مسلم لیگ ن میں اختلافاتعبدالقادر بلوچ کا مستعفی ہونے کا فیصلہ

قوی امکان ہے کہ مشاورتی اجلاس میں بات پارٹی عہدوں اور رکنیت سے مستعفی ہونے تک پہنچ جائے۔

قوی امکان ہے کہ مشاورتی اجلاس میں بات پارٹی عہدوں اور رکنیت سے مستعفی ہونے تک پہنچ جائے۔ فوٹو: فائل

جیسا کہ یہ پہلے سے کہا جا رہا تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے یکے بعد دیگرے''پاور شوز'' خصوصاً کوئٹہ کے جلسے کے بعد ملکی سیاست میں ہلچل سی مچ سکتی ہے اور اس کا آغاز بلوچستان کی سیاست سے ہو سکتا ہے جس کا دائرہ ملکی سیاست تک پھیل سکتا ہے۔

پی ڈی ایم کے کوئٹہ کے جلسے کے بعد بلوچستان کی سیاست کا درجہ حرارت یکدم گرم ہوگیا ہے، بلوچستان کی برسر اقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی اور اپوزیشن جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل کے درمیان سیاسی الفاظ اور بیانات کی ایک جنگ کا آغاز ہو گیا ہے اور دوسری جانب پی ڈی ایم کا یہ جلسہ مسلم لیگ (ن) بلوچستان اور پارٹی کی مرکزی قیادت کے درمیان اختلافات کا باعث بن گیا ہے جس پر (ن) لیگ بلوچستان کے صدر اور سابق وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ نے پارٹی عہدے سے رکنیت سے مستعفی ہونے کا اصولی فیصلہ کرتے ہوئے7 نومبر کو کوئٹہ میں پارٹی کے ڈویژنل و ضلعی عہدیداران کا ایک مشاورتی اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں پارٹی کی مرکزی قیادت کے نظر انداز کئے جانے والے رویئے اور پارٹی کے قائد و سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے متنازعہ بیانیہ پر حتمی لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

سیاسی حلقوں کے مطابق (ن) لیگ کی صوبائی قیادت نے نہ صرف میاں نواز شریف کے قومی اداروں کے خلاف متنازعہ بیانیہ بلکہ پارٹی کے اہم رہنماو سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ زہری کو پی ڈی ایم کے کوئٹہ جلسہ میں نہ بلانے اور دیگر معاملات میں پارٹی کی صوبائی قیادت کو مکمل نظر انداز کئے جانے پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اسٹینڈ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ مشاورتی اجلاس میں بات پارٹی عہدوں اور رکنیت سے مستعفی ہونے تک پہنچ جائے جس میں اس بات کا بھی امکان ہے کہ پارٹی عہدوں اور رکنیت سے مستعفی ہونے کے معاملے پر (ن) لیگ بلوچستان دو دھڑوں میں تقسیم ہو جائے کیونکہ اس معاملے پر ابھی سے پارٹی کے اندر مختلف رائے آرہی ہیں۔ پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری جمال شاہ کاکڑ کے اس تمام صورتحال پر بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کے اندر اس حوالے سے اختلاف موجود ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی جو کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں (ن) لیگ بلوچستان کے صدر جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ کے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے فیصلے کو سراہا ہے اُن کا کہنا ہے کہ جنرل (ریٹائرڈ) قادر بلوچ نے درست فیصلہ کیا ہے۔


سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ (ن) لیگ بلوچستان کے صوبائی صدر جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ کی جانب سے مستعفی ہونے کے فیصلے پر مرکزی قیادت کی جانب سے کوئی مثبت ردعمل کے بجائے احسن اقبال کی طرف سے اس بیان نے معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید اُلجھادیا ہے جس میں اُنہوں نے جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ کے مستعفی ہونے کے فیصلے پر کہا کہ اگر وہ مستعفی ہونا چاہتے ہیں تو ہوجائیں تاہم بعض سیاسی حلقے احسن اقبال کے اس رویئے کو بھی مرکزی قیادت کے (ن) لیگ بلوچستان کے صوبائی صدر سمیت دیگر عہدیداروں کو نظر انداز کرنے والی لابی کا حصہ تصور کرتے ہوئے اس عمل کا تسلسل سمجھتے ہیں جو کہ اُن سے اور انکے ساتھیوں سے جان چھڑانے کے درپے ہے۔

ادھر یہ بات بھی سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے کہ اگر جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ اور صوبائی جماعت کے دیگر عہدیداران مستعفی ہوتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری بھی پارٹی کو چھوڑ سکتے ہیں؟ کیونکہ پارٹی کی صوبائی قیادت نے جہاں دیگر معاملات پارٹی کی مرکزی قیادت کے سامنے اُٹھائے ہیں وہاں ایک اہم معاملہ نواب ثناء اﷲ زہری کو پی ڈی ایم کے جلسہ میں نہ بلانا ہی ہے جس پر صوبائی قیادت نے سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں اس وقت (ن) لیگ کی صرف ایک نشست تصور کی جاتی ہے جس پر نواب ثناء اﷲ زہری ذاتی حیثیت سے کامیاب ہو کر آئے ہیں۔

تاہم اُنہوں نے الیکشن (ن) لیگ کے ٹکٹ اور انتخابی نشان پر لڑا لہٰذا اگر وہ پارٹی چھوڑ دیتے ہیں تو اُن پر18 ویں ترمیم کے تحت فلور کراسنگ کا فارمولا اپلائی ہو سکتا ہے جس کے باعث وہ اسمبلی رکنیت سے فارغ ہوجائیں گے؟ ایسے میں وہ یقیناً تمام صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور اپنے قریبی دوستوں سے بھی مشاورت کر رہے ہیں اس حوالے سے وہ جلد ہی کوئی اہم قدم اُٹھائیں گے یا فیصلہ کریں گے؟ جس کے حوالے سے کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے جام حکومت کو گرانے کے حوالے سے وزیراعلیٰ جام کمال اور بی این پی کے سربراہ و رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل کے مابین تند و تیز بیانات کا سلسلہ اور ایک دوسرے پر سیاسی گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے بی این پی جام حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے صف بندی کر رہی ہے اور اسے اپنا آئینی و قانونی حق تصور کرتے ہوئے رابطے بھی کر رہی ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اپوزیشن جماعتیں بی این پی اور جے یو آئی (ف) کافی عرصے سے جام حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کیلئے کوشاں ہیں تاہم عددی نمبر برابر نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو پائی تاہم جس طرح سے یہ ذکر پہلے بھی کیا جا چکا ہے کہ پی ڈی ایم کا کوئٹہ جلسہ بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کی راہیں ہموار کر رہا ہے جام حکومت کی ایک اتحادی جماعت اے این پی جس کی بلوچستان اسمبلی میں تعداد4 ہے کچھ عرصے سے حکومتی اتحاد سے دور ہوتی جا رہی ہے جس کا عملی مظاہرہ اسمبلی اجلاس کے دوران کوئٹہ جلسے میں پی ڈی ایم کے قائدین کے حوالے سے مذمتی قرار داد کی کھل کر مخالفت سے دیکھنے میں آیا گو کہ اے این پی نے ابھی تک جام حکومت کے اتحاد میں رہنے یا نہ رہنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ حکومت نے کوئی اس حوالے سے حتمی فیصلہ کیا ہے لیکن اے این پی کے اس طرز عمل کے بعد جام کمال اور سردار اختر مینگل کے بیانات میں ذکر اور حمایت رکھنے نہ رکھنے کے حوالے سے صوبے کے سیاسی موسم میں گرمی پیدا ہوئی ہے۔

وزیراعلیٰ جام کمال نے ان کی حکومت گرانے کے سردار اختر مینگل کے دعوے پر دو ٹوک الفاظ میں یہ کہہ کر اپنی حکومت کی مضبوطی کا اظہار کیا کہ اے این پی اگر اُن کے اتحاد سے نکل بھی جاتی ہے تو اُن کی حکومت کو گرایا نہیں جا سکتا؟ بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر متحدہ اپوزیشن سے برسر اقتدار پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض ارکان اسمبلی جن کی تعداد6 سے7 بتائی جاتی ہے اور وہ اپوزیشن جماعتوں میں رابطے میں بھی ہیں اپنے اس موقف کو منوا لیتے ہیں کہ تبدیلی کی صورت میں قائد ایوان اُن میں سے چنا جائے تو پھر متحدہ اپوزیشن اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتی ہے اس کے علاوہ اپوزیشن جام حکومت کو نہیں گرا پائے گی اُسے اپنی عددی تعداد کو پورا کرنے کیلئے برسر اقتدار جماعت کے ان ناراض ارکان کی مدد حاصل کرتے ہوئے اُن کی شرط کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔
Load Next Story