بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔
منبع طاقت
مولف: صوفی شوکت رضا سرکار
قیمت: 100 روپے۔۔۔صفحات:96
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور ، کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (03004140207)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی طاقتوں سے نوازا ہے۔ کچھ طاقتوں کو انسان روزمرہ کے کاموں کے لئے استعمال کرتا ہے اور کچھ کے بارے میں اسے علم ہی نہیں ہوتا جیسے ذہنی یا روحانی طاقت ۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ روز مرہ زندگی میں اپنے کام کاج کے لئے انسان اپنے دماغ کو استعمال کرتا ہے بس یہی دماغ کا استعمال ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی دماغ کو حیرتوں کا مجموعہ بنایا ہے، روزمرہ میں اس کا استعمال اس کا ایک چھوٹا سے حصہ ہے، انسانی دماغ کی طاقت بہت زیادہ ہے مگر وہ انسان سے پوشیدہ ہے جو افراد اپنی ان طاقتوں کو جگا لیتے ہیں وہ دوسروں سے بہت آگے نکل جاتے ہیں، یہی عالم روحانی طاقت کا ہے۔
زیرتبصرہ کتاب میں صوفی شوکت رضا سرکار نے انھی طاقتوں کو استعمال کرنے کے حوالے سے پردہ اٹھایا ہے، وہ انسان کو احساس دلانا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کن طاقتوں سے نوازا ہے اور انھیں استعمال کیسے کرنا ہے، انھوں نے موضوعات کو تہتر عنوانات میں تقسیم کیا ہے جیسے حقیقت رساں انسان، انسان ہی طاقتوں پر خودمختار، طاقتوں کی پہچان بذریعہ علم، فضیلت علم، باطن پر یقین کامل، طاقت یقین، طاقت عمل ، طاقت جہاد، طاقت نور، طاقت اسماء الہیٰ، خود سے خود کو پانا؛ اک سوال، خود اعتمادی، احتساب طاقت ۔ عنوانات سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ قاری کو کس عالم سے روشناس کرانا چاہتے ہیں ۔ کم قیمت کی معیاری کتاب ہے ناصرف روحانیت سے دلچسپی رکھنے والوں کو بلکہ مایوسی کا شکار افراد کو بھی اس کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ تاریکی سے نکل کر روشنی میں آ سکیں ۔
آگہی
مولف: نسیم طاہر (ایڈووکیٹ)
قیمت:400 روپے۔۔۔۔صفحات: 176
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور،کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (03004140207)
اللہ تعالیٰ عقل سے ماورا ہے، صرف روحانیت کی دنیا میں جھانکنے کی اہلیت رکھنے والے ہی عین الیقین رکھتے ہیں پھر وہ لوگ بے چارے کیا کریں جن میں دوسرے عالموں میں جھانک لینے کی استطاعت ہی نہیں، اللہ تعالیٰ نے ان عقل کے جویائوں کے لئے ایسی نشانیاں چھوڑی ہیں کہ انھیں اس کے ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔
اسی لئے تو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ عقل والوں کے لئے ان میں نشانیاں ہیں، زیر تبصرہ کتاب اللہ تعالیٰ سے تعلق پر روشنی ڈالتی ہے۔ ڈاکٹر محمود اکرم کہتے ہیں ''آگہی '' کے متعلق میرا تاثر یہ ہے کہ اس میں ''ذات انسانی'' کا مطالعہ ندرت فکر و نظر اور ایک نئی نہج سے کیا گیا ہے۔ صاحب کتاب نے گہرے تحقیقی اور مشاہداتی تجربات سے گزر کر انسان کی بدنی، روحانی، ذہنی، نفسی اور نفسیاتی کیفیات کو بیان کیا ہے۔
انداز بیان بھی منفرد اور قابل ستائش ہے۔ مطالعے کے دوران قاری دلچسپی اور مسرت کی لہروں کے مدوجذر سے گزرتا اور ساتھ ہی اس کا دل بے اختیار اللہ کریم کی بے شمار عنایات پہ شکر گزاری کے جذبات سے لبریز ہوتا چلا جاتا ہے ۔ دوران مطالعہ آدمی فکر و تخیل کے ان آفاقی مقامات کی سیر کرتا چلا جاتا ہے جہاں کا اس نے کبھی سوچا نہ تھا ۔ میری نظر میں یہی '' آگہی'' کا حاصل مقصود ہے ۔'' اس کتاب سے قبل بھی مولف '' قرآنی آیات'' اور '' رخت ہستی '' کے نام سے دو کتب تصنیف کر چکے ہیں۔ ان کی موجودہ کاوش بھی انتہائی شاندار ہے، روحانیت سے دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
اعدلوا
مصنف : ڈاکٹر اے آر خالد
صفحات : 238۔۔۔۔قیمت : 1800 روپے
ناشر : قلم فاونڈیشن ، والٹن روڈ ، لاہور، کینٹ
'' اعدلوا '' عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب عدل کا قیام ہے۔ عدل ایک ہمہ جہت لفظ ہے جو اپنے اندر غیر معمولی وسعت اور گہرائی رکھتا ہے۔ اسلام جو دین ِ فطرت ہے زندگی کے تمام شعبوں میں عدل کے قیام پر زور دیتا ہے ۔ پوری کائنات ہی درحقیقت نظام ِ عدل پر قائم اور استوار ہے۔ کہ اس کے بغیر کائنات کا سارا نظم ہی درہم برہم ہوجائے۔ ڈاکٹر اے آر خالد نے اسی عدل کی ہمہ گیری کے پیش نظر اسے ایک کتاب کی صورت میں اہل ِ علم و دانش اور اہل حکم و اقتدار کے سامنے پیش کیا ہے۔
انہوں نے کتاب کے آغاز میں '' کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق ۔۔۔'' کے زیر ِعنوان ایک مبسوط مقالے کی شکل میں جو پیش لفظ تحریر کیا ہے وہ کتاب کے موضوع کی گویا تشریح و توضیح ہی پر مبنی ہے۔ جبکہ کتاب میں شامل باقی سارا مواد ان کے ان کالموں کے انتخاب پر مشتمل ہے جو انہوں نے مختلف مواقع پر ملک کے عدالتی نظام ، عدلیہ کے فیصلوں، عدلیہ کے کردار و اہمیت کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ ، جمہوریت ، سیاست اور امور ِ مملکت کے موضوع پر سپرد ِ قلم کیے تھے۔ ڈاکٹر اے آر خالد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل و مشکلات کی وجہ نظام ِ عدل کا نہ ہونا ہے اگر تمام شعبہ ہائے زندگی میں نظام عدل کی فرمانروائی ہو جائے تو تمام مسائل ازخود حل ہو جائیں۔ وہ اس معاملے کو البتہ محض عدلیہ پر چھوڑنے کو مناسب نہیں سمجھتے بلکہ پورے نظام ِ حیات پر اس کا اطلاق چاہتے ہیں اور ان کے اس نقطہ نظر سے ظاہر ہے اختلاف ممکن نہیں۔کتاب کو قلم فاونڈیشن نے حسب ِ روایت عمدہ کاغذ اور بہترین طباعتی معیار کے ساتھ شائع کیا ہے پاکستان کی سیاسی، پارلیمانی اور عدالتی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب یقینی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔
منزل سے قریب (تراجم لالہ صحرائی)
مرتبہ: ڈاکٹر زاہرہ نثار
ناشر: دارالنوادر، الحمد مارکیٹ اردو بازار، لاہور ۔ 03008898939
ادیب، نعت گو اور دانش ورلالہ صحرائی کا اصل نام محمد صادق تھا۔ اوائلِ عمر ہی سے مطالعے کا رجحان رکھتے تھے۔ جو رسالہ کہیں سے مل جاتا یا کوئی کتاب دستیاب ہوجاتی، اس کے مطالعے کو سب کاموں پر فوقیت دیتے۔ رفتہ رفتہ خود بھی لکھنا شروع کر دیا۔ سال ہا سال تک ملک کے معتبر علمی و ادبی جرائد میں آپ کے تحریر کردہ افسانے ، شخصی خاکے، انشائیے،طنزو مزاح اور سیاسی و تنقیدی مضامین شائع ہوتے رہے۔
نعتیہ شاعری کے مجموعے خود انھوں نے مرتب کرکے اپنی زندگی ہی میں شائع کر دیے تھے۔ ان کی وفات کے بعد مرحوم کے لائق فرزندوں ( ڈاکٹر جاوید صادق، ڈاکٹر نوید صادق) نے ان کے بقیہ تخلیقی مسودوں کو منظر عام پر لانے کے لیے'لالہ صحرائی فائونڈیشن' قائم کی جس کے تحت دو سال قبل '' کلیاتِ لالہ ء صحرائی'' کے نام سے مرحوم کے جملہ شعری سرمائے کو یکجا شائع کیا گیا ۔ اس کے بعد نثر کی دو جلدیں سامنے آئی ہیں ۔ ( منزل سے قریب۔ نگارشاتِ لالہ ء صحرائی)
زیرِ نظر کتاب لالہ صحرائی کے ان تراجم پر مشتمل ہے جو انھوں نے مختلف اوقات میں کیے اور انھیں مختلف رسائل و جرائد نے شائع کیا۔ انھیں مرتب کرنے کا کام ڈاکٹر زاہرہ نثار نے کیا ہے۔ اس مجموعے میں ٹالسٹائی، موپساں، لی ایم اوفلاہرٹی، ایچ ایچ مرو، الفریڈ ہیلر، مریم جمیلہ ، ولیرس ڈی لانیٹل ایڈم، علامہ محمد اسد و دیگر اہل قلم کے افسانے اور مضامین شامل ہیں جنھیںلالہ صحرائی نے اردو کے قالب میں ڈھالا۔
پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا (پروفیسر امریطس اردو پنجاب یونی ورسٹی لاہور) نے لالہ صحرائی کی ترجمہ نگاری کی تحسین کرتے ہوئے لکھا ہے'' یہ تراجم ، افسانہ ، سفر نامہ ، مضمون ، طنزومزاح اور دیگر متفرق تحریروں پر مشتمل ہیں۔ ان میں اتنی روانی ہے کہ مطالعے کے دوران ہرگز احساس نہیں ہوتا کہ یہ ترجمہ شدہ تحریریں ہیں۔ ایسی ہنر مندی اکثر مترجمین کے ہاں شاذ ہی دکھائی دیتی ہے۔''
اسی طرح ایک اور نام ور ادیب الطاف حسن قریشی نے لالہ صحرائی کو یوں داد دی ہے:''انھوں نے غیر ملکی کلاسیکی اد ب سے بلند پایہ افسانوں، سفرناموں ، قلبی وارداتوں اور فکر انگیز مضامین کے تراجم اس کمال سے کیے کہ وہ اصل سے کہیں زیادہ اثر انگیز محسوس ہوتے ہیں ۔ ان تراجم میں روسی شاعری بھی اردو قالب میں ڈھلی ہوئی ہے، جس کا اپنا ایک لطیف ذائقہ ہے۔''
زیر نظر کتاب لالہ ء صحرائی کے اعلی علمی و ادبی ذوق اور ترجمہ نگاری میں ان کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تراجم ایسے عمدہ اور خو ب صورت انداز میں کیے ہیںکہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ تراجم نہیں، اصل اردو تحریریں ہیں۔
پریشاں سا پریشاں
مصنف: ڈاکٹر مجاہد مرزا
قیمت:1500 روپے۔۔۔۔صفحات:702
ناشر: سنگی کتاب گھر، ہری پور (03345958597)
اپنی زندگی کی کہانی بلاکم کاست بیان کرنا گویا اپنے گناہوں کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ دینا ہے اس لئے قلم قبیلے کی اکثریت اس سے دور ہی رہتی ہے یا پھر ان کا انداز استعارے کا یا پھر فکشن کا رنگ لئے ہوئے ہوتا ہے، ڈاکٹر مجاہد مرزا اپنی آپ بیتی ایسے مزے مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں جیسے کسی کار خیر میں مصروف ہوں۔
خیر یہ تو بطور اظہار تفنن لکھ دیا، لفظ کارخیر تو ان کی آپ بیتی پر واقعتاً پورا اترتا ہے کیونکہ وہ جتنے بڑے انسان ہیں ( گو انھوں نے اپنی آپ بیتی کو عام آدمی کی آپ بیتی قرار دیا ہے جس سے ہم تو کیا کوئی بھی متفق نہیں ہو گا ) اور زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر جس مقام پر پہنچے ہیں وہ تو نئی نسل کے لئے ایک مثال ہے، وہ ان کی آپ بیتی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں کہ کیسے حالات کا مقابلہ کیا جاتا ہے اور منزل کی طرف رواں دواں رہا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر مجاہد مرزا کی متعدد کتابیں منصفہ شہود پر آ چکی ہیں، جن میں '' گمشدہ شہر اور ملیا میٹ تہذیبیں'' ، ''انگلیوں میں دھوپ''، '' یہودیوں کا نسلی تفاخر'' اور '' محبت ۔۔ تصور اور حقیقت '' شامل ہیں ۔ قومی اخبارات اور رسائل میں ان کے مضامین چھپتے رہے۔ ماسکو میں ریڈیو صدائے روس کے ساتھ بطور مترجم اور براڈ کاسٹر منسلک رہے۔
ان کی آپ بیتی کے حوالے سے محمد حسن معراج کہتے ہیں '' کتاب ختم ہوئی تو جیسے قیمتی کرسٹل کا ایک گلاس ٹوٹ گیا۔ اس کی ہرکرچی میں اپنا ہی عکس بہت سے حصوں میں بٹا دکھائی دیتا ہے۔ یہ حساب کی وہ مساوات ہے جہاں نوے فیصد آپ کا دل چاہتا ہے کہ آپ مجاہد مرزا ہوتے اور نوے فیصد خواہش ہوتی ہے کہ بالکل بھی نہ ہوتے ۔۔۔ پہلی بار حساب کی بنیادی سوجھ بوجھ رکھتے ہوئے میرا دل چاہا کہ سو فیصد میں ایک سو اسی ہوتے ۔۔۔ مجاہد صاحب نے لکھا ہے کہ ان کی زندگی ایک عام آدمی کی زندگی ہے۔
کتاب پڑھیے اور خود بتائیے بھلا ایسی بھرپور، پر خطر، دل آویز اور دل فگار کہانی عام آدمی کی ہو سکتی ہے۔ '' مصنف کا انداز بیاں ایسے ہے جیسے وہ آپ کو ساتھ لئے گھوم رہے ہوں، قاری کو سب کچھ آنکھوں دیکھا معلوم ہوتا ہے، آپ بیتی جب شروع کرتے ہیں تو چھوڑنے کو جی نہیں کرتا ۔ ٹائٹل بھی کیا شاندار ہے، پریشانی تو عیاں ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ فکر کے اور بھی کئی زاویئے عطاکرتا ہے۔
ملفوظات، سلطان الحقیقت حضرت فضل شاہؒ
مرتب: متین رفیق ملک
قیمت:300 روپے۔۔۔صفحات:144
ناشر:ادبستان،پاک ٹاور، کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (03004140207)
دانش اور معرفت اللہ تعالیٰ کا کسی فرد پر خصوصی انعام ہے، ورنہ دل و دماغ تو اللہ تعالیٰ نے سب کو ایک سے ہی عطا کئے ہیں ۔ یوں لگتا ہے اللہ تعالیٰ جب کسی فرد سے خوش ہوتا ہے یا کسی قوم کی حالت بدلنا چاہتا ہے تو ان میں ایسے نفوس قدسیہ پیدا فرماتا ہے جو اس قوم کی حالت بدلنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
ایسے اللہ والوں کی قربت انسان کے لئے فیض کا ذریعہ بنتی ہے اور ان کی صحبت سے افراد کے دل و دماغ میں انقلاب برپا ہونے لگتے ہیں کیونکہ ایسے نفوس قدسیہ اپنی سوچ اور طرز انھیں ودیعت کر دیتے ہیں ۔ وہ ایک بہت بڑے مقناطیس کی طرح ہوتے ہیں ان کی کشش دوسروں کو کھینچ لیتی ہے اور پھر انھیں بھی مقناطیس بنا دیتی ہے۔
سلطان الحقیقت حضرت فضل شاہ ؒ صاحب خود امی تھے مگر ان کی صحبت میں حنیف رامےؒ، واصف علی واصفؒ، اشفاق احمدؒ، بانوقدسیہؒ، ممتاز مفتی اور دیگر بہت سے مفکرین بیٹھا کرتے تھے۔ شاہ صاحبؒ ایسے ایسے نقطے بیان کرتے تھے کہ یہ صاحبان علم بھی ششدر رہ جاتے تھے، شاہ صاحب سے ملاقات سے قبل بھی ایسے افراد کتابی اور اکستابی علم سے مالامال تھے مگر ان کی نظر کیمیا نے انھیں کتاب و شنید سے ماورا علم کی بھی راہ دکھا دی اور ان کے روشن کئے ہوئے ان چراغوں نے معاشرے میں چھائی تاریکی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ۔
علم لدنی سے مالا مال سلطان الحقیقت حضرت فضل شاہؒ جب اپنے مرشد حضرت میاں خدا بخشؒ کی خدمت میں حاضر رہا کرتے تھے تو خاموش بیٹھے رہتے تھے، آپؒ کو خاموش دیکھ کر لوگ حضورؒ پرنور سے فرماتے کہ اس بچے کو کبھی بولتے نہیں دیکھا۔ حضرت میاں صاحبؒ فرماتے کہ یہ بچہ اپنے وقت پر بولے گا اور اس وقت کائنات میں اس کا جواب نہیں ہو گا۔ اور ایسا ہی ہوا ، آپؒ کی نکتہ آفرینی نے انسانی دل ودماغ کو حیران کر کے رکھ دیا۔
دنیا جہان کا کوئی بھی سوال ، کوئی مسئلہ آپ سے پوچھا گیا تو آپؒ نے اس کا مدلل جواب دیا اور ایسا دیا کہ اس سے بہتر جواب ہو نہیں سکتا تھا ۔ ملفوظات میں آپؒ کے بیانات اور اقوال ترتیب دیئے گئے جو ہم سب کے لئے مشعل راہ ہیں، نئی نسل کو بالخصوص اس کا مطالعہ کرنا چاہیے اس سے ان کے ابہام دور ہوں گے ، دل کی تشفی ہو گئی ۔ مجلد کتاب کے سرورق کو سلطان الحقیقتؒ کی تصویر سے مزین کیا گیا ہے، اور کیا خوب کیا گیا ہے کہ دیدہ زیبی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔
فاضلی انوار الٰہی
مرتبین: احمد دستگیرؒ، پروفیسر حافظ نذر السلامؒ
قیمت:200 روپے۔۔۔۔صفحات:144
ناشر:ادبستان،پاک ٹاور ،کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (03004140207)
اللہ والے اس دنیا میں ایسے ہیں جیسے گھپ اندھیرے میں روشن چراغ ، جو ہر دم روشنی بانٹتے رہتے ہیں، اندھیروں میں بھٹک جانے والوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔ ان سے روشنی پانے والے نئے چراغ روشن کرتے ہیں، یوں ایک ایسا روشن اور تابناک سلسلہ شروع رہتا ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔ ان کا قرب انسان کو اللہ کی رحمت کے سائے تلے لے جاتا ہے کیونکہ ان بزرگان دین کا وجود ہی باعث رحمت ہے۔ زیر تبصرہ کتاب حضرت فضل شاہ قطب عالم ؒ ( بہ معروف نور والے) کے بیانات پر مبنی ہے۔
حضرت فضل شاہؒ صاحب کا بیان علم ، عمل ، اخلاص اور دوسرے شرعی امور کے متعلق ہے۔ آپ ؒ کا ایک ایک بیان اور قول سنہرے حروف سے لکھا جانا چاہیئے ۔ باباجی خود کوئی بیان تجویز نہ فرماتے تھے کیونکہ آپ کا تمام اظہار عطائے الٰہی پر مبنی ہوتا تھا اور اس بارے میں آپؒ کا ایک بیان ہے کہ '' جو صاحب علم کسب جانتا ہو اسے صرف مشاہدہ ہوتا ہے جو علم کسب نہ رکھتا ہو اسے مشاہدہ بھی ہوتا ہے اور اس کے لیے عبارت بھی اترتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے امی کے لیے مشاہدہ اور عبارت دو مقام ہیں''۔ پروفیسر حافظ نذر السلام کہتے ہیں '' آپ ؒ جو فرماتے ہیں ایک ایک حرف اولیائی کا مقام رکھتا ہے اور ایک ایک جملہ پر کتاب بن سکتی ہے۔ اس کتاب میں آپ کے ارشادات عالیہ ہیں جو آپؒ نے وقتاً فوقتاً مجلسوں میں ارشاد فرمائے جو صاحب صداقت کی آنکھ سے دیکھے گا دنیا میں وہ کامیاب ہو گا اور دین میں با مراد ہو گا۔'' حضرت فضل شاہ صاحبؒ نور والے کتاب کے نام کے حوالے سے فرماتے ہیں '' فقیر نے طلبگاران راہ حق کو نیاز مند بنانے کے لیے اس کتاب کا نام فاضلی انوار الٰہی رکھا ہے''۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
مولف: صوفی شوکت رضا سرکار
قیمت: 100 روپے۔۔۔صفحات:96
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور ، کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (03004140207)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی طاقتوں سے نوازا ہے۔ کچھ طاقتوں کو انسان روزمرہ کے کاموں کے لئے استعمال کرتا ہے اور کچھ کے بارے میں اسے علم ہی نہیں ہوتا جیسے ذہنی یا روحانی طاقت ۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ روز مرہ زندگی میں اپنے کام کاج کے لئے انسان اپنے دماغ کو استعمال کرتا ہے بس یہی دماغ کا استعمال ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی دماغ کو حیرتوں کا مجموعہ بنایا ہے، روزمرہ میں اس کا استعمال اس کا ایک چھوٹا سے حصہ ہے، انسانی دماغ کی طاقت بہت زیادہ ہے مگر وہ انسان سے پوشیدہ ہے جو افراد اپنی ان طاقتوں کو جگا لیتے ہیں وہ دوسروں سے بہت آگے نکل جاتے ہیں، یہی عالم روحانی طاقت کا ہے۔
زیرتبصرہ کتاب میں صوفی شوکت رضا سرکار نے انھی طاقتوں کو استعمال کرنے کے حوالے سے پردہ اٹھایا ہے، وہ انسان کو احساس دلانا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کن طاقتوں سے نوازا ہے اور انھیں استعمال کیسے کرنا ہے، انھوں نے موضوعات کو تہتر عنوانات میں تقسیم کیا ہے جیسے حقیقت رساں انسان، انسان ہی طاقتوں پر خودمختار، طاقتوں کی پہچان بذریعہ علم، فضیلت علم، باطن پر یقین کامل، طاقت یقین، طاقت عمل ، طاقت جہاد، طاقت نور، طاقت اسماء الہیٰ، خود سے خود کو پانا؛ اک سوال، خود اعتمادی، احتساب طاقت ۔ عنوانات سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ قاری کو کس عالم سے روشناس کرانا چاہتے ہیں ۔ کم قیمت کی معیاری کتاب ہے ناصرف روحانیت سے دلچسپی رکھنے والوں کو بلکہ مایوسی کا شکار افراد کو بھی اس کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ تاریکی سے نکل کر روشنی میں آ سکیں ۔
آگہی
مولف: نسیم طاہر (ایڈووکیٹ)
قیمت:400 روپے۔۔۔۔صفحات: 176
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور،کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (03004140207)
اللہ تعالیٰ عقل سے ماورا ہے، صرف روحانیت کی دنیا میں جھانکنے کی اہلیت رکھنے والے ہی عین الیقین رکھتے ہیں پھر وہ لوگ بے چارے کیا کریں جن میں دوسرے عالموں میں جھانک لینے کی استطاعت ہی نہیں، اللہ تعالیٰ نے ان عقل کے جویائوں کے لئے ایسی نشانیاں چھوڑی ہیں کہ انھیں اس کے ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔
اسی لئے تو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ عقل والوں کے لئے ان میں نشانیاں ہیں، زیر تبصرہ کتاب اللہ تعالیٰ سے تعلق پر روشنی ڈالتی ہے۔ ڈاکٹر محمود اکرم کہتے ہیں ''آگہی '' کے متعلق میرا تاثر یہ ہے کہ اس میں ''ذات انسانی'' کا مطالعہ ندرت فکر و نظر اور ایک نئی نہج سے کیا گیا ہے۔ صاحب کتاب نے گہرے تحقیقی اور مشاہداتی تجربات سے گزر کر انسان کی بدنی، روحانی، ذہنی، نفسی اور نفسیاتی کیفیات کو بیان کیا ہے۔
انداز بیان بھی منفرد اور قابل ستائش ہے۔ مطالعے کے دوران قاری دلچسپی اور مسرت کی لہروں کے مدوجذر سے گزرتا اور ساتھ ہی اس کا دل بے اختیار اللہ کریم کی بے شمار عنایات پہ شکر گزاری کے جذبات سے لبریز ہوتا چلا جاتا ہے ۔ دوران مطالعہ آدمی فکر و تخیل کے ان آفاقی مقامات کی سیر کرتا چلا جاتا ہے جہاں کا اس نے کبھی سوچا نہ تھا ۔ میری نظر میں یہی '' آگہی'' کا حاصل مقصود ہے ۔'' اس کتاب سے قبل بھی مولف '' قرآنی آیات'' اور '' رخت ہستی '' کے نام سے دو کتب تصنیف کر چکے ہیں۔ ان کی موجودہ کاوش بھی انتہائی شاندار ہے، روحانیت سے دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
اعدلوا
مصنف : ڈاکٹر اے آر خالد
صفحات : 238۔۔۔۔قیمت : 1800 روپے
ناشر : قلم فاونڈیشن ، والٹن روڈ ، لاہور، کینٹ
'' اعدلوا '' عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب عدل کا قیام ہے۔ عدل ایک ہمہ جہت لفظ ہے جو اپنے اندر غیر معمولی وسعت اور گہرائی رکھتا ہے۔ اسلام جو دین ِ فطرت ہے زندگی کے تمام شعبوں میں عدل کے قیام پر زور دیتا ہے ۔ پوری کائنات ہی درحقیقت نظام ِ عدل پر قائم اور استوار ہے۔ کہ اس کے بغیر کائنات کا سارا نظم ہی درہم برہم ہوجائے۔ ڈاکٹر اے آر خالد نے اسی عدل کی ہمہ گیری کے پیش نظر اسے ایک کتاب کی صورت میں اہل ِ علم و دانش اور اہل حکم و اقتدار کے سامنے پیش کیا ہے۔
انہوں نے کتاب کے آغاز میں '' کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق ۔۔۔'' کے زیر ِعنوان ایک مبسوط مقالے کی شکل میں جو پیش لفظ تحریر کیا ہے وہ کتاب کے موضوع کی گویا تشریح و توضیح ہی پر مبنی ہے۔ جبکہ کتاب میں شامل باقی سارا مواد ان کے ان کالموں کے انتخاب پر مشتمل ہے جو انہوں نے مختلف مواقع پر ملک کے عدالتی نظام ، عدلیہ کے فیصلوں، عدلیہ کے کردار و اہمیت کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ ، جمہوریت ، سیاست اور امور ِ مملکت کے موضوع پر سپرد ِ قلم کیے تھے۔ ڈاکٹر اے آر خالد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل و مشکلات کی وجہ نظام ِ عدل کا نہ ہونا ہے اگر تمام شعبہ ہائے زندگی میں نظام عدل کی فرمانروائی ہو جائے تو تمام مسائل ازخود حل ہو جائیں۔ وہ اس معاملے کو البتہ محض عدلیہ پر چھوڑنے کو مناسب نہیں سمجھتے بلکہ پورے نظام ِ حیات پر اس کا اطلاق چاہتے ہیں اور ان کے اس نقطہ نظر سے ظاہر ہے اختلاف ممکن نہیں۔کتاب کو قلم فاونڈیشن نے حسب ِ روایت عمدہ کاغذ اور بہترین طباعتی معیار کے ساتھ شائع کیا ہے پاکستان کی سیاسی، پارلیمانی اور عدالتی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب یقینی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔
منزل سے قریب (تراجم لالہ صحرائی)
مرتبہ: ڈاکٹر زاہرہ نثار
ناشر: دارالنوادر، الحمد مارکیٹ اردو بازار، لاہور ۔ 03008898939
ادیب، نعت گو اور دانش ورلالہ صحرائی کا اصل نام محمد صادق تھا۔ اوائلِ عمر ہی سے مطالعے کا رجحان رکھتے تھے۔ جو رسالہ کہیں سے مل جاتا یا کوئی کتاب دستیاب ہوجاتی، اس کے مطالعے کو سب کاموں پر فوقیت دیتے۔ رفتہ رفتہ خود بھی لکھنا شروع کر دیا۔ سال ہا سال تک ملک کے معتبر علمی و ادبی جرائد میں آپ کے تحریر کردہ افسانے ، شخصی خاکے، انشائیے،طنزو مزاح اور سیاسی و تنقیدی مضامین شائع ہوتے رہے۔
نعتیہ شاعری کے مجموعے خود انھوں نے مرتب کرکے اپنی زندگی ہی میں شائع کر دیے تھے۔ ان کی وفات کے بعد مرحوم کے لائق فرزندوں ( ڈاکٹر جاوید صادق، ڈاکٹر نوید صادق) نے ان کے بقیہ تخلیقی مسودوں کو منظر عام پر لانے کے لیے'لالہ صحرائی فائونڈیشن' قائم کی جس کے تحت دو سال قبل '' کلیاتِ لالہ ء صحرائی'' کے نام سے مرحوم کے جملہ شعری سرمائے کو یکجا شائع کیا گیا ۔ اس کے بعد نثر کی دو جلدیں سامنے آئی ہیں ۔ ( منزل سے قریب۔ نگارشاتِ لالہ ء صحرائی)
زیرِ نظر کتاب لالہ صحرائی کے ان تراجم پر مشتمل ہے جو انھوں نے مختلف اوقات میں کیے اور انھیں مختلف رسائل و جرائد نے شائع کیا۔ انھیں مرتب کرنے کا کام ڈاکٹر زاہرہ نثار نے کیا ہے۔ اس مجموعے میں ٹالسٹائی، موپساں، لی ایم اوفلاہرٹی، ایچ ایچ مرو، الفریڈ ہیلر، مریم جمیلہ ، ولیرس ڈی لانیٹل ایڈم، علامہ محمد اسد و دیگر اہل قلم کے افسانے اور مضامین شامل ہیں جنھیںلالہ صحرائی نے اردو کے قالب میں ڈھالا۔
پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا (پروفیسر امریطس اردو پنجاب یونی ورسٹی لاہور) نے لالہ صحرائی کی ترجمہ نگاری کی تحسین کرتے ہوئے لکھا ہے'' یہ تراجم ، افسانہ ، سفر نامہ ، مضمون ، طنزومزاح اور دیگر متفرق تحریروں پر مشتمل ہیں۔ ان میں اتنی روانی ہے کہ مطالعے کے دوران ہرگز احساس نہیں ہوتا کہ یہ ترجمہ شدہ تحریریں ہیں۔ ایسی ہنر مندی اکثر مترجمین کے ہاں شاذ ہی دکھائی دیتی ہے۔''
اسی طرح ایک اور نام ور ادیب الطاف حسن قریشی نے لالہ صحرائی کو یوں داد دی ہے:''انھوں نے غیر ملکی کلاسیکی اد ب سے بلند پایہ افسانوں، سفرناموں ، قلبی وارداتوں اور فکر انگیز مضامین کے تراجم اس کمال سے کیے کہ وہ اصل سے کہیں زیادہ اثر انگیز محسوس ہوتے ہیں ۔ ان تراجم میں روسی شاعری بھی اردو قالب میں ڈھلی ہوئی ہے، جس کا اپنا ایک لطیف ذائقہ ہے۔''
زیر نظر کتاب لالہ ء صحرائی کے اعلی علمی و ادبی ذوق اور ترجمہ نگاری میں ان کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تراجم ایسے عمدہ اور خو ب صورت انداز میں کیے ہیںکہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ تراجم نہیں، اصل اردو تحریریں ہیں۔
پریشاں سا پریشاں
مصنف: ڈاکٹر مجاہد مرزا
قیمت:1500 روپے۔۔۔۔صفحات:702
ناشر: سنگی کتاب گھر، ہری پور (03345958597)
اپنی زندگی کی کہانی بلاکم کاست بیان کرنا گویا اپنے گناہوں کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ دینا ہے اس لئے قلم قبیلے کی اکثریت اس سے دور ہی رہتی ہے یا پھر ان کا انداز استعارے کا یا پھر فکشن کا رنگ لئے ہوئے ہوتا ہے، ڈاکٹر مجاہد مرزا اپنی آپ بیتی ایسے مزے مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں جیسے کسی کار خیر میں مصروف ہوں۔
خیر یہ تو بطور اظہار تفنن لکھ دیا، لفظ کارخیر تو ان کی آپ بیتی پر واقعتاً پورا اترتا ہے کیونکہ وہ جتنے بڑے انسان ہیں ( گو انھوں نے اپنی آپ بیتی کو عام آدمی کی آپ بیتی قرار دیا ہے جس سے ہم تو کیا کوئی بھی متفق نہیں ہو گا ) اور زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر جس مقام پر پہنچے ہیں وہ تو نئی نسل کے لئے ایک مثال ہے، وہ ان کی آپ بیتی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں کہ کیسے حالات کا مقابلہ کیا جاتا ہے اور منزل کی طرف رواں دواں رہا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر مجاہد مرزا کی متعدد کتابیں منصفہ شہود پر آ چکی ہیں، جن میں '' گمشدہ شہر اور ملیا میٹ تہذیبیں'' ، ''انگلیوں میں دھوپ''، '' یہودیوں کا نسلی تفاخر'' اور '' محبت ۔۔ تصور اور حقیقت '' شامل ہیں ۔ قومی اخبارات اور رسائل میں ان کے مضامین چھپتے رہے۔ ماسکو میں ریڈیو صدائے روس کے ساتھ بطور مترجم اور براڈ کاسٹر منسلک رہے۔
ان کی آپ بیتی کے حوالے سے محمد حسن معراج کہتے ہیں '' کتاب ختم ہوئی تو جیسے قیمتی کرسٹل کا ایک گلاس ٹوٹ گیا۔ اس کی ہرکرچی میں اپنا ہی عکس بہت سے حصوں میں بٹا دکھائی دیتا ہے۔ یہ حساب کی وہ مساوات ہے جہاں نوے فیصد آپ کا دل چاہتا ہے کہ آپ مجاہد مرزا ہوتے اور نوے فیصد خواہش ہوتی ہے کہ بالکل بھی نہ ہوتے ۔۔۔ پہلی بار حساب کی بنیادی سوجھ بوجھ رکھتے ہوئے میرا دل چاہا کہ سو فیصد میں ایک سو اسی ہوتے ۔۔۔ مجاہد صاحب نے لکھا ہے کہ ان کی زندگی ایک عام آدمی کی زندگی ہے۔
کتاب پڑھیے اور خود بتائیے بھلا ایسی بھرپور، پر خطر، دل آویز اور دل فگار کہانی عام آدمی کی ہو سکتی ہے۔ '' مصنف کا انداز بیاں ایسے ہے جیسے وہ آپ کو ساتھ لئے گھوم رہے ہوں، قاری کو سب کچھ آنکھوں دیکھا معلوم ہوتا ہے، آپ بیتی جب شروع کرتے ہیں تو چھوڑنے کو جی نہیں کرتا ۔ ٹائٹل بھی کیا شاندار ہے، پریشانی تو عیاں ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ فکر کے اور بھی کئی زاویئے عطاکرتا ہے۔
ملفوظات، سلطان الحقیقت حضرت فضل شاہؒ
مرتب: متین رفیق ملک
قیمت:300 روپے۔۔۔صفحات:144
ناشر:ادبستان،پاک ٹاور، کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (03004140207)
دانش اور معرفت اللہ تعالیٰ کا کسی فرد پر خصوصی انعام ہے، ورنہ دل و دماغ تو اللہ تعالیٰ نے سب کو ایک سے ہی عطا کئے ہیں ۔ یوں لگتا ہے اللہ تعالیٰ جب کسی فرد سے خوش ہوتا ہے یا کسی قوم کی حالت بدلنا چاہتا ہے تو ان میں ایسے نفوس قدسیہ پیدا فرماتا ہے جو اس قوم کی حالت بدلنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
ایسے اللہ والوں کی قربت انسان کے لئے فیض کا ذریعہ بنتی ہے اور ان کی صحبت سے افراد کے دل و دماغ میں انقلاب برپا ہونے لگتے ہیں کیونکہ ایسے نفوس قدسیہ اپنی سوچ اور طرز انھیں ودیعت کر دیتے ہیں ۔ وہ ایک بہت بڑے مقناطیس کی طرح ہوتے ہیں ان کی کشش دوسروں کو کھینچ لیتی ہے اور پھر انھیں بھی مقناطیس بنا دیتی ہے۔
سلطان الحقیقت حضرت فضل شاہ ؒ صاحب خود امی تھے مگر ان کی صحبت میں حنیف رامےؒ، واصف علی واصفؒ، اشفاق احمدؒ، بانوقدسیہؒ، ممتاز مفتی اور دیگر بہت سے مفکرین بیٹھا کرتے تھے۔ شاہ صاحبؒ ایسے ایسے نقطے بیان کرتے تھے کہ یہ صاحبان علم بھی ششدر رہ جاتے تھے، شاہ صاحب سے ملاقات سے قبل بھی ایسے افراد کتابی اور اکستابی علم سے مالامال تھے مگر ان کی نظر کیمیا نے انھیں کتاب و شنید سے ماورا علم کی بھی راہ دکھا دی اور ان کے روشن کئے ہوئے ان چراغوں نے معاشرے میں چھائی تاریکی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ۔
علم لدنی سے مالا مال سلطان الحقیقت حضرت فضل شاہؒ جب اپنے مرشد حضرت میاں خدا بخشؒ کی خدمت میں حاضر رہا کرتے تھے تو خاموش بیٹھے رہتے تھے، آپؒ کو خاموش دیکھ کر لوگ حضورؒ پرنور سے فرماتے کہ اس بچے کو کبھی بولتے نہیں دیکھا۔ حضرت میاں صاحبؒ فرماتے کہ یہ بچہ اپنے وقت پر بولے گا اور اس وقت کائنات میں اس کا جواب نہیں ہو گا۔ اور ایسا ہی ہوا ، آپؒ کی نکتہ آفرینی نے انسانی دل ودماغ کو حیران کر کے رکھ دیا۔
دنیا جہان کا کوئی بھی سوال ، کوئی مسئلہ آپ سے پوچھا گیا تو آپؒ نے اس کا مدلل جواب دیا اور ایسا دیا کہ اس سے بہتر جواب ہو نہیں سکتا تھا ۔ ملفوظات میں آپؒ کے بیانات اور اقوال ترتیب دیئے گئے جو ہم سب کے لئے مشعل راہ ہیں، نئی نسل کو بالخصوص اس کا مطالعہ کرنا چاہیے اس سے ان کے ابہام دور ہوں گے ، دل کی تشفی ہو گئی ۔ مجلد کتاب کے سرورق کو سلطان الحقیقتؒ کی تصویر سے مزین کیا گیا ہے، اور کیا خوب کیا گیا ہے کہ دیدہ زیبی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔
فاضلی انوار الٰہی
مرتبین: احمد دستگیرؒ، پروفیسر حافظ نذر السلامؒ
قیمت:200 روپے۔۔۔۔صفحات:144
ناشر:ادبستان،پاک ٹاور ،کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (03004140207)
اللہ والے اس دنیا میں ایسے ہیں جیسے گھپ اندھیرے میں روشن چراغ ، جو ہر دم روشنی بانٹتے رہتے ہیں، اندھیروں میں بھٹک جانے والوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔ ان سے روشنی پانے والے نئے چراغ روشن کرتے ہیں، یوں ایک ایسا روشن اور تابناک سلسلہ شروع رہتا ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔ ان کا قرب انسان کو اللہ کی رحمت کے سائے تلے لے جاتا ہے کیونکہ ان بزرگان دین کا وجود ہی باعث رحمت ہے۔ زیر تبصرہ کتاب حضرت فضل شاہ قطب عالم ؒ ( بہ معروف نور والے) کے بیانات پر مبنی ہے۔
حضرت فضل شاہؒ صاحب کا بیان علم ، عمل ، اخلاص اور دوسرے شرعی امور کے متعلق ہے۔ آپ ؒ کا ایک ایک بیان اور قول سنہرے حروف سے لکھا جانا چاہیئے ۔ باباجی خود کوئی بیان تجویز نہ فرماتے تھے کیونکہ آپ کا تمام اظہار عطائے الٰہی پر مبنی ہوتا تھا اور اس بارے میں آپؒ کا ایک بیان ہے کہ '' جو صاحب علم کسب جانتا ہو اسے صرف مشاہدہ ہوتا ہے جو علم کسب نہ رکھتا ہو اسے مشاہدہ بھی ہوتا ہے اور اس کے لیے عبارت بھی اترتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے امی کے لیے مشاہدہ اور عبارت دو مقام ہیں''۔ پروفیسر حافظ نذر السلام کہتے ہیں '' آپ ؒ جو فرماتے ہیں ایک ایک حرف اولیائی کا مقام رکھتا ہے اور ایک ایک جملہ پر کتاب بن سکتی ہے۔ اس کتاب میں آپ کے ارشادات عالیہ ہیں جو آپؒ نے وقتاً فوقتاً مجلسوں میں ارشاد فرمائے جو صاحب صداقت کی آنکھ سے دیکھے گا دنیا میں وہ کامیاب ہو گا اور دین میں با مراد ہو گا۔'' حضرت فضل شاہ صاحبؒ نور والے کتاب کے نام کے حوالے سے فرماتے ہیں '' فقیر نے طلبگاران راہ حق کو نیاز مند بنانے کے لیے اس کتاب کا نام فاضلی انوار الٰہی رکھا ہے''۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔