قاضی کون ہوتا ہے
اسلام کی تاریخ ظالم حکمرانوں اور جوانمردی کے ساتھ ظلم برداشت کرنیوالوں سے بھری پڑی ہے۔
امام ابوحنیفہؒ کا فتویٰ ہے کہ جو قاضی فیصلوں میں آزاد نہیں اس کی تنخواہ حلال نہیں ۔ آج کے زمانے میں جب دنیا بھر میں انصاف صرف طاقتور کے پاس چلا گیا ہے، ایسی باتیںکہنے لکھنے کی کیا ضرورت ہے لیکن مسلمانوں کو یہ یاد دلانا بھی لازم ہے کہ ان کے ہاں اصولی طور پر عدلیہ کا کیا مقام اور مرتبہ ہے اور قاضی کون ہوتا ہے۔
حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں سب سے اہم قدم یہ اٹھایا تھا کہ انتظامیہ کو عدلیہ سے علیحدہ کر دیا تھا اور قضاء کے عہدے کے لیے پارسا اور اہل علم افراد کو مقرر کیا تھا لیکن یہ سلسلہ بہت مختصر عرصے کے لیے قائم رہا، یہی کوئی تیس بتیس سال کے لیے اس کے بعد آزاد عدلیہ مرجھا گئی ۔ دور خلافت جب دمشق پہنچی تو عدلیہ کے ایسے ارکان مقرر کیے جانے لگے جو انتظامیہ کی مدد کر سکیں اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ عہدہ قضاء کے لوگ اس سے انکار کرنے لگے ۔
خلیفہ ابوجعفر منصور عباسی نے قاضی شرع کو مجبور کیا کہ وہ قضاء کا عہدہ قبول کر لیں، پہلے تو انھوں نے کئی حیلے بہانے پیش کیے مگر بالآخر خلیفہ کے اصرار پر مطالبہ کیا کہ مجھے فیصلے کرنے میں مکمل آزادی ہو گی اور پھر انھوں نے ان تمام عمائدین کا ذکر کیا جن کی وجہ سے خرابیاں پیدا ہو رہی تھیں اور کہا کہ میں ان لوگوں کی پروا بھی نہیں کروں گا ۔ خلیفہ نے یہ تک کہا کہ آپ مجھے بھی معاف نہ کریں لیکن جب ایک شاہی لونڈی کا مقدمہ پیش ہوا تو خلیفہ کی یقین دہانیاں کام نہ آ سکیں ۔ لونڈی نے اپنے خلاف فیصلہ پر کہا کہ تم احمق ہو۔
جواب میں قاضی شرح نے کہا کہ میں نے خلیفہ سے بھی یہی کہا تھا کہ میں احمق ہوں مگر وہ نہ مانا چنانچہ اس حادثہ کے بعد خلیفہ کی یقین دہانیاں بھی بے کار ہو گئیں ۔ منصور کے بیٹے مہدی نے حضرت سفیان ثوری کو قضاء کا عہدہ پیش کیا اور ان کے مسلسل انکار پر انھیں اپنے باپ کی یقین دہانی کی جگہ تحریر لکھ کر دی کہ ان کے فیصلوں میں کوئی مداخلت نہ ہو گی۔ حضرت ثوری نے یہ تحریر وصول کر لی لیکن دربار سے باہر نکل کر اسے پھاڑ کر دریائے دجلہ میں پھینک دیا اور خود روپوش ہو گئے۔
حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کو دو بار بڑے عہدے پیش کیے گئے، ایک بار گورنر کی مہر جو حاکم بھی ہو، اس پر امام صاحب کی مہر ثبت ہو۔ انھوں نے انکار کیا تو جیل گئے اور ننگے بدن پر کوڑوں کی بارش ہوئی کہ جسم سوج گیا ، جب رہائی ملی تو مکہ مکرمہ میں گوشہ نشین ہو گئے ۔
امویوں کے بعد عباسیوں کا دور آیا تو فرمانروا نے امام صاحب کو چیف جسٹس کا عہدہ پیش کیا۔ دربار میں طلب کیے گئے تو خلیفہ نے امام صاحب کا حال پوچھا ، جواب دیا گیا کہ لوگوں کا حال تو معلوم نہیں اپنا حال یہ دیکھ رہا ہوں کہ جب مجھے دربار میں بلایا جاتا ہے تو یہاں جان میں جان اس وقت تک نہیں آتی جب تک خیریت سے گھر نہ پہنچ جائوں۔ امام صاحب نے گویا یہ بتایا کہ کوئی دربار میں بلایا جاتا ہے تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ زندہ لوٹنا ہے یا نہیں۔
امام صاحب کو چیف جسٹس کا عہدہ دینے کے لیے طلب کیا گیا تھا، خلیفہ اور امام صاحب کے مابین طویل گفتگو ہوئی، امام صاحب انکار کرتے رہے اور انھوں نے تنگ آکر کہا کہ مجھ میں قضاء کی صلاحیت نہیں ہے، اس پر خلیفہ نے بھڑک کر کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ امام صاحب نے کہا، میرا فیصلہ تو آپ نے خود ہی کر دیا۔ کیا ایسے شخص کو اتنا بڑا منصب دینا جائز ہو گا جو آپ کے خیال میں جھوٹا ہے۔ خلیفہ منصور اس جواب پر مشتعل ہو گیا اور کہا منصور نے قسم کھا لی ہے کہ تم کو قضا ء کا عہدہ قبول کرنا ہو گا ۔
امام نے کہا، خدا کی قسم میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا ۔ اس پر منصور نے امام کو برا بھلا کہا اور تیس کوڑے مارنے کا حکم دیا ۔ امام دربار سے باہر نکلے تو ان کا اوپر کابدن ننگا تھا اور خون بہہ رہا تھا جو ایڑیوں تک پہنچ گیا تھا ۔ امام کو جیل بھجوا دیا گیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ جیل میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ بعض کے خیال میں رہائی کے بعد وفات پائی۔ حضورﷺ کی ہجرت کے ڈیڑھ سوسال بعد امام صاحب کا انتقال ہوا۔ بغداد کے قاضی نے غسل دیا جسم پر زخم تھے اور قاضی حسن بن عمارہ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ ابو حنیفہ تم نے عہدہ قضاء کو کتنا مشکل بنا دیا ہے۔
اسلام کی تاریخ ظالم حکمرانوں اور جوانمردی کے ساتھ ظلم برداشت کرنیوالوں سے بھری پڑی ہے۔ آج کے دور میں ہماری پارلیمنٹ سلامت ہے اور خدا نہ کرے، اس پر کوئی آنچ آئے ۔ پارلیمنٹ پر ایسے وقت اکثر آتے رہے جب نظریہ ضرورت لاگو کرتے ہوئے اس کو توڑ دیا گیا اور ان فیصلوں کو جائز قرار دیا گیا۔ اس طرح کے فیصلوں میں عدلیہ کو بھی فریق بنایا جاتا رہا ۔ یوں قومی سیاست تین حصوں میں بٹ گئی۔ سیاستدان، فوجی حکمران اور عدلیہ۔ جس طرح سیاستدان حکومت میں فوج کی مداخلت برداشت نہیں کرتے، اسی طرح عدلیہ کو بھی سیاست کا ایک محور بننے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ہمارے حکمران اپنی اپنی ضروریات کے تحت عدلیہ کو انتظامی امور میں مداخلت پر مجبور کرتے ہیں جس کی وجہ سے نظریہ ضرورت کے تحت ایسے فیصلے ہو جاتے ہیں جن کے دور رس اثرات ہوتے ہیں ۔ ہم نے دوسرے اداروں کی طرح عدلیہ کی آزادی کو بھی مشکوک بنا دیا ہے حالانکہ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ آزاد اور خود مختار عدلیہ اسلامی معاشرے کا اہم جزو ہے اور ایک آزاد عدالتی نظام ہی ریاست کی بقا ء کا فیصلہ کرتا ہے ۔ آزاد اور خود مختارعدلیہ ہماری آج کی ضرورت ہے۔
حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں سب سے اہم قدم یہ اٹھایا تھا کہ انتظامیہ کو عدلیہ سے علیحدہ کر دیا تھا اور قضاء کے عہدے کے لیے پارسا اور اہل علم افراد کو مقرر کیا تھا لیکن یہ سلسلہ بہت مختصر عرصے کے لیے قائم رہا، یہی کوئی تیس بتیس سال کے لیے اس کے بعد آزاد عدلیہ مرجھا گئی ۔ دور خلافت جب دمشق پہنچی تو عدلیہ کے ایسے ارکان مقرر کیے جانے لگے جو انتظامیہ کی مدد کر سکیں اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ عہدہ قضاء کے لوگ اس سے انکار کرنے لگے ۔
خلیفہ ابوجعفر منصور عباسی نے قاضی شرع کو مجبور کیا کہ وہ قضاء کا عہدہ قبول کر لیں، پہلے تو انھوں نے کئی حیلے بہانے پیش کیے مگر بالآخر خلیفہ کے اصرار پر مطالبہ کیا کہ مجھے فیصلے کرنے میں مکمل آزادی ہو گی اور پھر انھوں نے ان تمام عمائدین کا ذکر کیا جن کی وجہ سے خرابیاں پیدا ہو رہی تھیں اور کہا کہ میں ان لوگوں کی پروا بھی نہیں کروں گا ۔ خلیفہ نے یہ تک کہا کہ آپ مجھے بھی معاف نہ کریں لیکن جب ایک شاہی لونڈی کا مقدمہ پیش ہوا تو خلیفہ کی یقین دہانیاں کام نہ آ سکیں ۔ لونڈی نے اپنے خلاف فیصلہ پر کہا کہ تم احمق ہو۔
جواب میں قاضی شرح نے کہا کہ میں نے خلیفہ سے بھی یہی کہا تھا کہ میں احمق ہوں مگر وہ نہ مانا چنانچہ اس حادثہ کے بعد خلیفہ کی یقین دہانیاں بھی بے کار ہو گئیں ۔ منصور کے بیٹے مہدی نے حضرت سفیان ثوری کو قضاء کا عہدہ پیش کیا اور ان کے مسلسل انکار پر انھیں اپنے باپ کی یقین دہانی کی جگہ تحریر لکھ کر دی کہ ان کے فیصلوں میں کوئی مداخلت نہ ہو گی۔ حضرت ثوری نے یہ تحریر وصول کر لی لیکن دربار سے باہر نکل کر اسے پھاڑ کر دریائے دجلہ میں پھینک دیا اور خود روپوش ہو گئے۔
حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کو دو بار بڑے عہدے پیش کیے گئے، ایک بار گورنر کی مہر جو حاکم بھی ہو، اس پر امام صاحب کی مہر ثبت ہو۔ انھوں نے انکار کیا تو جیل گئے اور ننگے بدن پر کوڑوں کی بارش ہوئی کہ جسم سوج گیا ، جب رہائی ملی تو مکہ مکرمہ میں گوشہ نشین ہو گئے ۔
امویوں کے بعد عباسیوں کا دور آیا تو فرمانروا نے امام صاحب کو چیف جسٹس کا عہدہ پیش کیا۔ دربار میں طلب کیے گئے تو خلیفہ نے امام صاحب کا حال پوچھا ، جواب دیا گیا کہ لوگوں کا حال تو معلوم نہیں اپنا حال یہ دیکھ رہا ہوں کہ جب مجھے دربار میں بلایا جاتا ہے تو یہاں جان میں جان اس وقت تک نہیں آتی جب تک خیریت سے گھر نہ پہنچ جائوں۔ امام صاحب نے گویا یہ بتایا کہ کوئی دربار میں بلایا جاتا ہے تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ زندہ لوٹنا ہے یا نہیں۔
امام صاحب کو چیف جسٹس کا عہدہ دینے کے لیے طلب کیا گیا تھا، خلیفہ اور امام صاحب کے مابین طویل گفتگو ہوئی، امام صاحب انکار کرتے رہے اور انھوں نے تنگ آکر کہا کہ مجھ میں قضاء کی صلاحیت نہیں ہے، اس پر خلیفہ نے بھڑک کر کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ امام صاحب نے کہا، میرا فیصلہ تو آپ نے خود ہی کر دیا۔ کیا ایسے شخص کو اتنا بڑا منصب دینا جائز ہو گا جو آپ کے خیال میں جھوٹا ہے۔ خلیفہ منصور اس جواب پر مشتعل ہو گیا اور کہا منصور نے قسم کھا لی ہے کہ تم کو قضا ء کا عہدہ قبول کرنا ہو گا ۔
امام نے کہا، خدا کی قسم میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا ۔ اس پر منصور نے امام کو برا بھلا کہا اور تیس کوڑے مارنے کا حکم دیا ۔ امام دربار سے باہر نکلے تو ان کا اوپر کابدن ننگا تھا اور خون بہہ رہا تھا جو ایڑیوں تک پہنچ گیا تھا ۔ امام کو جیل بھجوا دیا گیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ جیل میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ بعض کے خیال میں رہائی کے بعد وفات پائی۔ حضورﷺ کی ہجرت کے ڈیڑھ سوسال بعد امام صاحب کا انتقال ہوا۔ بغداد کے قاضی نے غسل دیا جسم پر زخم تھے اور قاضی حسن بن عمارہ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ ابو حنیفہ تم نے عہدہ قضاء کو کتنا مشکل بنا دیا ہے۔
اسلام کی تاریخ ظالم حکمرانوں اور جوانمردی کے ساتھ ظلم برداشت کرنیوالوں سے بھری پڑی ہے۔ آج کے دور میں ہماری پارلیمنٹ سلامت ہے اور خدا نہ کرے، اس پر کوئی آنچ آئے ۔ پارلیمنٹ پر ایسے وقت اکثر آتے رہے جب نظریہ ضرورت لاگو کرتے ہوئے اس کو توڑ دیا گیا اور ان فیصلوں کو جائز قرار دیا گیا۔ اس طرح کے فیصلوں میں عدلیہ کو بھی فریق بنایا جاتا رہا ۔ یوں قومی سیاست تین حصوں میں بٹ گئی۔ سیاستدان، فوجی حکمران اور عدلیہ۔ جس طرح سیاستدان حکومت میں فوج کی مداخلت برداشت نہیں کرتے، اسی طرح عدلیہ کو بھی سیاست کا ایک محور بننے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ہمارے حکمران اپنی اپنی ضروریات کے تحت عدلیہ کو انتظامی امور میں مداخلت پر مجبور کرتے ہیں جس کی وجہ سے نظریہ ضرورت کے تحت ایسے فیصلے ہو جاتے ہیں جن کے دور رس اثرات ہوتے ہیں ۔ ہم نے دوسرے اداروں کی طرح عدلیہ کی آزادی کو بھی مشکوک بنا دیا ہے حالانکہ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ آزاد اور خود مختار عدلیہ اسلامی معاشرے کا اہم جزو ہے اور ایک آزاد عدالتی نظام ہی ریاست کی بقا ء کا فیصلہ کرتا ہے ۔ آزاد اور خود مختارعدلیہ ہماری آج کی ضرورت ہے۔