دوسری شادی کے لئے رشتہ نہ دینے پر لڑکی کا والد قتل
اکرام نے ممتاز سے رشتہ مانگا، انکار پر بھتہ خوری کا ڈرامہ رچا کر قتل کر دیا
بے جا خواہشات کو لگام ڈالے رکھنے والا انسان ہی درحقیقت اشرف المخلوقات کہلوانے کا حق دار ہے بصورت دیگر خواہشات کے بے لگام گھوڑے پر سوار انسان اور جانور میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
کیوں کہ یہ ناجائز خواہشات جب انسان کے کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہیں تو وہ ان کی تکمیل کے لئے ایسا سنگین جرم کر گزرتا ہے جس کا خمیازہ نہ صرف اسے بلکہ اس کی آئندہ آنے والوں نسلوں کے ساتھ متاثرہ خاندانوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسے ہی خواہشات کے شکار ایک شخص نے سرگودہا کے علاقہ پھلروان میں ایسا جرم کیا، جس نے دو ہنستے بستے گھروں کو اجاڑ دیا۔
پھلروان کا رہائشی محمد ممتاز اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہا تھا۔ اس کے بچے پڑھے لکھے تھے، جن میں سے ایک بیٹی3سال سے مقامی سکول میں ٹیچنگ کرتی تھی۔ خوش و خرم اس زندگی کو ناجانے کس کی نظر لگی کہ ایک دن ممتاز کو کال موصول ہوئی اور دوسری طرف سے بولنے والے نے20 لاکھ روپے بھتہ کا مطالبہ کر دیا، جس پر ممتاز نے کوئی توجہ نہ دی لیکن ایک روز وہ اپنے گھر کے باہر موجود تھا کہ موٹر سائیکل سواروں نے اس پر فائرنگ کر دی اور موقع سے فرار ہو گئے۔ فائرنگ کے نتیجہ میں ممتاز کی موقعہ پر موت واقع ہو گئی۔
ایس ایچ اوذیشان اقبال اور ان کی ٹیم نے واقعہ کی تحقیقات شروع کیں تو بھتہ مانگے جانے کا انکشاف ہوا۔ پولیس نے کیس کے دیگر پہلوؤںپر تفتیش کا آغاز کیا تو اس دوران مقتول کے بیٹے نے بتایا کہ جس سکول میں مقتول کی بیٹی پڑھاتی ہے اس کے مالک کی طرف سے اسے قتل سے دو دن قبل ایک کال موصول ہوئی تھی جس میں مالک اکرام اللہ نے اسے بتایا تھا کہ وہ دبئی جا رہا ہے۔ بظاہر یہ ایک معمولی بات تھی تاہم پولیس کی طرف سے پوچھنے پر مقتول کے بیٹے نے بتایا کہ اس سے قبل اسے کبھی بھی اکرام اللہ کی طرف سے کال یا میسج نہیں کیا گیا۔
اس چھوٹے سے پوائنٹ کو لے کر پولیس نے روایتی انداز میں تفتیش شروع کی تو معلوم ہوا کی اکرام اللہ دبئی نہیں گیا بلکہ وہ گلگت بلتستان میں ہے۔ پولیس نے کڑیوں کو ملانے کے لئے تفتیش کا دائرہ وسیع کیا تو انکشاف ہوا کی اکرام اللہ نے اپنے سکول میں پڑھانے والی ممتاز کی بیٹی کا رشتہ مانگا تھا جبکہ اکرام اللہ اس سے قبل بھی شادی شدہ اور تین بچوں کا باپ تھا، جس پر ممتاز نے اکرام اللہ کی ڈانٹ ڈپٹ کی اور رشتہ سے صاف انکار کر دیا۔
پولیس نے گلگت بلتستان میں کارروائی کرتے ہوئے اکرام اللہ کو گرفتار کر لیا۔گرفتاری کے بعد تفتیش میں انکشاف ہوا کہ رشتہ سے انکارکے بعداکرام اللہ لڑکی کے والد ممتاز کو اپنے راستے کی دیوار گرداننے لگا تھا۔ اس کانٹے کو نکالنے کے لئے اس نے بھتہ خوری کا ڈرامہ کرنے کی کوشش کی۔ ملزم نے بھتہ تو لینا نہیں تھا تاہم منصوبہ کے تحت واردات سے قبل اپنے آپ کو ملک سے باہر ظاہر کرنے کے لئے مقتول کے بیٹے کو دبئی جانے کی اطلاع دی گئی اور منصوبہ کے تحت ساتھیوں کے ہمراہ فائرنگ کر کے ممتاز کو قتل کر دیا گیا۔
بے گناہ قتل پر قدرت کو بھی کچھ اور ہی منظور تھا، کرونا کی صورتحال کے باعث اس کے ویزہ اور ٹکٹ میں مسائل کے باعث وہ دبئی نہ جا سکا تاہم موقع سے خود کو غیر حاضر ظاہر کرنے کے لئے اس نے گلگت بلتستان کا رخ کر لیا، جہاں سے پولیس نے اسے گرفتار کر لیا جبکہ اس کے مفرور ساتھوں کی گرفتاری کے لئے پولیس کی طرف سے چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دیدی گئی ہیں۔ گرفتار ملزم اکرام اللہ کواب اس کے کئے کی سزا عدالت کی طرف سے سنائی جائے گی، لیکن خواہشات کی آگ میں جل کر اس نے نہ صرف ممتاز کے ہنستے بستے گھر کی خوشیوں کو بھسم دیا بلکہ اپنے بیوی بچوں کا سکون بھی چھین لیا۔
کیوں کہ یہ ناجائز خواہشات جب انسان کے کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہیں تو وہ ان کی تکمیل کے لئے ایسا سنگین جرم کر گزرتا ہے جس کا خمیازہ نہ صرف اسے بلکہ اس کی آئندہ آنے والوں نسلوں کے ساتھ متاثرہ خاندانوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسے ہی خواہشات کے شکار ایک شخص نے سرگودہا کے علاقہ پھلروان میں ایسا جرم کیا، جس نے دو ہنستے بستے گھروں کو اجاڑ دیا۔
پھلروان کا رہائشی محمد ممتاز اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہا تھا۔ اس کے بچے پڑھے لکھے تھے، جن میں سے ایک بیٹی3سال سے مقامی سکول میں ٹیچنگ کرتی تھی۔ خوش و خرم اس زندگی کو ناجانے کس کی نظر لگی کہ ایک دن ممتاز کو کال موصول ہوئی اور دوسری طرف سے بولنے والے نے20 لاکھ روپے بھتہ کا مطالبہ کر دیا، جس پر ممتاز نے کوئی توجہ نہ دی لیکن ایک روز وہ اپنے گھر کے باہر موجود تھا کہ موٹر سائیکل سواروں نے اس پر فائرنگ کر دی اور موقع سے فرار ہو گئے۔ فائرنگ کے نتیجہ میں ممتاز کی موقعہ پر موت واقع ہو گئی۔
ایس ایچ اوذیشان اقبال اور ان کی ٹیم نے واقعہ کی تحقیقات شروع کیں تو بھتہ مانگے جانے کا انکشاف ہوا۔ پولیس نے کیس کے دیگر پہلوؤںپر تفتیش کا آغاز کیا تو اس دوران مقتول کے بیٹے نے بتایا کہ جس سکول میں مقتول کی بیٹی پڑھاتی ہے اس کے مالک کی طرف سے اسے قتل سے دو دن قبل ایک کال موصول ہوئی تھی جس میں مالک اکرام اللہ نے اسے بتایا تھا کہ وہ دبئی جا رہا ہے۔ بظاہر یہ ایک معمولی بات تھی تاہم پولیس کی طرف سے پوچھنے پر مقتول کے بیٹے نے بتایا کہ اس سے قبل اسے کبھی بھی اکرام اللہ کی طرف سے کال یا میسج نہیں کیا گیا۔
اس چھوٹے سے پوائنٹ کو لے کر پولیس نے روایتی انداز میں تفتیش شروع کی تو معلوم ہوا کی اکرام اللہ دبئی نہیں گیا بلکہ وہ گلگت بلتستان میں ہے۔ پولیس نے کڑیوں کو ملانے کے لئے تفتیش کا دائرہ وسیع کیا تو انکشاف ہوا کی اکرام اللہ نے اپنے سکول میں پڑھانے والی ممتاز کی بیٹی کا رشتہ مانگا تھا جبکہ اکرام اللہ اس سے قبل بھی شادی شدہ اور تین بچوں کا باپ تھا، جس پر ممتاز نے اکرام اللہ کی ڈانٹ ڈپٹ کی اور رشتہ سے صاف انکار کر دیا۔
پولیس نے گلگت بلتستان میں کارروائی کرتے ہوئے اکرام اللہ کو گرفتار کر لیا۔گرفتاری کے بعد تفتیش میں انکشاف ہوا کہ رشتہ سے انکارکے بعداکرام اللہ لڑکی کے والد ممتاز کو اپنے راستے کی دیوار گرداننے لگا تھا۔ اس کانٹے کو نکالنے کے لئے اس نے بھتہ خوری کا ڈرامہ کرنے کی کوشش کی۔ ملزم نے بھتہ تو لینا نہیں تھا تاہم منصوبہ کے تحت واردات سے قبل اپنے آپ کو ملک سے باہر ظاہر کرنے کے لئے مقتول کے بیٹے کو دبئی جانے کی اطلاع دی گئی اور منصوبہ کے تحت ساتھیوں کے ہمراہ فائرنگ کر کے ممتاز کو قتل کر دیا گیا۔
بے گناہ قتل پر قدرت کو بھی کچھ اور ہی منظور تھا، کرونا کی صورتحال کے باعث اس کے ویزہ اور ٹکٹ میں مسائل کے باعث وہ دبئی نہ جا سکا تاہم موقع سے خود کو غیر حاضر ظاہر کرنے کے لئے اس نے گلگت بلتستان کا رخ کر لیا، جہاں سے پولیس نے اسے گرفتار کر لیا جبکہ اس کے مفرور ساتھوں کی گرفتاری کے لئے پولیس کی طرف سے چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دیدی گئی ہیں۔ گرفتار ملزم اکرام اللہ کواب اس کے کئے کی سزا عدالت کی طرف سے سنائی جائے گی، لیکن خواہشات کی آگ میں جل کر اس نے نہ صرف ممتاز کے ہنستے بستے گھر کی خوشیوں کو بھسم دیا بلکہ اپنے بیوی بچوں کا سکون بھی چھین لیا۔