ڈفلی

اپوزیشن کو احتساب کا خوف، حکومت کو اقتدارکا خطرہ، سب اپنی اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں۔

پاکستان کی 72 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ قومی سیاست میں تحمل،برداشت، رواداری اور افہام و تفہیم کا ماحول کبھی پروان نہ چڑھ سکا۔ حکومت اور اپوزیشن جو جمہوریت کی بنیاد اور استحکام کی علامت سمجھے جاتے ہیں، ہمیشہ ایک دوسرے کے مد مقابل رہے۔

ملک کی کسی اپوزیشن نے برسراقتدار حکومت کے مینڈیٹ کوکبھی تسلیم نہیں کیا اور اس کی عموماً یہ کوشش رہی کہ حکومت کو اقتدارکے ایوان سے نکال باہرکیا جائے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اپوزیشن کی چھوٹی بڑی جماعتیں اتحاد بنا کر حکومت وقت کے خلاف احتجاجی تحریکیں چلاتی رہی ہیں۔ نتیجتاً آج تک کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہ کرسکا۔ کوئی تختہ دار تک گیا،کوئی جلا وطن ہوا اورکوئی پس زنداں مہمان بنا۔

ملک کا آئین بار بار غیر جمہوری قوتوں کے نشانے پر رہا اور وہ ایوان اقتدار تک رسائی حاصل کرتے رہے۔ 2008 کے انتخابات کے بعد ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت ضرور پوری کی، مقررہ وقت پر انتخابات ہوئے اور جمہوری تسلسل کو استحکام ملا لیکن پی پی پی کے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی توہین عدالت پر وقت سے پہلے رخصت ہوگئے اور (ن) لیگ کے وزیر اعظم میاں نواز شریف پاناما اسکینڈل کی زد میں آکر اپنی وزارت عظمیٰ کھو بیٹھے۔

2018 کے انتخابات میں ایک بڑی سیاسی '' تبدیلی'' آئی اور ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور عمران خان پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ پنجاب جوکبھی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا گڑھ ہوا کرتا تھا، وہاں بھی پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ق) کی حمایت سے حکومت بنا لی۔

ملک کی پرانی سیاسی روایت کے مطابق ملک کی اپوزیشن جماعتوں نے 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جو غالباً پہلی مرتبہ منتخب ہونے سے قاصر رہے نے بھرپورکوشش کی کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے جیتے ہوئے ارکان اسمبلیوں کی رکنیت کا حلف نہ اٹھائیں اور ملک میں دوبارہ انتخابات کا ڈول ڈالا جائے، تاہم ان کی خواہش پوری نہ ہو سکی اور پی پی پی و لیگی قیادت نے اسمبلیوں میں بیٹھ کر حکومت کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیا۔ گزشتہ دو سال کے دوران مولانا فضل الرحمن اکیلے حکومت کے خلاف سراپا احتجاج رہے انھوں نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ بھی کیا۔


پی پی پی اور (ن) لیگ کی قیادت نے مولانا کے ساتھ چلنے کی یقین دہانیاں بھی کرائیں لیکن چونکہ ان کی قیادت احتساب کے نرغے میں ہے، لہٰذا ''ریلیف'' حاصل کرنے کے لیے وہ مولانا کی مرضی کے مطابق ان کا ساتھ دینے سے گریزاں رہے۔ یوں مولانا کا لانگ مارچ مایوس کن انداز میں اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ البتہ (ن) لیگ اپنے قائد میاں نواز شریف کو ان کے پلیٹ لیس کے دباؤ کو استعمال کرکے انھیں زندان کی دیواروں سے نکال کر لندن کی تازہ ہواؤں میں بغرض ''علاج'' پہنچانے میں کامیاب ہوگئی۔

میاں صاحب کی لندن روانگی کے علاوہ (ن) لیگ مریم نواز، شہباز شریف اور دیگر لیگی قیادت کے لیے احتساب کے حوالے سے کوئی قابل ذکر ریلیف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اپوزیشن کو یہ فکر بھی دامن گیر کہ مارچ میں سینیٹ الیکشن میں عمران خان کی متوقع کامیابی انھیں بالکل دیوار سے لگا سکتی ہے۔ لہٰذا اے پی سی میں آخری معرکہ کے لیے احتجاجی تحریک، جلسے جلوس، لانگ مارچ اور مولانا فضل الرحمن کی خواہش دیرینہ یعنی اسمبلیوں سے استعفے کے ذریعے حکومت کو گرانے اور حد درجہ کمزور کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) میں 11 چھوٹی بڑی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی سربراہی مولانا کے حصے میں آئی۔ پہلے گوجرانوالہ پھرکراچی میں پی ڈی ایم نے پاور شوکیا۔

مبصرین و تجزیہ نگاروں نے میاں صاحب کے خطاب کو ''آ بیل مجھے مار'' سے تعبیرکیا۔ مریم نواز سے لے کر بلاول بھٹو تک اور مولانا فضل الرحمن سے لے کر محمود خان اچکزئی تک سب ہی لیڈروں نے گوجرانوالہ اورکراچی کے جلسوں میں پی ٹی آئی حکومت کے پہلو بہ پہلو اداروں کو اپنا ہدف بنایا جب کہ عمران حکومت کو بیڈ گورننس، معیشت کی تباہی، آٹا وچینی مافیا کی سرپرستی، احتساب کی آڑ میں انتقام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ہاتھوں غریب عوام کو زندہ درگورکرنے کا ذمے دار ٹھہرایا گیا۔

کراچی کے جلسے میں میاں نواز شریف نے خطاب نہیں کیا جس سے (ن) لیگ اور پی ڈی ایم کو یقینا جھٹکا لگا، جب کہ کیپٹن صفدر کی مزار قائد پر نعرے بازی کے جواب میں پولیس کارروائی کے حوالے سے بعد ازاں صورتحال فی الحال ''نارمل'' ہوگئی ہے، تاہم حقائق سامنے آنے کے بعد ہی سچ اور جھوٹ کا پتا چلے گا۔ ادھر وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزرا پی ڈی ایم رہنماؤں کی تقاریروبیانات کے جواب میں جو بیانیہ ترتیب دے رہے ہیں اس نے حکومت اپوزیشن کشیدگی اور محاذ آرائی کو مزید مہمیزکردیا ہے۔

مہنگائی کے دو پاٹوں میں پستے عوام ہردو فریق سے نالاں ہیں۔ اپوزیشن کو احتساب کا خوف، حکومت کو اقتدارکا خطرہ، سب اپنی اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں۔ عوام کا دکھ کیسے اورکون بانٹے گا؟ کسی کے پاس اس سوال کا شافی جواب نہیں۔
Load Next Story