نصاب تعلیم کا طرز زندگی سے تعلق کیا ہے
کوئی بھی با شعور قوم اپنے بچوں کو دوسروں کی تہذیب بطور سبق اور دوسروں کے مذہبی کردار بطور ہیروز نہیں پڑھاتی
یونیسف کے بنیادی حقوق کے قانون میں اپنی مادری زبان سیکھنا ہر بچے کا بنیادی حق مانا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے ماں کی زبان بچے کو خود آگاہی دے سکتی ہے، دوسری کوئی زبان نہیں دے سکتی۔ اسی طرح بچے کے نصاب تعلیم میں اس کی '' شناخت کے بچاؤ'' اور'' ذات کے احترام'' کو بھی اس کا بنیادی حق مانا گیا ہے۔
یہاں یونیسف کے ان قوانین کا حوالہ دینا اس لیے ضروری تھا کہ اس وقت ہمیں انہی دو بنیادی حقوق کے تحفظ کا مسئلہ در پیش ہے۔ ہمارے ہاں نصاب تعلیم کی تیاری میں ان بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ بہت سارے دوسرے حقوق کی بھی پامالی ہو رہی ہے۔ اکثر پرائیویٹ سکولوں نے بہت تیزی سے اپنا زیادہ تر سلیبس اردو سے انگریزی میں منتقل کر لیا ہے، جو عوامی زبان نہیں ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ نصاب ہے جو ہما رے رہن سہن سے میل نہیں کھاتا۔
نصاب تعلیم تیار کرنا ملک کے پڑھے لکھے اور ذمہ دار افراد کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ ذمہ دار افراد کی غلطیاں انجانے میں نہیں ہوتیں بلکہ دانستہ اور شاید کسی مقصد کے تحت کی جاتی ہیں ۔ بچے کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔ ان کی تعلیم و تدریس اہم ترین کام ہونی چاہیے تاکہ ان کی کردار سازی اور شخصی تعمیر ہو سکے۔ بچوں کا نصاب تعلیم ایک سنجیدہ اور قابل غور مسئلہ ہے ۔
انگریزی کو بطور مضمون نصاب میں شامل ہونا چاہئے لیکن یہ ماہرین نفسیات اور لسانیات کا کام ہے کہ وہ انگریزی کو کب اور کس طرح نصاب میں شامل کریں جو بچے کی عمر اور ذہن پر بوجھ کی بجائے کچھ نیا سیکھنے کا ذریعہ بن جائے ۔ پاکستان کے بہت سارے انگریزی سکولوں میں ایسا نصاب پڑھایا جا رہا ہے جو پاکستان کے مذہب، تہذیب و ثقافت اور روز مرہ کے رہن سہن سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ مثلا آکسفورڈ کی انگریزی کی کتابوں کے اکثر کردار،کھیل، سرگرمیاں اور لباس یورپ اور عیسائیت کے عکاس ہیں۔
انگریزی سکھانے کے لئے ہماری مقامی کہانیاں بھی لکھی جا سکتی ہیں ضروری نہیں کہ فاطمہ کی جگہ Fiona اور احمد کی جگہ Alex لکھا جائے ۔ شلوار دوپٹے والی ماں کی جگہ یورپین اور قدرے نامانوس لباس میں عورت اور شارٹس میں ملبوس باپ ۔ لباس اور نام تو شاید نظر انداز کردیئے جاتے لیکن مسجد کی جگہ چرچ کی تصویر، بکری کی جگہ سور، ویلنٹائن، ہالووین، سینٹ پیٹرک، کرسمس یہ سب ہمارے بچوں کا پاکستان میں رہتے ہوئے پڑھنا ناصرف غیر ضروری ہے بلکہ بچوں کے ساتھ زیادتی ہے ۔
ہر ملک کے اپنے موسم، اپنا جغرافیہ، اپنے رسم و رواج اور مختلف اعتقادات ہوتے ہیں ۔ نہ صرف یہ بلکہ بچوں کے کھیل، کھانے، پھل، سبزیاں، درخت، پودے، پہیلیاں، لطیفے، جانور اور کیڑے مکوڑے تک دوسرے کلچر سے مختلف ہوتے ہیں ۔ ایسے میں بچوں کا نصاب کسی ایسے معاشرے کا عکاس نہیں ہونا چاہئے جو ان کے لیے اجنبی ہو ۔ بلکہ سکول میں پڑھائی جانے والی نظمیں اور کہانیاں ان کے اردگرد کے ماحول کی پیداوار ہونی چاہئیں ۔
بچے کی تدریسی زبان اس کی رابطہ زبان یا بول چال زبان ہو تو وہ زیادہ تیزی اور آسانی سے ان معلومات کو سیکھتا ہے جو سکولوں میں سکھانا مقصود ہوتی ہیں خواہ وہ جغرافیہ ہو، سائنس، مطالعہ پاکستان یا اسلامیات اور ریاضی ہو ۔ سیکھنے کا عمل دیکھنے اور سننے سے شروع ہوتا ہے، پڑھنا ایک مشکل کام ہے اگر پڑھنا سیکھنے اور دیکھنے سے متعلق نہیں ہوتا تو یہ ایک مشقت اور تکلیف دہ کام بن کر رہ جاتا ہے۔ اس طرح معصوم بچوں کے لیے سکول دلچسپی کی جگہ سخت لوہا کوٹنے والی فیکٹری بن جاتے ہیں ۔
کنفیوشس نے کہا تھا کہ تعلیم اعتماد دیتی ہے لیکن ایسی تعلیم جو اپنے رہن سہن سے میل نہ کھاتی ہو وہ اعتماد کو کھا جاتی ہے ۔ یہاں اعتماد کو جاننا بھی ضروری ہے ۔ اعتماد فر فر انگریزی بولنے کا نام نہیں ہے بلکہ اپنی اصل پر اعتبار، اور دوسروں کی اصل کا احترام ہے ۔ ہمارا نظام تعلیم نہ تو اپنی اصل کی پہچان کروا پاتا ہے اور نہ دوسروں کو قبول کرنا سکھاتا ہے ۔
تعلیم کا اصل مقصد خود کو پہچاننا ہے ۔ کیا دوسروں کی تہذیب، زبان اور ثقافت پڑھنے والے بچے خود اپنی پہچان ڈھونڈ پائیں گے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بہترین انگریزی سکول میں داخل کروا کر آپ نے اس کی روح کا اغوا برائے اقدار کر لیا ہو ۔ اگلے بیس سال بعد آپ کا بچہ اپنا جسم لیکن اجنبی لوگوں کی تہذیب و زبان لے کر پھر رہا ہو جو اپنے ہی ہاتھوں اپنے بچوں کی روح کا قتل ہوگا ۔
پاکستانی عوام بہت عجیب ہے، یہ سب سے زیادہ جذباتی مذہب کے نام پر ہوتے ہیں، کسی کے بھی اشتعال دلانے پر سڑکوں پر آکر توڑ پھوڑ کر سکتے ہیں لیکن ان کے بچوں کو سکولوں میں فروری کے مہینے کو'' ویلنٹائن '' کے ساتھ نتھی کیا جائے ، جمعہ کی جگہ اتوار کو عبادت کا دن دکھایا جائے ، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بس! بچے کو انگریزی آنی چاہیے تاکہ گھر آئے مہمانوں کو بچہ '' ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل سٹار'' سنا سکے۔
ہما رے ماڈرن شہریوں کے لئے جو انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے پر مصر ہیں یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ باہر کے ممالک میں بچوں کا نصاب تعلیم بہت احتیاط سے تیار کیا جاتا ہے ۔ ماہرین اس بات کو مد نظر رکھتے ہیں کہ بچہ اپنے ماحول سے جڑا رہے ۔ اسے مذہب اور نصابی کرداروں سے اس طرح روشناس کروایا جائے جو اسے ماں، دادی، نانی، ہمسائے کی زندگیوں سے ملتا جلتا نظر آئے ۔ گھر اور سکول میں استعمال ہونے والی زبان اور ماحول کا یکساں ہونا کتنا ضروری ہے۔ اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے۔
ایک پاکستانی نژاد آسٹریلوی خاتون نے ایک واقعہ تحریر کیا کہ اس کے بیٹے کو بولنے میں مسئلہ تھا۔ اس کی سپیچ تھراپسٹ نے بچے کو ڈے کئیر سنٹر میں دوسرے بچوں کے ساتھ داخل کروانے کا مشورہ دیا تاکہ وہ ان سے گھل مل کر بول چال سیکھ سکے۔ ایک دن وہ اپنے بچے کو لینے ڈے کئیر سینٹر گئیں تو ان کا بچہ قیدیوں کی طرح دیوار سے لگا کھڑا تھا اور انہیں دیکھتے ہی دوڑ کر ان سے لپٹ گیا اور کہنے لگا: '' پانی'' ۔
گویا وہ کافی دیر سے پیاسا تھا لیکن انگلش نہ آنے کی وجہ سے کسی ٹیچر سے واٹر کہہ کر پانی نہ مانگ سکا۔ خاتون کا کہنا تھا کہ وہ انگریزی آنے کے باوجود اپنے بچوں سے صرف اردو میں بات کرتی تھیں تاکہ ان کو مادری زبان پر عبور حاصل ہو سکے۔
اس لئے شاید اس نے چند دفعہ ' پانی ' کہا ہو گا لیکن کسی کو سمجھ نہیں آیا۔ کیونکہ اس سینٹر میں کوئی بھی اردو بولنے والی ٹیچر نہیں ہے لیکن اس دن کے بعد انہوں نے بنیادی الفاظ انگریزی میں ادا کرنے شروع کردیئے تاکہ بچوں کی رابطہ زبان ایک ہو سکے۔ گویا بچوں کے لئے رابطہ یعنی روز مرہ کی زبان کا عام فہم ہونا ضروری ہے۔ پاکستان میں چونکہ مائیں ہر وقت گھروں میں اردو یا علاقائی زبان بولتی ہیں اس لئے چھوٹے بچوں کے لئے وہی زبان سکول اور نصاب کی ہونی چاہیے۔
دنیا کے سب ماہرین تعلیم، نفسیات دان، فلاسفرز اس بات پر متفق ہیں کہ سب سے زیادہ موثر طریقہ تعلیم اس زبان میں ہوتا ہے جو ماں بولتی ہے ۔ پاکستان کی ماؤں کی اکثریت انگریزی نہیں سمجھتی اور انگریزی سکولوں نے ماؤں اور بچوں دونوں کی زندگیوں کو عذاب بنا رکھا ہے ۔ آپ پراٹھا کھا کر سکول جانے والے بچے کو '' بریک فاسٹ'' میں '' پین کیک '' پڑھائیں گے تو یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کپڑے کے تاجر کو سڑک بنانے یا اسپتال میں مریض کا آپریشن کرنے کا کہا جائے۔
تھوڑی دیر کے لئے انگریز کے بچے کی آسان زندگی کا تصور کریں۔ اس کی ماں بھی وہی کچھ کہتی ہے جو سکول کی استانی ۔ سکول میں اس کے کان وہی الفاظ سنتے ہیں جو گھر میں سنائی دیتے ہیں ۔ اس کی کہانیاں، موسم ،کھیل سب ایک جیسے ہیں، اسے اپنے دماغ میں فٹافٹ بہت سارے الفاظ کا ترجمہ کرکے سوچنا نہیں پڑتا، اس ترجمے اور متعلقہ موضوع سے نا آشنائی کے سبب بچہ سیکھنے کے عمل میں نہ صرف پیچھے رہ جاتا ہے بلکہ سیکھنے سے لطف اندوز بھی نہیں ہو پاتا ۔ انگریز ماں اس عذاب سے آزاد ہے جس میں سے پاکستانی ماں گزرتی ہے کہ اس نے اگر بچے کو اچھے انگریزی سکول میں داخل کروانا ہے تو ضروری ہے کہ اسے انگریزی کے الفاظ اور ہو سکے تو بنیادی فقرات بھی آتے ہوں ۔ وہ صبح وشام اپنی استطاعت کے مطابق اردو میں ڈھلی انگریزی کی مشق کرواتی ہے اور پریشان رہتی ہے کہ بچہ سکول کی انگریزی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکے ۔ ماں اور بچہ دونوں ایک اضافی بوجھ تلے دب گئے ہیں ۔
دوسری زبان سیکھنا بہت اچھا تجربہ ہوتا ہے اور اس سے ذہن کھلتا ہے ۔ بچے ایک وقت میں ایک سے زیادہ زبانیں سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن سر پر لوہے کا کڑا چڑھا کر ٹارچر کرکے نہیں بلکہ فطری اور دوستانہ ماحول میں ۔ ہم میں سے کوئی بھی اجنبی ماحول میں زیادہ دیر تک بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ عید پر سویاں کھانے والے بچوں کو کرسمس ٹری اور سانتا کلاز پڑھایا جائے گا تو پھر کنفیوز،ادھوری اور کمتری کی ماری ہوئی نسلیں ہی پیدا ہوں گی ۔
یہ طے ہے کہ نصاب تعلیم آسان اور سادہ ہو تو اس کا حصول زیادہ موثر ہوتا ہے اور ذریعہ تعلیم جتنا عملی ہو اتنا دیرپا اور کارآمد ہوتا ہے۔ اس تعریف کے پیش نظر یہ بہت ضروری ہے کہ نصاب روزمرہ کی زندگی سے مرتب کیا جائے ۔ آپ جب Guy Fawkes night, Halloween کو نصاب کا حصہ بنائیں گے تو بچے تو بچے ان کے بڑے بھی کنفیوز ہوں گے کہ یہ کیا ہے ۔ نصاب ایسے واقعات پر مبنی ہونا چاہئے جس کی وضاحت والدین یا استاد کے لئے مشکل، عجیب اور اچنبھا نہ ہو ۔ دوسرے نصاب تعلیم میں غیر مصدقہ کردار اور متنازعہ تاریخی حقائق سے اجتناب کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں جو انگریزی تہوار نصاب کا حصہ بنائے جاتے ہیں ان کی کوئی تاریخی اہمیت نہیں اور خود بہت سارے انگریز ان کو نہ تو مانتے ہیں اور نہ مناتے ہیں ۔ نصاب ایک بہت سنجیدہ اور کردار سازی پر مبنی مواد تعلیم ہونا چاہئے جس میں کردار اور خاص تاریخی واقعات ایسے ہوں جن میں انسانیت کی سربلندی، سچ کی فتح اور امن کا پرچار ہو ۔
تعلیم دینے اور سکھانے کا عمل ہے نہ کہ چھیننے اور تکلیف پہنچانے کا ۔ طریقہ تعلیم اور نصاب تعلیم ہمارے بچوں سے ان کی اصل چھین رہا ہے اور انہیں دوہرے پن کی تکلیف دے رہا ہے ۔ ایک چہرے کے ساتھ جینا زندگی ہے جبکہ کئی چہرے لگا کر زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ دوہرا اور دوسروں کا بنایا ہوا سلیبس ہما رے بچوں کی مشکلات بڑھا رہا ہے ۔
آج سے بہت سال بعد وہ سکول کی یادوں کو بطور بوجھ اور عذاب کے دنوں کے طور پر یاد کریں گے ۔ اگر اس تکلیف دہ سلیبس کا اندازہ کرنا ہے تو صرف ایک دن اپنے کام کی بجائے دوسرے کی دوکان اور دفتر میں جا کر بیٹھیں، اپنے فون پر اسپینش زبان کی ایپلیکیشنز لگائیں اور گھر میں صرف چائنیز سنیں اور ٹی وی پر جاپانی زبان کے چینل لگائیں، کھانا افریقی یا کیرالا کی ریاست کا کھائیں، اگلے دن شاید مرنا بھی برا نہیں لگے گا ۔ بچوں کے نازک دماغ کے ساتھ ہم یہی کچھ کر رہے ہیں ۔
اگر یقین نہیں آتا تو گلی میں کھلے کسی بھی انگلش میڈیم میں جا کر ان کا سلیبس اٹھا کر دیکھ لیں ۔ بچے کے گھٹے ہوئے کلاس روم میں دو گھنٹے گزار کر دیکھیں اور سب سے بڑھ کر مسلسل خوف اور مقابلے کے ماحول میں کچھ دیر کے لئے سانس لیں تو احساس ہوگا کہ مستقبل کے نو نہالوں کو سیکھنے کی عمر میں برداشت کرنے پر لگا دیا گیا ہے۔
نصاب تعلیم کتنا حساس موضوع ہے شاید اس کا اندازہ ارباب اختیار کو نہیں ہے ۔ نصاب کسی شاندار عمارت کی بنیاد ہے جس کے صحیح ہونے پر عمارت کی مضبوطی یا کمزوری کا انحصار ہوتا ہے۔
انگریز معاشروں کے نصاب تعلیم کے تیار دہندگان اساتذہ کو بطور خاص ایک ایسا نصابی ڈھانچہ مرتب کرکے دیتے ہیں جس میں انہیں اس چیز کا پابند کیا جاتا ہے کہ بچوں کی گھر میں بننے والی مذہبی اور روحانی بنیاد پر سکول اور نصاب مہر تصدیق ثبت کرے تاکہ بچوں کے اندر تک ان کا مذہب سے تعلق جڑ پکڑ سکے اور بچے مذہب کے بارے میں ایک پختہ سوچ کے ساتھ پروان چڑھیں ۔ وہ گھر اور سکول کے متضاد ماحول کی وجہ سے الجھے ہوئے کنفیوز شہری نہ بن جائیں ۔ اس وقت ایک مخصوص طبقہ جو یورپ کے کلچر کو اپنا بنانے کے لئے بے چین ہے اور اس مقصد کے لئے نصاب میں مسجد کی جگہ چرچ اور عید کی جگہ کرسمس لانے پر بضد ہے بلکہ لے آئے ہیں انھیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ وہ اپنی خواہش کے لئے اپنی نسلوں کو ایک ایسے بے نامی کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ۔
ایسے سب آزاد خیال اور متعصب ذہنیت لوگوں کو اس بات کا شعور نہیں کہ بچپن میں بچوں کے کچے ذہنوں کو گروی رکھوانے سے وہ انہیں ہمیشہ کے لئے اپنے اصل کے متعلق کنفیوز کر دیتے ہیں ۔ وہ کامیاب ڈاکٹر، بیوروکریٹ سیاستدان تو بن جائیں گے لیکن ان کی فطری، مذہبی، ثقافتی بنیادیں اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ وہ اپنی اقدار، اور اصولی و نظریاتی اساس کی حفاظت سے قاصر رہتے ہیں ۔ یہ قوموں کے لئے لمحہ فکریہ ہے جب ان کی نسلیں اپنے تاریخی و روحانی ورثے کی حفاظت تو درکنار اس سے آگاہی نہ حاصل کر پائیں ۔ قومیں اپنی مضبوط نسلی، مذہبی ثقافتی روایات کی پاسبان ہوتی ہیں اور انھیں تعلیمی درس گاہوں میں درسی کتابوں اور باکردار استادوں کے توسط سے یہ روایات منتقل کرنا ذمہ دار افراد کا اہم فرض ہوتا ہے۔
بچوں کا اردگرد کا ماحول ان کی تعلیم میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچے جو پڑھتے ہیں اسے عملی زندگی میں اپلائی کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ لفظوں سے معنی اخذ کرتے ہیں اور تصویریں اور کردار ان کے تخیل میں جگہ بناتے ہیں ۔ وہ نصابی اور غیر نصابی کہانیوں کو اپنے اردگرد ڈھونڈتے ہیں، نئے الفاظ کو سن پڑھ کر اپنی دنیا میں اپنے معنی تراشتے ہیں ۔ مشاہدہ اور نقل بچوں کی فطرت ہے ۔ نصاب ترتیب دیتے وقت ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ یہ صرف مشینی الفاظ نہیں بلکہ حقیقی معنی پر مبنی تجربات ہوں گے ۔
کتنی مائیں ہیں جو بچوں کو ویلنٹائن، ہالووین، سینٹ پیٹرک ڈے کی وضاحت کر کے سمجھا سکتی ہیں ۔ اور اگر سمجھا سکتی ہیں تو کیوں سمجھائیں؟ جب ہماری عملی زندگی سے ان دنوں اور تہواروں کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ جس طرح ہم ہندوؤں کی طرح اپنے مردوں کو جلا نہیں سکتے اسی طرح ہم اقبال کے شاہینوں کو سینٹ پیٹرک کے کوے نہیں بنا سکتے ۔
ہمیں معصوم روحوں سے ان کی اصل چھیننے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ وہ چند لوگ جو بدیسی تہواروں اور کرداروں کو اپنانا چاہتے ہیں وہ بڑے شوق سے اپنائیں لیکن اس طرح کے نصاب تعلیم کی صورت میں ہماری نسلوں سے ان کے تہوار اور ان کے سچے کردار نہ چھینیں ۔گھوڑوں اور گدھوں کا ملا جلا معاشرہ ایک نارمل فطری معاشرہ ہوگا لیکن ایسے نصاب تعلیم سے پروان چڑھنے والی نسل خچروں کی نسل ہوگی ۔
تعلیم بچے کو صرف کسی زبان میں ماہر کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ مستقبل کے لئے ایک ایسا انسان تیار کرنا ہے جو اپنی پہچان کے ساتھ معاشرے اور ملک کے لیے کارآمد انسان بن سکے ۔ جب بات اپنی پہچان کی آتی ہے تو چھوٹی عمر میںبچوں کو جو کہانی، کردار، واقعات پڑھائے جائیں گے ان کا کردار انہی بنیادوں پر تشکیل پائے گا ۔ یاد رہے کہ شناخت کو کھو دینے والے آزاد لوگ بھی غلاموں سے بدتر ہوتے ہیں اور اپنی شناخت کا ادراک رکھنے والے غلام بھی آزاد ہوتے ہیں ۔
بچوں کو دوسروں کا تیار کردہ یا دوسرے ملکوں کے مطابق تیار کردہ نصاب تعلیم پڑھانا بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ صبح و شام دفتر یا دوکان پر جائیں محنت کریں اور اپنی بچت کی رقم کسی دوسرے کے اکاؤنٹ میں جمع کرواتے رہیں اور جب آپ بوڑھے ہوں تو خالی ہاتھ ہوں ۔
بہت سارے تارکین وطن کو اس تلخ تجربے سے گزرنا پڑتا ہے کہ ان کی تیسری یا چوتھی نسل اپنے مذہب، روایات اور ثقافت کو ترک کر دیتی ہے۔ اگر مکمل طور پر ترک نہیں بھی کرتی تو ان کے لئے اپنی اصل اور اپنی جڑوں سے لگاؤ یا ان کا علم نہیں رہتا، ایسے میں ان کا کسی بھی مذہب، اور ثقافت کو اختیار کرنا یا چھوڑ دینا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ یہی وہ مقام ہے جو قوموں کے زوال کا باعث بنتا ہے ۔
بہت سال پہلے برطانیہ کے کسی چینل پر کامیاب لوگوں کے انٹرویو چلا کرتے تھے ۔ ایک بڑے کشمیری بزنس مین کا انٹرویو آیا جو بہت سارے ان کشمیریوں میں سے تھا جو 1947 میں یا پچاس کی دہائی میں انگلینڈ جا کر آباد ہو گئے تھے ۔ اس سے جب میزبان نے اس کی کامیاب زندگی کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کمال بہادری سے کہا کہ '' میں ایک ناکام ترین شخص ہوں کیونکہ میں نے اپنی جڑیں اور اپنی اصل کھو دی ہے، میرا ایک بیٹا عیسائی عورت سے، دوسرا ہندو سے اور بیٹی سکھ سے شادی کر چکی ہے۔ میرے بچوں کے بچے اپنے مذہب اور نسل سے منحرف ہوں گے ۔ پیسہ اور نام بے کار ہے، جب میں اپنی شناخت اور اصل ہی کھو چکا ہوں۔''
اس شخص کا کرب لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر اسے نوجوانی میں علم ہوتا کہ اس کی کمائی گھاٹے کا سودا ہو گی اور سونا مٹی ہو گا تو اس کے فیصلے بہت مختلف ہوتے ۔ ایسے بہت سارے امریکہ اور یورپ کے مکین ہیں جو اپنی نسلوں کا سودا کرکے پچھتا رہے ہیں، لیکن ان کے لئے شاید ان کی غلطیوں کا کوئی جواز بنتا ہو کہ وہ دوسروں کے ماحول اور مذہب کے تسلط میں تھے، لیکن اپنے ملک میں رہ کر اپنی اصل سے انحراف کا جنون سمجھ سے بالاتر ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ بویا کاٹنے کا وقت بہت دیر سے آتا ہے ۔ اکثر قوموں اور نسلوں کے غلط فیصلوں کے نتائج جو تباہی لاتے ہیں تب ان فیصلوں کے کرنے والے قبروں میں فاسفورس بن چکے ہوتے ہیں ۔ اور ان کی نسلیں ان کے غلط فیصلوں کی قیمت ادا کرتی ہیں۔
کاش ! ہمارے علما نے سطحی قسم کے بحث مباحثے چھوڑ کر ایسے معیاری تدریسی نظام کی بنیاد رکھی ہوتی جو عصر حاضر کے جدید تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس کھوکھلے، دوہرے، ناقص، سازشی، طاغوتی نصاب کی دھجیاں بکھیر دیتا۔ کوئی بھی باشعور قوم اپنے بچوں کو دوسروں کی تہذیب بطور سبق اور دوسروں کے مذہبی کردار بطور ہیروز نہیں پڑھاتی ۔
یہاں یونیسف کے ان قوانین کا حوالہ دینا اس لیے ضروری تھا کہ اس وقت ہمیں انہی دو بنیادی حقوق کے تحفظ کا مسئلہ در پیش ہے۔ ہمارے ہاں نصاب تعلیم کی تیاری میں ان بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ بہت سارے دوسرے حقوق کی بھی پامالی ہو رہی ہے۔ اکثر پرائیویٹ سکولوں نے بہت تیزی سے اپنا زیادہ تر سلیبس اردو سے انگریزی میں منتقل کر لیا ہے، جو عوامی زبان نہیں ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ نصاب ہے جو ہما رے رہن سہن سے میل نہیں کھاتا۔
نصاب تعلیم تیار کرنا ملک کے پڑھے لکھے اور ذمہ دار افراد کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ ذمہ دار افراد کی غلطیاں انجانے میں نہیں ہوتیں بلکہ دانستہ اور شاید کسی مقصد کے تحت کی جاتی ہیں ۔ بچے کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔ ان کی تعلیم و تدریس اہم ترین کام ہونی چاہیے تاکہ ان کی کردار سازی اور شخصی تعمیر ہو سکے۔ بچوں کا نصاب تعلیم ایک سنجیدہ اور قابل غور مسئلہ ہے ۔
انگریزی کو بطور مضمون نصاب میں شامل ہونا چاہئے لیکن یہ ماہرین نفسیات اور لسانیات کا کام ہے کہ وہ انگریزی کو کب اور کس طرح نصاب میں شامل کریں جو بچے کی عمر اور ذہن پر بوجھ کی بجائے کچھ نیا سیکھنے کا ذریعہ بن جائے ۔ پاکستان کے بہت سارے انگریزی سکولوں میں ایسا نصاب پڑھایا جا رہا ہے جو پاکستان کے مذہب، تہذیب و ثقافت اور روز مرہ کے رہن سہن سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ مثلا آکسفورڈ کی انگریزی کی کتابوں کے اکثر کردار،کھیل، سرگرمیاں اور لباس یورپ اور عیسائیت کے عکاس ہیں۔
انگریزی سکھانے کے لئے ہماری مقامی کہانیاں بھی لکھی جا سکتی ہیں ضروری نہیں کہ فاطمہ کی جگہ Fiona اور احمد کی جگہ Alex لکھا جائے ۔ شلوار دوپٹے والی ماں کی جگہ یورپین اور قدرے نامانوس لباس میں عورت اور شارٹس میں ملبوس باپ ۔ لباس اور نام تو شاید نظر انداز کردیئے جاتے لیکن مسجد کی جگہ چرچ کی تصویر، بکری کی جگہ سور، ویلنٹائن، ہالووین، سینٹ پیٹرک، کرسمس یہ سب ہمارے بچوں کا پاکستان میں رہتے ہوئے پڑھنا ناصرف غیر ضروری ہے بلکہ بچوں کے ساتھ زیادتی ہے ۔
ہر ملک کے اپنے موسم، اپنا جغرافیہ، اپنے رسم و رواج اور مختلف اعتقادات ہوتے ہیں ۔ نہ صرف یہ بلکہ بچوں کے کھیل، کھانے، پھل، سبزیاں، درخت، پودے، پہیلیاں، لطیفے، جانور اور کیڑے مکوڑے تک دوسرے کلچر سے مختلف ہوتے ہیں ۔ ایسے میں بچوں کا نصاب کسی ایسے معاشرے کا عکاس نہیں ہونا چاہئے جو ان کے لیے اجنبی ہو ۔ بلکہ سکول میں پڑھائی جانے والی نظمیں اور کہانیاں ان کے اردگرد کے ماحول کی پیداوار ہونی چاہئیں ۔
بچے کی تدریسی زبان اس کی رابطہ زبان یا بول چال زبان ہو تو وہ زیادہ تیزی اور آسانی سے ان معلومات کو سیکھتا ہے جو سکولوں میں سکھانا مقصود ہوتی ہیں خواہ وہ جغرافیہ ہو، سائنس، مطالعہ پاکستان یا اسلامیات اور ریاضی ہو ۔ سیکھنے کا عمل دیکھنے اور سننے سے شروع ہوتا ہے، پڑھنا ایک مشکل کام ہے اگر پڑھنا سیکھنے اور دیکھنے سے متعلق نہیں ہوتا تو یہ ایک مشقت اور تکلیف دہ کام بن کر رہ جاتا ہے۔ اس طرح معصوم بچوں کے لیے سکول دلچسپی کی جگہ سخت لوہا کوٹنے والی فیکٹری بن جاتے ہیں ۔
کنفیوشس نے کہا تھا کہ تعلیم اعتماد دیتی ہے لیکن ایسی تعلیم جو اپنے رہن سہن سے میل نہ کھاتی ہو وہ اعتماد کو کھا جاتی ہے ۔ یہاں اعتماد کو جاننا بھی ضروری ہے ۔ اعتماد فر فر انگریزی بولنے کا نام نہیں ہے بلکہ اپنی اصل پر اعتبار، اور دوسروں کی اصل کا احترام ہے ۔ ہمارا نظام تعلیم نہ تو اپنی اصل کی پہچان کروا پاتا ہے اور نہ دوسروں کو قبول کرنا سکھاتا ہے ۔
تعلیم کا اصل مقصد خود کو پہچاننا ہے ۔ کیا دوسروں کی تہذیب، زبان اور ثقافت پڑھنے والے بچے خود اپنی پہچان ڈھونڈ پائیں گے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بہترین انگریزی سکول میں داخل کروا کر آپ نے اس کی روح کا اغوا برائے اقدار کر لیا ہو ۔ اگلے بیس سال بعد آپ کا بچہ اپنا جسم لیکن اجنبی لوگوں کی تہذیب و زبان لے کر پھر رہا ہو جو اپنے ہی ہاتھوں اپنے بچوں کی روح کا قتل ہوگا ۔
پاکستانی عوام بہت عجیب ہے، یہ سب سے زیادہ جذباتی مذہب کے نام پر ہوتے ہیں، کسی کے بھی اشتعال دلانے پر سڑکوں پر آکر توڑ پھوڑ کر سکتے ہیں لیکن ان کے بچوں کو سکولوں میں فروری کے مہینے کو'' ویلنٹائن '' کے ساتھ نتھی کیا جائے ، جمعہ کی جگہ اتوار کو عبادت کا دن دکھایا جائے ، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بس! بچے کو انگریزی آنی چاہیے تاکہ گھر آئے مہمانوں کو بچہ '' ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل سٹار'' سنا سکے۔
ہما رے ماڈرن شہریوں کے لئے جو انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے پر مصر ہیں یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ باہر کے ممالک میں بچوں کا نصاب تعلیم بہت احتیاط سے تیار کیا جاتا ہے ۔ ماہرین اس بات کو مد نظر رکھتے ہیں کہ بچہ اپنے ماحول سے جڑا رہے ۔ اسے مذہب اور نصابی کرداروں سے اس طرح روشناس کروایا جائے جو اسے ماں، دادی، نانی، ہمسائے کی زندگیوں سے ملتا جلتا نظر آئے ۔ گھر اور سکول میں استعمال ہونے والی زبان اور ماحول کا یکساں ہونا کتنا ضروری ہے۔ اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے۔
ایک پاکستانی نژاد آسٹریلوی خاتون نے ایک واقعہ تحریر کیا کہ اس کے بیٹے کو بولنے میں مسئلہ تھا۔ اس کی سپیچ تھراپسٹ نے بچے کو ڈے کئیر سنٹر میں دوسرے بچوں کے ساتھ داخل کروانے کا مشورہ دیا تاکہ وہ ان سے گھل مل کر بول چال سیکھ سکے۔ ایک دن وہ اپنے بچے کو لینے ڈے کئیر سینٹر گئیں تو ان کا بچہ قیدیوں کی طرح دیوار سے لگا کھڑا تھا اور انہیں دیکھتے ہی دوڑ کر ان سے لپٹ گیا اور کہنے لگا: '' پانی'' ۔
گویا وہ کافی دیر سے پیاسا تھا لیکن انگلش نہ آنے کی وجہ سے کسی ٹیچر سے واٹر کہہ کر پانی نہ مانگ سکا۔ خاتون کا کہنا تھا کہ وہ انگریزی آنے کے باوجود اپنے بچوں سے صرف اردو میں بات کرتی تھیں تاکہ ان کو مادری زبان پر عبور حاصل ہو سکے۔
اس لئے شاید اس نے چند دفعہ ' پانی ' کہا ہو گا لیکن کسی کو سمجھ نہیں آیا۔ کیونکہ اس سینٹر میں کوئی بھی اردو بولنے والی ٹیچر نہیں ہے لیکن اس دن کے بعد انہوں نے بنیادی الفاظ انگریزی میں ادا کرنے شروع کردیئے تاکہ بچوں کی رابطہ زبان ایک ہو سکے۔ گویا بچوں کے لئے رابطہ یعنی روز مرہ کی زبان کا عام فہم ہونا ضروری ہے۔ پاکستان میں چونکہ مائیں ہر وقت گھروں میں اردو یا علاقائی زبان بولتی ہیں اس لئے چھوٹے بچوں کے لئے وہی زبان سکول اور نصاب کی ہونی چاہیے۔
دنیا کے سب ماہرین تعلیم، نفسیات دان، فلاسفرز اس بات پر متفق ہیں کہ سب سے زیادہ موثر طریقہ تعلیم اس زبان میں ہوتا ہے جو ماں بولتی ہے ۔ پاکستان کی ماؤں کی اکثریت انگریزی نہیں سمجھتی اور انگریزی سکولوں نے ماؤں اور بچوں دونوں کی زندگیوں کو عذاب بنا رکھا ہے ۔ آپ پراٹھا کھا کر سکول جانے والے بچے کو '' بریک فاسٹ'' میں '' پین کیک '' پڑھائیں گے تو یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کپڑے کے تاجر کو سڑک بنانے یا اسپتال میں مریض کا آپریشن کرنے کا کہا جائے۔
تھوڑی دیر کے لئے انگریز کے بچے کی آسان زندگی کا تصور کریں۔ اس کی ماں بھی وہی کچھ کہتی ہے جو سکول کی استانی ۔ سکول میں اس کے کان وہی الفاظ سنتے ہیں جو گھر میں سنائی دیتے ہیں ۔ اس کی کہانیاں، موسم ،کھیل سب ایک جیسے ہیں، اسے اپنے دماغ میں فٹافٹ بہت سارے الفاظ کا ترجمہ کرکے سوچنا نہیں پڑتا، اس ترجمے اور متعلقہ موضوع سے نا آشنائی کے سبب بچہ سیکھنے کے عمل میں نہ صرف پیچھے رہ جاتا ہے بلکہ سیکھنے سے لطف اندوز بھی نہیں ہو پاتا ۔ انگریز ماں اس عذاب سے آزاد ہے جس میں سے پاکستانی ماں گزرتی ہے کہ اس نے اگر بچے کو اچھے انگریزی سکول میں داخل کروانا ہے تو ضروری ہے کہ اسے انگریزی کے الفاظ اور ہو سکے تو بنیادی فقرات بھی آتے ہوں ۔ وہ صبح وشام اپنی استطاعت کے مطابق اردو میں ڈھلی انگریزی کی مشق کرواتی ہے اور پریشان رہتی ہے کہ بچہ سکول کی انگریزی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکے ۔ ماں اور بچہ دونوں ایک اضافی بوجھ تلے دب گئے ہیں ۔
دوسری زبان سیکھنا بہت اچھا تجربہ ہوتا ہے اور اس سے ذہن کھلتا ہے ۔ بچے ایک وقت میں ایک سے زیادہ زبانیں سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن سر پر لوہے کا کڑا چڑھا کر ٹارچر کرکے نہیں بلکہ فطری اور دوستانہ ماحول میں ۔ ہم میں سے کوئی بھی اجنبی ماحول میں زیادہ دیر تک بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ عید پر سویاں کھانے والے بچوں کو کرسمس ٹری اور سانتا کلاز پڑھایا جائے گا تو پھر کنفیوز،ادھوری اور کمتری کی ماری ہوئی نسلیں ہی پیدا ہوں گی ۔
یہ طے ہے کہ نصاب تعلیم آسان اور سادہ ہو تو اس کا حصول زیادہ موثر ہوتا ہے اور ذریعہ تعلیم جتنا عملی ہو اتنا دیرپا اور کارآمد ہوتا ہے۔ اس تعریف کے پیش نظر یہ بہت ضروری ہے کہ نصاب روزمرہ کی زندگی سے مرتب کیا جائے ۔ آپ جب Guy Fawkes night, Halloween کو نصاب کا حصہ بنائیں گے تو بچے تو بچے ان کے بڑے بھی کنفیوز ہوں گے کہ یہ کیا ہے ۔ نصاب ایسے واقعات پر مبنی ہونا چاہئے جس کی وضاحت والدین یا استاد کے لئے مشکل، عجیب اور اچنبھا نہ ہو ۔ دوسرے نصاب تعلیم میں غیر مصدقہ کردار اور متنازعہ تاریخی حقائق سے اجتناب کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں جو انگریزی تہوار نصاب کا حصہ بنائے جاتے ہیں ان کی کوئی تاریخی اہمیت نہیں اور خود بہت سارے انگریز ان کو نہ تو مانتے ہیں اور نہ مناتے ہیں ۔ نصاب ایک بہت سنجیدہ اور کردار سازی پر مبنی مواد تعلیم ہونا چاہئے جس میں کردار اور خاص تاریخی واقعات ایسے ہوں جن میں انسانیت کی سربلندی، سچ کی فتح اور امن کا پرچار ہو ۔
تعلیم دینے اور سکھانے کا عمل ہے نہ کہ چھیننے اور تکلیف پہنچانے کا ۔ طریقہ تعلیم اور نصاب تعلیم ہمارے بچوں سے ان کی اصل چھین رہا ہے اور انہیں دوہرے پن کی تکلیف دے رہا ہے ۔ ایک چہرے کے ساتھ جینا زندگی ہے جبکہ کئی چہرے لگا کر زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ دوہرا اور دوسروں کا بنایا ہوا سلیبس ہما رے بچوں کی مشکلات بڑھا رہا ہے ۔
آج سے بہت سال بعد وہ سکول کی یادوں کو بطور بوجھ اور عذاب کے دنوں کے طور پر یاد کریں گے ۔ اگر اس تکلیف دہ سلیبس کا اندازہ کرنا ہے تو صرف ایک دن اپنے کام کی بجائے دوسرے کی دوکان اور دفتر میں جا کر بیٹھیں، اپنے فون پر اسپینش زبان کی ایپلیکیشنز لگائیں اور گھر میں صرف چائنیز سنیں اور ٹی وی پر جاپانی زبان کے چینل لگائیں، کھانا افریقی یا کیرالا کی ریاست کا کھائیں، اگلے دن شاید مرنا بھی برا نہیں لگے گا ۔ بچوں کے نازک دماغ کے ساتھ ہم یہی کچھ کر رہے ہیں ۔
اگر یقین نہیں آتا تو گلی میں کھلے کسی بھی انگلش میڈیم میں جا کر ان کا سلیبس اٹھا کر دیکھ لیں ۔ بچے کے گھٹے ہوئے کلاس روم میں دو گھنٹے گزار کر دیکھیں اور سب سے بڑھ کر مسلسل خوف اور مقابلے کے ماحول میں کچھ دیر کے لئے سانس لیں تو احساس ہوگا کہ مستقبل کے نو نہالوں کو سیکھنے کی عمر میں برداشت کرنے پر لگا دیا گیا ہے۔
نصاب تعلیم کتنا حساس موضوع ہے شاید اس کا اندازہ ارباب اختیار کو نہیں ہے ۔ نصاب کسی شاندار عمارت کی بنیاد ہے جس کے صحیح ہونے پر عمارت کی مضبوطی یا کمزوری کا انحصار ہوتا ہے۔
انگریز معاشروں کے نصاب تعلیم کے تیار دہندگان اساتذہ کو بطور خاص ایک ایسا نصابی ڈھانچہ مرتب کرکے دیتے ہیں جس میں انہیں اس چیز کا پابند کیا جاتا ہے کہ بچوں کی گھر میں بننے والی مذہبی اور روحانی بنیاد پر سکول اور نصاب مہر تصدیق ثبت کرے تاکہ بچوں کے اندر تک ان کا مذہب سے تعلق جڑ پکڑ سکے اور بچے مذہب کے بارے میں ایک پختہ سوچ کے ساتھ پروان چڑھیں ۔ وہ گھر اور سکول کے متضاد ماحول کی وجہ سے الجھے ہوئے کنفیوز شہری نہ بن جائیں ۔ اس وقت ایک مخصوص طبقہ جو یورپ کے کلچر کو اپنا بنانے کے لئے بے چین ہے اور اس مقصد کے لئے نصاب میں مسجد کی جگہ چرچ اور عید کی جگہ کرسمس لانے پر بضد ہے بلکہ لے آئے ہیں انھیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ وہ اپنی خواہش کے لئے اپنی نسلوں کو ایک ایسے بے نامی کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ۔
ایسے سب آزاد خیال اور متعصب ذہنیت لوگوں کو اس بات کا شعور نہیں کہ بچپن میں بچوں کے کچے ذہنوں کو گروی رکھوانے سے وہ انہیں ہمیشہ کے لئے اپنے اصل کے متعلق کنفیوز کر دیتے ہیں ۔ وہ کامیاب ڈاکٹر، بیوروکریٹ سیاستدان تو بن جائیں گے لیکن ان کی فطری، مذہبی، ثقافتی بنیادیں اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ وہ اپنی اقدار، اور اصولی و نظریاتی اساس کی حفاظت سے قاصر رہتے ہیں ۔ یہ قوموں کے لئے لمحہ فکریہ ہے جب ان کی نسلیں اپنے تاریخی و روحانی ورثے کی حفاظت تو درکنار اس سے آگاہی نہ حاصل کر پائیں ۔ قومیں اپنی مضبوط نسلی، مذہبی ثقافتی روایات کی پاسبان ہوتی ہیں اور انھیں تعلیمی درس گاہوں میں درسی کتابوں اور باکردار استادوں کے توسط سے یہ روایات منتقل کرنا ذمہ دار افراد کا اہم فرض ہوتا ہے۔
بچوں کا اردگرد کا ماحول ان کی تعلیم میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچے جو پڑھتے ہیں اسے عملی زندگی میں اپلائی کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ لفظوں سے معنی اخذ کرتے ہیں اور تصویریں اور کردار ان کے تخیل میں جگہ بناتے ہیں ۔ وہ نصابی اور غیر نصابی کہانیوں کو اپنے اردگرد ڈھونڈتے ہیں، نئے الفاظ کو سن پڑھ کر اپنی دنیا میں اپنے معنی تراشتے ہیں ۔ مشاہدہ اور نقل بچوں کی فطرت ہے ۔ نصاب ترتیب دیتے وقت ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ یہ صرف مشینی الفاظ نہیں بلکہ حقیقی معنی پر مبنی تجربات ہوں گے ۔
کتنی مائیں ہیں جو بچوں کو ویلنٹائن، ہالووین، سینٹ پیٹرک ڈے کی وضاحت کر کے سمجھا سکتی ہیں ۔ اور اگر سمجھا سکتی ہیں تو کیوں سمجھائیں؟ جب ہماری عملی زندگی سے ان دنوں اور تہواروں کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ جس طرح ہم ہندوؤں کی طرح اپنے مردوں کو جلا نہیں سکتے اسی طرح ہم اقبال کے شاہینوں کو سینٹ پیٹرک کے کوے نہیں بنا سکتے ۔
ہمیں معصوم روحوں سے ان کی اصل چھیننے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ وہ چند لوگ جو بدیسی تہواروں اور کرداروں کو اپنانا چاہتے ہیں وہ بڑے شوق سے اپنائیں لیکن اس طرح کے نصاب تعلیم کی صورت میں ہماری نسلوں سے ان کے تہوار اور ان کے سچے کردار نہ چھینیں ۔گھوڑوں اور گدھوں کا ملا جلا معاشرہ ایک نارمل فطری معاشرہ ہوگا لیکن ایسے نصاب تعلیم سے پروان چڑھنے والی نسل خچروں کی نسل ہوگی ۔
تعلیم بچے کو صرف کسی زبان میں ماہر کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ مستقبل کے لئے ایک ایسا انسان تیار کرنا ہے جو اپنی پہچان کے ساتھ معاشرے اور ملک کے لیے کارآمد انسان بن سکے ۔ جب بات اپنی پہچان کی آتی ہے تو چھوٹی عمر میںبچوں کو جو کہانی، کردار، واقعات پڑھائے جائیں گے ان کا کردار انہی بنیادوں پر تشکیل پائے گا ۔ یاد رہے کہ شناخت کو کھو دینے والے آزاد لوگ بھی غلاموں سے بدتر ہوتے ہیں اور اپنی شناخت کا ادراک رکھنے والے غلام بھی آزاد ہوتے ہیں ۔
بچوں کو دوسروں کا تیار کردہ یا دوسرے ملکوں کے مطابق تیار کردہ نصاب تعلیم پڑھانا بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ صبح و شام دفتر یا دوکان پر جائیں محنت کریں اور اپنی بچت کی رقم کسی دوسرے کے اکاؤنٹ میں جمع کرواتے رہیں اور جب آپ بوڑھے ہوں تو خالی ہاتھ ہوں ۔
بہت سارے تارکین وطن کو اس تلخ تجربے سے گزرنا پڑتا ہے کہ ان کی تیسری یا چوتھی نسل اپنے مذہب، روایات اور ثقافت کو ترک کر دیتی ہے۔ اگر مکمل طور پر ترک نہیں بھی کرتی تو ان کے لئے اپنی اصل اور اپنی جڑوں سے لگاؤ یا ان کا علم نہیں رہتا، ایسے میں ان کا کسی بھی مذہب، اور ثقافت کو اختیار کرنا یا چھوڑ دینا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ یہی وہ مقام ہے جو قوموں کے زوال کا باعث بنتا ہے ۔
بہت سال پہلے برطانیہ کے کسی چینل پر کامیاب لوگوں کے انٹرویو چلا کرتے تھے ۔ ایک بڑے کشمیری بزنس مین کا انٹرویو آیا جو بہت سارے ان کشمیریوں میں سے تھا جو 1947 میں یا پچاس کی دہائی میں انگلینڈ جا کر آباد ہو گئے تھے ۔ اس سے جب میزبان نے اس کی کامیاب زندگی کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کمال بہادری سے کہا کہ '' میں ایک ناکام ترین شخص ہوں کیونکہ میں نے اپنی جڑیں اور اپنی اصل کھو دی ہے، میرا ایک بیٹا عیسائی عورت سے، دوسرا ہندو سے اور بیٹی سکھ سے شادی کر چکی ہے۔ میرے بچوں کے بچے اپنے مذہب اور نسل سے منحرف ہوں گے ۔ پیسہ اور نام بے کار ہے، جب میں اپنی شناخت اور اصل ہی کھو چکا ہوں۔''
اس شخص کا کرب لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر اسے نوجوانی میں علم ہوتا کہ اس کی کمائی گھاٹے کا سودا ہو گی اور سونا مٹی ہو گا تو اس کے فیصلے بہت مختلف ہوتے ۔ ایسے بہت سارے امریکہ اور یورپ کے مکین ہیں جو اپنی نسلوں کا سودا کرکے پچھتا رہے ہیں، لیکن ان کے لئے شاید ان کی غلطیوں کا کوئی جواز بنتا ہو کہ وہ دوسروں کے ماحول اور مذہب کے تسلط میں تھے، لیکن اپنے ملک میں رہ کر اپنی اصل سے انحراف کا جنون سمجھ سے بالاتر ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ بویا کاٹنے کا وقت بہت دیر سے آتا ہے ۔ اکثر قوموں اور نسلوں کے غلط فیصلوں کے نتائج جو تباہی لاتے ہیں تب ان فیصلوں کے کرنے والے قبروں میں فاسفورس بن چکے ہوتے ہیں ۔ اور ان کی نسلیں ان کے غلط فیصلوں کی قیمت ادا کرتی ہیں۔
کاش ! ہمارے علما نے سطحی قسم کے بحث مباحثے چھوڑ کر ایسے معیاری تدریسی نظام کی بنیاد رکھی ہوتی جو عصر حاضر کے جدید تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس کھوکھلے، دوہرے، ناقص، سازشی، طاغوتی نصاب کی دھجیاں بکھیر دیتا۔ کوئی بھی باشعور قوم اپنے بچوں کو دوسروں کی تہذیب بطور سبق اور دوسروں کے مذہبی کردار بطور ہیروز نہیں پڑھاتی ۔