کابل یونیورسٹی میں طلبہ کا قتل عام

اس المناک کارروائی پر ملک بھر میں یوم سوگ منایا گیا۔


Editorial November 05, 2020
اس المناک کارروائی پر ملک بھر میں یوم سوگ منایا گیا۔ فوٹو : اے ایف پی

افغان دارالحکومت کی کابل یونیورسٹی میں پیر کوہونے والے دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کی اطلاع ہے اور آخری خبریں آنے تک یونیورسٹی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد گزشتہ روز تک 35 ہو گئی تھی۔

افغانستان میں طلبہ کی ہلاکت پر یونیورسٹی میں یوم سوگ منایا گیا۔ افغان صدر اشرف غنی نے حملے کے بعد سرکاری ٹی وی پر مختصر خطاب میں کہا کہ ایسی دہشت گردی کی کارروائیاں افغان عوام کے ارادے کمزور نہیں کر سکتیں۔ اس المناک کارروائی پر ملک بھر میں یوم سوگ منایا گیا۔

افغان صدر نے حملے میں ہلاک ہونے والوں کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔ افغان طلبہ نے یونیورسٹی کے باہر حملے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا اور اس عزم کا اعلان کیا کہ یونیورسٹی میں تعلیم کا سلسلہ جاری رہے گا اور دشمنوں کی مذموم کارروائیوں کا وہ اثر قبول نہیں کیا جائے گا جو ان کا مدعا ہے۔ اس افسوس ناک حملے میں ہلاک ہونے والوں میں طلبہ کے علاوہ 5 اساتذہ اور سیکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔

افغان وزارت داخلہ کے مطابق پیر کی صبح افغانستان کی فوجی وردیوں میں تین حملہ آور کابل یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور وہاں موجود طلبہ اور اساتذہ کو نشانہ بنایا تاہم کئی گھنٹوں پر مشتمل آپریشن میں تینوں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس حملے کی ذمے داری شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ایک علاقائی گروہ نے قبول کی ہے جب کہ طالبان کی طرف سے اس حملے سے لاتعلقی کا اعلان کیا گیا ہے۔

واضح رہے دولت اسلامیہ نے گزشتہ ماہ ایک اور تعلیمی مرکز پر حملہ کیا تھا جس میں 24 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ دہشت گرد صرف تعلیم کے خلاف نہیں بلکہ وہ ہر طرح کے علم کے خلاف ہیں۔

افغانستان کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے امید کی جا رہی تھی کہ طالبان کے علاوہ دوسرے گروہوں کے ساتھ بھی امن کا معاہدہ طے پا جائے گا جس کے بعد ملک میں دہشت گردی اور افراتفری میں لامحالہ کمی آ جائے گی اور افغانستان کا شمار بھی دنیا کے پرامن ممالک میں ہونے لگے گا۔

فرقہ پرست گروہ بھی اس قسم کے حملوں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ داعش کی شدت پسند پالیسی یہ پتہ دیتی ہے کہ پاکستان کو اپنا خطہ ارض محفوظ رکھنے کی خاطر متعدد اقدامات کرنا ہوں گے۔

افغانستان کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہاں دنیا بھر کی ہائی کلاس انٹیلی جنس ایجنسیاں مقامی مختلف گروہوں سے برسرپیکار ہیں اور اس آڑ میں بہانے بہانے سے معصوم انسانی خون بہاتی رہتی ہیں اور اپنی شیطانی سرگرمیوں کا الزام دوسرے پر رکھ دیتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔