پاکستان فوج سیاست اور مہنگائی
حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے
عنوان کے حساب سے ساری باتیں ایک نشست میں لکھنا ممکن نہیں، لیکن مختصر لکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ ''سب سے پہلے پاکستان'' کا نعرہ ہر پاکستانی کا ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر پاکستان ہوگا تو یہ سیاست دان اپنی دکان داری کرسکیں گے۔ اللہ نہ کرے اگر پاکستان کو کچھ ہوتا ہے تو پھر یہ سیاست دان کیا کریں گے؟ ان میں اکثریت ان سیاست دانوں کی ہے جن کی جائیدادیں ملک سے باہر ہیں یا پھر بینک اکاؤنٹ دوسرے ملکوں کے بینک میں ہیں۔ یہ لوگ ایک منٹ میں پاکستان سے بھاگ جائیں گے اور پیچھے رہ جائیں گے پاکستانی عوام اور ہماری فوج۔
میں پرانی باتیں نہیں کرنا چاہتی لیکن جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کا ذکر میں ضرور کروں گی۔ 2008-9 میں جب صوفی امین اور اس کے داماد فضل اللہ نے سوات پرقبضہ کرلیا تھا اور وہ مالاکنڈ کی پہاڑی تک آگئے تھے۔ ہماری یہ افواج جو ہمارا فخر ہیں، ان جوانوں نے اپنا خون دے کر ان سے تمام علاقہ خالی کروایا۔ اس وقت میں نے خود اُس علاقے کا وزٹ کیا لیکن ہم لوگ بٹ خیلہ سے آگے نہیں جاسکے کیونکہ آگے کا علاقہ ابھی پوری طرح آزاد نہیں ہوا تھا۔ پاکستان آرمی کو اس وقت جو نقصان ہوا تھا وہ سب دکھائی دے رہا تھا۔ ہماری آرمی اس وقت بہت سے محاذوں پر لڑ رہی ہے، وہ بلوچستان ہو، انڈیا کا بارڈر ہو یا پھر افغانستان کا باڈر۔ ہماری فوج ہر محاذ پر سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے اور قربانیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو خود فوج کی ضرروت رہتی ہے۔ ہمارے سیاست دان اتنے قابل نہیں کہ وہ ملکی سلامتی کے فیصلے اکیلے کر سکیں۔ امریکا میں بھی فوج سیاست میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ فوج کی مدد کے بغیر خارجہ پالیسی نہیں بن سکتی۔
نواز شریف نے جو آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے چیف کے بارے میں کہا، وہ نہیں کہنا چاہیے تھا۔ کیونکہ جنرل باجوہ کو نواز شریف ہی تو لے کر آئے تھے۔ یہ ان کے اُس وقت خاص آدمی تھے۔ اب ن لیگ میں توڑ جوڑ شروع ہوچکا ہے۔ ن لیگ کا مسقبل کیا ہوگا؟ ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ شہباز فیملی مریم صفدر کی سربراہی قبول نہیں کرے گی اور ان میں اختلافات مزید بڑھتے جائیں گے۔ شہباز شریف نے بڑی عقل مندی سے خود کو پی ڈی ایم سے الگ کیا، کیونکہ اگر کل کو ''ش'' لیگ کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ باآسانی اپنی جماعت بناسکتے ہیں۔ لیکن اگر ن لیگ اپنی جماعت کو بچانا چاہتی ہے تو پھر اس جماعت کا کنٹرول شہباز شریف کو دینا ہوگا اور مریم کو بیک سیٹ پر بیٹھنا ہوگا۔ پھر نواز شریف کا بیانیہ نہیں شہباز شریف کا بیانیہ چلے گا۔
اب بات کرتے ہیں حکومتی سیاست کی۔ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے اس میں دو کام بہت تیزی سے ہورہے ہیں، ایک حکومتی وزرا کو پتہ بھی نہیں ہوتا اور وہ تبدیل ہوجاتے ہیں، ان کے ساتھ بیوروکریسی بھی تبدیلی کا شکار ہے۔ دوسرا مہنگائی۔ حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں کہ وہ مہنگائی کو کس طرح قابو کرے۔ فیاض الحسن کو ہٹا کر فردوس عاشق کو پھر لگا دیا گیا۔ ان پر جو پہلے الزامات تھے کیا وہ درست تھے جس کی بنا پر فردوس صاحبہ کو ہٹایا گیا تھا؟ اگر درست تھے تو سزا کیوں نہیں دی گئی؟ ان کو دوبارہ کس کے کہنے پر دوبارہ عہدہ دیا گیا؟ اگر الزامات غلط تھے تو پھر حکومت کی طرف سے تردید کیوں نہیں آئی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ریاست مدینہ بنانے والوں سے پوچھے جاسکتے ہیں، مگر افسوس ان کا کوئی بھی جواب دینے کو تیار نہیں۔
مہنگائی نے دو سال میں غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ صرف پاور سیکٹر میں دو سال میں گردشی قرضے 1139 ارب کے اضافے کے ساتھ 2300 ارب تک پہنچ گئے ہیں۔ مگر کسی کو غریب کی کو فکر نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ لفظی گولہ باری دونوں اطراف سے جاری ہے۔ وہ غدار، یہ غدار کی آوازیں آرہی ہیں لیکن کوئی بھی عوام کی بات نہیں کررہا کہ بیچارے عوام کی حالت کیا ہوگئی ہے۔ وہ معیشت، روزگار، مہنگائی اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہورہے ہیں۔ مہنگائی کی دلدل میں گرفتار عوام کو ان سیاست دانوں کی سیاست سے کوئی سروکار نہیں۔ عوام اسی سوچ میں ہیں کہ اس مہنگائی میں وہ اپنے بچوں کو تعلیم کیسے دلوائیں؟ نوکریاں نہیں ہیں، لوگ بے روزگار ہورہے ہیں۔ کورونا پھر سر اُٹھا رہا ہے۔ صنعتی ترقی اور معاشی ترقی کا کوئی پلان نظر نہیں آرہا۔ حکومت کا اگر ہنی مون ختم ہوگیا ہو تو وہ اپوزیشن کو چھوڑ کر عوامی مسائل پر توجہ دے۔ مہنگائی کو کیسے قابو کرنا ہے، اس پر توجہ دے۔ عمران خان اگر اس ملک کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں تو پھر ان کو حضرت عمرؓ کی طرح عوام میں جاکر ان کے حالات پوچھنا ہوں گے۔ پھر ان کو احساس ہوگا کہ غریب آدمی کیسے زندگی بسر کررہا ہے۔ اگر وہ اپنے وزرا کی رپورٹ پر یقین کریں گے کہ سب اچھا ہے تو پھر واقعی سب اچھا ہی ہوگا ان کے کاغذات میں۔ آپ نے سنا تو ہوگا کہ اکثر بادشاہ کو اس کے وزیر اور مشیر ہی مروا ڈالتے ہیں۔ آپ کے تو سارے مشیر اور وزیر کرائے کے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے خان صاحب! لوگوں نے آپ کو تبدیلی کےلیے ووٹ دیے تھے۔ ان کی زندگی تبدیل کرنا اب آپ کی ذمے داری ہے اپوزیشن کی نہیں۔ اپوزیشن کے ساتھ جو دل کرتا ہے کیجئے، لیکن مہنگائی کے جن کو ضرور قابو کریں۔
خان صاحب! آپ نے ہی کہا تھا میرا دور میرٹ کا دور ہوگا، کرپشن کا خاتمہ ہوگا، کمزور طبقہ اوپر آئے گا، ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی۔ اب آپ ہی جواب دیں ان میں سے کس پر عمل ہوا؟ بلکہ مجھے تو یوں لگ رہا ہے سب کچھ اس کے برعکس ہورہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
میں پرانی باتیں نہیں کرنا چاہتی لیکن جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کا ذکر میں ضرور کروں گی۔ 2008-9 میں جب صوفی امین اور اس کے داماد فضل اللہ نے سوات پرقبضہ کرلیا تھا اور وہ مالاکنڈ کی پہاڑی تک آگئے تھے۔ ہماری یہ افواج جو ہمارا فخر ہیں، ان جوانوں نے اپنا خون دے کر ان سے تمام علاقہ خالی کروایا۔ اس وقت میں نے خود اُس علاقے کا وزٹ کیا لیکن ہم لوگ بٹ خیلہ سے آگے نہیں جاسکے کیونکہ آگے کا علاقہ ابھی پوری طرح آزاد نہیں ہوا تھا۔ پاکستان آرمی کو اس وقت جو نقصان ہوا تھا وہ سب دکھائی دے رہا تھا۔ ہماری آرمی اس وقت بہت سے محاذوں پر لڑ رہی ہے، وہ بلوچستان ہو، انڈیا کا بارڈر ہو یا پھر افغانستان کا باڈر۔ ہماری فوج ہر محاذ پر سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے اور قربانیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو خود فوج کی ضرروت رہتی ہے۔ ہمارے سیاست دان اتنے قابل نہیں کہ وہ ملکی سلامتی کے فیصلے اکیلے کر سکیں۔ امریکا میں بھی فوج سیاست میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ فوج کی مدد کے بغیر خارجہ پالیسی نہیں بن سکتی۔
نواز شریف نے جو آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے چیف کے بارے میں کہا، وہ نہیں کہنا چاہیے تھا۔ کیونکہ جنرل باجوہ کو نواز شریف ہی تو لے کر آئے تھے۔ یہ ان کے اُس وقت خاص آدمی تھے۔ اب ن لیگ میں توڑ جوڑ شروع ہوچکا ہے۔ ن لیگ کا مسقبل کیا ہوگا؟ ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ شہباز فیملی مریم صفدر کی سربراہی قبول نہیں کرے گی اور ان میں اختلافات مزید بڑھتے جائیں گے۔ شہباز شریف نے بڑی عقل مندی سے خود کو پی ڈی ایم سے الگ کیا، کیونکہ اگر کل کو ''ش'' لیگ کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ باآسانی اپنی جماعت بناسکتے ہیں۔ لیکن اگر ن لیگ اپنی جماعت کو بچانا چاہتی ہے تو پھر اس جماعت کا کنٹرول شہباز شریف کو دینا ہوگا اور مریم کو بیک سیٹ پر بیٹھنا ہوگا۔ پھر نواز شریف کا بیانیہ نہیں شہباز شریف کا بیانیہ چلے گا۔
اب بات کرتے ہیں حکومتی سیاست کی۔ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے اس میں دو کام بہت تیزی سے ہورہے ہیں، ایک حکومتی وزرا کو پتہ بھی نہیں ہوتا اور وہ تبدیل ہوجاتے ہیں، ان کے ساتھ بیوروکریسی بھی تبدیلی کا شکار ہے۔ دوسرا مہنگائی۔ حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں کہ وہ مہنگائی کو کس طرح قابو کرے۔ فیاض الحسن کو ہٹا کر فردوس عاشق کو پھر لگا دیا گیا۔ ان پر جو پہلے الزامات تھے کیا وہ درست تھے جس کی بنا پر فردوس صاحبہ کو ہٹایا گیا تھا؟ اگر درست تھے تو سزا کیوں نہیں دی گئی؟ ان کو دوبارہ کس کے کہنے پر دوبارہ عہدہ دیا گیا؟ اگر الزامات غلط تھے تو پھر حکومت کی طرف سے تردید کیوں نہیں آئی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ریاست مدینہ بنانے والوں سے پوچھے جاسکتے ہیں، مگر افسوس ان کا کوئی بھی جواب دینے کو تیار نہیں۔
مہنگائی نے دو سال میں غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ صرف پاور سیکٹر میں دو سال میں گردشی قرضے 1139 ارب کے اضافے کے ساتھ 2300 ارب تک پہنچ گئے ہیں۔ مگر کسی کو غریب کی کو فکر نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ لفظی گولہ باری دونوں اطراف سے جاری ہے۔ وہ غدار، یہ غدار کی آوازیں آرہی ہیں لیکن کوئی بھی عوام کی بات نہیں کررہا کہ بیچارے عوام کی حالت کیا ہوگئی ہے۔ وہ معیشت، روزگار، مہنگائی اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہورہے ہیں۔ مہنگائی کی دلدل میں گرفتار عوام کو ان سیاست دانوں کی سیاست سے کوئی سروکار نہیں۔ عوام اسی سوچ میں ہیں کہ اس مہنگائی میں وہ اپنے بچوں کو تعلیم کیسے دلوائیں؟ نوکریاں نہیں ہیں، لوگ بے روزگار ہورہے ہیں۔ کورونا پھر سر اُٹھا رہا ہے۔ صنعتی ترقی اور معاشی ترقی کا کوئی پلان نظر نہیں آرہا۔ حکومت کا اگر ہنی مون ختم ہوگیا ہو تو وہ اپوزیشن کو چھوڑ کر عوامی مسائل پر توجہ دے۔ مہنگائی کو کیسے قابو کرنا ہے، اس پر توجہ دے۔ عمران خان اگر اس ملک کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں تو پھر ان کو حضرت عمرؓ کی طرح عوام میں جاکر ان کے حالات پوچھنا ہوں گے۔ پھر ان کو احساس ہوگا کہ غریب آدمی کیسے زندگی بسر کررہا ہے۔ اگر وہ اپنے وزرا کی رپورٹ پر یقین کریں گے کہ سب اچھا ہے تو پھر واقعی سب اچھا ہی ہوگا ان کے کاغذات میں۔ آپ نے سنا تو ہوگا کہ اکثر بادشاہ کو اس کے وزیر اور مشیر ہی مروا ڈالتے ہیں۔ آپ کے تو سارے مشیر اور وزیر کرائے کے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے خان صاحب! لوگوں نے آپ کو تبدیلی کےلیے ووٹ دیے تھے۔ ان کی زندگی تبدیل کرنا اب آپ کی ذمے داری ہے اپوزیشن کی نہیں۔ اپوزیشن کے ساتھ جو دل کرتا ہے کیجئے، لیکن مہنگائی کے جن کو ضرور قابو کریں۔
خان صاحب! آپ نے ہی کہا تھا میرا دور میرٹ کا دور ہوگا، کرپشن کا خاتمہ ہوگا، کمزور طبقہ اوپر آئے گا، ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی۔ اب آپ ہی جواب دیں ان میں سے کس پر عمل ہوا؟ بلکہ مجھے تو یوں لگ رہا ہے سب کچھ اس کے برعکس ہورہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔