بائیڈن کی فتح کیلئے پیش قدمی جاری ٹرمپ کی دھاندلی کی درخواست مسترد
ڈیموکریٹ امیدوار نے پاپولر ووٹ میں حریف کو پیچھے چھوڑ دیا، صدر ٹرمپ کے انتخابی عمل میں بے ضابطگی کے سنگین الزامات
امریکی صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن اپنی فتح سے صرف 6 الیکٹرول ووٹ کی دوری پر ہیں اور اب تمام نگاہیں 4 ریاستوں کے نتائج پر جمی ہیں جب کہ صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنی ٹوئٹس میں انتخابی عمل پر سنگین اعتراضات کیے ہیں۔
اس وقت پینسلوینیا، جارجیا ، نیواڈا اور شمالی کیرولینا میں ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور بائیڈن کو نیواڈا ہی 6 الیکٹورل ووٹ ملک جاتے ہیں تو وہ کامیابی کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل کرلیں گے۔ انتخابات میں ڈالے گئے تقریباً 14 کروڑ ووٹوں کی گنتی مکمل ہوچکی ہے جو خود امریکی تاریخ میں صدارتی انتخاب کے دوران ڈالے گئے ووٹوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا میں ووٹروں کی مجموعی تعداد 24 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ 2016 کے صدارتی انتخاب میں، جس کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بنے تھے، 59.2 فیصد امریکی ووٹروں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا۔ اب تک کی گنتی کے مطابق یہ شرح 60 فیصد کے قریب پہنچ رہی ہے اور بعض سیاسی مبصرین نے یہاں تک پیش گوئی کردی ہے کہ یہ شرح 65 فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
فی الحال 538 الیکٹورل ووٹس میں سے 264 الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن فیصلہ کن فتح کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ امریکا میں صدارتی امیدوار کی حتمی فتح کےلیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ 270 یا زیادہ الیکٹورل ووٹس حاصل کرے۔
دوسری جانب موجودہ امریکی صدر اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ 214 الیکٹورل ووٹس حاصل کرسکے ہیں۔ اب ان کی جیت کا مکمل دار و مدار سوئنگ اسٹیٹس پر ہے۔ البتہ امریکی سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ٹرمپ کو سوئنگ اسٹیٹس سے بھی تمام الیکٹورل ووٹس مل جائیں تب بھی وہ مجموعی طور پر 268 الیکٹورل ووٹ ہی حاصل کرپائیں گے۔
جو بائیڈن اگرچہ اپنی فتح کےلیے بہت پرامید ہیں لیکن انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ جب تک مکمل نتائج نہیں آجاتے، تب تک وہ اپنی فتح کا اعلان بھی نہیں کریں گے۔ جب کہ دوسری جانب صدر ٹرمپ نے مختلف ریاستوں میں انتخابی عمل پر سنگین سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
قبل ازیں ٹرمپ کی انتخابی مہم کے مینیجر نے اعلان کیا تھا کہ وسکونسن میں دھاندلی ہوئی ہے اور ٹرمپ وہاں دوبارہ گنتی کی باضابطہ درخواست دائر کریں گے جبکہ ٹرمپ کمپین ٹیم نے ریاست مشی گین میں ووٹوں کی گنتی رکوانے کےلیے عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔ علاوہ ازیں ٹرمپ کی ٹیم نے پنسلوانیا میں بھی گنتی رکوانے کےلیے عدالت جانے کا اعلان کیا۔ ان میں سے مشیگن میں دوبارہ گنتی کروانے کی درخواست مسترد کردی گئی ہے۔
حالیہ امریکی صدارتی انتخاب میں عوامی جوش و خروش بہت نمایاں ہے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جو بائیڈن وہ پہلے صدارتی امیدوار بن چکے ہیں جنہوں نے 7 کروڑ سے 25 لاکھ سے زیادہ عوامی ووٹ حاصل کیے ہیں۔ لیکن ٹرمپ بھی تقریبان 6 کروڑ 90 لاکھ ووٹ حاصل کرچکے ہیں۔ اس طرح دونوں صدارتی امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد میں صرف ڈھائی فیصد کا فرق ہے۔
دریں اثنا ڈیلاویئر سے سارہ میک برائیڈ نامی ایک ٹرانس جینڈر نے امریکی سینیٹ کی نشست جیت لی، یہ بھی امریکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔
یہی نہیں بلکہ نارتھ ڈکوٹا سے ایک ایسے امیدوار کو فاتح قرار دیا جاچکا ہے جو ایک ماہ پہلے ہی کورونا وائرس کی وجہ سے انتقال کرچکا تھا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں نے وائٹ ہاؤس کے باہر ٹرمپ کے خلاف احتجاج کیا جبکہ مختلف مقامات پر ٹرمپ اور جو بائیڈن کے حامیوں نے علیحدہ علیحدہ مظاہرے بھی کیے۔ اس کے علاوہ کئی شہروں میں سیاہ فام حقوق کے حق میں آواز اٹھانے والے اور ٹرمپ کے حامیوں کے مابین تصادم کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
دوسری جانب ڈیموکریٹک پارٹی کے 5 سیاہ فام مسلمان امیدواروں نے بھی وسکونسن، فلوریڈا اور ڈیلاویئر کے قانون ساز ایوانوں کا انتخاب جیت کر امریکا میں ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ ان میں تین مسلم خواتین بھی شامل ہیں۔
اس وقت پینسلوینیا، جارجیا ، نیواڈا اور شمالی کیرولینا میں ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور بائیڈن کو نیواڈا ہی 6 الیکٹورل ووٹ ملک جاتے ہیں تو وہ کامیابی کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل کرلیں گے۔ انتخابات میں ڈالے گئے تقریباً 14 کروڑ ووٹوں کی گنتی مکمل ہوچکی ہے جو خود امریکی تاریخ میں صدارتی انتخاب کے دوران ڈالے گئے ووٹوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا میں ووٹروں کی مجموعی تعداد 24 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ 2016 کے صدارتی انتخاب میں، جس کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بنے تھے، 59.2 فیصد امریکی ووٹروں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا۔ اب تک کی گنتی کے مطابق یہ شرح 60 فیصد کے قریب پہنچ رہی ہے اور بعض سیاسی مبصرین نے یہاں تک پیش گوئی کردی ہے کہ یہ شرح 65 فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
فی الحال 538 الیکٹورل ووٹس میں سے 264 الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن فیصلہ کن فتح کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ امریکا میں صدارتی امیدوار کی حتمی فتح کےلیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ 270 یا زیادہ الیکٹورل ووٹس حاصل کرے۔
دوسری جانب موجودہ امریکی صدر اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ 214 الیکٹورل ووٹس حاصل کرسکے ہیں۔ اب ان کی جیت کا مکمل دار و مدار سوئنگ اسٹیٹس پر ہے۔ البتہ امریکی سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ٹرمپ کو سوئنگ اسٹیٹس سے بھی تمام الیکٹورل ووٹس مل جائیں تب بھی وہ مجموعی طور پر 268 الیکٹورل ووٹ ہی حاصل کرپائیں گے۔
جو بائیڈن اگرچہ اپنی فتح کےلیے بہت پرامید ہیں لیکن انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ جب تک مکمل نتائج نہیں آجاتے، تب تک وہ اپنی فتح کا اعلان بھی نہیں کریں گے۔ جب کہ دوسری جانب صدر ٹرمپ نے مختلف ریاستوں میں انتخابی عمل پر سنگین سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
قبل ازیں ٹرمپ کی انتخابی مہم کے مینیجر نے اعلان کیا تھا کہ وسکونسن میں دھاندلی ہوئی ہے اور ٹرمپ وہاں دوبارہ گنتی کی باضابطہ درخواست دائر کریں گے جبکہ ٹرمپ کمپین ٹیم نے ریاست مشی گین میں ووٹوں کی گنتی رکوانے کےلیے عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔ علاوہ ازیں ٹرمپ کی ٹیم نے پنسلوانیا میں بھی گنتی رکوانے کےلیے عدالت جانے کا اعلان کیا۔ ان میں سے مشیگن میں دوبارہ گنتی کروانے کی درخواست مسترد کردی گئی ہے۔
حالیہ امریکی صدارتی انتخاب میں عوامی جوش و خروش بہت نمایاں ہے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جو بائیڈن وہ پہلے صدارتی امیدوار بن چکے ہیں جنہوں نے 7 کروڑ سے 25 لاکھ سے زیادہ عوامی ووٹ حاصل کیے ہیں۔ لیکن ٹرمپ بھی تقریبان 6 کروڑ 90 لاکھ ووٹ حاصل کرچکے ہیں۔ اس طرح دونوں صدارتی امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد میں صرف ڈھائی فیصد کا فرق ہے۔
دریں اثنا ڈیلاویئر سے سارہ میک برائیڈ نامی ایک ٹرانس جینڈر نے امریکی سینیٹ کی نشست جیت لی، یہ بھی امریکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔
یہی نہیں بلکہ نارتھ ڈکوٹا سے ایک ایسے امیدوار کو فاتح قرار دیا جاچکا ہے جو ایک ماہ پہلے ہی کورونا وائرس کی وجہ سے انتقال کرچکا تھا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں نے وائٹ ہاؤس کے باہر ٹرمپ کے خلاف احتجاج کیا جبکہ مختلف مقامات پر ٹرمپ اور جو بائیڈن کے حامیوں نے علیحدہ علیحدہ مظاہرے بھی کیے۔ اس کے علاوہ کئی شہروں میں سیاہ فام حقوق کے حق میں آواز اٹھانے والے اور ٹرمپ کے حامیوں کے مابین تصادم کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
دوسری جانب ڈیموکریٹک پارٹی کے 5 سیاہ فام مسلمان امیدواروں نے بھی وسکونسن، فلوریڈا اور ڈیلاویئر کے قانون ساز ایوانوں کا انتخاب جیت کر امریکا میں ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ ان میں تین مسلم خواتین بھی شامل ہیں۔