسرے شہروں میں کام کرنیوالے سپریم کورٹ کے جج صاحبان اسلام آباد آئے اور انھوں نے اپنے ہی چیف جسٹس کی تقرری کو ڈی نوٹیفائی کردیا۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ رخصت ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد ان کے برادر ججز بھی زیادہ وقت عدلیہ میں نہ گزار سکے لیکن تاریخ سجاد علی شاہ کو بے باک اور آج کا کالم انھیں پاکستان کا پانچوں بہادر جج قرار دے رہا ہے۔
جسٹس افتخار چوہدری کے بارے میں اتنی باتیں ہو چکی ہیں کہ قارئین کے لیے ہماری باتیں ان کی کسی معلومات میں خاص اضافے کا سبب نہیں بنیں گی۔ آج ان پر تنقید کرنے والوں کے مفادات بھی ہو سکتے ہیں اور ذاتی پسند و نا پسند بھی۔ دیگر ججوں کی طرح جسٹس چوہدری بھی تاریخ کے روبرو ہیں۔ وہ پاکستان کے ایک ایسے طاقتور عدالتی سربراہ رہے جن کے پیچھے عوامی قوت تھی۔ انھوں نے عدلیہ کو ناقابل فراموش اہمیت عطا کی۔ اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ ان کے پاس جرأت کے علاوہ طویل وقت بھی تھا۔ آٹھ برسوں میں اگر دو سال کا عرصہ نکال بھی دیا جائے تو وہ چھ برسوں تک فعال چیف جسٹس رہے۔ ٹی وی کے مباحثے میں اینکر پرسن جناب نصرت مرزا کے سوال کے جواب میں مختصراً ان جج صاحبان کا ذکر کیا۔ تفصیل کا موقع وہاں تو نہیں تھا لیکن کالم میں ضرور رہا اسی لیے بیان کردیا کہ کون تھے پاکستانی عدلیہ کے چھ بہادر جج۔
''دور افتخار'' اپنے اختتام کو پہنچا۔ ایک ٹی وی چینل پر جسٹس افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ پر ایک مذاکرہ تھا۔ رخصت ہونے والے جج کے فیصلوں پر تعریف و تنقید کا ہجوم ہے۔ ایسے میں راقم نے کہا کہ اب وہ تاریخ کے حوالے ہیں۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ان کا نام ان پانچ ججوں کے ساتھ لیا جائے گا جنھیں ہم نے بہادر جج قرار دیا۔ الیکٹرانک چینلز کے مباحثوں میں گفتگو مختصراً ہوا کرتی ہے۔ کالم نگاری یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ اس بات کو تفصیل سے قارئین کے سامنے بیان کیا جائے۔
جسٹس عبدالرشید پاکستان کے پہلے بہادر جج تھے۔ انھیں قائد اعظم سے بطور گورنر جنرل کا حلف لینے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ لیاقت علی خان وزیر اعظم تھے اور انھوں نے جسٹس رشید کو ایک تقریب میں مدعو کیا۔ پاکستان کے چیف جسٹس نے وزیر اعظم کی دعوت شکریہ کے ساتھ مسترد کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے سیکڑوں مقدمات عدالت کے رو برو پیش ہوتے ہیں جن میں انتظامیہ فریق ہوتی ہے۔ اب ملک کے چیف ایگزیکٹیو کی دعوت قبول کرنے کا مطلب ایک فریق مقدمہ کی پذیرائی قرار پائے گا جو دوسرے فریق کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ ملک نیا نیا آزاد ہوا تھا اور لیاقت علی خان بانی پاکستان کے دست راست تھے۔ ان کی مقبولیت اور تحریک آزادی میں قربانیاں عوام کے سامنے تھیں۔ اس کے باوجود بھی ایک منصف نے بغیر کسی دباؤ کو قبول کیے انصاف کے راستے کی پہلی شمع روشن کی۔ دوسری شمع سندھ کی اعلیٰ عدلیہ نے روشن کی جب انھوں نے مولوی تمیز الدین کی درخواست کو پذیرائی بخشی۔ گورنر جنرل غلام محمد کے اسمبلی توڑنے کے اقدام کو غلط قرار دے دیا گیا۔ اس فیصلے کو بعد میں فیڈرل کورٹ کے سربراہ جسٹس منیر نے کالعدم قرار دے دیا۔ ایک صوبے کی کورٹ کا یہ اجتماعی فیصلہ تھا جس میں کوئی ایک بہادر جج تو ابھر کر سامنے نہیں آسکا لیکن تاریخ اس فیصلے کو پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کا پہلا شاندار فیصلہ قرار دے رہی ہے۔
ایوب دور اپنے عروج پر تھا۔ جسٹس کارنیلئس پاکستان کے چیف جسٹس تھے۔ حکومت نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کردی اور معاملہ مغربی و مشرقی پاکستان کی ہائی کورٹ کے حوالے کردیا گیا۔ ڈھاکہ میں فیصلہ حکومت کے خلاف اور لاہور میں حق میں آیا۔ دونوں نے سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ یہ 1964 کی بات ہے جب ایوب خان ملک کے بظاہر بے تاج بادشاہ تھے۔ ان کی خواہش کے مطابق فیصلہ نہ دے کر جسٹس کارنیلئس نے ثابت کیا کہ وہ جسٹس عبدالرشید کے بعد دوسرے بہادر جج ہیں۔ اسی دور میں جسٹس ایم آر کیانی نے بھی ایک بہادر و بے باک مقرر و قلمکار ہونے کا ثبوت دیا۔ کیانی صاحب کو پاکستان کی عدلیہ کا سربراہ بننے کا موقع تو نہ ملا لیکن انھوں نے ثابت کیا کہ سچائی پر ثابت قدم رہا جاسکتا ہے۔ مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے سربراہ محمد رستم کیانی صرف نام کے نہیں بلکہ کام اور کلام کے بھی رستم ثابت ہوئے۔ سول سروس سے عدلیہ میں جانے والے جسٹس کیانی کی بے باک و بے خوف تقاریر نے مارشل لائی خوف سے عوام کو نکالا۔ 62 میں ریٹائر ہونے والے اس جج نے اسی سال وفات پائی۔ ہم جسٹس ایم آر کیانی کو پاکستان کا تیسرا بہادر جج کہہ سکتے ہیں۔
جنرل ضیا کا مارشل لا تھا۔ پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو زیر عتاب تھے۔ ابتدائی دور کی فوجی حکومت بڑی سخت ہوا کرتی ہے، حکومت نے محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں بھٹو کو جیل میں ڈال دیا۔ جسٹس صمدانی کے رو برو ان کی درخواست ضمانت کی سماعت ہوئی۔ ایک طرف حکومت کی خواہش تھی تو دوسری طرف سابق وزیر اعظم زیر حراست تھے۔ اقتدار کا ہما عوامی نمایندے کے بجائے فوجی جنرل کے سر پر سجا ہوا تھا۔ ایسے میں حکومت کی منشا کے خلاف بھٹو کو ضمانت دے کر جسٹس خواجہ محمد صمدانی نے ایک اور بہادر جج ہونے کا ثبوت دیا۔ وہ کسی صوبائی عدالت کے بھی چیف نہ تھے بلکہ ہائی کورٹ کے ایک جج تھے۔ گو کہ مارشل لا دور میں بڑے عہدے کی زیادہ اہمیت نہیں کہ یہاں تو پاکستان کے چیف جسٹس کو بھجوانے کی کئی کہانیاں موجود ہیں۔ ان تمام تر کمزوریوں کے باوجود جسٹس ایم کے صمدانی نے تاریخ کے روبرو اپنے آپ کو ایک نڈر جج ثابت کیا۔ 81 میں پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھا کر انھوں نے بے باکی کا ایک اور ثبوت پیش کردیا تو پھر کیوں نہ ہم انھیں پاکستان کا چوتھا بہادر جج کہیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ کو پاکستان کا پانچواں بہادر جج قرار دیا جاسکتا ہے۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی سربراہی اور ریٹائرمنٹ ان کی ضرور متنازعہ رہی ہیں۔ وہ سینیارٹی میں چوتھے نمبر پر تھے۔ گو کہ بے نظیر دور میں پاکستان کی عدلیہ کی سربراہی کے لیے سینیارٹی کی آئینی شرط نہ تھی لیکن روایت ضرور تھی۔ جب سجاد علی شاہ کو پاکستان کا چیف جسٹس بنایا گیا تو ان سے کچھ حکومتی ضروریات کے تقاضے نبھانے کی توقعات تھیں۔ جسٹس شاہ سے الفت کے تقاضے نہ نبھائے گئے۔ مارچ 96 میں انھوں نے عدلیہ کو انتظامیہ کی گرفت سے نکالنے کے لیے مشہور ''ججز کیس'' کا فیصلہ دیا۔ تقریباً دو عشرے گزر جانے پر ممکن ہے کہ سیاست اور قانون کے طالب علم اس کشمکش کو بھلا بیٹھے ہوں، وہ کشمکش جس سے ایک چیف جسٹس کو سابقہ پیش آیا۔ دو مقبول ترین وزرا اعظم سے الجھاؤ اور اپنے ساتھی ججوں سے تنازعہ۔
پاکستان کے پانچویں بہادر جج نے واقعتاً آزاد عدلیہ کی بنیاد رکھی۔ اس دور میں صوبائی عدالتوں کو دباؤ میں رکھنے کے لیے قائم مقام چیف جسٹس بنائے جاتے۔ حکومت کی مرضی کے مطابق فیصلہ نہ دینے والے ججوں کو سزا دینے کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ بھیج دیا جاتا۔ چیف جسٹس کی بنچ توڑنے کے لیے انھیں قائم مقام گورنر بنا دیا جاتا۔ ہائی کورٹ کے مستقل ججوں کو سپریم کورٹ بھجوایا جاتا تو عبوری جج بنا کر۔ عدالت عظمیٰ کے جج کو صوبے کا قائم مقام چیف جسٹس بنا کر غیر یقینی کی کیفیت پیدا کردی جاتی۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے فیصلہ دے کر انتظامیہ اور حکومت کے ہاتھوں سے وہ قینچی چھین لی جو وہ عدلیہ کے پر کاٹنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ طبع نازک پر یہ فیصلہ گراں گزرا۔ بے نظیر حکومت سے جسٹس شاہ کی کشمکش شروع ہوئی کہ انھوں نے پیپلز پارٹی کے من پسند وکلا کو جج بنانے سے انکار کردیا۔ بے نظیر کے فاروق لغاری سے اختلاف پیدا ہوئے اور صدر نے حکومت برطرف کردی۔ انتخابات ہوئے تو فروری 97 میں نواز شریف برسر اقتدار آگئے۔
نواز شریف نے بطور قائد حزب اختلاف جسٹس شاہ کے فیصلوں کو سراہا۔ جب ان کے دور اقتدار میں چیف جسٹس نے لاہور ہائیکورٹ کے دو سینئر ججوں کو سپریم کورٹ طلب کیا تو حکومت نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ ایک بار پھر نواز حکومت اور سجاد علی شاہ کا تنازعہ شروع ہوا۔ توہین عدالت کے الزام میں وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ میں حاضر ہوئے۔ دوسرے شہروں میں کام کرنیوالے سپریم کورٹ کے جج صاحبان اسلام آباد آئے اور انھوں نے اپنے ہی چیف جسٹس کی تقرری کو ڈی نوٹیفائی کردیا۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ رخصت ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد ان کے برادر ججز بھی زیادہ وقت عدلیہ میں نہ گزار سکے لیکن تاریخ سجاد علی شاہ کو بے باک اور آج کا کالم انھیں پاکستان کا پانچوں بہادر جج قرار دے رہا ہے۔
جسٹس افتخار چوہدری کے بارے میں اتنی باتیں ہو چکی ہیں کہ قارئین کے لیے ہماری باتیں ان کی کسی معلومات میں خاص اضافے کا سبب نہیں بنیں گی۔ آج ان پر تنقید کرنے والوں کے مفادات بھی ہو سکتے ہیں اور ذاتی پسند و نا پسند بھی۔ دیگر ججوں کی طرح جسٹس چوہدری بھی تاریخ کے روبرو ہیں۔ وہ پاکستان کے ایک ایسے طاقتور عدالتی سربراہ رہے جن کے پیچھے عوامی قوت تھی۔ انھوں نے عدلیہ کو ناقابل فراموش اہمیت عطا کی۔ اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ ان کے پاس جرأت کے علاوہ طویل وقت بھی تھا۔ آٹھ برسوں میں اگر دو سال کا عرصہ نکال بھی دیا جائے تو وہ چھ برسوں تک فعال چیف جسٹس رہے۔ ٹی وی کے مباحثے میں اینکر پرسن جناب نصرت مرزا کے سوال کے جواب میں مختصراً ان جج صاحبان کا ذکر کیا۔ تفصیل کا موقع وہاں تو نہیں تھا لیکن کالم میں ضرور رہا اسی لیے بیان کردیا کہ کون تھے پاکستانی عدلیہ کے چھ بہادر جج۔