کیا یہ سب روپے کھاتے ہیں
کہتے ہیں جتنی گالیاں یہ سب دے سکتے ہیں، مجھے دیتے ہیں اور میں بے شرموں ، بے حسوں کی طرح سب کچھ سنتا رہتا ہوں۔
میں بائیس کروڑ پاکستانیوں میں سے ایک ہوں، میرے ملک کے جاگیرداروں ، سرمایہ داروں، وڈیروں، پیروں ، میروں،چوہدریوں ، سرداروں ،کرپٹ، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خیال میں دنیا میں جتنی بھی برائیاں اور خرابیاں موجود ہیں، وہ سب کی سب مجھ میں موجود ہیں۔
جاہل،گنوار، جٹ میں ہوں۔ نکما،کام چور، جھوٹا ،بیمار، منافق میں ہوں۔ تہذیب ،کلچر، تمدن سے ناواقف میں ہوں غرض ساری کی ساری برائیاں مجھ میں میرے خون کے ساتھ دوڑتی پھرتی ہیں، جتنا برا بھلا یہ سب لوگ مجھے کہہ سکتے ہیں، کہتے ہیں جتنی گالیاں یہ سب دے سکتے ہیں، مجھے دیتے ہیں اور میں بے شرموں ، بے حسوں کی طرح سب کچھ سنتا رہتا ہوں۔
کیا کروں، میں ہوں ہی بے شرم اور بے حس، لیکن جب میں روز ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر مختلف ٹی وی چینلز پر سیاست دانوں سے لے کر بیوروکریٹس کی ملین اور بلین روپوں کی کرپشن اور لوٹ مارکی کہانیاںسنتاہوں تو میری آنکھیں اور منہ پھٹے کے پھٹے رہ جاتے ہیں اور جب میں کسی پڑھے لکھے آدمی سے لوٹے گئے کروڑوں بلین اور ملین کے بارے میں سوال کرتا ہوں کہ یہ کتنے روپے بن گئے اورجب وہ مجھے بتاتا ہے توکئی دفعہ میں رقم کے بارے میں سن کر چکر آنے کی وجہ سے گرتے گرتے بال بال بچا ہوں۔
میں آج تک نہیں سمجھ پایا ہوں کہ یہ سب لٹیرے اتنے روپوں کا کیاکریں گے۔ میں نے تو آج تک اتنے روپے ایک ساتھ کبھی نہیں دیکھے، ہاں سو دو سو یا ہزار روپے تک تو مجھے دیکھنے یا رکھنے کو نصیب ہوئے ہیں اس سے زیادہ تو میرے بزرگوں نے کبھی ایک ساتھ نہ دیکھے اور نہ جیب میں رکھے۔ آخر ان کا پیٹ کیوں نہیں بھررہا ہے، آخر ان کا پیٹ کیوں نہیں پھٹ رہا ہے۔
کیا یہ روٹی کی جگہ روپے کھاتے ہیں،کیا یہ نرم گدوں کے بجائے روپوں پر سوتے ہیں۔کیا ان کے گھر اینٹ اور سیمنٹ کے بجائے روپوں پر تعمیر ہورہے ہیں آخر یہ اتنے روپوں کا کیا کررہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ انھیں اپنے ساتھ یہ روپے اوپر لے جانے کی خصو صی اجازت مل گئی ہے۔آیا یہ سب نارمل انسان ہیں بھی یا سب ذہنی مریض ہیں،آیا یہ انسان کہلانے کے لائق بھی ہیں یا نہیں اگر میں انسان ہوں تو یہ کونسی مخلوق ہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اپنا سر کہاں جا کر پھوڑوں کہاں جا کر ہنسوں یا روئوں۔
آخر مجھ سے کونسے ایسے گناہ ہوگئے ہیں جو یہ سب مجھ پر مسلط کردیے گئے ہیں۔ یااللہ یہ کیسی ناانصافی ہے کہ میں ایک ایک روٹی کو ترسوں اور یہ روپوں، ہیرے جواہرات کے محل تعمیرکرتے پھریں۔آخر یہ سب میر ے ہی نصیب میں کیوں لکھ دیے گئے ہیں۔ آخر یہ سب پاکستان میں ہی کیوں پیدا ہوئے ہیں، اگر ان کا امریکا ، یورپ ، برطانیہ میں جنم ہو تا اوریہ ہی کرتو ت ہوتے تو یہ کبھی کے جیل میں پڑے سڑرہے ہوتے، لیکن کیا کروں میرے نصیب ہی خراب ہیں جو یہ پاکستان میں آزاد دندناتے پھررہے ہیں۔ ایک روز میں غم وغصے سے بھرا اپنے ایک دوست کے پاس چلا گیا جو مجھ سے زیادہ سمجھ دار اور پڑھا لکھا ہے۔ اس کے پاس جاتے ہی میں نے اپنے دل کے سارے پھپولے پھوڑ ڈالے۔
میرا دوست، میری ساری باتیں مسکراتے اور خاموشی کے ساتھ سنتا رہا اور جب میں چپ ہوگیا تو وہ کہنے لگا تم نے بر ٹولٹ بریخت کی جنگ بلقان کہانی سنی ہے ،میرا جواب نہ میں سن کرکہنے لگا۔ ''میں چلومیں تمہیں وہ کہانی سناتا ہوں۔ ایک بوڑھا آدمی سفر پر روانہ ہوا، راستے میں اس پر چار نوجوانوں نے حملہ کیا اور اس کا سارا سامان لوٹ لیا غم زدہ بوڑھا آگے روانہ ہوا، تھوڑی دور جا کر اس نے گلی کے کونے پر حیرانی کے ساتھ دیکھا کہ ان چار لٹیروں میں سے تین اپنے ساتھی پر ٹوٹ پڑے اور اس سے اس کے حصے کا مال چھین لیا اور اسے مارکر ایک طرف گرا دیا۔
بوڑھے آدمی کو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی اور وہ تیز تیز چلتا ہوا قریبی شہر میں گیا اور فوراً عدالت جا پہنچا تاکہ اپنا مقد مہ دائرکرے۔ وہاں کیا دیکھتا ہے کہ چاروں نوجوان برابر برابرکھڑے ہیں اور اس کو مورد الزام ٹھہرارہے ہیں۔ واقعہ سن کر عقل مند اور انصاف پسند جج نے مندرجہ ذیل فیصلہ سنایا ''بوڑھے آدمی کو چاہیے کہ اپنی آخری چیز بھی ان نوجوانوں کو دے دے ورنہ یہ چاروں نوجوان بے اطمینانی کی وجہ سے ملک میں بدامنی اور انتشار پھیلائیں گے '' ۔
میرا دوست کہانی ختم کرکے میری طرف دیکھتے ہوئے زور زورسے ہنستے ہوئے کہنے لگا'' ہم سب کو اس قسم کی صورتحال کا سامنا ہے '' اوریہ کہتے کہتے وہ آسمان کی طرف دیکھنے لگا تو میں نے اس سے کہا کہ''میری آخری چیز بھی مجھ سے چھین لی گئی ہے'' میری بات سن کر اس نے انتہائی سپاٹ چہرے کے ساتھ مجھ سے کہا ''تیرے پاس اب لٹنے کے لیے باقی ہی کیابچا ہے، میں تیری نہیں بلکہ ملک کی بات کررہاہوں'' اور پھرگہر ی خاموشی چھا گئی اور میں اس کو آسمان کی طرف دیکھتا ہوا چھوڑکر اپنے گھر چلا آیا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن پھر میں نے اپنے آپ سے باتیں کرنا، شکوے کر نا ،کو سنا اور دوسروں کے پاس جاکر بیٹھا اور بات چیت کر نا بند کردیا کیونکہ اب نہ میرے پاس باتیں باقی بچی ہیں نہ شکوے اور نہ ہی چیزیں۔ میرے چاروں طرف صرف سناٹا ہی سناٹا ہے اور ان سناٹوں میں گھرا اکیلا میں ہوں۔
جاہل،گنوار، جٹ میں ہوں۔ نکما،کام چور، جھوٹا ،بیمار، منافق میں ہوں۔ تہذیب ،کلچر، تمدن سے ناواقف میں ہوں غرض ساری کی ساری برائیاں مجھ میں میرے خون کے ساتھ دوڑتی پھرتی ہیں، جتنا برا بھلا یہ سب لوگ مجھے کہہ سکتے ہیں، کہتے ہیں جتنی گالیاں یہ سب دے سکتے ہیں، مجھے دیتے ہیں اور میں بے شرموں ، بے حسوں کی طرح سب کچھ سنتا رہتا ہوں۔
کیا کروں، میں ہوں ہی بے شرم اور بے حس، لیکن جب میں روز ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر مختلف ٹی وی چینلز پر سیاست دانوں سے لے کر بیوروکریٹس کی ملین اور بلین روپوں کی کرپشن اور لوٹ مارکی کہانیاںسنتاہوں تو میری آنکھیں اور منہ پھٹے کے پھٹے رہ جاتے ہیں اور جب میں کسی پڑھے لکھے آدمی سے لوٹے گئے کروڑوں بلین اور ملین کے بارے میں سوال کرتا ہوں کہ یہ کتنے روپے بن گئے اورجب وہ مجھے بتاتا ہے توکئی دفعہ میں رقم کے بارے میں سن کر چکر آنے کی وجہ سے گرتے گرتے بال بال بچا ہوں۔
میں آج تک نہیں سمجھ پایا ہوں کہ یہ سب لٹیرے اتنے روپوں کا کیاکریں گے۔ میں نے تو آج تک اتنے روپے ایک ساتھ کبھی نہیں دیکھے، ہاں سو دو سو یا ہزار روپے تک تو مجھے دیکھنے یا رکھنے کو نصیب ہوئے ہیں اس سے زیادہ تو میرے بزرگوں نے کبھی ایک ساتھ نہ دیکھے اور نہ جیب میں رکھے۔ آخر ان کا پیٹ کیوں نہیں بھررہا ہے، آخر ان کا پیٹ کیوں نہیں پھٹ رہا ہے۔
کیا یہ روٹی کی جگہ روپے کھاتے ہیں،کیا یہ نرم گدوں کے بجائے روپوں پر سوتے ہیں۔کیا ان کے گھر اینٹ اور سیمنٹ کے بجائے روپوں پر تعمیر ہورہے ہیں آخر یہ اتنے روپوں کا کیا کررہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ انھیں اپنے ساتھ یہ روپے اوپر لے جانے کی خصو صی اجازت مل گئی ہے۔آیا یہ سب نارمل انسان ہیں بھی یا سب ذہنی مریض ہیں،آیا یہ انسان کہلانے کے لائق بھی ہیں یا نہیں اگر میں انسان ہوں تو یہ کونسی مخلوق ہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اپنا سر کہاں جا کر پھوڑوں کہاں جا کر ہنسوں یا روئوں۔
آخر مجھ سے کونسے ایسے گناہ ہوگئے ہیں جو یہ سب مجھ پر مسلط کردیے گئے ہیں۔ یااللہ یہ کیسی ناانصافی ہے کہ میں ایک ایک روٹی کو ترسوں اور یہ روپوں، ہیرے جواہرات کے محل تعمیرکرتے پھریں۔آخر یہ سب میر ے ہی نصیب میں کیوں لکھ دیے گئے ہیں۔ آخر یہ سب پاکستان میں ہی کیوں پیدا ہوئے ہیں، اگر ان کا امریکا ، یورپ ، برطانیہ میں جنم ہو تا اوریہ ہی کرتو ت ہوتے تو یہ کبھی کے جیل میں پڑے سڑرہے ہوتے، لیکن کیا کروں میرے نصیب ہی خراب ہیں جو یہ پاکستان میں آزاد دندناتے پھررہے ہیں۔ ایک روز میں غم وغصے سے بھرا اپنے ایک دوست کے پاس چلا گیا جو مجھ سے زیادہ سمجھ دار اور پڑھا لکھا ہے۔ اس کے پاس جاتے ہی میں نے اپنے دل کے سارے پھپولے پھوڑ ڈالے۔
میرا دوست، میری ساری باتیں مسکراتے اور خاموشی کے ساتھ سنتا رہا اور جب میں چپ ہوگیا تو وہ کہنے لگا تم نے بر ٹولٹ بریخت کی جنگ بلقان کہانی سنی ہے ،میرا جواب نہ میں سن کرکہنے لگا۔ ''میں چلومیں تمہیں وہ کہانی سناتا ہوں۔ ایک بوڑھا آدمی سفر پر روانہ ہوا، راستے میں اس پر چار نوجوانوں نے حملہ کیا اور اس کا سارا سامان لوٹ لیا غم زدہ بوڑھا آگے روانہ ہوا، تھوڑی دور جا کر اس نے گلی کے کونے پر حیرانی کے ساتھ دیکھا کہ ان چار لٹیروں میں سے تین اپنے ساتھی پر ٹوٹ پڑے اور اس سے اس کے حصے کا مال چھین لیا اور اسے مارکر ایک طرف گرا دیا۔
بوڑھے آدمی کو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی اور وہ تیز تیز چلتا ہوا قریبی شہر میں گیا اور فوراً عدالت جا پہنچا تاکہ اپنا مقد مہ دائرکرے۔ وہاں کیا دیکھتا ہے کہ چاروں نوجوان برابر برابرکھڑے ہیں اور اس کو مورد الزام ٹھہرارہے ہیں۔ واقعہ سن کر عقل مند اور انصاف پسند جج نے مندرجہ ذیل فیصلہ سنایا ''بوڑھے آدمی کو چاہیے کہ اپنی آخری چیز بھی ان نوجوانوں کو دے دے ورنہ یہ چاروں نوجوان بے اطمینانی کی وجہ سے ملک میں بدامنی اور انتشار پھیلائیں گے '' ۔
میرا دوست کہانی ختم کرکے میری طرف دیکھتے ہوئے زور زورسے ہنستے ہوئے کہنے لگا'' ہم سب کو اس قسم کی صورتحال کا سامنا ہے '' اوریہ کہتے کہتے وہ آسمان کی طرف دیکھنے لگا تو میں نے اس سے کہا کہ''میری آخری چیز بھی مجھ سے چھین لی گئی ہے'' میری بات سن کر اس نے انتہائی سپاٹ چہرے کے ساتھ مجھ سے کہا ''تیرے پاس اب لٹنے کے لیے باقی ہی کیابچا ہے، میں تیری نہیں بلکہ ملک کی بات کررہاہوں'' اور پھرگہر ی خاموشی چھا گئی اور میں اس کو آسمان کی طرف دیکھتا ہوا چھوڑکر اپنے گھر چلا آیا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن پھر میں نے اپنے آپ سے باتیں کرنا، شکوے کر نا ،کو سنا اور دوسروں کے پاس جاکر بیٹھا اور بات چیت کر نا بند کردیا کیونکہ اب نہ میرے پاس باتیں باقی بچی ہیں نہ شکوے اور نہ ہی چیزیں۔ میرے چاروں طرف صرف سناٹا ہی سناٹا ہے اور ان سناٹوں میں گھرا اکیلا میں ہوں۔