وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
چند ایسی نرسوں کا تذکرہ جنھوں نے کورونا کے شدید خطرناک ماحول
بات مہربانی کی ہو، جذبے کی، دوسروں کی دیکھ بھال اور انسانیت کی خدمت کی، تو ان تمام امور کے حوالے سے نرسیں سر فہرست ہیں۔ وہ طویل اوقات کار میں اپنی خدمات سر انجام دیتی ہیں اور بہت سے بظاہر معمولی نظر آنے والے امور کی انجام دہی میں مصروف رہتی ہیں تاکہ مریض اور اس کے اہل خانہ مطمئن اور سکون سے رہ سکیں۔
اسکولوں میں کھیل کے دوران چھوٹے بچوں کو چوٹ لگنے کی صورت میں ابتدائی طبی امداد کے بعد واپس کھیل کے میدان میں بھیجنے کی خدمت پر مامور ہوں یا ہسپتالوں میں بہت سخت ڈیوٹی دینے والی نرسیں ہوں، ہر روز کئی مریضوں کی صحت اور زندگی بچانے میں معاونت کرنے والی ہوں، ان کے قابلِ قدر کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
کورونا وائرس سے پھیلنے والے بحران کے دوران بھی نرسوں نے آگے بڑھ کر، صف اول میں خدمات سر انجام دی ہیں اور اس مرض کے خلاف انسانیت کا ساتھ دیا ہے اور دے رہی ہیں۔ ان میں سے بہت سی ایسی ہیں جو اپنے مقررہ اوقات کار سے بھی زیادہ وقت ہسپتالوں میں گزارتی ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ مریضوں کے کام آ سکیں۔
طبی عملے کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہم کچھ نرسز کے قابلِ تعریف کارنامے بیان کر رہے ہیں جو خدمت، انسانیت اور ایثار کی شاندار مثالیں پیش کرتے ہیں اور انسانوں کے لیے نمونہ تقلید فراہم کرتے ہیں۔
کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے سکول بند ہوئے تو ایک مقامی ہائی اسکول میں خدمات سرانجام دینے والی امبر کو دوسروں کے کام آنے کے نئے طریقے سوچنے پر مجبور کر گئے۔ اگرچہ وہ سکول میں فاصلاتی نظام تعلیم کی تیاری کے حوالے سے آنے والے اساتذہ اور ان کے بچوں کے درجہ حرارت چیک کرنے کی ذمہ داری پوری کر رہی تھی، اس کے ساتھ ساتھ وہ اسکول بند ہونے پر گھر میں مقید ہو کر رہ جانے والے اپنے چار بچوں کی نگہداشت کا فریضہ بھی سر انجام دے رہی تھی، اس کے باوجود اسے کچھ ایسا کرنے کی خواہش تھی جس سے اس بحران میں وہ دوسروں کی مدد کر سکے۔
مقامی ٹی وی کے ذریعے جب اسے علم ہوا کہ شہر میں چہرہ ڈھانپنے والے ماسک نہیں مل رہے تو اس نے فوراً گھر میں دستیاب کپڑے سے چند سو ماسک تیار کیے اور اپنے گھر کے باہر ایک سٹینڈ پر آویزاں کر دئیے تا کہ جسے ضرورت ہو وہ بہ آسانی حاصل کر لے۔
دو دن میں ہی جب وہ چند سو ماسک ختم ہو گئے اور لوگ پھر بھی آتے رہے تو اس نے ایک مقامی تنظیم سے کپڑے کی فراہمی کے لئے رابطہ کیا اور ایک ہمسائی کو بھی اس کارخیر میں ساتھ شامل کیا اور دونوں نے چار ہزار ماسک تیار کر کے مقامی آگ پر قابو پانے کی خدمت پر مامور عملے اور علاقے میں مختلف امدادی کاموں میں مصروف لوگوں کو فراہم کیے، جنہیں اپنے فرائض کی بجا آوری کے لیے روزانہ گھر سے باہر نکلنا پڑ رہا تھا۔ امبر کے مطابق اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کا سلائی جاننے کا ہنر اس مشکل ترین وقت میں معاشرے کے لیے اس قدر فائدہ مند ہو گا۔
شمالی کیرولینا سے تعلق رکھنے والی وینڈی کو جب تیسرے درجے کے چھاتی کے سرطان کے مرض کی تشخیص ہوئی تو وہ اپنی والدہ اور سوتیلے والد کی ہمراہی میں ہسپتال علاج کے لیے آنے لگی۔ جب وہ پہلی بار کیمو تھراپی کے لیے ہسپتال آئی تو پریشان، خوفزدہ اور جذباتی طور پر گھبراہٹ کا شکار تھی، لیکن والدین کے ساتھ ہونے کی وجہ سے بظاہر خود کو سنبھال رہی تھی۔
جب وائرس کا پھیلاؤ زیادہ ہوا تو ہسپتال انتظامیہ نے اس کے ہر ہفتے ہونے والے کیمو تھراپی کے سیشن میں اہلِ خانہ کو ساتھ لانے پر پابندی عائد کر دی۔ وینڈی اس صورت حال میں بہت ڈری ہوئی تھی، اس کے خوف کو دیکھتے ہوئے دو نرسوں نے ازخود اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لی اور گھر والوں کی طرح اس کا ساتھ دیا، اس کی حفاظت کی اور علاج کے سارے عمل میں اس کا بھرپور خیال رکھا۔ کیمو تھراپی کے عمل کے بعد جب وہ گھر سے نکلنے یا کھانا بنانے سے بھی قاصر ہوتی تھی، تو ہسپتال کی ایک رضاکار نرس ہر ہفتے اس کے گھر پر کھانا پکا کر بھی پہنچاتی تھی۔
وینڈی اپنی تکلیف دہ بیماری اور وائرس کے پھیلاؤ کے ان مشکل ایام میں اس قدر ساتھ دینے اور ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کو تیار رہنے والی ان دو نرسز کو اپنا رہنما اور نمونہ تقلید مانتی ہے اور ان کی طرح لوگوں کی بے لوث خدمت کرنا چاہتی ہے۔
کورونا وائرس کے بحران کا آغاز ہوا تو امریکی ریاست ورجینیا کے ایک سرجری کے حوالے سے خدمات انجام دینے والے ہسپتال نے آپریشن منسوخ کر کے اپنی خدمات محدود کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ہسپتال میں آپریشن سے قبل مریض کو بے ہوش کرنے اور آپریشن کی تیاری کے عمل میں معاونت کرنے والی ایک نرس نے، نیویارک شہر جہاں وائرس کا زور بہت زیادہ تھا، کے کسی ہسپتال میں خدمات مہیا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے نرسوں کو بھرتی کرنے والے ایک ادارے سے رابطہ کیا اورنیویارک یونیورسٹی کے زیرِ انتظام چلنے والے ایک ہسپتال کے ساتھ معاہدہ طے کر لیا۔ اپنے لیے کسی روایتی گھر اور ذریعہ سفر کا انتظام کرنے کی بجائے اس نے اپنے شوہر کے ہمراہ اپنی بادبانی کشتی کے ذریعے سفر اور اسی میں رہائش رکھنے کا فیصلہ کیا۔
پینتیس گھنٹے کا سفر اپنی بادبانی کشتی کے ذریعے کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انہوں نے دیگر ساتھی نرسوں کو بھی اپنے ساتھ سفر اور رہائش کی پیشکش کی۔ ہسپتال میں ڈیوٹی کے پہلے دن ہی اسے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ذمہ داری تفویض کی گئی۔ مریضوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ہسپتال بیمار اور وائرس سے مرتے لوگوں سے بھرا ہوا تھا، اس نے اپنے مقررہ اوقات سے کہیں زیادہ وقت ہسپتال میں گزارا اور اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے کئی زندگیوں کو بچانے میں مددگار ثابت ہوئی۔
اسی احساس ذمہ داری کا مظاہرہ واشنگٹن کے ایک ہسپتال میں کام کرنے والی سیکو نے کیا، جب کورونا وائرس امریکہ کے مختلف علاقوں میں پھیلا تو سیکو کے علاقے اور ہسپتال میں چند کیسز کے بعد سکون ہو گیا۔ سیکو نے ، جو چیلنج لینا پسند کرتی ہے اور وائرس کے خلاف ہونے والی لڑائی میں بڑے پیمانے میں اپنا حصہ ڈالنے کی خواہش مند تھی، رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات نیویارک شہر کے ایک ایسے ہسپتال کو پیش کیں جہاں وائرس کا پھیلاؤ بہت زیادہ تھا۔ کوہ پیمائی کرنے اور کرہ ہوائی میں تیرنے کے مشاغل کی شوقین سیکو چھ ہفتوں سے اپنی مہارت کا استعمال، صف اول میں اس وائرس کے خلاف لڑ کر اور لوگوں کی جان بچا کر رہی ہے۔
میسا چوسیٹس کے ایک کینسر کے علاج کرنے والے ہسپتال میں خدمات سرانجام دینے والی ایک نرس کیرن موٹ نے ایک خاتون مریض کے ساتھ دوستانہ تعلق بنانے اور اس کے حالات جاننے کی بہت کوشش کی، لیکن خاتون بات چیت سے اجتناب کی قائل تھی، سوائے اپنے نو سالہ بیٹے اسٹیفن کے وہ اور کسی موضوع پر بات کرنا پسند نہیں کرتی تھی۔
جب اس کا مرض شدت اختیار کر گیا اور بچاؤ کی کوئی امید نہ رہی اور اسے مرگ ہسپتال ( وہ ہسپتال جہاں زندگی سے مایوس ہونے والے مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے)، تب نرس کیرن موٹ کو اس کے نو سالہ بیٹے کی فکر ہوئی کہ وہ کس کے پاس رہے گا؟ اس کا باپ ایک حادثے کے بعد ذہنی توازن کھو کر ذہنی امراض کے ایک ادارے میں مقیم تھا اور اس کی ماں کے پانچویں بہن بھائیوں میں سے کوئی بھی اسٹیفن کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا اور اس کی ماں اسے یتیم خانے بھیجنے سے خوفزدہ تھی۔ اس کے خدشات سن کر نرس کیرن موٹ اور اس کے شوہر نے اسٹیفن کو گود لے لیا اور اپنے تین بچوں کے ساتھ چوتھا بیٹا بنا کر اپنے گھر لے آئے۔
نیویارک میں جنوری میں آنے والے ایک برفانی طوفان نے شہریوں کو گھروں میں محصور کر دیا لیکن ایک بہادر خاتون کسی چیز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دو میل پیدل چل کر اپنے ہسپتال پہنچی۔ وہ اس دن ہسپتال پہنچنے والی واحد نرس تھیں۔ انہیں اور ان کے دیگر ساتھیوں کو اس دن دوگنا وقت اپنی خدمات پیش کرنا پڑیں، تاکہ نہ آ سکنے والے عملے کی کمی پوری کی جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی ملازمت انہیں انسانیت اور عاجزی سکھاتی ہے اور انہیں احساس دلاتی ہے کہ کل کو آپ بھی مریض ہو سکتے ہیں اور کسی ایسے مرحلے پر انہیں بھی دوسروں پر انحصار کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بطور انسان ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت رہتی ہے، اس لیے وہ اپنے مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج ایسے کرتی ہیں، جیسے کوئی محبت کرنے والا فرد اپنے گھر والوں کی فکر کرتا ہے۔
بیٹی ہیوگز جو ایک بزرگ خاتون تھی اور نسیان کے مرض میں مبتلا تھی، سیڑھیوں سے گرگئی، اس کے جسم کی مختلف ہڈیاں ٹوٹنے پر اسے ہسپتال داخل کیا گیا۔ ایک ماہ بعد اس کے اڑسٹھ سالہ شوہر کو بھی دل کا دورہ پڑنے پر ہسپتال منتقل کیا گیا۔ دونوں میاں بیوی مختلف یونٹس میں زیرِ علاج تھے جیسے ہی نرسوں کو ان دونوں میاں بیوی کے بارے میں علم ہوا، انہوں نے ایک کمرے کا انتظام کر کے دونوں میاں بیوی کو ایک ہی کمرے میں منتقل کر دیا تا کہ وہ یہ تکلیف دہ ایام اکٹھے گزار سکیں۔ دونوں میاں بیوی ایک دن کے وقفے سے اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے، لیکن ہسپتال کے مہربان عملے کی بدولت زندگی کے آخری ایام بھی ایک دوسرے کی معیت میں گزار کر دنیا سے گئے۔
ماہر سرطان کے طور پر خدمات سر انجام دینے والی ہولی کرسٹیین جانتی ہے کہ چھوٹے بچوں کو سرطان کے علاج کے بعد بالوں سے محروم ہونے کی صورت میں، روایتی وگ پہننے پر آمادہ کرنا کتنا مشکل امر ہوتا ہے۔ بچے نہ تو بالوں کی محرومی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور نہ ہی مصنوعی بالوں کی وگ لگانے کو مانتے ہیں۔ جب ہولی کی قریبی دوست کی تین سالہ بیٹی کو کینسر کی تشخیص ہوئی اور کیمو تھراپی کے بعد اس کے بال جھڑ گئے تو کرسٹیین نے خود اس کے لیے وگ تیار کی، اس نے بچیوں کے ایک پسندیدہ کردار کے بالوں والی وگ تیار کی، جس پر پھولوں کا نہایت خوبصورت تاج بھی بنا ہوا تھا۔
بچی کی اس وگ کے لیے پسندیدگی دیکھ کر کرسٹیین نے کینسر کے مریض بچوں کے لیے مزید وگیں تیار کرنے کا ارادہ کیا۔ ایک فلاحی تنظیم کے تعاون سے کرسٹیین اور اس کی دوستوں نے بچوں کے کارٹونز کے پسندیدہ کرداروں کے بالوں والی انیس سو سے زائد وگیں تیار کر کے بغیر کسی قیمت پر مختلف ہسپتالوں میں زیرِ علاج بچوں کو فراہم کیں اور انہیں بالوں سے محرومی کے دکھ کو کم کرنے میں مدد دی۔
یہ تمام کہانیاں انسانیت کے خوبصورت چہرے کے خدوخال کو ظاہر کرتی ہیں۔ اگر انسان دردِ دل رکھتا ہو، اسے احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک دوسرے کی مدد کے لئے پیدا کیا ہے، لوگوں کے کام آنا ہی حقیقی مقصد حیات ہے، یہی انسانیت کی معراج اور اس کا حسن ہے۔ اگر ہم دوسروں کے کام آنے کو زندگی کا مقصد سمجھ لیں تو دنیا ایک نہایت پرسکون اور خوبصورت جگہ بن جائے۔
دوسروں کی مدد کرنا، سہولت پہنچانا اور ان کی آسانی کے لیے اپنا آرام تج دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ طب کے شعبہ سے وابستہ تمام لوگ قابلِ قدر ہیں جو اپنا آپ دکھی انسانیت کی مدد کے لئے وقف کئے ہوئے ہیں اور اپنی زندگی کی تمام راحتیں دوسروں کی صحت و سکون کے لیے قربان کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کے طرزِ عمل سے سیکھنے کی بھی ضرورت ہے اور ان کی قدردانی کرنے کی بھی، تا کہ معاشرہ ان بے لوث اور قربانی سے سرشار لوگوں کے وجود سے فیض یاب ہوتا رہے۔
اسکولوں میں کھیل کے دوران چھوٹے بچوں کو چوٹ لگنے کی صورت میں ابتدائی طبی امداد کے بعد واپس کھیل کے میدان میں بھیجنے کی خدمت پر مامور ہوں یا ہسپتالوں میں بہت سخت ڈیوٹی دینے والی نرسیں ہوں، ہر روز کئی مریضوں کی صحت اور زندگی بچانے میں معاونت کرنے والی ہوں، ان کے قابلِ قدر کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
کورونا وائرس سے پھیلنے والے بحران کے دوران بھی نرسوں نے آگے بڑھ کر، صف اول میں خدمات سر انجام دی ہیں اور اس مرض کے خلاف انسانیت کا ساتھ دیا ہے اور دے رہی ہیں۔ ان میں سے بہت سی ایسی ہیں جو اپنے مقررہ اوقات کار سے بھی زیادہ وقت ہسپتالوں میں گزارتی ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ مریضوں کے کام آ سکیں۔
طبی عملے کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہم کچھ نرسز کے قابلِ تعریف کارنامے بیان کر رہے ہیں جو خدمت، انسانیت اور ایثار کی شاندار مثالیں پیش کرتے ہیں اور انسانوں کے لیے نمونہ تقلید فراہم کرتے ہیں۔
کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے سکول بند ہوئے تو ایک مقامی ہائی اسکول میں خدمات سرانجام دینے والی امبر کو دوسروں کے کام آنے کے نئے طریقے سوچنے پر مجبور کر گئے۔ اگرچہ وہ سکول میں فاصلاتی نظام تعلیم کی تیاری کے حوالے سے آنے والے اساتذہ اور ان کے بچوں کے درجہ حرارت چیک کرنے کی ذمہ داری پوری کر رہی تھی، اس کے ساتھ ساتھ وہ اسکول بند ہونے پر گھر میں مقید ہو کر رہ جانے والے اپنے چار بچوں کی نگہداشت کا فریضہ بھی سر انجام دے رہی تھی، اس کے باوجود اسے کچھ ایسا کرنے کی خواہش تھی جس سے اس بحران میں وہ دوسروں کی مدد کر سکے۔
مقامی ٹی وی کے ذریعے جب اسے علم ہوا کہ شہر میں چہرہ ڈھانپنے والے ماسک نہیں مل رہے تو اس نے فوراً گھر میں دستیاب کپڑے سے چند سو ماسک تیار کیے اور اپنے گھر کے باہر ایک سٹینڈ پر آویزاں کر دئیے تا کہ جسے ضرورت ہو وہ بہ آسانی حاصل کر لے۔
دو دن میں ہی جب وہ چند سو ماسک ختم ہو گئے اور لوگ پھر بھی آتے رہے تو اس نے ایک مقامی تنظیم سے کپڑے کی فراہمی کے لئے رابطہ کیا اور ایک ہمسائی کو بھی اس کارخیر میں ساتھ شامل کیا اور دونوں نے چار ہزار ماسک تیار کر کے مقامی آگ پر قابو پانے کی خدمت پر مامور عملے اور علاقے میں مختلف امدادی کاموں میں مصروف لوگوں کو فراہم کیے، جنہیں اپنے فرائض کی بجا آوری کے لیے روزانہ گھر سے باہر نکلنا پڑ رہا تھا۔ امبر کے مطابق اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کا سلائی جاننے کا ہنر اس مشکل ترین وقت میں معاشرے کے لیے اس قدر فائدہ مند ہو گا۔
شمالی کیرولینا سے تعلق رکھنے والی وینڈی کو جب تیسرے درجے کے چھاتی کے سرطان کے مرض کی تشخیص ہوئی تو وہ اپنی والدہ اور سوتیلے والد کی ہمراہی میں ہسپتال علاج کے لیے آنے لگی۔ جب وہ پہلی بار کیمو تھراپی کے لیے ہسپتال آئی تو پریشان، خوفزدہ اور جذباتی طور پر گھبراہٹ کا شکار تھی، لیکن والدین کے ساتھ ہونے کی وجہ سے بظاہر خود کو سنبھال رہی تھی۔
جب وائرس کا پھیلاؤ زیادہ ہوا تو ہسپتال انتظامیہ نے اس کے ہر ہفتے ہونے والے کیمو تھراپی کے سیشن میں اہلِ خانہ کو ساتھ لانے پر پابندی عائد کر دی۔ وینڈی اس صورت حال میں بہت ڈری ہوئی تھی، اس کے خوف کو دیکھتے ہوئے دو نرسوں نے ازخود اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لی اور گھر والوں کی طرح اس کا ساتھ دیا، اس کی حفاظت کی اور علاج کے سارے عمل میں اس کا بھرپور خیال رکھا۔ کیمو تھراپی کے عمل کے بعد جب وہ گھر سے نکلنے یا کھانا بنانے سے بھی قاصر ہوتی تھی، تو ہسپتال کی ایک رضاکار نرس ہر ہفتے اس کے گھر پر کھانا پکا کر بھی پہنچاتی تھی۔
وینڈی اپنی تکلیف دہ بیماری اور وائرس کے پھیلاؤ کے ان مشکل ایام میں اس قدر ساتھ دینے اور ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کو تیار رہنے والی ان دو نرسز کو اپنا رہنما اور نمونہ تقلید مانتی ہے اور ان کی طرح لوگوں کی بے لوث خدمت کرنا چاہتی ہے۔
کورونا وائرس کے بحران کا آغاز ہوا تو امریکی ریاست ورجینیا کے ایک سرجری کے حوالے سے خدمات انجام دینے والے ہسپتال نے آپریشن منسوخ کر کے اپنی خدمات محدود کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ہسپتال میں آپریشن سے قبل مریض کو بے ہوش کرنے اور آپریشن کی تیاری کے عمل میں معاونت کرنے والی ایک نرس نے، نیویارک شہر جہاں وائرس کا زور بہت زیادہ تھا، کے کسی ہسپتال میں خدمات مہیا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے نرسوں کو بھرتی کرنے والے ایک ادارے سے رابطہ کیا اورنیویارک یونیورسٹی کے زیرِ انتظام چلنے والے ایک ہسپتال کے ساتھ معاہدہ طے کر لیا۔ اپنے لیے کسی روایتی گھر اور ذریعہ سفر کا انتظام کرنے کی بجائے اس نے اپنے شوہر کے ہمراہ اپنی بادبانی کشتی کے ذریعے سفر اور اسی میں رہائش رکھنے کا فیصلہ کیا۔
پینتیس گھنٹے کا سفر اپنی بادبانی کشتی کے ذریعے کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انہوں نے دیگر ساتھی نرسوں کو بھی اپنے ساتھ سفر اور رہائش کی پیشکش کی۔ ہسپتال میں ڈیوٹی کے پہلے دن ہی اسے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ذمہ داری تفویض کی گئی۔ مریضوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ہسپتال بیمار اور وائرس سے مرتے لوگوں سے بھرا ہوا تھا، اس نے اپنے مقررہ اوقات سے کہیں زیادہ وقت ہسپتال میں گزارا اور اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے کئی زندگیوں کو بچانے میں مددگار ثابت ہوئی۔
اسی احساس ذمہ داری کا مظاہرہ واشنگٹن کے ایک ہسپتال میں کام کرنے والی سیکو نے کیا، جب کورونا وائرس امریکہ کے مختلف علاقوں میں پھیلا تو سیکو کے علاقے اور ہسپتال میں چند کیسز کے بعد سکون ہو گیا۔ سیکو نے ، جو چیلنج لینا پسند کرتی ہے اور وائرس کے خلاف ہونے والی لڑائی میں بڑے پیمانے میں اپنا حصہ ڈالنے کی خواہش مند تھی، رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات نیویارک شہر کے ایک ایسے ہسپتال کو پیش کیں جہاں وائرس کا پھیلاؤ بہت زیادہ تھا۔ کوہ پیمائی کرنے اور کرہ ہوائی میں تیرنے کے مشاغل کی شوقین سیکو چھ ہفتوں سے اپنی مہارت کا استعمال، صف اول میں اس وائرس کے خلاف لڑ کر اور لوگوں کی جان بچا کر رہی ہے۔
میسا چوسیٹس کے ایک کینسر کے علاج کرنے والے ہسپتال میں خدمات سرانجام دینے والی ایک نرس کیرن موٹ نے ایک خاتون مریض کے ساتھ دوستانہ تعلق بنانے اور اس کے حالات جاننے کی بہت کوشش کی، لیکن خاتون بات چیت سے اجتناب کی قائل تھی، سوائے اپنے نو سالہ بیٹے اسٹیفن کے وہ اور کسی موضوع پر بات کرنا پسند نہیں کرتی تھی۔
جب اس کا مرض شدت اختیار کر گیا اور بچاؤ کی کوئی امید نہ رہی اور اسے مرگ ہسپتال ( وہ ہسپتال جہاں زندگی سے مایوس ہونے والے مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے)، تب نرس کیرن موٹ کو اس کے نو سالہ بیٹے کی فکر ہوئی کہ وہ کس کے پاس رہے گا؟ اس کا باپ ایک حادثے کے بعد ذہنی توازن کھو کر ذہنی امراض کے ایک ادارے میں مقیم تھا اور اس کی ماں کے پانچویں بہن بھائیوں میں سے کوئی بھی اسٹیفن کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا اور اس کی ماں اسے یتیم خانے بھیجنے سے خوفزدہ تھی۔ اس کے خدشات سن کر نرس کیرن موٹ اور اس کے شوہر نے اسٹیفن کو گود لے لیا اور اپنے تین بچوں کے ساتھ چوتھا بیٹا بنا کر اپنے گھر لے آئے۔
نیویارک میں جنوری میں آنے والے ایک برفانی طوفان نے شہریوں کو گھروں میں محصور کر دیا لیکن ایک بہادر خاتون کسی چیز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دو میل پیدل چل کر اپنے ہسپتال پہنچی۔ وہ اس دن ہسپتال پہنچنے والی واحد نرس تھیں۔ انہیں اور ان کے دیگر ساتھیوں کو اس دن دوگنا وقت اپنی خدمات پیش کرنا پڑیں، تاکہ نہ آ سکنے والے عملے کی کمی پوری کی جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی ملازمت انہیں انسانیت اور عاجزی سکھاتی ہے اور انہیں احساس دلاتی ہے کہ کل کو آپ بھی مریض ہو سکتے ہیں اور کسی ایسے مرحلے پر انہیں بھی دوسروں پر انحصار کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بطور انسان ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت رہتی ہے، اس لیے وہ اپنے مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج ایسے کرتی ہیں، جیسے کوئی محبت کرنے والا فرد اپنے گھر والوں کی فکر کرتا ہے۔
بیٹی ہیوگز جو ایک بزرگ خاتون تھی اور نسیان کے مرض میں مبتلا تھی، سیڑھیوں سے گرگئی، اس کے جسم کی مختلف ہڈیاں ٹوٹنے پر اسے ہسپتال داخل کیا گیا۔ ایک ماہ بعد اس کے اڑسٹھ سالہ شوہر کو بھی دل کا دورہ پڑنے پر ہسپتال منتقل کیا گیا۔ دونوں میاں بیوی مختلف یونٹس میں زیرِ علاج تھے جیسے ہی نرسوں کو ان دونوں میاں بیوی کے بارے میں علم ہوا، انہوں نے ایک کمرے کا انتظام کر کے دونوں میاں بیوی کو ایک ہی کمرے میں منتقل کر دیا تا کہ وہ یہ تکلیف دہ ایام اکٹھے گزار سکیں۔ دونوں میاں بیوی ایک دن کے وقفے سے اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے، لیکن ہسپتال کے مہربان عملے کی بدولت زندگی کے آخری ایام بھی ایک دوسرے کی معیت میں گزار کر دنیا سے گئے۔
ماہر سرطان کے طور پر خدمات سر انجام دینے والی ہولی کرسٹیین جانتی ہے کہ چھوٹے بچوں کو سرطان کے علاج کے بعد بالوں سے محروم ہونے کی صورت میں، روایتی وگ پہننے پر آمادہ کرنا کتنا مشکل امر ہوتا ہے۔ بچے نہ تو بالوں کی محرومی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور نہ ہی مصنوعی بالوں کی وگ لگانے کو مانتے ہیں۔ جب ہولی کی قریبی دوست کی تین سالہ بیٹی کو کینسر کی تشخیص ہوئی اور کیمو تھراپی کے بعد اس کے بال جھڑ گئے تو کرسٹیین نے خود اس کے لیے وگ تیار کی، اس نے بچیوں کے ایک پسندیدہ کردار کے بالوں والی وگ تیار کی، جس پر پھولوں کا نہایت خوبصورت تاج بھی بنا ہوا تھا۔
بچی کی اس وگ کے لیے پسندیدگی دیکھ کر کرسٹیین نے کینسر کے مریض بچوں کے لیے مزید وگیں تیار کرنے کا ارادہ کیا۔ ایک فلاحی تنظیم کے تعاون سے کرسٹیین اور اس کی دوستوں نے بچوں کے کارٹونز کے پسندیدہ کرداروں کے بالوں والی انیس سو سے زائد وگیں تیار کر کے بغیر کسی قیمت پر مختلف ہسپتالوں میں زیرِ علاج بچوں کو فراہم کیں اور انہیں بالوں سے محرومی کے دکھ کو کم کرنے میں مدد دی۔
یہ تمام کہانیاں انسانیت کے خوبصورت چہرے کے خدوخال کو ظاہر کرتی ہیں۔ اگر انسان دردِ دل رکھتا ہو، اسے احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک دوسرے کی مدد کے لئے پیدا کیا ہے، لوگوں کے کام آنا ہی حقیقی مقصد حیات ہے، یہی انسانیت کی معراج اور اس کا حسن ہے۔ اگر ہم دوسروں کے کام آنے کو زندگی کا مقصد سمجھ لیں تو دنیا ایک نہایت پرسکون اور خوبصورت جگہ بن جائے۔
دوسروں کی مدد کرنا، سہولت پہنچانا اور ان کی آسانی کے لیے اپنا آرام تج دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ طب کے شعبہ سے وابستہ تمام لوگ قابلِ قدر ہیں جو اپنا آپ دکھی انسانیت کی مدد کے لئے وقف کئے ہوئے ہیں اور اپنی زندگی کی تمام راحتیں دوسروں کی صحت و سکون کے لیے قربان کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کے طرزِ عمل سے سیکھنے کی بھی ضرورت ہے اور ان کی قدردانی کرنے کی بھی، تا کہ معاشرہ ان بے لوث اور قربانی سے سرشار لوگوں کے وجود سے فیض یاب ہوتا رہے۔