عظیم تر نیلسن منڈیلا

نیلسن منڈیلا تو چلے گئے لیکن وہ اپنے پیچھے سامراج کے غلبے اورغلامی کے خلاف آزادی کی جدوجہد چھوڑ گئے

mjgoher@yahoo.com

جنوبی افریقہ کے آنجہانی صدر اور عظیم رہنما نیلسن منڈیلا کی آخری رسومات ادا کردی گئیں ہزاروں لوگوں نے بھیگتی آنکھوں سے اپنے محبوب لیڈرکو الوداع کہا۔ منڈیلا اب تاریخ کا حصہ ہوگئے اور افریقی عوام ایک عظیم مدبر سیاستدان سے محروم ہوگئی۔ آپ دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ کم ہی رہنما ایسے گزرے ہیں جو اپنے مقصد کے حصول کی خاطر کامل یقین اور اخلاص نیت کے ساتھ شبانہ روز جدوجہد کرتے ہیں ۔مصائب جھیلتے اور تکالیف اٹھاتے ہیں اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے صبر، تحمل، برداشت اور کاوش پیہم کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے حیران کن طور پر مشکل اور کٹھن راستوں سے بھی آبلہ پا گزرتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے ہی مخلص، ثابت قدم، بلند ہمت اور پر عزم رہنماؤں کے پیچھے عوام کا جم غفیر اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے چل پڑتا ہے کیونکہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ ان کا قائد انھیں منزل مقصود تک پہنچا دے گا اور پھر وہ دن آجاتا ہے کہ جب کھرے اور سچے لیڈر جذبہ صادق کی بدولت منزل پالیتے ہیں۔ تاریخ ایسے بے لوث، باکردار، مخلص اور بہادر لیڈروں کو کمال اتاترک، شاہ مسعود، ماؤزے تنگ، قائد اعظم محمد علی جناح، یاسر عرفات اور ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے پہچانتی ہے دنیا بھر میں ایسے رہنماؤں کو عزت و احترام حاصل ہوتا ہے۔ نیلسن منڈیلا کا شمار بھی بلاشبہ ایسے ہی عظیم ترین رہنماؤں کے قبیل میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے ذاتی و خاندانی اور جماعتی و سیاسی مفادات کے حصول کی بجائے اپنی قوم کو غلامی سے آزادی دلانے اور ان کے روشن مستقبل کے لیے گوروں کے دیس میں کالوں کے حقوق کی جنگ لڑی۔ نیلسن منڈیلا عدم مساوات اور نسلی امتیاز کے خلاف انسانی وقار، آزادی، امن و مفاہمت اور مساوات کی علامت تھے۔

نیلسن منڈیلا تو چلے گئے لیکن وہ اپنے پیچھے سامراج کے غلبے اور غلامی کے خلاف آزادی کی جدوجہد اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے حوالے سے جو پیغام اور تاریخ چھوڑ گئے ہیں وہ نسلی عصبیت، عدم مساوات اور پسماندہ طبقات پر ظلم و ستم کے خاتمے کے حوالے سے بیداری پیدا کرنے کے لیے مشعل راہ بن سکتا ہے کیونکہ دنیا میں آج بھی ایسے بے شمار ممالک ہیں جہاں غریب و نادار طبقات پر مراعات یافتہ طبقہ حاوی ہے اور عام آدمی کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں جب تک وہاں نیلسن منڈیلا جیسا مخلص، عزم و ہمت کا پیکر، جرأت بہادری اور صداقت کا علمبردار رہنما پیدا نہیں ہوگا لوگ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جاتے رہیں گے۔ ان کے حقوق پامال ہوتے رہیں گے۔ نیلسن منڈیلا نے 1963 میں ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ ''میں نے اپنی زندگی افریقی عوام کے لیے وقف کر رکھی ہے میں نے سفید فام باشندوں کے غلبے کے خلاف لڑائی لڑی ہے اور میں سیاہ فام کے غلبے کے بھی خلاف ہوں، میں ایک آزاد اور جمہوری معاشرے کا خواہش مند ہوں جس میں تمام لوگ پیار و محبت کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں اور انھیں مساوی حقوق حاصل ہوں۔ یہی میرا خواب ہے جس کے لیے میں زندہ ہوں اور مجھے امید ہے کہ میں اسے حاصل کرکے رہوں گا اور اگر اس کے لیے کسی قربانی کی ضرورت ہے تو میں مرنے کو بھی تیار ہوں'' اور پھر پوری دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ نیلسن منڈیلا نے اپنے خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے کتنے دکھ جھیلے، صعوبتیں برداشت کیں، 27 سال طویل جیل کاٹی، مشکلات اور مصائب و آلام کا سامنا لیکن حصول منزل تک ان کے پایہ استقلال میں لغزش نہ آئی کڑے امتحانوں و آزمائشوں سے گزرتے ہوئے بالآخر مقصد حیات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔


ایک دانشور کا قول ہے کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ رو رہا ہوتا ہے اور لوگ اس کی پیدائش پر مسکرا رہے ہوتے ہیں خوشیاں مناتے ہیں۔ اس دنیا کے آب و گل میں آنے کے بعد انسان کو ایسے کام کرنے چاہئیں کہ جب وہ اس دنیا سے جا رہا ہو تو اس کے چہرے پر اطمینان اور لبوں پر مسکراہٹ ہو لیکن لوگ اس کی جدائی پر گریہ کناں ہوں اس کی تعریف و توصیف کر رہے ہوں کہ کتنا اچھا انسان آج دنیا سے چلا گیا۔ نیلسن منڈیلا پر یہ قول پوری طرح صادق آتا ہے کیونکہ ان کی پوری زندگی قوم کی فلاح و بہبود کے لیے جدوجہد سے عبارت ہے اور اس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ ان کے انتقال پر پورا ساؤتھ افریقہ سوگ میں ڈوبا ہوا ہے گورے اور کالے ہر دو نسل کے لوگ منڈیلا جیسے محبوب اور محسن قوم لیڈر کی جدائی پر آہ و فغاں کر رہے ہیں۔ امریکی صدر بارک اوباما، برطانوی ملکہ ایلزبتھ، صدر پاکستان ممنون حسین سمیت دنیا بھر کے رہنما و قائدین میڈیا نیلسن منڈیلا کو قوم کے لیے ان کی گراں قدر خدمات پر زبردست خراج تحسین پیش کر رہے ہیں اور انھیں عظیم ترین لیڈر قرار دیا جارہا ہے جو ان کی عظمت و بڑائی کی علامت ہے اور تاریخ میں ان کا نام سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔

درحقیقت نیلسن منڈیلا ایک ایسے رہبر و قائد تھے جو اپنے مقصد حیات سے پوری طرح آگاہ تھے اور منزل مقصود پر ان کی گہری نظر تھی اپنی قوم کو غلامی کے اندھیروں سے نکالنے، ان کے حقوق کے تحفظ اور معاشرے میں انھیں ایک باعزت و باوقار مقام دلانے کے لیے جاں سے گزر جانے کا سودا ان کے سر میں سمایا ہوا تھا۔ اپنے مقصد سے لگن ہی کی بدولت وہ اپنی قوم کے حقوق کی جنگ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ پھر 1994 میں جنوبی افریقہ میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں افریقی نیشنل کانگریس برسر اقتدار آئی اور نیلسن منڈیلا ملک کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوگئے ان کے دور حکومت میں ایک نیا جنوبی افریقہ معرض وجود میں آیا۔ عدم مساوات اور نسلی امتیاز کے خلاف اپنی تاریخ ساز جدوجہد کے تناظر میں صدر منڈیلا نے سیاہ و سفید فام باشندوں کے درمیان حائل خلیج کو ختم کرنے کے لیے بے شمار اصلاحات کیں اور نئے قوانین بنائے بالخصوص سیاہ فام باشندوں کے طویل احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے ان کی فلاح و بہبود کے حوالے سے منعقد منصوبے متعارف کرائے۔ اپنی صدارتی موت کے دوران نیلسن منڈیلا نے بے شمار تعمیری کام کیے جنھیں جنوبی افریقہ کی سیاہ و سفید فام آبادی نے خوش دلی سے سراہا اور دنیا بھر میں بھی منڈیلا کے اصلاحی منصوبوں کو پذیرائی ملی۔ صدارت و سیاست سے علیحدگی کے بعد نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی انسانی حقوق، سماجی انصاف اور امن کے لیے وقف کردی عظیم تر منڈیلا کی پوری زندگی سچائی، اخلاص، جذبہ صادق اور مقصد کے حصول کے لیے جہد مسلسل سے عبارت ہے جس میں 21 ویں صدی کے رہنماؤں اور قائدین کے لیے ایک سبق بھی ہے۔ بالخصوص ہمارے ارباب سیاست جو قائد اعظم ثانی کے دعویدار ہیں۔ نیلسن منڈیلا کی زندگی سے رہنمائی حاصل کریں اور ذاتی، خاندانی، جماعتی اور سیاسی مفادات کے تحفظ کی بجائے حرماں نصیب قوم کے روشن مستقبل اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔
Load Next Story