بھٹائی محبت‘ امن اور انسان دوستی کے پیامبر

شاہ لطیف نے کوٹری سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ریت کے ایک ٹیلے کو اپنا مسکن بنایا

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

اہل علم ودانش کہتے ہیں کہ شاعری وہ آئینہ ہے جس میں نہ صرف شاعر کی زندگی اور شخصیت کا عکس نظر آتا ہے بلکہ زمانے کی نیرنگیاں اور معاشرے کی پرچھائیاں بھی دکھائی دیتی ہیں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آئینے کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی سندھ دھرتی کے وہ عظیم صوفی شاعر ہیں کہ جنھوں نے اپنی شاعری میں سندھ کے سیاسی فکر و تصور کا نقشہ کھینچا ہے۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی سندھ کے قصبے ہالا حویلی میں 1102 بمطابق 1689 میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام شاہ حبیب تھا جب کہ آپ کے دادا سندھ میں شاہ کریم بلڑی والے کے نام سے مشہور تھے ۔شاہ لطیفؒ کے بارے میں اکثر مورخین کا کہنا ہے کہ آپ نے باقاعدہ کسی مدرسے میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن آپ کی شاعری اور کلام دیکھ کر اس بات کا کہیں سے بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ آپ ان پڑھ تھے آپ کو عربی، فارسی، ہندی اور سندھی زبان پر خاصا عبور حاصل تھا۔ شاہ لطیف کی شاعری کا مجموعہ ''شاہ جو رسالو'' کے نام سے معروف ہے ۔سندھ کے معروف شعرا شیخ ایاز اور آغا سلیم نے شاہ جو رسالو کے منظوم تراجم کیے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ادب کی گہری تخیلاتی دنیا میں سندھی زبان نے اگر کوئی کلاسیکیت پیدا کی ہے تو وہ ان کی تصوف پر مبنی نظمیں ہیں جن کا مجموعہ شاہ جو رسالو ہے۔ ایک مرتبہ جرمن اسکالر اور ماہر لسانیات ڈاکٹر این میری شمل نے کہا تھا کہ انگریزی کلاسیکی شاعری کی بہت بڑی شخصیات کو میں نے پڑھا ہے وہ لوگ کسی طرح لطیف سے بڑے کلاسیکل شاعر نہیں ہیں اور ڈاکٹر شمل نے کہا تھا کہ سندھی سیکھنے کی میری سب سے بڑی وجہ لطیف کو سمجھنا تھا مگر شاہ لطیف کے ساتھ ستم یہ ہوا کہ ان کی زبان صرف وہ سمجھتے ہیں جنھیں سندھی پر پورا عبور ہو، عام سندھی بول چال میں لطیف کی زبان مفقود ہے۔ آپ نے جو کچھ حاصل کیا وہ اپنے ذاتی شوق، ذاتی لگن اور ذاتی کاوش سے حاصل کیا اور قرآن حکیم، مثنوی مولانا روم اور شاہ کریم کے ابیات کو ہمیشہ اپنے زیر مطالعہ رکھا۔

آغاز جوانی میں جب آپ کی عمر تقریباً 20 سال تھی تو شاہ سائیں کو کوٹری کے مغل نواب مرزا مغل بیگ کی بیٹی سیدہ بیگم سے عشق ہوگیا اور آپ اس عشق میں گرفتار ہوکر معرفت الٰہی تک جا پہنچے اور اپنی محبوبہ کو پانے کی جستجو میں مگن رہنے لگے۔ اپنے عشق کو پانے کی تڑپ نے انھیں جوگی بنادیا، انھوں نے گہرے پیلے رنگ کا لباس پہننا شروع کردیا، ایک چھڑی اٹھالی، صندل کی لکڑی سے بنا ایک پیالہ کھانے اور شفاف پتھر سے بنا دوسرا پیالہ پینے کے لیے ساتھ لیا اور جنگل کی جانب نکل گئے۔ یہ واقعی ان کی کرامت ہے کہ 43 برس کی بقیہ زندگی میں یہی دونوں پیالے اور چھڑی ان کے ساتھ رہے، نہ ٹوٹے اور نہ گم ہوئے، یہ چیزیں آج بھی ان کے مزار پر موجود ہیں۔ اسی زمانے میں ان کی ملاقات مخدوم محمد حسین شاہ سے ہوئی۔ انھوں نے اپنی روحانی قوت سے شاہ سائیں کے دل و دماغ کو ریاضت کی بھٹی سے گزار کے سونا بنادیا۔ دل کا درد، عشق کی تڑپ، چاہت کا سیل بے کراں، فراق کی مجبوریاں، سفر کی صعوبتیں، یہ سارے تجربے اور تمام دکھ درد ان کی شاعری میں ڈھل گئے تھے اور انھوں نے اس درد اور تڑپ کو سسی، مومل اور ماروی کی داستان میں سمو کر اہل دل کے سامنے پیش کردیا۔

شاہ لطیف نے کوٹری سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ریت کے ایک ٹیلے کو اپنا مسکن بنایا چونکہ ریت کو سندھی میں بھٹ کہتے ہیں اس لیے آپ سائیں عبداللطیف بھٹائی کے نام سے مشہور ہوگئے۔ سائیں لطیف وڈیروں ، جاگیرداروں اور نوابوں سے دور بھوکے اور مظلوم عوام کے ساتھ رہنا پسند کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کا سارا دکھ درد شاہ کے کلام میں نظر آتا ہے، شاہ لطیف نے بے شمار سر اور تال ایجاد کیے وہ امیر خسروؒ کے بعد سروں کے سب سے بڑے موجد ہیں اور ان کو بجا طور پر سندھی زبان و ادب کا امیر خسروؒ کہا جاسکتا ہے۔ شاہ لطیفؒ کی شاعری عشق حقیقی کا مظہر اور معرفت الٰہی کا بہترین نمونہ ہے آپ نے اپنی شاعری میں وحدانیت و محبت کا عظیم درس دیا ہے۔


شاہ لطیفؒ کا ''سرسری راگ'' سندھ کی سیاست پر مبنی اس وقت کے اور آج کے سیاسی حالات کا حقیقی عکس نظر آتا ہے۔ شاہ لطیفؒ اپنے عہد میں انگریزوں کی آمد اور ان کے خطرناک عزائم کی نشاندہی اپنی شاعری میں بیان کرتے رہے۔ شاہ لطیفؒ نے اپنی شاعری میں سندھ کی دھرتی کو کشتی سے تشبیہہ دی ہے سندھ کے حکمرانوں کو اپنے استعارے کی زبان میں اس بات کی تلقین کی ہے کہ اگر سمندر کی موجوں سے اس کشتی کو محفوظ اور بچانا ہے تو ان باتوں کا خیال ضرور رکھنا کہ یہ کشتی پرانی ہوچکی ہے۔ سمندر کی تیز و تند موجوں کا اب یہ کشتی، مقابلہ نہیں کرسکتی، کشتی کی پچھلی طرف سے چور داخل ہو رہے ہیں۔ لہٰذا غفلت کی نیند سے جاگنا اور کشتی کو بچانا ضروری ہے۔ شاہ لطیفؒ کی شاعری کا پیغام اس بات کی بھرپور ترجمانی کر رہا ہے کہ شاہ صاحب کی دور بین نگاہوں نے سندھ کے مستقبل کا مشاہدہ کرلیا تھا اور سندھ کے آنے والے حالات سے پیشگی طور پر آگاہ کر رہے تھے سندھ جو امن و آشتی کی دھرتی ہے اس دھرتی پر گزشتہ کئی برس پہلے انسان انسان کا دشمن اور خون کا پیاسا ہوگیا تھا، روئے زمین پر جب انسان پر حیوانیت غالب آجائے اور انسانیت محو خواب ہو تو ایسے موقعے پر شاہ لطیفؒ کے نزدیک اس کی اصلاح کی اشد ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ ضمیر کا جاگنا نہایت ضروری ہے اور عقل و شعور کے خنجر سے ہی انسانی ذہن و فکر میں جو حیوانیت کے خونخوار جراثیم پرورش پاتے ہیں ان کو کاٹا اور ختم کیا جاسکتا ہے۔ شاہ لطیف کا یہی آفاقی پیغام دراصل مظلوم، ستم خوردہ، غریب و بے کس انسانوں کی نجات کا ذریعہ ہے۔ شاہ صاحب کی شاعری کا کمال ہے کہ وہ فن کی اتنی اعلیٰ و ارفع بلندیوں پر فائز ہیں کہ صدیاں بیت جانے کے باوجود آپ کی شاعری کے ذوق و شوق میں کسی درجہ کوئی فرق نہیں آیا۔

شاہ لطیفؒ کی شاعری کے بول الفاظ کے بجائے ایک اسپرٹ ایک روح اور غضب کے جادو کا مقام رکھتے ہیں، شاہ صاحب نے 18ویں صدی کے آغاز میں ہندوستان کی سیاست، سلطنت مغلیہ کے زوال اور سندھ کی چھوٹی چھوٹی بنتی اور بگڑتی ہوئی حکومت کے اثرات سے دوچار ہونے والے عوام کو سہارا دے کر ایک نئی زندگی کی نوید سنائی، شاہ صاحب نے اس بات کا شعور اور درس عام کیا کہ سکون قلب دولت کی ریل پیل اور عیش و آرام کی فراوانی میں نہیں ہے بلکہ سکون خاطر تو ذکر الٰہی سے ملتا ہے، شاہ صاحب کے دور میں خاندان مغلیہ کا سورج غروب ہونے کو تھا اور سندھ میں کلہوڑو خاندان کے حکمرانوں کا آنا یقینی ہو چلا تھا، آپؒ نے خود اپنی دوررس نگاہوں سے سلطنت دہلی کے اقتدار کے ہچکولے کھاتے اور ڈوبتے عبرتناک منظرنامے کو دیکھ لیا تھا۔

شاہ صاحب کے نواب مرزا مغل بیگ کی بیٹی سے عشق اور اظہار کے بعد نواب سے تعلقات خاصے کشیدہ ہوگئے تھے اور نواب نے اسے اپنی توہین سمجھتے ہوئے ایسے حالات پیدا کردیے تھے کہ خود شاہ صاحب کے لیے کوٹری میں رکنا مشکل ہوگیا تھا اور وہ ہالا چلے آئے تھے تاہم خدا کا کرنا یہ ہوا کہ نواب کی حویلی پر حملہ ہوا، سارے مرد مارے گئے صرف ایک لڑکا اور چند خواتین باقی بچیں۔ نواب خاندان نے اسے شاہ حبیب کا مدعا سمجھا، خواتین شاہ کے پاس آئیں، معافی مانگی اور ہمارے اس عظیم صوفی شاعر کی مطلوب و محبوب لڑکی نکاح میں دے دی۔

آپ کی شاعری میں اسلامی تعلیمات پر مبنی امن و محبت اور انسان دوستی کا لازوال آفاقی پیغام پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کی شاعری ''قومی ورثہ'' کا درجہ رکھتی ہے، آپ کے عارفانہ اور صوفیانہ کلام میں انسانوں خصوصاً سندھ کی عوام کے لیے امن وسلامتی، بہادری، جرأت اور انسان دوستی کا وہ واضح پیغام ہے جس نے شاہ صاحب کو نہ صرف سندھ بلکہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید کردیا ہے۔ آپ 1165 بمطابق 1752 ، 63 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے، ہر سال 14 صفر کو بھٹ شاہ میں آپ کا سالانہ عرس بڑی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔
Load Next Story