جہالت کے تاریک بادل
نئی سوچ یا اجتہاد کا راستہ جو صدیوں پہلے ہم نے بند کردیا تھا، اب وہ مہر بند ہوچکا ہے
TOKYO:
فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد مسلم دنیا میں جو ردعمل آیا، وہ قابل دید تھا۔ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک اتنی متاثر کن تھی کہ فرانسیسی صدر میکراں کو بھی اپنی حرکت کی وضاحتیں دینی پڑگئیں اور مسلمانوں سے بائیکاٹ نہ کرنے کی اپیل کی۔ اس واقعے کے بعد دنیا میں مسلمانوں کےلیے قدرے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے اور اظہار رائے کی آزادی کے فلسفے پر بحث شروع ہوگئی۔
اسی اثنا میں تیونس کا ایک شہری نائس شہر میں واقع چرچ میں گھس گیا اور تین لوگوں پر حملہ کردیا۔ اس واقعے نے ساری بحث کو سمیٹ کر رکھ دیا اور ہمدردی کے جذبات کو نفرت میں بدلنے میں ذرا دیر نہیں لگی۔ ہماری اکثریت اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ جنگ ہتھیاروں کی نہیں بیانیے کی جنگ ہے۔ اور بیانیے کی یہ جنگ ہم بری طرح سے ہار رہے ہیں۔ اس جنگ میں ہتھیاروں کا انتخاب غلط کرلیا گیا ہے۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی دہشتگردی کا جھومر ہمارے ماتھے پر سجا دیا گیا۔
گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد مملکت خداداد میں بھی ہر طرف بائیکاٹ اور فرانس کو سبق سکھانے کی باتیں ہونے لگیں۔ ان پر عمل کتنا ہوا، وہ الگ بات ہے۔ کسی دوسرے کو سبق سکھانے سے پہلے ہمیں خود بہت سے سبق سیکھنے ہیں اور پہلا سبق ہے اپنے گریباں میں جھانکنے کا۔
زیادہ دور نہیں جاتے، کچھ دن قبل کابل میں ایک یونیورسٹی پر حملہ ہوا، جس میں تیس کے قریب طالب علم مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر کی عمریں بیس سے پچیس برس تک تھیں۔ اور ان میں بہت ساری لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ واقعے میں مرنے والے اور مارنے والے دونوں مسلمان ہیں۔ اگر مارنے والوں کو مسلمان نہ بھی کہیں، پھر بھی وہ لڑ اسلام کے نام پر ہی رہے ہیں۔ اگر پھر بھی آپ کا اسرار ہے کہ ان لوگوں کا ہم سے کوئی تعلق نہیں تو ایک فہرست بنائیے اور اس میں ان مذہبی شخصیات کے نام لکھیں جنہوں نے اس واقعے یا اسی طرح کے سیکڑوں دہشتگردی کے واقعات کی کھل کر مذمت کی ہو۔ آپ لاکھ گلا پھاڑ کر کہتے رہیں کہ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے، لیکن جب تک اپنے کردار سے ثابت نہیں کریں گے تب تک کوئی نہیں مانے گا۔
کچھ ہی دن پہلے سندھ میں چالیس سالہ عمررسیدہ شخص تیرہ سال کی عیسائی لڑکی کو اغوا کرکے لے گیا اور اس سے شادی کرلی۔ بعد میں یہ ظاہر کیا کہ اس لڑکی نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرکے اسلام قبول کیا ہے۔ جس عمر میں بچے کو اپنے مذہب کے بارے میں بھی سطحی معلومات ہوتی ہیں اس عمر میں کیسے اس نے اسلام کے بارے میں اتنا کچھ جان لیا کہ اس نے اپنا مذہب تبدیل کرنا ہے۔ اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ کراچی میں ہوا، جہاں پر ایک مندر میں توڑ پھوڑ کی گئی۔
ہمارے لیے اس طرح کے واقعات زیادہ معنی نہیں رکھتے، لیکن بین الاقوامی میڈیا میں یہ بڑی سرخی کے ساتھ شائع ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات ہماری اخلاقی ساکھ کو تب متاثر کرتے ہیں جب ہم دنیا کے سامنے کشمیر، فلسطین اور ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر آواز اٹھاتے ہیں۔ جو حقوق خود اسلام نے اقلیتوں کےلیے متعارف کرائے ہیں ان کو نہ مدارس میں پڑھایا جاتا ہے، نہ اسکولوں میں۔ مذہبی رواداری کس بلا کا نام ہے، آج کل کے نوجوانوں سے اس کا مطلب پوچھنا عبث ہے۔ دوسری طرف مذہبی طبقہ بھی اپنی ذمے داری اٹھانے سے قاصر ہے۔ چند ایک شخصیات کو چھوڑ کر باقی سارے مولوی حضرات اقلیتوں کے بارے میں جو رویہ رکھتے ہیں وہ آپ سوشل میڈیا پر ہر طرف بکھرے ہوئے کلپس کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔
آج کل کے حالات کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے عوام نے کسی واقعے یا کسی شخصیت کے بارے میں تحقیق کرنا اپنے اوپر حرام کرلیا ہے۔ خوشاب میں سیکیورٹی گارڈ بینک کے منیجر کو گولی مارتا ہے، پولیس اس کو گرفتار کرلیتی ہے۔ پھر کہیں سے کوئی افواہ نکلتی ہے کہ جس شخص کو گولی ماری گئی وہ توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے۔ پھر کیا تھا، سرفروشوں نے سر پر کفن باندھ لیے اور تھانے پر دھاوا بول دیا۔ پولیس سے ملزم کو چھڑوا کر پورے شہر میں اس کو پھرایا گیا۔ اب تک کی معلومات تک کچھ اس کو ذاتی عداوت کی وجہ قرار دے رہے ہین، کچھ کے نزدیک فرقہ وارانہ نوعیت کا معمولی اختلاف اس کی وجہ تھی۔
مشال خان کے واقعے کے بعد اس بات کی گنجائش تھی کہ اب لوگ اس طرح کے الزام کے بعد تھوڑی بہت تحقیق کرکے ہی کوئی قدم اٹھائیں گے۔ لیکن پے در پے واقعات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ ہم جہالت کے تاریک بادلوں کے سائے میں پل بڑھ رہے ہیں۔ یہاں پر کسی علمی نوعیت کی مذہبی بحث کرنا خطرات کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ خیالات کے تبادلے کے بجائے گولیوں کا تبادلہ ہوا کرے گا۔ نئی سوچ یا اجتہاد کا راستہ جو صدیوں پہلے ہم نے بند کردیا تھا، اب وہ مہر بند ہوچکا ہے۔
اوپر تین طرح کے مختلف واقعات بیان کیے گئے ہیں لیکن تینوں کی جڑیں اسی سماج سے آب یار ہورہی ہیں۔ ہر طرف ایک مجرمانہ خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ پھر اسی خاموشی کے نیچے ہر وہ آہ و بکا دب کر رہ جاتی ہے جو کشمیر، فلسطین، عراق، شام اور افغانستان کے کسی بے گناہ کے دل سے نکلتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد مسلم دنیا میں جو ردعمل آیا، وہ قابل دید تھا۔ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک اتنی متاثر کن تھی کہ فرانسیسی صدر میکراں کو بھی اپنی حرکت کی وضاحتیں دینی پڑگئیں اور مسلمانوں سے بائیکاٹ نہ کرنے کی اپیل کی۔ اس واقعے کے بعد دنیا میں مسلمانوں کےلیے قدرے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے اور اظہار رائے کی آزادی کے فلسفے پر بحث شروع ہوگئی۔
اسی اثنا میں تیونس کا ایک شہری نائس شہر میں واقع چرچ میں گھس گیا اور تین لوگوں پر حملہ کردیا۔ اس واقعے نے ساری بحث کو سمیٹ کر رکھ دیا اور ہمدردی کے جذبات کو نفرت میں بدلنے میں ذرا دیر نہیں لگی۔ ہماری اکثریت اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ جنگ ہتھیاروں کی نہیں بیانیے کی جنگ ہے۔ اور بیانیے کی یہ جنگ ہم بری طرح سے ہار رہے ہیں۔ اس جنگ میں ہتھیاروں کا انتخاب غلط کرلیا گیا ہے۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی دہشتگردی کا جھومر ہمارے ماتھے پر سجا دیا گیا۔
گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد مملکت خداداد میں بھی ہر طرف بائیکاٹ اور فرانس کو سبق سکھانے کی باتیں ہونے لگیں۔ ان پر عمل کتنا ہوا، وہ الگ بات ہے۔ کسی دوسرے کو سبق سکھانے سے پہلے ہمیں خود بہت سے سبق سیکھنے ہیں اور پہلا سبق ہے اپنے گریباں میں جھانکنے کا۔
زیادہ دور نہیں جاتے، کچھ دن قبل کابل میں ایک یونیورسٹی پر حملہ ہوا، جس میں تیس کے قریب طالب علم مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر کی عمریں بیس سے پچیس برس تک تھیں۔ اور ان میں بہت ساری لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ واقعے میں مرنے والے اور مارنے والے دونوں مسلمان ہیں۔ اگر مارنے والوں کو مسلمان نہ بھی کہیں، پھر بھی وہ لڑ اسلام کے نام پر ہی رہے ہیں۔ اگر پھر بھی آپ کا اسرار ہے کہ ان لوگوں کا ہم سے کوئی تعلق نہیں تو ایک فہرست بنائیے اور اس میں ان مذہبی شخصیات کے نام لکھیں جنہوں نے اس واقعے یا اسی طرح کے سیکڑوں دہشتگردی کے واقعات کی کھل کر مذمت کی ہو۔ آپ لاکھ گلا پھاڑ کر کہتے رہیں کہ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے، لیکن جب تک اپنے کردار سے ثابت نہیں کریں گے تب تک کوئی نہیں مانے گا۔
کچھ ہی دن پہلے سندھ میں چالیس سالہ عمررسیدہ شخص تیرہ سال کی عیسائی لڑکی کو اغوا کرکے لے گیا اور اس سے شادی کرلی۔ بعد میں یہ ظاہر کیا کہ اس لڑکی نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرکے اسلام قبول کیا ہے۔ جس عمر میں بچے کو اپنے مذہب کے بارے میں بھی سطحی معلومات ہوتی ہیں اس عمر میں کیسے اس نے اسلام کے بارے میں اتنا کچھ جان لیا کہ اس نے اپنا مذہب تبدیل کرنا ہے۔ اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ کراچی میں ہوا، جہاں پر ایک مندر میں توڑ پھوڑ کی گئی۔
ہمارے لیے اس طرح کے واقعات زیادہ معنی نہیں رکھتے، لیکن بین الاقوامی میڈیا میں یہ بڑی سرخی کے ساتھ شائع ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات ہماری اخلاقی ساکھ کو تب متاثر کرتے ہیں جب ہم دنیا کے سامنے کشمیر، فلسطین اور ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر آواز اٹھاتے ہیں۔ جو حقوق خود اسلام نے اقلیتوں کےلیے متعارف کرائے ہیں ان کو نہ مدارس میں پڑھایا جاتا ہے، نہ اسکولوں میں۔ مذہبی رواداری کس بلا کا نام ہے، آج کل کے نوجوانوں سے اس کا مطلب پوچھنا عبث ہے۔ دوسری طرف مذہبی طبقہ بھی اپنی ذمے داری اٹھانے سے قاصر ہے۔ چند ایک شخصیات کو چھوڑ کر باقی سارے مولوی حضرات اقلیتوں کے بارے میں جو رویہ رکھتے ہیں وہ آپ سوشل میڈیا پر ہر طرف بکھرے ہوئے کلپس کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔
آج کل کے حالات کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے عوام نے کسی واقعے یا کسی شخصیت کے بارے میں تحقیق کرنا اپنے اوپر حرام کرلیا ہے۔ خوشاب میں سیکیورٹی گارڈ بینک کے منیجر کو گولی مارتا ہے، پولیس اس کو گرفتار کرلیتی ہے۔ پھر کہیں سے کوئی افواہ نکلتی ہے کہ جس شخص کو گولی ماری گئی وہ توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے۔ پھر کیا تھا، سرفروشوں نے سر پر کفن باندھ لیے اور تھانے پر دھاوا بول دیا۔ پولیس سے ملزم کو چھڑوا کر پورے شہر میں اس کو پھرایا گیا۔ اب تک کی معلومات تک کچھ اس کو ذاتی عداوت کی وجہ قرار دے رہے ہین، کچھ کے نزدیک فرقہ وارانہ نوعیت کا معمولی اختلاف اس کی وجہ تھی۔
مشال خان کے واقعے کے بعد اس بات کی گنجائش تھی کہ اب لوگ اس طرح کے الزام کے بعد تھوڑی بہت تحقیق کرکے ہی کوئی قدم اٹھائیں گے۔ لیکن پے در پے واقعات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ ہم جہالت کے تاریک بادلوں کے سائے میں پل بڑھ رہے ہیں۔ یہاں پر کسی علمی نوعیت کی مذہبی بحث کرنا خطرات کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ خیالات کے تبادلے کے بجائے گولیوں کا تبادلہ ہوا کرے گا۔ نئی سوچ یا اجتہاد کا راستہ جو صدیوں پہلے ہم نے بند کردیا تھا، اب وہ مہر بند ہوچکا ہے۔
اوپر تین طرح کے مختلف واقعات بیان کیے گئے ہیں لیکن تینوں کی جڑیں اسی سماج سے آب یار ہورہی ہیں۔ ہر طرف ایک مجرمانہ خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ پھر اسی خاموشی کے نیچے ہر وہ آہ و بکا دب کر رہ جاتی ہے جو کشمیر، فلسطین، عراق، شام اور افغانستان کے کسی بے گناہ کے دل سے نکلتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔