پسند کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی
پاکستان میں جان بوجھ کر ایسے واقعات کو ہوا دی جاتی ہے جس میں مختلف این جی اوز اور خاص طور پر بھارت کا ہاتھ ہوتا ہے
ان دنوں لاہور اور کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر ایک مسیحی لڑکی آرزو راجہ کی پسند کی شادی اور مذہب تبدیلی کو لے کر خوب بحث اور احتجاج ہورہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جب بھی دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لڑکے اور لڑکی کی شادی کا معاملہ سامنے آتا ہے اسے جبری مذہب تبدیلی کے عنوان سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ اور ایسا ہی اب آرزو راجہ کی ایک شخص اظہر علی سے شادی کے بعد دیکھنے میں آرہا ہے۔
آرزو راجہ کا تعلق شہر قائد کراچی سے ہے اور نادار کے ریکارڈ کے مطابق اس کی عمر صرف 13 سال ہے۔ آروز راجہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کو 13 اکتوبر کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ اور ان کے شوہر مزدوری کےلیے گھر سے باہر تھے۔ اس دوران آرزو اور اس کے دیگر تین بہن بھائی گھر میں موجود تھے جب ان کی بیٹی آرزو کو ان کے ایک ہمسائے سید اظہر علی نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے اغوا کیا اور بعد ازاں اس کو جبری مسلمان کرکے اس سے نکاح کرلیا۔ آرزو کے والدین کی درخواست پر مقدمہ درج ہوچکا ہے۔
اس واقعے کی اطلاع جب مختلف این جی اوز کو ملی تو سوشل میڈیا پر ایک بار پھر پاکستان میں جبری مذہب تبدیلی اور کم عمری میں شادی کے عنوان سے ٹرینڈ چلنا شروع ہوگئے۔ اس ٹرینڈ کو ایسی این جی اوز کی طرف سے زیادہ پھیلایا جارہا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ غیر ملکی فنڈنگ پر چلتی ہیں۔ کراچی اور لاہور میں مسیحی برادری کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
دوسری طرف آرزو راجہ کا ایک ویڈیو بیان سامنے آیا ہے جس میں وہ اپنی گفتگو کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ ان کا نام آرزو راجہ کے بجائے اب سیدہ آرزو فاطمہ ہے۔ وہ چھوٹی بچی نہیں بلکہ ایک شادی شدہ لڑکی ہیں۔ اس نے کسی دباؤ اور لالچ کے بغیر اپنی رضامندی سے ناصرف اسلام قبول کیا ہے بلکہ سید اظہر علی شادی بھی کی ہے۔ آرزو کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس بلاوجہ ان کے سسرالیوں کو تنگ کررہی ہے، اس شادی کا ان کے سسرالیوں کو بھی علم نہیں ہے۔
آرزو کی ایک اور ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں وہ تھانے میں موجود ہیں اور اس کی والدہ اس سے پوچھ رہی ہیں کہ وہ بتائے اس نے کس کے دباؤ پر اسلام قبول کیا اور شادی کی ہے، کیا اسے کوئی لالچ دیا گیا؟ لیکن اس ویڈیو میں بھی آرزو اپنی والدہ کو یہی جواب دیتی ہیں کہ اسے کوئی لالچ نہیں دیا گیا اور اس نے سوچ سمجھ کر شادی کی ہے۔
اگر آزرو کے ان بیانات کو دیکھا جائے تو یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ اس نے یہ سب کچھ اپنی مرضی اور رضامندی سے کیا ہے، کسی دباؤ پر اس نے اسلام قبول نہیں کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا 13 سالہ لڑکی کا نکاح ہوسکتا ہے؟ علمائے کرام اور قانونی ماہرین کے مطابق جب لڑکی بالغ ہوجائے تو اس کا نکاح ہوسکتا ہے۔ اگر کم عمری میں بھی نکاح کیا گیا ہو تو رخصتی اسی وقت ہوگی جب لڑکی بالغ ہوگی۔
میڈیکل کے حساب سے دیکھا جائے تو 13-14 سال کی لڑکی بالغ ہوجاتی ہے، تاہم ملک کے مروجہ قانون کے مطابق بلوغت کی عمر 18 سال مقرر ہے۔ اس سے کم عمری میں نکاح نہیں کیا جاسکتا۔ سندھ چائلڈ ایکٹ کے مطابق بھی 18 سال سے کم عمر لڑکی کا نکاح نہیں ہوسکتا۔
پاکستان کا آئین 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی اور جبری مذہب کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتا۔ جبکہ اسلام بھی جبری مذہب تبدیلی کے خلاف ہے۔ تاہم اس کے باوجود آئے روز ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جس میں خاص طور پر لڑکی اپنا مذہب تبدیل کرکے مسلمان سے شادی کرلیتی ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر ان واقعات کو ہی سوشل میڈیا پر اٹھایا جاتا ہے جہاں ایک غیرمسلم لڑکی مذہب تبدیل کرکے کسی مسلمان سے شادی کرتی ہے۔ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے جوڑے اگر باہم شادی کرتے ہیں تو اس پر کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن اور جامعہ نعیمیہ لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کہتے ہیں اسلام قبول کرنے کےلیے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، تاہم جبراً کسی کا مذہب تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملکی قانون کے مطابق شادی کےلیے لڑکی کی عمر کم ازکم 18 سال ہونا لازمی ہے۔ تاہم شرعی طور پر اس سے کم عمر لڑکی سے نکاح ہوسکتا ہے لیکن رخصتی اس کے بالغ ہونے پر ہی کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جس طرح جبراً کسی کو مسلمان نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح جبراً کسی کو اسلام قبول کرنے سے روکا بھی نہیں جاسکتا۔
انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے ایڈووکیٹ عبداللہ ملک کہتے ہیں کہ کم عمری کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی کے حوالے سے ملک کا قانون بڑا واضح ہے۔ اگر لڑکی جسمانی ساخت کے اعتبار سے بڑی نظر آتی ہو لیکن دستاویز کے مطابق اس کی عمر کم ہو تو ایسی صورت میں عدالت بچی کا میڈیکل چیک اپ کروا سکتی ہے اور کم عمری کے نکاح کو ختم کرسکتی ہے۔ ایسی صورت میں مرد پر زنا کا مقدمہ درج ہوسکتا ہے۔
عبداللہ ملک کہتے ہیں کہ پسند کی شادی کے واقعات میں زیادہ تر گھر کا ماحول، معاشی مسائل، مرد کی طرف سے کیے جانے والے اچھے مستقبل کے وعدے اور ذاتی پسند اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پسند کی ہر شادی کو جبری مذہب تبدیلی سے جوڑنا درست نہیں ہے۔ 18 سال کی لڑکی اور لڑکا اپنی پسند سے شادی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے ننکانہ صاحب سے تعلق رکھنی والی سکھ لڑکی جگجیت کور کی شادی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سکھ لڑکی بالغ تھی اور اس نے اپنی پسند سے اسلام قبول کرکے ایک مسلمان نوجوان سے شادی کی تھی۔ لڑکی کے والدین کا دعویٰ تھا کہ ان کی بیٹی کو ورغلایا گیا ہے اور زبردستی مذہب تبدیل کرکے شادی کی گئی ہے۔ والدین کے موقف کے بعد عدالت نے کئی ماہ تک لڑکی کو دارالامان میں رکھا جہاں اس کی والدہ کو اس سے ملاقات کی اجازت تھی۔ تاہم لڑکی کا یہی موقف برقرار رہا کہ اس نے اپنی پسند سے مذہب تبدیل کرکے شادی کی ہے۔ جس کے بعد عدالت نے اسے اس کے شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اس طرح کی 70 فیصد شادیاں کسی نہ کسی سطح پر جاکر ناکام ہوجاتی ہیں۔ صرف لاہور کی عدالتوں میں روزانہ 100 کے قریب خلع اور طلاق کے کیس دائر ہوتے ہیں۔ پسند کی شادی اور مذہب تبدیل کرنے کے واقعات کو قانون کے ذریعے روکنا ممکن نہیں ہے۔ اس کےلیے بچوں خاص طور پر بیٹیوں کی تعلیم، تربیت اور دوستانہ ماحول دینے کی ضرورت ہے۔ پسند کی شادیاں کرنے والی لڑکیوں کی اکثریت اس وجہ سے بھی واپس والدین کے پاس نہیں جاتی کہ انہیں غیرت کے نام پر قتل کردیے جانے کا ڈر ہوتا ہے۔
پاکستان میں بسنے والی ہندو اور مسیحی برادری کی طرف سے سب زیادہ جبری مذہب تبدیلی اور شادی کی شکایات سامنے آتی ہیں۔ سندھ میں ہندو جبکہ پنجاب میں مسیحی لڑکیاں مذہب تبدیل کرکے پسند کی شادی کرلیتی ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں مسیحی کمیونٹی 20 سے 25 لاکھ تک ہے، جبکہ ہندو کمیونٹی کی تعداد 55 لاکھ سے زائد ہے۔ مختلف این جی اوز کی طرف سے مہیا کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں 50 ہندو اور مسیحی لڑکیوں نے مذہب تبدیل کرکے شادیاں کی ہیں۔ این جی اوز کی طرف ان واقعات کو جبری مذہب تبدیلی کا نام دیا جاتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں بسنے والے باشعور مسیحی، ہندو اور سکھ کمیونٹی کے افراد یہ بھی مانتے ہیں کہ پاکستان میں جان بوجھ کر ایسے واقعات کو ہوا دی جاتی ہے جس میں مختلف این جی اوز اور خاص طور پر بھارت کا ہاتھ ہوتا ہے جو پاکستان کے خلاف یہ پروپیگنڈا کرتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آرزو راجہ کا تعلق شہر قائد کراچی سے ہے اور نادار کے ریکارڈ کے مطابق اس کی عمر صرف 13 سال ہے۔ آروز راجہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کو 13 اکتوبر کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ اور ان کے شوہر مزدوری کےلیے گھر سے باہر تھے۔ اس دوران آرزو اور اس کے دیگر تین بہن بھائی گھر میں موجود تھے جب ان کی بیٹی آرزو کو ان کے ایک ہمسائے سید اظہر علی نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے اغوا کیا اور بعد ازاں اس کو جبری مسلمان کرکے اس سے نکاح کرلیا۔ آرزو کے والدین کی درخواست پر مقدمہ درج ہوچکا ہے۔
اس واقعے کی اطلاع جب مختلف این جی اوز کو ملی تو سوشل میڈیا پر ایک بار پھر پاکستان میں جبری مذہب تبدیلی اور کم عمری میں شادی کے عنوان سے ٹرینڈ چلنا شروع ہوگئے۔ اس ٹرینڈ کو ایسی این جی اوز کی طرف سے زیادہ پھیلایا جارہا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ غیر ملکی فنڈنگ پر چلتی ہیں۔ کراچی اور لاہور میں مسیحی برادری کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
دوسری طرف آرزو راجہ کا ایک ویڈیو بیان سامنے آیا ہے جس میں وہ اپنی گفتگو کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ ان کا نام آرزو راجہ کے بجائے اب سیدہ آرزو فاطمہ ہے۔ وہ چھوٹی بچی نہیں بلکہ ایک شادی شدہ لڑکی ہیں۔ اس نے کسی دباؤ اور لالچ کے بغیر اپنی رضامندی سے ناصرف اسلام قبول کیا ہے بلکہ سید اظہر علی شادی بھی کی ہے۔ آرزو کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس بلاوجہ ان کے سسرالیوں کو تنگ کررہی ہے، اس شادی کا ان کے سسرالیوں کو بھی علم نہیں ہے۔
آرزو کی ایک اور ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں وہ تھانے میں موجود ہیں اور اس کی والدہ اس سے پوچھ رہی ہیں کہ وہ بتائے اس نے کس کے دباؤ پر اسلام قبول کیا اور شادی کی ہے، کیا اسے کوئی لالچ دیا گیا؟ لیکن اس ویڈیو میں بھی آرزو اپنی والدہ کو یہی جواب دیتی ہیں کہ اسے کوئی لالچ نہیں دیا گیا اور اس نے سوچ سمجھ کر شادی کی ہے۔
اگر آزرو کے ان بیانات کو دیکھا جائے تو یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ اس نے یہ سب کچھ اپنی مرضی اور رضامندی سے کیا ہے، کسی دباؤ پر اس نے اسلام قبول نہیں کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا 13 سالہ لڑکی کا نکاح ہوسکتا ہے؟ علمائے کرام اور قانونی ماہرین کے مطابق جب لڑکی بالغ ہوجائے تو اس کا نکاح ہوسکتا ہے۔ اگر کم عمری میں بھی نکاح کیا گیا ہو تو رخصتی اسی وقت ہوگی جب لڑکی بالغ ہوگی۔
میڈیکل کے حساب سے دیکھا جائے تو 13-14 سال کی لڑکی بالغ ہوجاتی ہے، تاہم ملک کے مروجہ قانون کے مطابق بلوغت کی عمر 18 سال مقرر ہے۔ اس سے کم عمری میں نکاح نہیں کیا جاسکتا۔ سندھ چائلڈ ایکٹ کے مطابق بھی 18 سال سے کم عمر لڑکی کا نکاح نہیں ہوسکتا۔
پاکستان کا آئین 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی اور جبری مذہب کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتا۔ جبکہ اسلام بھی جبری مذہب تبدیلی کے خلاف ہے۔ تاہم اس کے باوجود آئے روز ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جس میں خاص طور پر لڑکی اپنا مذہب تبدیل کرکے مسلمان سے شادی کرلیتی ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر ان واقعات کو ہی سوشل میڈیا پر اٹھایا جاتا ہے جہاں ایک غیرمسلم لڑکی مذہب تبدیل کرکے کسی مسلمان سے شادی کرتی ہے۔ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے جوڑے اگر باہم شادی کرتے ہیں تو اس پر کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن اور جامعہ نعیمیہ لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کہتے ہیں اسلام قبول کرنے کےلیے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، تاہم جبراً کسی کا مذہب تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملکی قانون کے مطابق شادی کےلیے لڑکی کی عمر کم ازکم 18 سال ہونا لازمی ہے۔ تاہم شرعی طور پر اس سے کم عمر لڑکی سے نکاح ہوسکتا ہے لیکن رخصتی اس کے بالغ ہونے پر ہی کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جس طرح جبراً کسی کو مسلمان نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح جبراً کسی کو اسلام قبول کرنے سے روکا بھی نہیں جاسکتا۔
انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے ایڈووکیٹ عبداللہ ملک کہتے ہیں کہ کم عمری کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی کے حوالے سے ملک کا قانون بڑا واضح ہے۔ اگر لڑکی جسمانی ساخت کے اعتبار سے بڑی نظر آتی ہو لیکن دستاویز کے مطابق اس کی عمر کم ہو تو ایسی صورت میں عدالت بچی کا میڈیکل چیک اپ کروا سکتی ہے اور کم عمری کے نکاح کو ختم کرسکتی ہے۔ ایسی صورت میں مرد پر زنا کا مقدمہ درج ہوسکتا ہے۔
عبداللہ ملک کہتے ہیں کہ پسند کی شادی کے واقعات میں زیادہ تر گھر کا ماحول، معاشی مسائل، مرد کی طرف سے کیے جانے والے اچھے مستقبل کے وعدے اور ذاتی پسند اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پسند کی ہر شادی کو جبری مذہب تبدیلی سے جوڑنا درست نہیں ہے۔ 18 سال کی لڑکی اور لڑکا اپنی پسند سے شادی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے ننکانہ صاحب سے تعلق رکھنی والی سکھ لڑکی جگجیت کور کی شادی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سکھ لڑکی بالغ تھی اور اس نے اپنی پسند سے اسلام قبول کرکے ایک مسلمان نوجوان سے شادی کی تھی۔ لڑکی کے والدین کا دعویٰ تھا کہ ان کی بیٹی کو ورغلایا گیا ہے اور زبردستی مذہب تبدیل کرکے شادی کی گئی ہے۔ والدین کے موقف کے بعد عدالت نے کئی ماہ تک لڑکی کو دارالامان میں رکھا جہاں اس کی والدہ کو اس سے ملاقات کی اجازت تھی۔ تاہم لڑکی کا یہی موقف برقرار رہا کہ اس نے اپنی پسند سے مذہب تبدیل کرکے شادی کی ہے۔ جس کے بعد عدالت نے اسے اس کے شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اس طرح کی 70 فیصد شادیاں کسی نہ کسی سطح پر جاکر ناکام ہوجاتی ہیں۔ صرف لاہور کی عدالتوں میں روزانہ 100 کے قریب خلع اور طلاق کے کیس دائر ہوتے ہیں۔ پسند کی شادی اور مذہب تبدیل کرنے کے واقعات کو قانون کے ذریعے روکنا ممکن نہیں ہے۔ اس کےلیے بچوں خاص طور پر بیٹیوں کی تعلیم، تربیت اور دوستانہ ماحول دینے کی ضرورت ہے۔ پسند کی شادیاں کرنے والی لڑکیوں کی اکثریت اس وجہ سے بھی واپس والدین کے پاس نہیں جاتی کہ انہیں غیرت کے نام پر قتل کردیے جانے کا ڈر ہوتا ہے۔
پاکستان میں بسنے والی ہندو اور مسیحی برادری کی طرف سے سب زیادہ جبری مذہب تبدیلی اور شادی کی شکایات سامنے آتی ہیں۔ سندھ میں ہندو جبکہ پنجاب میں مسیحی لڑکیاں مذہب تبدیل کرکے پسند کی شادی کرلیتی ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں مسیحی کمیونٹی 20 سے 25 لاکھ تک ہے، جبکہ ہندو کمیونٹی کی تعداد 55 لاکھ سے زائد ہے۔ مختلف این جی اوز کی طرف سے مہیا کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں 50 ہندو اور مسیحی لڑکیوں نے مذہب تبدیل کرکے شادیاں کی ہیں۔ این جی اوز کی طرف ان واقعات کو جبری مذہب تبدیلی کا نام دیا جاتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں بسنے والے باشعور مسیحی، ہندو اور سکھ کمیونٹی کے افراد یہ بھی مانتے ہیں کہ پاکستان میں جان بوجھ کر ایسے واقعات کو ہوا دی جاتی ہے جس میں مختلف این جی اوز اور خاص طور پر بھارت کا ہاتھ ہوتا ہے جو پاکستان کے خلاف یہ پروپیگنڈا کرتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔