مسجد کے زیر سایہ

اس کے خط میں ناراضی کی وجہ یہ تھی کہ میں اسے خدا حافظ کہنے ایئر پورٹ نہیں گیا۔

h.sethi@hotmail.com

لاہور:
بعض اوقات کوئی ایسی چیز عرصہ دراز کے بعد اچانک گھریلو سامان میں سے مل جاتی ہے جو آپ کو ماضی میں لے جا کر خوش یا افسردہ کر دیتی ہے۔

چند ماہ قبل ایک باکس میں سے مجھے کئی سال پرانے خطوط مل گئے۔ چھ سات خطوط چالیس سال پرانے جناب عبدالمجید سالک ، احمد ندیم قاسمی اور قتیل شفائی کے تھے۔ ایک خط ستر سال پرانا کرشن چندر کا تھا لیکن پچاس سال قبل میرے اسکول اورکالج کے کلاس فیلو کا لندن سے لکھا ہوا خط بھی تھا جو اس نے شدید غصُے اور ناراضی سے لکھا ہوا تھا۔ وہ میرے لیے اس لیے بھی اہم تھا کہ اس خط کا لکھنے والا احسان الحق نہ صرف حیات ہے بلکہ کچھ عرصہ قبل مجھے ملا بھی ہے۔

اس کے خط میں ناراضی کی وجہ یہ تھی کہ میں اسے خدا حافظ کہنے ایئر پورٹ نہیں گیا۔حالانکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے جہاز کا Departure ٹائم مجھے نہیں بتایا تھا۔ ویسے اس کی وطن واپسی پر میں پندرہ دن اس کا مکان خریدنے کی دوڑ بھاگ میں اس کے ساتھ خوار ہوتا رہا ہوں۔

احسان کی واپسی پچاس سال کے بعد ہوئی ہے۔ مستقل واپسی کی وجہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ خود تو اعلیٰ عہدوں پر کام کرتا رہا اور اس دوران بچوں نے اچھی تعلیم کے بعد روزگارکے ساتھ شادیاں کر لیں اور رہائشیں بھی الگ کر لیں ۔ اب احسان اور اس کی بیگم کی اپنے بچوں کے ساتھ ملاقات ہفتہ دس روز کے بعد ہوتی ۔ تب ان کو تنہائی کاٹنے لگی جو ان کے لیے ناقابل ِ برداشت تھی۔ ان کے اکثر رشتے دار اور دوست پاکستان میں ہیں جب کہ برطانیہ میں دوست نا پید تھے۔

عمر بھی ڈھل رہی تھی لیکن سب سے ظالم تنہائی تھی۔ واپس آ کر احسان نے ایک ماہر پراپرٹی ڈیلر کے ساتھ رابطہ کیا لیکن پرانا دوست میں ان کے ہمراہ ہوتا تھا، احسان صبح اُٹھ کر مجھے فون کرتا پھر پراپرٹی ڈیلر سے رابطہ کرتا، پہلا مکان جو ہمیں ڈیلر نے دکھایا وہ ایک مسجد کے برابر والی گلی میں تھا، احسان کو یہ مکان پسند نہیں آیا۔ ڈیلر دوسرے دن ہمیں ایک دوسرے رہائشی علاقے میں لے گیا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ نزدیک ایک اسکول ہے۔ صبح اور دوپہر کو بچوں کو لانے اور واپس لے جانے کے لیے بہت سی کاریں اور ویگنیں آتی ہیں اور ہارن پر بجتے ہیں۔


احسان نے کوئی اور مکان دکھانے کے لیے کہا ۔ تیسرے دن ڈیلر ایک مارکیٹ کے نزدیک نئے مکان پر لے گیا۔ احسان نے وہاں آئس کریم منگوائی اور بیس پچیس منٹ وہاں گزارے ۔ اس دوران مارکیٹ آنے جانیوالوں کا رش لگا رہا۔ احسان نے یہ کہہ کر یہ مکان نامنظور کر دیا کہ یہاں ڈسٹربنس بہت رہے گی لہٰذا کسی پرُسکون علاقے میں مکان خریدنا ہے۔ ڈیلر نے دو دن کی مہلت مانگی۔ تیسرے دن وہ ہمیں لے کر شہر سے کچھ فاصلے پر ایک زیر ِ تعمیر آبادی میں پہنچ گیا۔ یہ علاقہ پرُفضا تھا۔ دو دو چار چار پلاٹ چھوڑ کر نئے اور خوبصورت مکان بلکہ کوٹھیاں تھیں۔

احسان نے نئی اور زیر ِ تعمیر کوٹھیوں کا جائزہ لیا۔ اسے کولڈ ڈرنک کی طلب ہوئی تو کچھ فاصلے پر ایک دکان پر پہنچا لیکن اس دکان میںفریج تھا نہ اس کی پسند کا مشروب، اب احسان نے ڈیلر سے کہا یہاں تو شاپنگ کی سہولت ہے نہ ہی علاقہ آباد ہوا ہے، کوئی اور اچھا علاقہ دکھائو۔ ڈیلر اگلے دن ہمیں ایک گنجان آباد علاقے میں لے گیا اور ایک خوبصورت مکان کے سامنے ہمیں ایک تین منزلہ مکان دکھایا۔ ڈیلر نے بتایا کہ اس محلے میں لوگ تیس چالیس سال سے مقیم اور آپس میں دوستیاں رکھتے ہیں۔ احسان نے کہا یہ تو بند گلی ہے جس میں ایک اجنبی قید ہو جائے گا۔ میرا یہاں دم گھٹ رہا ہے، جلد باہر نکالو۔

یوں ہم ڈیلر کو کشادہ جگہ مکان دکھانے کا کہہ کر خصت ہوئے۔ گزشتہ روز ڈیلر نے آبادی سے ذرا دور ایک پارک کے سامنے ہماری گاڑی رکوائی اور کہا سڑک کے پار وہ سامنے والا چار بیڈ روم کا مکان پرانا بھی نہیں ہے اور کھلی جگہ پر ہے۔ احسان نے کار مکان کے آگے رکوا لی اور کہا، وہ پندرہ بیس منٹ اس جگہ کار میں بیٹھے گا۔تھوڑی دیر کے بعد ایک موٹرکار وہاں آگے پیچھے آ کر پارک ہوئی ان میںسے لوگ نکلے اور پارک میں داخل ہوئے اور واک میں مصروف ہو گئے پھر تین مزید کاریں وہاں پارک ہوئیں اور وہ لوگ بھی واک میں شامل ہو گئے۔ ڈیلر نے احسان سے کہا، دیکھئے سر آپ کی سیر گاہ گھر سے دو منٹ کے فاصلے پر ہو گی۔

دو تین موٹر سائیکل سوار بھی آ کر پارک میں داخل ہو گئے تو احسان نے کہا یہ تماشا تو روز کا معمول ہو گا یہاں سے نکلو۔ دو دن بعد ڈیلر نے ایک بالکل نیا مکان دکھایا۔ مکان واقعی نیا اور کسی اچھے آرکیٹکٹ کا ڈیزائن کردہ تھا۔ ابھی ہم اس دوسری منزل کا نظارہ کررہے تھے کہ ریل گاڑی گزرنے کی آواز آئی۔ احسان وہاں ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور ٹیلیفون کرنے میں مصروف ہو گیا۔ اس کا ارادہ وہاں کچھ دیر مزید رکنے کا تھا کیونکہ مکان اسے پسند آیا تھا۔ ہم آپس میں اور ڈیلر سے مکان کی قیمت کے بارے بات کر رہے تھے کہ ایک بار پھر ریلوے انجن کی کو ُک سنائی دینے لگی۔

ڈیلر نے احسان کے کہنے پر چند اور مکان دکھائے ۔ ایک مکان پولیس اسٹیشن کے قرب میں ، دوسرا سیاستدان کی حویلی کے نزدیک، تیسرا اس کے دو رشتہ داروں کے گھروں والی سڑک پر تھا جب کہ چوتھا مشرق مغرب رخ کے بجائے ٹیڑھا تھا۔ اس دوران مجھے ایک ہفتہ کے لیے شہر سے باہر جانا پڑا۔ واپسی ہوئی تو میں نے ڈیلر کو فون کیا ۔ اس نے ہنستے ہوئے بتایا کہ احسان نے مسجد کے برابر والی گلی میں واقع وہ مکان خرید لیا ہے جو اسے سب سے پہلے دکھایا گیا تھا اور اس نے پورا ہفتہ shave بھی نہیں کی۔
Load Next Story