جس نے متعصب قانون کو شکست دی
امریکا میں سیاہ فاموں کے لیے جدوجہد کرنے والی روزا پارکس کی تاریخی جدوجہد آج بھی سنہری حروف میں یاد رکھی گئی ہیں
عالمی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے، تو ایسی بلند پایہ خواتین بھی نظر آتی ہیں، جنہوں نے صنف نازک سے تعلق رکھنے کہ باوجود اپنے عمل سے دنیا میں ایسے ایسے کارنامے انجام دیے، جو نہ صرف خواتین کے لیے قابل فخر ہیں بلکہ انہوں نے بلاتفریق اپنے طبقے کے لیے کام کیا اور پھر صنف قوی کے لیے بھی اس ضمن میں راہیں ہم وار کیں، جس نے ان کے حقوق کی جدوجہد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
ایسی خواتین کی کارکردگی نہ صرف تاریخ کے صفات پر سنہری حروف سے لکھی گئی، بلکہ آج بھی ان کا نام ایک مستند حوالہ سمجھا جاتا ہے۔ امریکا میں پسے ہوئے سیاہ فام لوگوں کے حقوق کے لیے پہلی بار آواز اٹھانے والی روزا پارکس (Rosa Parks) بھی ان ہی خواتین میں ایک نمایاں نام ہیں، جنہوں نے واضح طور پرپست اور بالادست خانوں میں بٹے معاشرے میں مساوات کا عَلم ایسا بلند کیا کہ انہیں انسانی حقوق کے باب کا ایک نہایت سنہری حوالے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ وہ امریکا کہ ایک عام سیاہ فام گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنے ملک کے ایک متعصبانہ قانون کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو گئیں۔ ان کی اسی مزاحمت اور انکار نے امریکا میں سیاہ فام لوگوںکی قسمت بدلنے کی جس جدوجہد کا آغاز کیا اس کی معراج آج ہمیں سیاہ فام بارک اوباما کے بطور امریکی صدر کی موجودگی کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔
اس وجہ سے انہوں نے 1955ء میں جیل کی ہوا بھی کھائی، مگر وہ اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹیں۔ یہ واقعہ اس زمانے میں پیش آیا جب امریکا میں جم کرو (Jim crow) نامی قانون نافذ تھا، جس کے تحت اگر کوئی گوری چمڑی والا امریکی شہری سب وے یا بس میں سوار ہو جائے تو سیاہ فام پر لازم تھا کہ وہ اپنی نشست اس کے لیے خالی کرے۔ یہ یکم دسمبر کی ایک شام تھی۔ بس میں سفر کرنے والی سیاہ فام عورت بھی لاعلم تھی کہ وہ امریکی تاریخ میں آزادی کا ایک نیا باب رقم کرنے جا رہی ہے۔ 42 سالہ سیاہ فام روزا پارک اپنے کام سے واپسی پر منٹگمری سٹی بس سروس کے ذریعے اپنے گھر جا رہی تھی۔ بس کی تمام نشستیں پُر ہو چکی تھیں۔ اتنے میں ایک سفید چمڑی والا شخص بس میں داخل ہوا تو قانون کے مطابق تو روزا کو اپنی نشست چھوڑ دینی تھی، تاہم وہ خاموش بیٹھی رہیں۔ بس ڈرائیور نے ان پر جگہ خالی کرنے کے لیے دبائو ڈالا تو انہوں کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نشست کسی گورے کے لیے خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا یہ عمل بغیر کسی پیشگی سوچ بچار یا حکمت عملی کے بغیر اچانک تھا، کیوں کہ وہ اندر ہی اندر ان چیزوں پر کڑھتی رہتی تھیں۔ وہ انسانی حقوق کی ایک تنظیم سے بھی وابستہ رہ چکی تھیں، اسی وجہ سے ان کی سطح شعور دیگر لوگوں سے بلند تھی، وہ اس حوالے سے بنائے گئے قوانین کے بارے میں ایک عام آدمی سے زیادہ شدھ بدھ رکھتی تھیں۔ وہ اندر ہی اندر ایسی ناانصافیوں پر گھٹتی رہتی تھیں، مگر اس دن ان کے اندر جمع لاوا باہر نکل آیا، جس نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔
بالآخر انہیں حراست میں لے لیا گیا اور ''جم کرو'' نامی قانون کی خلاف ورزی کرنے پر جیل بھیج دیا گیا۔ وہ ایک باہمت خاتون تھیں۔ لہٰذا اس نانصافی کے خلاف سزا پر خاموش بیٹھنے کے بہ جائے انہوں نے اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا اور نہ صرف اپنی سزا کے خلاف اپیل کی بلکہ پہلی بار انہوں نے عدم مساوات کی قانونی حیثیت کو بھی چیلنج کر دیا۔
ان کا حوصلہ دیکھ کر شہریوں میں بھی توانائی لوٹ آئی، مقامی شہری حقوق کے کارکن بھی اس موقع پر سر گرم ہو گئے۔ عوام نے روزا پارکس سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا اور بڑے پیمانے پر منٹگمری بس سروس کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ اس بس میں زیادہ تر سیاہ فام ملازمت پیشہ افراد سفر کرتے تھے۔ یہ اقدام جہاں بس کمپنی کے لیے ایک سنگین خطرہ ثابت ہوا۔ وہیں امریکی سماج میں سیاہ فاموں سے برتی جانے والی تفریق اور تعصب پر بھی ٹھیک ٹھاک طریقے سے اثرانداز ہوا۔ آخر کار روزا پارکس کی جدوجہد رنگ لائی اور دسمبر 1956ء کو امریکا کی بڑی عدالت نے اس قانون عدم مساوات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا۔
روزا پارکس نے بعد میں بتایا کہ میرے لیے ان لوگوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا یا فیصلہ کرنا مشکل تو ضرور ثابت ہوامگر اس وقت میرے آباو اجدادکی طاقت میرے ساتھ تھی۔ نفرت انگیز قانون ''جم کرو'' کے بارے میں روزا کا کہنا تھا کہ میں جب بس میں سیاہ اور سفید فام کے حوالے سے تفریق دیکھتی تو مجھے احساس ہوتا، یہاں دو دنیا ہیں ایک کالے لوگوں کے لیے اور ایک گورے لوگوں کے لیے۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ چاہے ہمیں اچھا لگے یا برا، ہمیں اسی عدم مساوات کے ساتھ جینا ہے۔۔۔ یہ ہی ہماری زندگی ہے۔ شاید اس کالے قانون کے خلاف لڑنے کے لیے یہی ناانصافی میرے اندر توانائی بن کر ابھری۔
منٹگمری بس سروس بائیکاٹ کے ذریعے امریکا میں شہری حقوق کی حمایت میں عدم تشدد کا بڑے پیمانے پر انقلابی دور کا آغاز ہوا، جس کے پس پشت ایک عورت تھی۔ عورت اپنے اندر خود طاقت کا سرچشمہ ہے وہ اگر چاہے تو سیاسی وسماجی، معاشی، ہر میدان میںتبدیلیوں کی قدرت رکھتی ہے ۔ وہ 24 اکتوبر 2005ء کو انتقال کرگئیں۔ ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انہیں بے شمار اعزازات سے نوازا گیا اور تاحال انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ جس بس میں سفر کے دوران ان کی گرفتاری کا واقعہ پیش آیا، اسے عجائب گھر میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔
4 فروری کو ان کے یوم پیدایش اور یکم دسمبر کو ان کے یوم گرفتاری کی مناسبت سے دو بار یوم روزاپارکس منایا جاتا ہے اور ان کی جدوجہد کی یادیں تازہ کی جاتی ہیں۔ خواتین کے حقوق کے تعلق سے بے شمار خواتین ہیں، جنہوںنے اپنے اپنے دائرہ عمل میں اس جدوجہد کو آگے بڑھایا، لیکن روزا پارکس اس اعتبار سے ان خواتین میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں کہ ان کے نعرہ حق کے ذریعے ان کے طبقے کی خواتین ہی نہیں بلکہ مردوں کو بھی حقوق حاصل ہوئے۔ سیاہ فاموں کی جدوجہد میں ان کا کردار کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ایسی خواتین کی کارکردگی نہ صرف تاریخ کے صفات پر سنہری حروف سے لکھی گئی، بلکہ آج بھی ان کا نام ایک مستند حوالہ سمجھا جاتا ہے۔ امریکا میں پسے ہوئے سیاہ فام لوگوں کے حقوق کے لیے پہلی بار آواز اٹھانے والی روزا پارکس (Rosa Parks) بھی ان ہی خواتین میں ایک نمایاں نام ہیں، جنہوں نے واضح طور پرپست اور بالادست خانوں میں بٹے معاشرے میں مساوات کا عَلم ایسا بلند کیا کہ انہیں انسانی حقوق کے باب کا ایک نہایت سنہری حوالے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ وہ امریکا کہ ایک عام سیاہ فام گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنے ملک کے ایک متعصبانہ قانون کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو گئیں۔ ان کی اسی مزاحمت اور انکار نے امریکا میں سیاہ فام لوگوںکی قسمت بدلنے کی جس جدوجہد کا آغاز کیا اس کی معراج آج ہمیں سیاہ فام بارک اوباما کے بطور امریکی صدر کی موجودگی کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔
اس وجہ سے انہوں نے 1955ء میں جیل کی ہوا بھی کھائی، مگر وہ اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹیں۔ یہ واقعہ اس زمانے میں پیش آیا جب امریکا میں جم کرو (Jim crow) نامی قانون نافذ تھا، جس کے تحت اگر کوئی گوری چمڑی والا امریکی شہری سب وے یا بس میں سوار ہو جائے تو سیاہ فام پر لازم تھا کہ وہ اپنی نشست اس کے لیے خالی کرے۔ یہ یکم دسمبر کی ایک شام تھی۔ بس میں سفر کرنے والی سیاہ فام عورت بھی لاعلم تھی کہ وہ امریکی تاریخ میں آزادی کا ایک نیا باب رقم کرنے جا رہی ہے۔ 42 سالہ سیاہ فام روزا پارک اپنے کام سے واپسی پر منٹگمری سٹی بس سروس کے ذریعے اپنے گھر جا رہی تھی۔ بس کی تمام نشستیں پُر ہو چکی تھیں۔ اتنے میں ایک سفید چمڑی والا شخص بس میں داخل ہوا تو قانون کے مطابق تو روزا کو اپنی نشست چھوڑ دینی تھی، تاہم وہ خاموش بیٹھی رہیں۔ بس ڈرائیور نے ان پر جگہ خالی کرنے کے لیے دبائو ڈالا تو انہوں کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نشست کسی گورے کے لیے خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا یہ عمل بغیر کسی پیشگی سوچ بچار یا حکمت عملی کے بغیر اچانک تھا، کیوں کہ وہ اندر ہی اندر ان چیزوں پر کڑھتی رہتی تھیں۔ وہ انسانی حقوق کی ایک تنظیم سے بھی وابستہ رہ چکی تھیں، اسی وجہ سے ان کی سطح شعور دیگر لوگوں سے بلند تھی، وہ اس حوالے سے بنائے گئے قوانین کے بارے میں ایک عام آدمی سے زیادہ شدھ بدھ رکھتی تھیں۔ وہ اندر ہی اندر ایسی ناانصافیوں پر گھٹتی رہتی تھیں، مگر اس دن ان کے اندر جمع لاوا باہر نکل آیا، جس نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔
بالآخر انہیں حراست میں لے لیا گیا اور ''جم کرو'' نامی قانون کی خلاف ورزی کرنے پر جیل بھیج دیا گیا۔ وہ ایک باہمت خاتون تھیں۔ لہٰذا اس نانصافی کے خلاف سزا پر خاموش بیٹھنے کے بہ جائے انہوں نے اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا اور نہ صرف اپنی سزا کے خلاف اپیل کی بلکہ پہلی بار انہوں نے عدم مساوات کی قانونی حیثیت کو بھی چیلنج کر دیا۔
ان کا حوصلہ دیکھ کر شہریوں میں بھی توانائی لوٹ آئی، مقامی شہری حقوق کے کارکن بھی اس موقع پر سر گرم ہو گئے۔ عوام نے روزا پارکس سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا اور بڑے پیمانے پر منٹگمری بس سروس کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ اس بس میں زیادہ تر سیاہ فام ملازمت پیشہ افراد سفر کرتے تھے۔ یہ اقدام جہاں بس کمپنی کے لیے ایک سنگین خطرہ ثابت ہوا۔ وہیں امریکی سماج میں سیاہ فاموں سے برتی جانے والی تفریق اور تعصب پر بھی ٹھیک ٹھاک طریقے سے اثرانداز ہوا۔ آخر کار روزا پارکس کی جدوجہد رنگ لائی اور دسمبر 1956ء کو امریکا کی بڑی عدالت نے اس قانون عدم مساوات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا۔
روزا پارکس نے بعد میں بتایا کہ میرے لیے ان لوگوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا یا فیصلہ کرنا مشکل تو ضرور ثابت ہوامگر اس وقت میرے آباو اجدادکی طاقت میرے ساتھ تھی۔ نفرت انگیز قانون ''جم کرو'' کے بارے میں روزا کا کہنا تھا کہ میں جب بس میں سیاہ اور سفید فام کے حوالے سے تفریق دیکھتی تو مجھے احساس ہوتا، یہاں دو دنیا ہیں ایک کالے لوگوں کے لیے اور ایک گورے لوگوں کے لیے۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ چاہے ہمیں اچھا لگے یا برا، ہمیں اسی عدم مساوات کے ساتھ جینا ہے۔۔۔ یہ ہی ہماری زندگی ہے۔ شاید اس کالے قانون کے خلاف لڑنے کے لیے یہی ناانصافی میرے اندر توانائی بن کر ابھری۔
منٹگمری بس سروس بائیکاٹ کے ذریعے امریکا میں شہری حقوق کی حمایت میں عدم تشدد کا بڑے پیمانے پر انقلابی دور کا آغاز ہوا، جس کے پس پشت ایک عورت تھی۔ عورت اپنے اندر خود طاقت کا سرچشمہ ہے وہ اگر چاہے تو سیاسی وسماجی، معاشی، ہر میدان میںتبدیلیوں کی قدرت رکھتی ہے ۔ وہ 24 اکتوبر 2005ء کو انتقال کرگئیں۔ ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انہیں بے شمار اعزازات سے نوازا گیا اور تاحال انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ جس بس میں سفر کے دوران ان کی گرفتاری کا واقعہ پیش آیا، اسے عجائب گھر میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔
4 فروری کو ان کے یوم پیدایش اور یکم دسمبر کو ان کے یوم گرفتاری کی مناسبت سے دو بار یوم روزاپارکس منایا جاتا ہے اور ان کی جدوجہد کی یادیں تازہ کی جاتی ہیں۔ خواتین کے حقوق کے تعلق سے بے شمار خواتین ہیں، جنہوںنے اپنے اپنے دائرہ عمل میں اس جدوجہد کو آگے بڑھایا، لیکن روزا پارکس اس اعتبار سے ان خواتین میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں کہ ان کے نعرہ حق کے ذریعے ان کے طبقے کی خواتین ہی نہیں بلکہ مردوں کو بھی حقوق حاصل ہوئے۔ سیاہ فاموں کی جدوجہد میں ان کا کردار کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔