لوٹ کا مال بچانے کی کوشش
بدقسمتی یہ ہے کہ گولی ایسی کڑوی ہے کہ نہ نگلی جا سکتی ہے نہ اگلی جا سکتی ہے۔
ہماری ملکی تاریخ میں سیاستدان، بیورو کریٹ اور دیگر کرپٹ افراد لوٹے ہوئے مال کو بچانے کی کوششوں میں جیلیں تک بھگتتے آئے ہیں، خواہ میڈیا میں بھی خواری ہو ۔مسئلہ یہ آن پڑتا ہے کہ کرپشن سے انکار کے بعد اب کرپشن کا اقرار بہت مشکل اور بے عزتی کی بات ہوتی ہے۔ برادران یوسف بہت بری پوزیشن میں آ جاتے ہیں اور صورت حال یہ ہو جاتی ہے کہ نہ آگے بڑھنا آسان نہ پیچھے ہٹنا آسان ہوتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ گولی ایسی کڑوی ہے کہ نہ نگلی جا سکتی ہے نہ اگلی جا سکتی ہے۔ جب صورت حال یہ ہو تو کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لوٹ مار کے بعد تو بعض افراد جان بچا کر بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں لیکن انھیں جن بدنامیوں اور تضحیک کا سامنا ہوتا ہے ایک شریف آدمی کے لیے یہ سہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
بعض اوقات یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے کہ سارا خاندان یا تو ملک کے اندر عذاب سہہ رہا ہوتا ہے یا مفروری کی سیاہ پٹی پیشانی پر باندھ کر خوار ہو رہا ہوتا ہے۔ کیا پیسہ یعنی دولت اتنی عزیز ہوتی ہے کہ عزت کا جنازہ نکال دے صورت حال ایسی ہو جاتی ہے کہ نہ خاموش رہا جا سکتا ہے نہ بولا جا سکتا ہے۔ جب بھی میرے سامنے کرپشن کا مسئلہ آتا ہے میں کرپشن کا ارتکاب کرنے والوں کو بے قصور سمجھتا ہوں اور اس کی ساری ذمے داری اسی سرمایہ دارانہ نظام پر ڈال دیتا ہوں جو اچھے اور شریف لوگوں کو بھی دھکیل کر کرپشن کے گندے پانی میں لاتا ہے۔
بے شک سرمایہ دارانہ نظام میں انسان کی پہلی اور آخری خواہش کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت بٹورنا ہوتی ہے لیکن حکومتوں میں رہتے ہوئے اس حیوانی خواہش کو پورا کرنا جتنا آسان ہے اتنا ہی مشکل ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں حالات کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔
آج عمران حکومت برسر اقتدار ہے اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ غالباً پاکستان کی حالیہ تاریخ میں عمران حکومت واحد حکومت ہے جس پر اس کے دو سالہ اقتدار میں اپوزیشن بھی کرپشن کے الزامات نہیں لگا سکی۔ اپوزیشن یعنی مسلم لیگ (ن) البتہ اپوزیشن کی ذمے داری پوری کرتے ہوئے عمران حکومت پر نااہلی جیسے بے سروپا الزام لگا رہی ہے۔
کچھ دن پہلے تک اپوزیشن کے پاس اسپیکرز کی بھرمار تھی اور ہر اسپیکر عمران حکومت پر الزامات کے تیر برساتا رہتا ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے ان تیر اندازوں کو روک دیا گیا ہے یا مصلحتاً چپ کرا دیا گیا ہے اب بے چاری مسلم لیگ ن اکیلی عمران حکومت کا مقابلہ کر رہی ہے۔
اس کی سب سے بڑی مجبوری یہی ہے کہ اس کے پاس عمران حکومت کے خلاف ایسے الزامات نہیں ہیں جو عوام پر اثر کر سکیں۔ لے دے کر عمران حکومت پر نااہلی کے الزامات لگا کر اپنا وقت پورا کر لیتی ہے۔ ہو سکتا ہے (ن) لیگ کے دیگر عہدیدار کسی اور کام میں لگے ہوئے ہوں کہ وہ جلسوں کی رونق نہیں بڑھا پا رہے۔
ایک بات جو واضح طور پر نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ عمران حکومت نے اسپیکرز کی کمی پر قابو پا لیا ہے اب حکومت کے پاس نہ صرف بولنے والوں کی بھرمار ہے بلکہ اچھا بولنے والوں کی بھرمار ہے چند دن پہلے تک ایسا لگتا تھا کہ عمران حکومت اپوزیشن کے تیز و طرار الزامات کے جواب نہیں دے پا رہی لیکن اب عمران حکومت نے اس کمی پر قابو پا لیا ہے اور اس کے اسپیکر مدلل طریقے سے اپوزیشن کے الزامات کا جواب دے رہے ہیں ۔
ابھی (ن) لیگ پوری طرح سنبھل بھی نہیں پائی تھی کہ اس کے کئی صف اول کے عہدیداروں کے خلاف ریفرنسز دائر کر دیے گئے ہیں جن پر ریفرنسز دائر کیے گئے ہیں ان میں احسن اقبال پر نیب ریفرنس، رانا ثنا اللہ کے خلاف تحقیقات کی منظوری، سابق وزیر اعظم پر غیر ملکیوں کی سیکیورٹی کے لیے گاڑیوں کی غیر قانونی خریداری، اعزاز چوہدری اور آفتاب سلطان بھی نامزد ہیں۔
صاف پانی کیس میں عمران علی یوسف پر ضمنی ریفرنس دائر کیا گیا ہے، اسلم لشکری رئیسانی، سابق سیکریٹری داخلہ شاہد خان اور دیگر کے خلاف ریفرنسز داخل کر دیے گئے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ بیرون ملک ملزمان کی گرفتاری کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ چیئرمین نیب اس حوالے سے پرعزم نظر آتے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن قیادت بہت جلدی میں ہے اس نے یہ خیال بھی نہیں کیا کہ ابھی عمران حکومت فعال ہے اور ردعمل دے سکتی ہے۔ سو یہی ہوا کئی (ن) لیگ کے صف اول کے لیڈروں کے خلاف مختلف حوالوں سے ریفرنسز داخل کر دیے گئے۔
چیئرمین نیب نے کہا ہے کہ مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ نیب کے چیئرمین کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اس حوالے سے اب بہت سنجیدہ ہے اس حوالے سے سب سے دلچسپ خبر آئی جی سندھ کا اغوا ہے۔ سندھ حکومت نے آئی جی کی گمشدگی کے حوالے سے ایک پانچ رکنی کمیٹی بنا دی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن جس تیزی کے ساتھ خطرات کو نظرانداز کر کے جارحانہ انداز میں آگے بڑھ رہی تھی اور تیز و تند بیانات دے رہی تھی (ن) لیگ کے خلاف ہونے والی سخت کارروائیاں اس کا ردعمل ہیں۔
یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ اصل اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن عمران حکومت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر اس کے بس میں ہوتا تو آج ہی عمران حکومت کو چلتا کر دیتی۔ لیکن بہرحال اپوزیشن عمران حکومت کی رخصتی کی تاریخیں تو دے رہی ہے اپوزیشن کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے یہ غلط اندازہ لگا لیا کہ عوام اس کے ساتھ ہیں اور اس کی کال پر سڑکوں پر آ جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا اور اپوزیشن کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ گولی ایسی کڑوی ہے کہ نہ نگلی جا سکتی ہے نہ اگلی جا سکتی ہے۔ جب صورت حال یہ ہو تو کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لوٹ مار کے بعد تو بعض افراد جان بچا کر بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں لیکن انھیں جن بدنامیوں اور تضحیک کا سامنا ہوتا ہے ایک شریف آدمی کے لیے یہ سہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
بعض اوقات یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے کہ سارا خاندان یا تو ملک کے اندر عذاب سہہ رہا ہوتا ہے یا مفروری کی سیاہ پٹی پیشانی پر باندھ کر خوار ہو رہا ہوتا ہے۔ کیا پیسہ یعنی دولت اتنی عزیز ہوتی ہے کہ عزت کا جنازہ نکال دے صورت حال ایسی ہو جاتی ہے کہ نہ خاموش رہا جا سکتا ہے نہ بولا جا سکتا ہے۔ جب بھی میرے سامنے کرپشن کا مسئلہ آتا ہے میں کرپشن کا ارتکاب کرنے والوں کو بے قصور سمجھتا ہوں اور اس کی ساری ذمے داری اسی سرمایہ دارانہ نظام پر ڈال دیتا ہوں جو اچھے اور شریف لوگوں کو بھی دھکیل کر کرپشن کے گندے پانی میں لاتا ہے۔
بے شک سرمایہ دارانہ نظام میں انسان کی پہلی اور آخری خواہش کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت بٹورنا ہوتی ہے لیکن حکومتوں میں رہتے ہوئے اس حیوانی خواہش کو پورا کرنا جتنا آسان ہے اتنا ہی مشکل ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں حالات کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔
آج عمران حکومت برسر اقتدار ہے اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ غالباً پاکستان کی حالیہ تاریخ میں عمران حکومت واحد حکومت ہے جس پر اس کے دو سالہ اقتدار میں اپوزیشن بھی کرپشن کے الزامات نہیں لگا سکی۔ اپوزیشن یعنی مسلم لیگ (ن) البتہ اپوزیشن کی ذمے داری پوری کرتے ہوئے عمران حکومت پر نااہلی جیسے بے سروپا الزام لگا رہی ہے۔
کچھ دن پہلے تک اپوزیشن کے پاس اسپیکرز کی بھرمار تھی اور ہر اسپیکر عمران حکومت پر الزامات کے تیر برساتا رہتا ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے ان تیر اندازوں کو روک دیا گیا ہے یا مصلحتاً چپ کرا دیا گیا ہے اب بے چاری مسلم لیگ ن اکیلی عمران حکومت کا مقابلہ کر رہی ہے۔
اس کی سب سے بڑی مجبوری یہی ہے کہ اس کے پاس عمران حکومت کے خلاف ایسے الزامات نہیں ہیں جو عوام پر اثر کر سکیں۔ لے دے کر عمران حکومت پر نااہلی کے الزامات لگا کر اپنا وقت پورا کر لیتی ہے۔ ہو سکتا ہے (ن) لیگ کے دیگر عہدیدار کسی اور کام میں لگے ہوئے ہوں کہ وہ جلسوں کی رونق نہیں بڑھا پا رہے۔
ایک بات جو واضح طور پر نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ عمران حکومت نے اسپیکرز کی کمی پر قابو پا لیا ہے اب حکومت کے پاس نہ صرف بولنے والوں کی بھرمار ہے بلکہ اچھا بولنے والوں کی بھرمار ہے چند دن پہلے تک ایسا لگتا تھا کہ عمران حکومت اپوزیشن کے تیز و طرار الزامات کے جواب نہیں دے پا رہی لیکن اب عمران حکومت نے اس کمی پر قابو پا لیا ہے اور اس کے اسپیکر مدلل طریقے سے اپوزیشن کے الزامات کا جواب دے رہے ہیں ۔
ابھی (ن) لیگ پوری طرح سنبھل بھی نہیں پائی تھی کہ اس کے کئی صف اول کے عہدیداروں کے خلاف ریفرنسز دائر کر دیے گئے ہیں جن پر ریفرنسز دائر کیے گئے ہیں ان میں احسن اقبال پر نیب ریفرنس، رانا ثنا اللہ کے خلاف تحقیقات کی منظوری، سابق وزیر اعظم پر غیر ملکیوں کی سیکیورٹی کے لیے گاڑیوں کی غیر قانونی خریداری، اعزاز چوہدری اور آفتاب سلطان بھی نامزد ہیں۔
صاف پانی کیس میں عمران علی یوسف پر ضمنی ریفرنس دائر کیا گیا ہے، اسلم لشکری رئیسانی، سابق سیکریٹری داخلہ شاہد خان اور دیگر کے خلاف ریفرنسز داخل کر دیے گئے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ بیرون ملک ملزمان کی گرفتاری کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ چیئرمین نیب اس حوالے سے پرعزم نظر آتے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن قیادت بہت جلدی میں ہے اس نے یہ خیال بھی نہیں کیا کہ ابھی عمران حکومت فعال ہے اور ردعمل دے سکتی ہے۔ سو یہی ہوا کئی (ن) لیگ کے صف اول کے لیڈروں کے خلاف مختلف حوالوں سے ریفرنسز داخل کر دیے گئے۔
چیئرمین نیب نے کہا ہے کہ مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ نیب کے چیئرمین کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اس حوالے سے اب بہت سنجیدہ ہے اس حوالے سے سب سے دلچسپ خبر آئی جی سندھ کا اغوا ہے۔ سندھ حکومت نے آئی جی کی گمشدگی کے حوالے سے ایک پانچ رکنی کمیٹی بنا دی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن جس تیزی کے ساتھ خطرات کو نظرانداز کر کے جارحانہ انداز میں آگے بڑھ رہی تھی اور تیز و تند بیانات دے رہی تھی (ن) لیگ کے خلاف ہونے والی سخت کارروائیاں اس کا ردعمل ہیں۔
یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ اصل اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن عمران حکومت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر اس کے بس میں ہوتا تو آج ہی عمران حکومت کو چلتا کر دیتی۔ لیکن بہرحال اپوزیشن عمران حکومت کی رخصتی کی تاریخیں تو دے رہی ہے اپوزیشن کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے یہ غلط اندازہ لگا لیا کہ عوام اس کے ساتھ ہیں اور اس کی کال پر سڑکوں پر آ جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا اور اپوزیشن کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔