بلوچستان میں شعبہ صحت کی زبوں حالی
بلوچستان کے عوام منتظر ہیں کہ ان کی بدحالی پر سیاست چمکانے کے بجائے عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کیا جائے
رقبے کے لحاظ سے مملکت خداداد کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ترقی کے حوالے سے سب سے پسماندہ ترین صوبہ ہے۔ گورننس کے فقدان کی وجہ سے صوبے کے عوام کو صحت عامہ سمیت بنیادی مسائل درپیش ہیں۔ بلوچستان میں اب تک کوئی ایسا سرکاری یا غیر سرکاری اسپتال موجود نہیں جہاں بہتر علاج کی سہولیات میسر ہوں۔ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں صحت عامہ کی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے حاملہ خواتین کو شدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر کیسز میں زچہ و بچہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں کیونکہ انہیں کسی بھی قریبی شہر تک پہنچنے کےلیے سڑکوں کی ابتر صورتحال کی وجہ سے منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنا پڑتا ہے۔
بلوچستان کے دیہی علاقوں میں لوگوں کو صحت عامہ کی سہولیات فراہم کرنے کےلیے بنیادی مراکز صحت بنائے گئے ہیں۔ لیکن حکومتی سطح پر اب بھی بہت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ صحت عامہ سے متعلق یہ ادارے اب پی پی ایچ آئی کے ماتحت لوگوں کو بنیادی صحت کے سہولیات فراہم کررہے ہیں۔ 2007 میں پی پی ایچ آئی نے جب صوبے میں کام شروع کیا تو اس کے ماتحت چار سو بنیادی مراکز صحت تھے اور اب ان کی تعداد 761 کے قریب ہے اور اگلے سال تک مزید 200 بی ایچ یوز پی پی ایچ آئی کے ماتحت ہونے کے امکانات ہیں۔ 761 میں سے 151 بنیادی مراکز صحت میں لیبر روم، 150 میں لیبارٹری قائم ہے، جہاں بنیادی ٹیسٹ کی سہولت مفت میں دستیاب ہے۔ چند بنیادی مراکز صحت میں زچہ و بچہ کی سہولت 24 گھنٹے فراہم کی گئی ہے۔ جبکہ سو سے زائد بنیادی مراکز صحت میں ایمبولینس کی سہولت بھی موجود ہے۔
بلوچستان کے شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں صحت عامہ کی صورتحال بہت ہی زیادہ ابتر ہے اور عام بیماریوں سے اموات کی شرح بھی شہری علاقوں سے زیادہ ہے۔ پی پی ایچ آئی شہری علاقوں سے زیاہ دیہی علاقوں میں صحت عامہ کی سہولیات کی فراہمی کےلیے کام کررہا ہے۔ اس وقت دیہی علاقوں میں بنیادی صحت کے مراکز فعال اور دوائیں بھی مفت میں ملتی ہیں۔ طبی آلات کی فراہمی اور بنیادی مراکز صحت کی مرمت کا کام بھی بروقت ہوتا ہے۔
2003 میں جنوبی پنجاب کے چند اضلاع میں تجرباتی بنیادوں پر بیسک ہیلتھ یونٹس کو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت سرکار کے بجائے پرائیوٹ طرز پر منتظم کیا گیا تھا۔ خالی آسامیوں کو پر کرنے کےلیے عارضی طور پر بھرتیاں کی گئیں اور کمپنی منیجمنٹ کے تحت دوائیں اور تعمیر و مرمت کا انتظام کیا گیا۔ یہ ماڈل اتنا کامیاب ہوا کہ پورے پنجاب اور بعد ازاں پورے ملک میں پھیل گیا۔ محمکہ صحت کا پانچ فیصد بجٹ پی پی ایچ آئی کو ملتا ہے جبکہ صوبے کی پچاس فیصد آبادی کو صحت عامہ کی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ مفت میڈیکل کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں روڑ حادثات میں اموات کی شرح دہشت گردی کے واقعات میں اموات سے کئی گنا زیادہ ہے، حالانکہ صوبہ طویل عرصے سے شورش زدہ ہے۔ نیشنل ہائی ویز اور موٹروے پولیس حکام کے مطابق بلوچستان میں ٹریفک حادثات میں سالانہ چھ ہزار افراد موقع پر جبکہ آٹھ سے دس ہزار افراد دوران علاج جاں بحق ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے ایک سینئر صحافی کے مطابق صوبے میں 31 خودکش بم دھماکوں میں 488 افراد جبکہ 2230 افراد ہائی وے ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوئے ہیں، جو کہ دہشت گردی میں ہونے والی اموات سے پانچ گنا زیادہ ہے۔
پی پی ایچ آئی کے ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال ( 22 اکتوبر 2019 سے 27 اکتوبر 2020 تک) میں 6651 روڑ حادثات میں 8541 زخمیوں کو بنیادی طبی امداد فراہم کی گئی اور سب سے زیادہ ٹریفک حادثات ضلع لسبیلہ کی حدود میں 1758 ریکارڈ ہوئے۔ یہ اعداد وشمار صرف صوبے کی دو شاہراہ کراچی، کوئٹہ اور کوئٹہ ژوب کے ہیں جہاں اس وقت پی پی ایچ آئی نے MERE مراکز قائم کیے ہیں۔ جبکہ مکران کوسٹل ہائی وے، تربت خوشاب شاہراہ سمیت دیگر شاہراہیں اس رپورٹ کا حصہ نہیں ہیں۔
ہائی ویز پر ٹریفک حادثات کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ ہائی ویز کے قرب و جوار میں موجود بنیادی مراکز صحت میں تربیت یافتہ عملہ اور ایمبولینس کی ہمہ وقت موجودگی ہو، تاکہ ٹریفک حادثات کی صورت میں کئی قیمتی جانیں بچائی جاسکیں۔ MERE 24/7 کا یہ منصوبہ فروری 2019 میں منظور ہوا اور پیرامیڈیکس کا پہلا گروپ اکتوبر 2019 میں لاہور ایمرجنسی سروس اکیڈمی سے تربیت لے کر پہنچا اور کوئٹہ کراچی سے ریسکیو سروس کا آغاز ہوا۔ جبکہ دوسرا گروپ چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد کوئٹہ ژوب شاہراہ پر تعنیات ہے اور ان دو شاہراہوں پر اب تک 13 سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔
پی پی ایچ آئی بلوچستان کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر عزیز جمالی کے مطابق مذکورہ سینٹرز کے قیام سے گزشتہ ایک سال کے دوران ان دو شاہراہوں پر حادثاتی اموات میں سات سے آٹھ گنا کمی واقع ہوئی ہے۔ عزیز جمالی نے صوبے میں پی پی ایچ آئی کے کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پی پی ایچ آئی نے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ایک ایک بنیادی مراکز صحت میں ٹیلی ہیلتھ سروس شروع کی ہے جن میں گوادر، واشک، دکی، مستونگ اور جعفر آباد اضلاع میں ایک ایک بی ایچ یو شامل ہے اور ان بی ایچ یوز میں آن لائن او پی ڈی کا آغاز شروع ہوچکا ہے۔ آئندہ چند ماہ کے اندر باقی اضلاع میں بھی ٹیلی ہیلتھ کلینک قائم کیا جائے گا جہاں اسلام آباد کے ماہر معالجین بذریعہ انٹرنیٹ ویڈیو کانفرنس دیہی علاقوں کے مریضوں کو مفت طبی مشورہ دیں گے جو کہ بلوچستان کے عوام کےلیے ایک اچھی خبر ہے۔
بلاشبہ پی پی ایچ آئی بلوچستان کے دیہی علاقوں میں صحت عامہ کے لیے بہت کام کررہی ہے لیکن اب بھی حکومتی سطح پر شعبہ صحت میں بہتری لانے کے لیے صائب اقدامات کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے عوام منتظر ہیں کہ ان کی بدحالی پر سیاست چمکانے کے بجائے عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کیا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بلوچستان کے دیہی علاقوں میں لوگوں کو صحت عامہ کی سہولیات فراہم کرنے کےلیے بنیادی مراکز صحت بنائے گئے ہیں۔ لیکن حکومتی سطح پر اب بھی بہت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ صحت عامہ سے متعلق یہ ادارے اب پی پی ایچ آئی کے ماتحت لوگوں کو بنیادی صحت کے سہولیات فراہم کررہے ہیں۔ 2007 میں پی پی ایچ آئی نے جب صوبے میں کام شروع کیا تو اس کے ماتحت چار سو بنیادی مراکز صحت تھے اور اب ان کی تعداد 761 کے قریب ہے اور اگلے سال تک مزید 200 بی ایچ یوز پی پی ایچ آئی کے ماتحت ہونے کے امکانات ہیں۔ 761 میں سے 151 بنیادی مراکز صحت میں لیبر روم، 150 میں لیبارٹری قائم ہے، جہاں بنیادی ٹیسٹ کی سہولت مفت میں دستیاب ہے۔ چند بنیادی مراکز صحت میں زچہ و بچہ کی سہولت 24 گھنٹے فراہم کی گئی ہے۔ جبکہ سو سے زائد بنیادی مراکز صحت میں ایمبولینس کی سہولت بھی موجود ہے۔
بلوچستان کے شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں صحت عامہ کی صورتحال بہت ہی زیادہ ابتر ہے اور عام بیماریوں سے اموات کی شرح بھی شہری علاقوں سے زیادہ ہے۔ پی پی ایچ آئی شہری علاقوں سے زیاہ دیہی علاقوں میں صحت عامہ کی سہولیات کی فراہمی کےلیے کام کررہا ہے۔ اس وقت دیہی علاقوں میں بنیادی صحت کے مراکز فعال اور دوائیں بھی مفت میں ملتی ہیں۔ طبی آلات کی فراہمی اور بنیادی مراکز صحت کی مرمت کا کام بھی بروقت ہوتا ہے۔
2003 میں جنوبی پنجاب کے چند اضلاع میں تجرباتی بنیادوں پر بیسک ہیلتھ یونٹس کو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت سرکار کے بجائے پرائیوٹ طرز پر منتظم کیا گیا تھا۔ خالی آسامیوں کو پر کرنے کےلیے عارضی طور پر بھرتیاں کی گئیں اور کمپنی منیجمنٹ کے تحت دوائیں اور تعمیر و مرمت کا انتظام کیا گیا۔ یہ ماڈل اتنا کامیاب ہوا کہ پورے پنجاب اور بعد ازاں پورے ملک میں پھیل گیا۔ محمکہ صحت کا پانچ فیصد بجٹ پی پی ایچ آئی کو ملتا ہے جبکہ صوبے کی پچاس فیصد آبادی کو صحت عامہ کی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ مفت میڈیکل کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں روڑ حادثات میں اموات کی شرح دہشت گردی کے واقعات میں اموات سے کئی گنا زیادہ ہے، حالانکہ صوبہ طویل عرصے سے شورش زدہ ہے۔ نیشنل ہائی ویز اور موٹروے پولیس حکام کے مطابق بلوچستان میں ٹریفک حادثات میں سالانہ چھ ہزار افراد موقع پر جبکہ آٹھ سے دس ہزار افراد دوران علاج جاں بحق ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے ایک سینئر صحافی کے مطابق صوبے میں 31 خودکش بم دھماکوں میں 488 افراد جبکہ 2230 افراد ہائی وے ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوئے ہیں، جو کہ دہشت گردی میں ہونے والی اموات سے پانچ گنا زیادہ ہے۔
پی پی ایچ آئی کے ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال ( 22 اکتوبر 2019 سے 27 اکتوبر 2020 تک) میں 6651 روڑ حادثات میں 8541 زخمیوں کو بنیادی طبی امداد فراہم کی گئی اور سب سے زیادہ ٹریفک حادثات ضلع لسبیلہ کی حدود میں 1758 ریکارڈ ہوئے۔ یہ اعداد وشمار صرف صوبے کی دو شاہراہ کراچی، کوئٹہ اور کوئٹہ ژوب کے ہیں جہاں اس وقت پی پی ایچ آئی نے MERE مراکز قائم کیے ہیں۔ جبکہ مکران کوسٹل ہائی وے، تربت خوشاب شاہراہ سمیت دیگر شاہراہیں اس رپورٹ کا حصہ نہیں ہیں۔
ہائی ویز پر ٹریفک حادثات کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ ہائی ویز کے قرب و جوار میں موجود بنیادی مراکز صحت میں تربیت یافتہ عملہ اور ایمبولینس کی ہمہ وقت موجودگی ہو، تاکہ ٹریفک حادثات کی صورت میں کئی قیمتی جانیں بچائی جاسکیں۔ MERE 24/7 کا یہ منصوبہ فروری 2019 میں منظور ہوا اور پیرامیڈیکس کا پہلا گروپ اکتوبر 2019 میں لاہور ایمرجنسی سروس اکیڈمی سے تربیت لے کر پہنچا اور کوئٹہ کراچی سے ریسکیو سروس کا آغاز ہوا۔ جبکہ دوسرا گروپ چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد کوئٹہ ژوب شاہراہ پر تعنیات ہے اور ان دو شاہراہوں پر اب تک 13 سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔
پی پی ایچ آئی بلوچستان کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر عزیز جمالی کے مطابق مذکورہ سینٹرز کے قیام سے گزشتہ ایک سال کے دوران ان دو شاہراہوں پر حادثاتی اموات میں سات سے آٹھ گنا کمی واقع ہوئی ہے۔ عزیز جمالی نے صوبے میں پی پی ایچ آئی کے کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پی پی ایچ آئی نے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ایک ایک بنیادی مراکز صحت میں ٹیلی ہیلتھ سروس شروع کی ہے جن میں گوادر، واشک، دکی، مستونگ اور جعفر آباد اضلاع میں ایک ایک بی ایچ یو شامل ہے اور ان بی ایچ یوز میں آن لائن او پی ڈی کا آغاز شروع ہوچکا ہے۔ آئندہ چند ماہ کے اندر باقی اضلاع میں بھی ٹیلی ہیلتھ کلینک قائم کیا جائے گا جہاں اسلام آباد کے ماہر معالجین بذریعہ انٹرنیٹ ویڈیو کانفرنس دیہی علاقوں کے مریضوں کو مفت طبی مشورہ دیں گے جو کہ بلوچستان کے عوام کےلیے ایک اچھی خبر ہے۔
بلاشبہ پی پی ایچ آئی بلوچستان کے دیہی علاقوں میں صحت عامہ کے لیے بہت کام کررہی ہے لیکن اب بھی حکومتی سطح پر شعبہ صحت میں بہتری لانے کے لیے صائب اقدامات کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے عوام منتظر ہیں کہ ان کی بدحالی پر سیاست چمکانے کے بجائے عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کیا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔