اندرون لاہور کی خستہ حال عمارتیں
محدود بجٹ کے باعث ہر سال 30۔ 35 مکانات اورعمارتوں کی مرمت کروا رہے ہیں، ڈائریکٹربلڈنگ کنٹرول
اندرون شہر لاہورمیں سیکڑوں ایسی خستہ حال عمارتیں ہیں جنہیں مخدوش قراردیا جاچکا ہے لیکن اس کے باوجود کئی خاندان ان عمارتوں میں زندگی گزار رہے ہیں اور خطرات کے باوجود یہ قدیم گھر خالی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
80 سالہ عبدالرحمان اندرون شہر ٹکسالی کےعلاقہ میں واقعہ ایک انتہائی خستہ حال عمارت میں بنے تین کمروں کے گھرمیں رہتے ہیں، ان کے جوان بچے بھی ان کے ساتھ ہی یہاں مقیم ہیں جن میں سے ایک بیٹا شادی شدہ ہے اور اس کی بیوی اور 2 بچے بھی یہاں مقیم ہیں۔
عبدالرحمان نے بتایا کہ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آیا تھا اور یہاں اندرون شہر میں رہائش اختیار کی تھی۔ یہ عمارت تین منزلہ ہے جو ایک ہندو خاندان کی ملیکت تھی ، اس عمارت میں مسلمان خاندانوں کو آبادکیا گیا۔ ان کے والدہ اور والدہ اسی گھرمیں فوت ہوئے جبکہ دو بہنوں کوبھی شادی کرکے اسی گھرسے رخصت کیا ۔ اب وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ یہاں رہتے ہیں۔
عبدالرحمان نے بتایا کہ ناصرف ان کا گھربلکہ پوری عمارت ہی خستہ حال ہے ، جگہ جگہ دراڑیں پڑی ہیں، کئی جگہوں سے سیمنٹ اور اینٹیں اکھڑچکی ہیں لیکن وہ یہاں رہنے پرمجبورہیں۔ یہ دو،ڈھائی مرلہ جگہ ہے۔ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے اورنہ ہی اتنے پیسے موجود ہیں کہ وہ اس گھرکو منہدم کرکے نیا بناسکیں کیونکہ یہاں جو باقی خاندان آباد ہیں ان کے معاشی حالات بھی ایسے ہی ہیں۔
عبدالرحمان نے بتایا کہ وہ چند برس پہلے تک شاہ عالم مارکیٹ میں گوٹا کناری والے پرانے لہنگے خریدتے تھے لیکن بیمار ہونے کی وجہ سے یہ کام چھوڑ دیا اب ان کا بیٹا بچوں کے ریڈی میڈ سوٹ فروخت کرتا ہے۔ اس سے گھر کا چولہا بمشکل چل رہا ہے، مکان کی تعمیر کیسے کروائی جائے۔
والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کی جانب سے اندرون لاہور میں 22 ہزارعمارتوں کا سروے کیا گیا ہے جن میں 600 کے قریب عمارتیں خستہ حال ہیں جبکہ 260 عمارتوں کو فوری طور پر گرانے کی سفارش کی گئی تھی، یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ 232 عمارتوں کو دوبارہ مرمت کی ضرورت ہے۔
سروے کے مطابق اندرون شہر میں سب سے زیادہ خستہ عمارتیں لوہاری،ٹکسالی، محلہ ٹھٹی ملاح اور کوچہ میاں وحید میں ہیں ،پانی والا تالاب کے قریبی علاقوں میں بھی کئی خستہ حال مکان ہیں، اسی طرح کئی قدیم حویلیاں اورخاص طورپر فقیرخانہ میوزیم کی عمارت بھی خستہ حال ہے جس کی دیواروں میں دراڑیں پڑچکی ہیں۔
والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی کی ڈائریکٹربلڈنگ کنٹرول نوشین زیدی نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ان کی طرف سے خستہ حال عمارتوں کوخطرناک دیکرمتعددبارنوٹسزجاری کیے گئے ہیں، متعلقہ پولیس حکام سے بھی کہا جاتا ہے، کئی بار ان لوگوں سے عمارتیں خالی کروانے کی کوشش بھی کی گئی مگروہ لوگ ایک ہی جواب دیتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے،خاندان کولیکرکہاں جائیں، نوشین زیدی کہتی ہیں یہ حقیقت ہے کہ ان چندمرلہ کے تنگ وتاریک مکانوں میں غریب اورمتوسط طبقے کے لوگ آباد ہیں۔ اندرون شہرمیں کسی پرانی عمارت کو گرا کرنئے سرے سے بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے، انہوں نے بتایا کہ والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی اپنے محدود بجٹ کے ساتھ ہرسال 30۔ 35 مکانات اورعمارتوں کی مرمت کروا رہی ہے لیکن سینکڑوں گھروں کی مرمت اورتعمیرکے لئے ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ والٖڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی نے شاہی گزرگاہ کی بحالی کے پہلے مرحلے میں درجنوں گھروں کی آرائش ومرمت کروائی ہے جبکہ لوہاری اورٹکسالی کے علاقے میں سیوریج کا نظام بہتربنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں سیوریج سسٹم ناکارہ ہوچکا ہے، پانی کی لیکج کی وجہ سے عمارتوں کی بنیادیں متاثرہورہی ہیں، والڈسٹی آف لاہور اتھارٹی سیوریج سسٹم بہترکرنے پرکام کررہی ہے۔
80 سالہ عبدالرحمان اندرون شہر ٹکسالی کےعلاقہ میں واقعہ ایک انتہائی خستہ حال عمارت میں بنے تین کمروں کے گھرمیں رہتے ہیں، ان کے جوان بچے بھی ان کے ساتھ ہی یہاں مقیم ہیں جن میں سے ایک بیٹا شادی شدہ ہے اور اس کی بیوی اور 2 بچے بھی یہاں مقیم ہیں۔
عبدالرحمان نے بتایا کہ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آیا تھا اور یہاں اندرون شہر میں رہائش اختیار کی تھی۔ یہ عمارت تین منزلہ ہے جو ایک ہندو خاندان کی ملیکت تھی ، اس عمارت میں مسلمان خاندانوں کو آبادکیا گیا۔ ان کے والدہ اور والدہ اسی گھرمیں فوت ہوئے جبکہ دو بہنوں کوبھی شادی کرکے اسی گھرسے رخصت کیا ۔ اب وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ یہاں رہتے ہیں۔
عبدالرحمان نے بتایا کہ ناصرف ان کا گھربلکہ پوری عمارت ہی خستہ حال ہے ، جگہ جگہ دراڑیں پڑی ہیں، کئی جگہوں سے سیمنٹ اور اینٹیں اکھڑچکی ہیں لیکن وہ یہاں رہنے پرمجبورہیں۔ یہ دو،ڈھائی مرلہ جگہ ہے۔ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے اورنہ ہی اتنے پیسے موجود ہیں کہ وہ اس گھرکو منہدم کرکے نیا بناسکیں کیونکہ یہاں جو باقی خاندان آباد ہیں ان کے معاشی حالات بھی ایسے ہی ہیں۔
عبدالرحمان نے بتایا کہ وہ چند برس پہلے تک شاہ عالم مارکیٹ میں گوٹا کناری والے پرانے لہنگے خریدتے تھے لیکن بیمار ہونے کی وجہ سے یہ کام چھوڑ دیا اب ان کا بیٹا بچوں کے ریڈی میڈ سوٹ فروخت کرتا ہے۔ اس سے گھر کا چولہا بمشکل چل رہا ہے، مکان کی تعمیر کیسے کروائی جائے۔
والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کی جانب سے اندرون لاہور میں 22 ہزارعمارتوں کا سروے کیا گیا ہے جن میں 600 کے قریب عمارتیں خستہ حال ہیں جبکہ 260 عمارتوں کو فوری طور پر گرانے کی سفارش کی گئی تھی، یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ 232 عمارتوں کو دوبارہ مرمت کی ضرورت ہے۔
سروے کے مطابق اندرون شہر میں سب سے زیادہ خستہ عمارتیں لوہاری،ٹکسالی، محلہ ٹھٹی ملاح اور کوچہ میاں وحید میں ہیں ،پانی والا تالاب کے قریبی علاقوں میں بھی کئی خستہ حال مکان ہیں، اسی طرح کئی قدیم حویلیاں اورخاص طورپر فقیرخانہ میوزیم کی عمارت بھی خستہ حال ہے جس کی دیواروں میں دراڑیں پڑچکی ہیں۔
والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی کی ڈائریکٹربلڈنگ کنٹرول نوشین زیدی نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ان کی طرف سے خستہ حال عمارتوں کوخطرناک دیکرمتعددبارنوٹسزجاری کیے گئے ہیں، متعلقہ پولیس حکام سے بھی کہا جاتا ہے، کئی بار ان لوگوں سے عمارتیں خالی کروانے کی کوشش بھی کی گئی مگروہ لوگ ایک ہی جواب دیتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے،خاندان کولیکرکہاں جائیں، نوشین زیدی کہتی ہیں یہ حقیقت ہے کہ ان چندمرلہ کے تنگ وتاریک مکانوں میں غریب اورمتوسط طبقے کے لوگ آباد ہیں۔ اندرون شہرمیں کسی پرانی عمارت کو گرا کرنئے سرے سے بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے، انہوں نے بتایا کہ والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی اپنے محدود بجٹ کے ساتھ ہرسال 30۔ 35 مکانات اورعمارتوں کی مرمت کروا رہی ہے لیکن سینکڑوں گھروں کی مرمت اورتعمیرکے لئے ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ والٖڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی نے شاہی گزرگاہ کی بحالی کے پہلے مرحلے میں درجنوں گھروں کی آرائش ومرمت کروائی ہے جبکہ لوہاری اورٹکسالی کے علاقے میں سیوریج کا نظام بہتربنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں سیوریج سسٹم ناکارہ ہوچکا ہے، پانی کی لیکج کی وجہ سے عمارتوں کی بنیادیں متاثرہورہی ہیں، والڈسٹی آف لاہور اتھارٹی سیوریج سسٹم بہترکرنے پرکام کررہی ہے۔