سر راجر جارج مور
ایکسٹرا سے ہالی وڈ سپرسٹار بننے کی داستان
شوبز وہ اندھیر نگری ہے، جہاں بسنے والوں کو روشنی کے لئے اپنے اندر کے دیے جلانے پڑتے ہیں، یہ دیے کبھی جلتے ہی بجھ جاتے ہیں تو کبھی ان کی روشنی پورے عالم میں پھیل جاتی ہے، لیکن اس طویل سفر میں جن کٹھن مراحل سے وہ گزرتے ہیں۔
یہ ان کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اپنے جذبے کی تسکین اور خوابوں کی تعبیر کے لئے وہ کبھی ویٹر بنتے ہیں تو کبھی شوبز کی دنیا کے ایکسٹرا۔ کسی سفارش اور پیسے کے بغیر صرف اپنی صلاحیتوں پر انحصار کرنے والے یہ ستارے شوبز کے فلک پر ایسے چمکتے ہیں کہ ان کی روشنی کو دوام حاصل ہو جاتا ہے۔
محرومیوں اور مجبوریوں میں پنپنے والے یہ لوگ پھر دوسروں کے لئے رول ماڈل بن جاتے ہیں، ان کے بولنے، چلنے اور کپڑے پہننے کے سٹائل کو اپنانا عام لوگوں کے لئے فخر کا باعث بن جاتا ہے۔ ایسے ہی ستاروں میں ایک ستارا سر راجر جارج مور ہیں، جو دنیا سے بھلے رخصت ہوئے لیکن لوگوں کے دلوں میں امر ہو چکے ہیں۔
معروف برطانوی اداکار سر راجر جارج مور 14 اکتوبر 1927ء کو سٹوک ویل، لندن (برطانیہ) میں ایک پولیس ملازم جارج ایلفرڈ مور کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ مور کی والدہ للی
بھارت(کلکتہ) میں ایک انگریز خاندان میں پیدا ہوئیں، تاہم ان کا خاندان پھر واپس لوٹ آیا۔ راجر کا تعلیمی سلسلہ بیٹرسی گرائمر سکول سے شروع ہوا لیکن دوسری جنگ عظیم کے باعث وہ جلد ہی ڈیون منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے لانسیسٹن کالج میں داخلہ لے لیا، بعدازاں انہوں نے مزید تعلیم بکنگھمشائر میں ڈاکٹر چیلونرز گرائمر سکول سے حاصل کی۔
ہالی وڈ سٹار نے عملی زندگی کا آغاز ایک اینیمشن سٹوڈیو سے کیا لیکن ایک چھوٹی سی غلطی پر انہیں جلد ہی وہاں سے فارغ کر دیا گیا۔ یوں وقت گزرتا گیا کہ ایک روز وہ موقع آیا جب راجر کے والد کو ایک ڈائریکٹر برائن ڈسمونڈ ہرسٹ کے گھر ڈکیتی کی واردات کی تفتیش کرنا پڑی اور اسی دوران جارج نے اپنے بیٹے راجر کو برائن سے متعارف کروا دیا۔ راجر کے شوق اور اس کے اندر چھپی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے برائن نے اسے بحیثیت ایکسٹرا 1945ء میں بننے والی فلم Caesar and Cleopatra میں کاسٹ کر لیا۔
مستقبل کے ہالی وڈ سٹار کی صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے برائن نے خود فیس بھر کر راجر کو رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ میں داخل کروا دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد راجر جب 18 سال کی عمر کو پہنچے تو انہیں رائل آرمی سروس کارپ میں بطور سکینڈ لیفٹینینٹ کمیشنڈ مل گیا۔ ان کی تعیناتی کمبائینڈ سروسز انٹرٹینمنٹ میں ہوئی، جہاں کچھ ہی عرصہ بعد انہیں کیپٹن کے عہدہ پر ترقی مل گئی۔
سر راجر مور نے شوبز کے سفر کے باقاعدہ آغاز سے قبل Caesar and Cleopatra، Perfect Strangers(1945ء)، Gaiety George، Piccadilly Incident(1946ء) اور Trottie True(1949ء) میں بے نام محدود کردار ادا کئے۔ اس ضمن میں مور اپنی کتاب Last Man Standing: Tales from Tinseltown میں بتاتے ہیں کہ ٹیلی ویژن پر ان کی پہلی پرفارمنس 1949ء میں نشر ہونے والا ڈرامہ The Governess تھا، جس میں انہوں نے Bob Drew کا ایک محدود کردار نبھایا۔
اس کے علاوہ فلم Paper Orchidاور The Interrupted Journey(1949ء) میں بھی انہوں نے ایک ایکسٹرا کا کردار ادا کیا۔ 1950ء کے اوائل میں راجر نے ماڈلنگ میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا، جہاں انہوں نے مختلف پروڈکٹس کی تشہیر کا کام کیا۔ بعدازاں مور امریکا چلے گئے، جہاں انہوں نے ٹیلی ویژن پروگرامز میں باقاعدہ پروفیشنل کام کیا۔
1954ء میں ہالی وڈ کی معروف پروڈکشن کمپنی ایم جی ایم (میٹرو گولڈون میئر) نے راجر کے ساتھ اپنا پہلا معاہدہ سائن کیا، جس کے بعد انہوں نے اپنی پہلی فلم The Last Time I Saw Parisمیں ایک محدود کردار ادا کیا، تاہم یہ کردار ان کی شناخت بنا۔ اس فلم کا بجٹ تقریباً 2 ملین ڈالر تھا تاہم باکس آفس پر اس کی کمائی 5 ملین ڈالر سے زائد رہی۔ یوں سلسلہ چلتا رہا اور پھر 1958-59 میں اداکار کو Ivanhoe کے نام سے ایک ایسی ٹی وی سیریز کرنے کا موقع کا ملا، جس نے انہیں باقاعدہ ایک ہیرو کی پہچان دلا دی۔ کچھ عرصہ بعد مور کو عالمی سطح پر جانی پہچانی کمپنی Warner Bros کے ساتھ معاہدہ کرنے کا موقع مل گیا۔
اس کمپنی کے بینر تلے راجر نے متعدد فلموں میں کام کیا۔ راجر کی مقبولیت دن بدن بڑھ رہی تھی، جس کے باعث وہ ہر ڈائریکٹر کی اولین ترجیح بنتے جا رہے تھے، اسی دوران انہیں مشہوز زمانہ کردار جیمز بانڈ کی پیش کش ہوئی لیکن وقت کی کمی کے باعث وہ یہ کردار نہ نبھا سکے۔
تاہم پھر وہ وقت آن پہنچا اور انہوں نے جیمز بانڈ سیریز کی اپنی فلم Live and Let Die بنا ڈالی، جس کو دنیا بھر میں خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ جیمز بانڈ سیریز کی یہ 8 ویں فلم تھی، جو صرف 7 ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہوئی لیکن باکس آفس پر اس کی کمائی 162 ملین ڈالر رہی۔ Live and Let Die کی بھرپور کامیابی کے بعد ڈائریکٹر نے اگلے ہی برس یعنی 1974ء جیمز بانڈ سیریز کی 9ویں فلم The Man with the Golden Gunبنا ڈالی، جس کے ہیرو ایک بار پھر راجر ہی تھے، جیمز بانڈ سیریز کو چار چاند لگانے والے مور نے 1973سے 1985ء تک اس سیریز کی مسلسل 7 فلموں میں کام کیا۔
1985ء میں اداکار نے جیمز بانڈ سیریز کی آخری فلم A View to a Kill کی اور اس کے بعد وہ 5 سال تک سکرین سے آئوٹ ہو گئے، پھر 1990ء میں انہوں نے دوبارہ سے فنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور ہالی وڈ کو Fire, Ice and Dynamite کے نام سے ایک بہترین فلم دی۔ سر راجر مور سفر زیست کے اختتام یعنی 23 مئی 2017ء تک اپنے جنون سے جڑے رہے، ان کی آخری فلم The Saint تھی، جسے بعدازاں ان کی یادوں سے منسوب کر دیا گیا۔
سر راجر جارج مور نے مجموعی طور پر چار شادیاں کیں، ان کی پہلی شادی اداکارہ ڈوورن وین سٹین سے 1946ء میں ہوئی، جو 7 سال بعد ہی اختتام پذیر ہو گئی، اس کے بعد اداکار نے 1953ء میں ڈوروتھی سکوائرز، 1969ء میں لوئیسا اور 2002ء میں کرسٹینا سے شادی کی، جو ان کے انتقال تک برقرار رہی۔ ان تمام شادیوں میں سے مور کو لوئیسا سے اولاد ( بیٹی ڈیبورا، بیٹے جیوفرے اور کرسٹین) نصیب ہوئی۔ سر راجر کو حلقہ احباب بہت وسیع تھا، جس میں شاہی خاندان بھی شامل تھا، انہوں نے یونیسیف کے ذریعے سماجی فلاح و بہبود کے لئے بھی بہت کام کیا، جس کو عالمی سطح پر سند تسلیم عطا ہوئی۔
اداکاری کے علاوہ مور ایک اچھے لکھاری بھی تھے، وہ 5 کتب کے مصنف تھے، جن میں Roger Moore's Own Account of Filming Live and Let Die(1973ء)، My Word Is My Bond: The Autobiography(2008ء) Bond on Bond: The Ultimate Book on 50 Years of Bond Movies(2012ء)، Last Man Standing(2014ء) اور À bientôt (2017ء) شامل ہیں۔
فنی و سماجی خدمات اور ان کا اعتراف
اگرچہ سر راجر جارج مور نے اپنے فنی سفر کا آغاز 1945ء میں بننے والی فلم Perfect Strangers سے کیا لیکن ہالی وڈ میں ان کی باقاعدہ انٹری 1954ء میں بننے والی فلم The Last Time I Saw Paris سے شمار کی جاتی ہے۔ یہ فلم باکس آفس میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی تو اگلے ہی سال یعنی 1955ء میں اداکار کو Interrupted Melody نامی فلم میں ایک اہم کردار دیا گیا، جسے انہوں نے بخوبی نبھایا۔ 1973ء میں انہیں پہلی بار جمیز بانڈ سیریز کی Live and Let Die کے نام سے بننے والی فلم میں موقع دیا گیا، جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری دنیا میں اپنی شناخت بنا ڈالی۔
ہالی وڈ سپرسٹار نے Gold،Street People، Sherlock Holmes in New York، The Wild Geese، The Cannonball Run، The Sea Wolves، Fire, Ice and Dynamite، The Carer اور The Saintسمیت نصف سینچری سے زائد فلموں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ دنیا بھر میں اپنی اداکاری اور سماجی خدمات کے باعث انہیں شوبز کی دنیا سے لے کر بین الاقوامی سطح تک مختلف اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ 2003ء میں انہیں بہترین خدمات پر برطانوی حکومت کی طرف سے سر کا خطاب دیا گیا۔11اکتوبر 2007ء میں 80 سال کی عمر میں انہیں ہالی وڈ واک آف فیم میں شامل کیا گیا۔
2008ء میں فرانسیسی حکومت کی وزارت برائے ثقافت کی طرف سے راجر کو اعزازی کمانڈر (Ordre des Arts et des Lettres) کا درجہ دیا گیا۔ 2012ء میں یونیورسٹی آف ہرٹفورڈشار کی طرف سے ڈاکٹریٹ آف آرٹس کی اعزازی ڈگری عطا کی گئی۔
ان کی وفات کے بعد 2017ء میں ان کے نام پر بکنگھمشائر میں ایک سٹوڈیو بنایا گیا۔ اسی طرح 2004ء اور 2007ء میں یونیسیف کی طرف سے انہیں مختلف اعزازات سے نوازا گیا۔ 2003ء میں جرمن حکومت نے انہیں Federal Cross of Meritعنایت کیا۔ اسی طرح گولڈن گلوب، سیٹورن، گولڈن کیمرا، بامبی، براوو سمیت مختلف اداروں کی طرف سے سپرسٹار کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔ سر راجر کو 9 بار مختلف اداروں یا حکومتوں کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز بھی دیئے جا چکے ہیں۔
یہ ان کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اپنے جذبے کی تسکین اور خوابوں کی تعبیر کے لئے وہ کبھی ویٹر بنتے ہیں تو کبھی شوبز کی دنیا کے ایکسٹرا۔ کسی سفارش اور پیسے کے بغیر صرف اپنی صلاحیتوں پر انحصار کرنے والے یہ ستارے شوبز کے فلک پر ایسے چمکتے ہیں کہ ان کی روشنی کو دوام حاصل ہو جاتا ہے۔
محرومیوں اور مجبوریوں میں پنپنے والے یہ لوگ پھر دوسروں کے لئے رول ماڈل بن جاتے ہیں، ان کے بولنے، چلنے اور کپڑے پہننے کے سٹائل کو اپنانا عام لوگوں کے لئے فخر کا باعث بن جاتا ہے۔ ایسے ہی ستاروں میں ایک ستارا سر راجر جارج مور ہیں، جو دنیا سے بھلے رخصت ہوئے لیکن لوگوں کے دلوں میں امر ہو چکے ہیں۔
معروف برطانوی اداکار سر راجر جارج مور 14 اکتوبر 1927ء کو سٹوک ویل، لندن (برطانیہ) میں ایک پولیس ملازم جارج ایلفرڈ مور کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ مور کی والدہ للی
بھارت(کلکتہ) میں ایک انگریز خاندان میں پیدا ہوئیں، تاہم ان کا خاندان پھر واپس لوٹ آیا۔ راجر کا تعلیمی سلسلہ بیٹرسی گرائمر سکول سے شروع ہوا لیکن دوسری جنگ عظیم کے باعث وہ جلد ہی ڈیون منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے لانسیسٹن کالج میں داخلہ لے لیا، بعدازاں انہوں نے مزید تعلیم بکنگھمشائر میں ڈاکٹر چیلونرز گرائمر سکول سے حاصل کی۔
ہالی وڈ سٹار نے عملی زندگی کا آغاز ایک اینیمشن سٹوڈیو سے کیا لیکن ایک چھوٹی سی غلطی پر انہیں جلد ہی وہاں سے فارغ کر دیا گیا۔ یوں وقت گزرتا گیا کہ ایک روز وہ موقع آیا جب راجر کے والد کو ایک ڈائریکٹر برائن ڈسمونڈ ہرسٹ کے گھر ڈکیتی کی واردات کی تفتیش کرنا پڑی اور اسی دوران جارج نے اپنے بیٹے راجر کو برائن سے متعارف کروا دیا۔ راجر کے شوق اور اس کے اندر چھپی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے برائن نے اسے بحیثیت ایکسٹرا 1945ء میں بننے والی فلم Caesar and Cleopatra میں کاسٹ کر لیا۔
مستقبل کے ہالی وڈ سٹار کی صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے برائن نے خود فیس بھر کر راجر کو رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ میں داخل کروا دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد راجر جب 18 سال کی عمر کو پہنچے تو انہیں رائل آرمی سروس کارپ میں بطور سکینڈ لیفٹینینٹ کمیشنڈ مل گیا۔ ان کی تعیناتی کمبائینڈ سروسز انٹرٹینمنٹ میں ہوئی، جہاں کچھ ہی عرصہ بعد انہیں کیپٹن کے عہدہ پر ترقی مل گئی۔
سر راجر مور نے شوبز کے سفر کے باقاعدہ آغاز سے قبل Caesar and Cleopatra، Perfect Strangers(1945ء)، Gaiety George، Piccadilly Incident(1946ء) اور Trottie True(1949ء) میں بے نام محدود کردار ادا کئے۔ اس ضمن میں مور اپنی کتاب Last Man Standing: Tales from Tinseltown میں بتاتے ہیں کہ ٹیلی ویژن پر ان کی پہلی پرفارمنس 1949ء میں نشر ہونے والا ڈرامہ The Governess تھا، جس میں انہوں نے Bob Drew کا ایک محدود کردار نبھایا۔
اس کے علاوہ فلم Paper Orchidاور The Interrupted Journey(1949ء) میں بھی انہوں نے ایک ایکسٹرا کا کردار ادا کیا۔ 1950ء کے اوائل میں راجر نے ماڈلنگ میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا، جہاں انہوں نے مختلف پروڈکٹس کی تشہیر کا کام کیا۔ بعدازاں مور امریکا چلے گئے، جہاں انہوں نے ٹیلی ویژن پروگرامز میں باقاعدہ پروفیشنل کام کیا۔
1954ء میں ہالی وڈ کی معروف پروڈکشن کمپنی ایم جی ایم (میٹرو گولڈون میئر) نے راجر کے ساتھ اپنا پہلا معاہدہ سائن کیا، جس کے بعد انہوں نے اپنی پہلی فلم The Last Time I Saw Parisمیں ایک محدود کردار ادا کیا، تاہم یہ کردار ان کی شناخت بنا۔ اس فلم کا بجٹ تقریباً 2 ملین ڈالر تھا تاہم باکس آفس پر اس کی کمائی 5 ملین ڈالر سے زائد رہی۔ یوں سلسلہ چلتا رہا اور پھر 1958-59 میں اداکار کو Ivanhoe کے نام سے ایک ایسی ٹی وی سیریز کرنے کا موقع کا ملا، جس نے انہیں باقاعدہ ایک ہیرو کی پہچان دلا دی۔ کچھ عرصہ بعد مور کو عالمی سطح پر جانی پہچانی کمپنی Warner Bros کے ساتھ معاہدہ کرنے کا موقع مل گیا۔
اس کمپنی کے بینر تلے راجر نے متعدد فلموں میں کام کیا۔ راجر کی مقبولیت دن بدن بڑھ رہی تھی، جس کے باعث وہ ہر ڈائریکٹر کی اولین ترجیح بنتے جا رہے تھے، اسی دوران انہیں مشہوز زمانہ کردار جیمز بانڈ کی پیش کش ہوئی لیکن وقت کی کمی کے باعث وہ یہ کردار نہ نبھا سکے۔
تاہم پھر وہ وقت آن پہنچا اور انہوں نے جیمز بانڈ سیریز کی اپنی فلم Live and Let Die بنا ڈالی، جس کو دنیا بھر میں خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ جیمز بانڈ سیریز کی یہ 8 ویں فلم تھی، جو صرف 7 ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہوئی لیکن باکس آفس پر اس کی کمائی 162 ملین ڈالر رہی۔ Live and Let Die کی بھرپور کامیابی کے بعد ڈائریکٹر نے اگلے ہی برس یعنی 1974ء جیمز بانڈ سیریز کی 9ویں فلم The Man with the Golden Gunبنا ڈالی، جس کے ہیرو ایک بار پھر راجر ہی تھے، جیمز بانڈ سیریز کو چار چاند لگانے والے مور نے 1973سے 1985ء تک اس سیریز کی مسلسل 7 فلموں میں کام کیا۔
1985ء میں اداکار نے جیمز بانڈ سیریز کی آخری فلم A View to a Kill کی اور اس کے بعد وہ 5 سال تک سکرین سے آئوٹ ہو گئے، پھر 1990ء میں انہوں نے دوبارہ سے فنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور ہالی وڈ کو Fire, Ice and Dynamite کے نام سے ایک بہترین فلم دی۔ سر راجر مور سفر زیست کے اختتام یعنی 23 مئی 2017ء تک اپنے جنون سے جڑے رہے، ان کی آخری فلم The Saint تھی، جسے بعدازاں ان کی یادوں سے منسوب کر دیا گیا۔
سر راجر جارج مور نے مجموعی طور پر چار شادیاں کیں، ان کی پہلی شادی اداکارہ ڈوورن وین سٹین سے 1946ء میں ہوئی، جو 7 سال بعد ہی اختتام پذیر ہو گئی، اس کے بعد اداکار نے 1953ء میں ڈوروتھی سکوائرز، 1969ء میں لوئیسا اور 2002ء میں کرسٹینا سے شادی کی، جو ان کے انتقال تک برقرار رہی۔ ان تمام شادیوں میں سے مور کو لوئیسا سے اولاد ( بیٹی ڈیبورا، بیٹے جیوفرے اور کرسٹین) نصیب ہوئی۔ سر راجر کو حلقہ احباب بہت وسیع تھا، جس میں شاہی خاندان بھی شامل تھا، انہوں نے یونیسیف کے ذریعے سماجی فلاح و بہبود کے لئے بھی بہت کام کیا، جس کو عالمی سطح پر سند تسلیم عطا ہوئی۔
اداکاری کے علاوہ مور ایک اچھے لکھاری بھی تھے، وہ 5 کتب کے مصنف تھے، جن میں Roger Moore's Own Account of Filming Live and Let Die(1973ء)، My Word Is My Bond: The Autobiography(2008ء) Bond on Bond: The Ultimate Book on 50 Years of Bond Movies(2012ء)، Last Man Standing(2014ء) اور À bientôt (2017ء) شامل ہیں۔
فنی و سماجی خدمات اور ان کا اعتراف
اگرچہ سر راجر جارج مور نے اپنے فنی سفر کا آغاز 1945ء میں بننے والی فلم Perfect Strangers سے کیا لیکن ہالی وڈ میں ان کی باقاعدہ انٹری 1954ء میں بننے والی فلم The Last Time I Saw Paris سے شمار کی جاتی ہے۔ یہ فلم باکس آفس میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی تو اگلے ہی سال یعنی 1955ء میں اداکار کو Interrupted Melody نامی فلم میں ایک اہم کردار دیا گیا، جسے انہوں نے بخوبی نبھایا۔ 1973ء میں انہیں پہلی بار جمیز بانڈ سیریز کی Live and Let Die کے نام سے بننے والی فلم میں موقع دیا گیا، جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری دنیا میں اپنی شناخت بنا ڈالی۔
ہالی وڈ سپرسٹار نے Gold،Street People، Sherlock Holmes in New York، The Wild Geese، The Cannonball Run، The Sea Wolves، Fire, Ice and Dynamite، The Carer اور The Saintسمیت نصف سینچری سے زائد فلموں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ دنیا بھر میں اپنی اداکاری اور سماجی خدمات کے باعث انہیں شوبز کی دنیا سے لے کر بین الاقوامی سطح تک مختلف اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ 2003ء میں انہیں بہترین خدمات پر برطانوی حکومت کی طرف سے سر کا خطاب دیا گیا۔11اکتوبر 2007ء میں 80 سال کی عمر میں انہیں ہالی وڈ واک آف فیم میں شامل کیا گیا۔
2008ء میں فرانسیسی حکومت کی وزارت برائے ثقافت کی طرف سے راجر کو اعزازی کمانڈر (Ordre des Arts et des Lettres) کا درجہ دیا گیا۔ 2012ء میں یونیورسٹی آف ہرٹفورڈشار کی طرف سے ڈاکٹریٹ آف آرٹس کی اعزازی ڈگری عطا کی گئی۔
ان کی وفات کے بعد 2017ء میں ان کے نام پر بکنگھمشائر میں ایک سٹوڈیو بنایا گیا۔ اسی طرح 2004ء اور 2007ء میں یونیسیف کی طرف سے انہیں مختلف اعزازات سے نوازا گیا۔ 2003ء میں جرمن حکومت نے انہیں Federal Cross of Meritعنایت کیا۔ اسی طرح گولڈن گلوب، سیٹورن، گولڈن کیمرا، بامبی، براوو سمیت مختلف اداروں کی طرف سے سپرسٹار کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔ سر راجر کو 9 بار مختلف اداروں یا حکومتوں کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز بھی دیئے جا چکے ہیں۔