شوق کا سفر
اچھا بھلا گھر میں بیٹھا انسان کیونکر دنیا کی خاک چھانتا پھرے اور در درکی ٹھوکریں کھاتا رہے۔
یہ مقولہ صدیوں سے مشہور ہے کہ ''دنیا جائے دید ہے'' یعنی کہ دنیا دیکھنے کی جگہ ہے۔ خود خالق کائنات کا ارشاد عالی شان ہے کہ ''زمین میں گھومو پھرو'' تاہم دنیا گھومنے پھرنے کی سعادت کسی کسی کو ہی حاصل ہوتی ہے اس لیے بھی کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔
اچھا بھلا گھر میں بیٹھا انسان کیونکر دنیا کی خاک چھانتا پھرے اور در درکی ٹھوکریں کھاتا رہے۔ سفر چونکہ مصائب سے لبریز ہوتا ہے اس لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سفر اور سقر میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی سفر اختیار کرنے کا مطلب خود کو مشکل میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ سب کچھ تو ہے مگر سفرکے شوقین، سفرکی مصیبتوں سے گھبرانے کے بجائے لطف اندوز ہوتے ہیں اور مناظر قدرت کی دید سے اپنے دل و دماغ کو تر و تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ معلومات کا خزانہ حاصل کرتے ہیں۔
ہم ابن بطوطہ کو کیسے بھلا سکتے ہیں وہ مراکش میں واقع اپنے شہر طنجہ سے دنیا کی سیر کے لیے نکلا کہیں پیدل کہیں گدھے اور کہیں اونٹ پر سوار ہوکر شمالی افریقہ، عربستان اور ایران کی سیاحت کرتا ہوا ہندوستان آ پہنچا۔ وہ اس طرح سفر کرنے کے علاوہ کرتا بھی کیا اس لیے کہ اس وقت آج کی طرح جدید آمدورفت کے ذرایع تو تھے نہیں۔ اس نے اپنے جنون سفر کی تسکین کے لیے سفر کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور پھر اس کا سفر تاریخ کا انمول سفر بن گیا۔
یہ آج کل ''سفر نامہ ابن بطوطہ'' کے نام سے مشہور ہے۔ یہ سفر نامہ اپنی گوناگوں خوبیوں کی وجہ سے صدیاں گزرنے کے بعد بھی بے انتہا مقبول ہے ۔واضح ہو کہ جس شخص کے سر میں بھی خبط سفر سوار ہوتا ہے وہ عام انسانوں سے ہٹ کر ہی ہوتا ہے۔ حال ہی میں ایک نیا سفرنامہ ''شوق کا سفر'' کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔ یہ سفر نامہ ایک خاتون کی شوقِ آوارگی کا شاہکار ہے۔ سلیم عالم ان کا نام ہے۔ وہ اس فن میں اپنا مقام پیدا کرچکی ہیں۔
ان کے اس نئے سفرنامے سے پہلے تین سفرنامے شایع ہو چکے ہیں اور عوام میں پسندیدگی کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ وہ اس طرح ہیں (۱)قصہ شہر نوردی (۲)مرٹن ہماری بستی ہمارا گھر (۳)اک جہانِ تازہ۔ قصہ شہر نوردی میں موصوفہ نے یورپ کے کئی ممالک کے سفرکی داستان رقم کی ہے۔ دوسری کتاب ''مرٹن ہماری بستی، ہمارا گھر'' میں سلیم عالم نے برطانیہ کی سیر کا تفصیل سے حال لکھا ہے، تیسری کتاب جہانِ تازہ میں مالدیپ کے جزیروں کی انوکھی دنیا کو نہایت سرشاری کی ایک بھرپور کیفیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہاں کے ذرایع آمد و رفت انوکھے اور زندگی کا ڈھنگ عجوبہ ہے۔
بجلی، بارش ،کڑک، طوفانی نہریں، حصول مسرت کی دھن میں آنسوؤں کی لہریں بھی ہیں۔ اب ہم سلیم عالم کے نئے شاہکار سفرنامے ''شوق کا سفر'' کی جانب آتے ہیں۔ اس سفرنامے میں انھوں نے بڑی مہارت اور شوق سے غرناطہ، جبرالٹر، تھائی لینڈ بیلو، لبنان، اردن، روس، اور ایران کی سیر کا مفصل احوال درج کیا ہے جو قارئین کو ان ممالک کی مکمل معلومات بھی فراہم کرتا ہے۔ موصوفہ نے ان مقامات کے سفر کو جو عنوانات دیے ہیں وہ اس طرح ہیں۔ غرناطہ، ہسپانیہ سے ایک خط، جبل الطارق، جرأت کا مظاہرہ، تھائی لینڈ گولڈن ٹیمپل کی سیر، بروج اور برسلز۔ اب ہم لبنان چلتے ہیں، اردن، عجوبہ عالم پیٹرا کا گھر، پھر روس اور آخری باب میں سعدی حافظ کے ملک ایران کی سیر کا حال لکھا گیا ہے۔
مصنفہ مناظر فطرت کا گہرا اثر قبول کرتی ہیں۔ ان کے قلم میں وہ جادو ہے جو تحریر کو دلچسپ اور یادگار بنا دیتا ہے۔ سلیم عالم درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں۔ وہ ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ دنیا کو نہ صرف دیکھتی ہیں بلکہ ان پر نئی دنیائیں منکشف ہوتی رہتی ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کی تاریخ، جغرافیہ، شناخت اور تہذیب کو بھی بیان کرتی ہیں اور اس کامیابی اور خوبی سے کہ قاری ان کے ساتھ ساتھ نہ صرف خود سفر کو محسوس کرتا ہے بلکہ ان کے طلسمی بیان سے مسحور بھی ہوتا ہے۔ سلیم عالم نے اپنے سفر نامے ''شوق کا سفر'' میں سب سے پہلے غرناطہ کا ذکر کیا ہے یہ ماضی کے مسلم اندلس کا اہم شہر تھا۔
مسلمان سیاح غرناطہ کی سیر کرکے اپنے اسلاف کے کارناموں سے جذباتی ہوجاتے ہیں۔ الحمرا میں بھی مسلمانوں کو اپنا قابل فخر ماضی کی یاد ستانے لگتی ہے۔ اسپین کے بعد وہ جبرالٹر جس کا اصل نام جبل الطارق ہے کے سفر پر روانہ ہوتی ہیں۔ یہ جزیرہ مسلمانوں کے لیے بہادری کا بے مثل استعارہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہاں پہنچ کر مسلم سیاح خود کو طارق بن زیاد کے لشکر کا حصہ سمجھنے لگتا ہے اور دنیا پر پھر سے اسلام کا سکہ بٹھانے کے لیے بے چین ہو جاتا ہے۔ تھائی لینڈ کے سفر میں جو سکون ملتا ہے وہ کہیں اور نہیں۔ یہاں کا شہر بینکاک سیاحوں کی جنت ہے۔ سلیم عالم نے اس شہر کے تاریخی اور تفریحی مقامات کی خوب سیر کی۔ انھوں نے یہاں کے مشہور زمانہ گولڈن ٹیمپل کی خوب تصویرکشی کی ہے۔
لکھتی ہیں ''ہم ایمرلڈ بدھا کے مندر کے اندر پہنچے تو وہاں ایک گو نہ سکون اور خاموشی کا عالم تھا ہر طرف صندل کا خوشبودار دھواں چھایا ہوا تھا۔ بدھے کا چہرہ کہہ رہا تھا ''نفسانی خواہشات کی غلامی درست نہیں۔ اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اختیار کرو، اگر تمہیں مغفرت اور نجات حاصل کرنا ہو۔'' بیلجیم کے شہر بروج اور برسلز کی سیر کے بارے میں لکھتی ہیں ''ان شہروں کو دیکھے بغیر سیر مکمل نہیں ہوتی۔ یہ دونوں شہر بیلجیم کی انگوٹھی میں دو نگینوں کی طرح ہیں۔ بروج کی جھیل محبتوں کی امین کہلاتی ہے اس کے کناروں پر روٹھے ہوئے ملتے ہیں اور ایک ہو جاتے ہیں۔
لبنان کے بارے میں لکھتی ہیں یہ مصنف، شاعر اور عظیم مصور خلیل جبران کا دیس ہے۔ جن کی تحریر اظہارکی قوت اور سوچ کی شدت قاری کی توجہ کو ایک طاقتور مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتی ہے۔ لبنان کی تہذیب بہت قدیم ہے مگر خانہ جنگی سے پہلے یہ دنیا کی جدید تہذیب کا گہوارا بن گیا تھا۔ بیروت کی رنگینیاں پوری دنیا میں مشہور تھیں مگر اب یہ شہر اپنی دلکشی کھو چکا ہے۔
لبنان کے بعد اردن کا ذکر ہے۔ یہاں کے تاریخی شہر پیٹرا کی قدامت پر سیر حاصل لکھا گیا ہے۔ اس کے بعد روس کا تذکرہ ہے جس کے طول و عرض کی موصوفہ نے خوب سیر کی۔ ان کے مطابق روس اب پہلے جیسا نہیں رہا ہے ، یہاں کے عوام اب کھل کر سانس لیتے ہیں کیونکہ یہ اب ایک جمہوری ملک بن گیا ہے۔ ماسکو میں سلیم عالم نے کئی دن گزارے وہ وہاں کے کئی تاریخی شہروں کو دیکھنے گئیں اور ان کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔
آخر میں ایران کی سیرکا حال لکھا ہے۔ تہران امریکی پابندیوں کے باوجود ایک پر رونق شہر ہے وہاں کے عوام تہذیب یافتہ اور پرسکون نظر آئے۔ سلیم عالم نے وہاں کے کئی مقدس شہروں کی سیر کی اور مزارات پر حاضری دی۔ ''شوق کا سفر'' پڑھ کر قاری کے دل میں سیر جہاں کی امنگ جاگ اٹھتی ہے۔ پھر مصنفہ کے قلم میں ایسا جادو ہے کہ قاری ان کے سفر میں خود کو ان کے ساتھ محسوس کرتا ہے اور یہی کسی سفرنامے کی وہ خوبی ہے جو اسے امر بنا دیتی ہے اور قاری اسے بار بار پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اچھا بھلا گھر میں بیٹھا انسان کیونکر دنیا کی خاک چھانتا پھرے اور در درکی ٹھوکریں کھاتا رہے۔ سفر چونکہ مصائب سے لبریز ہوتا ہے اس لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سفر اور سقر میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی سفر اختیار کرنے کا مطلب خود کو مشکل میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ سب کچھ تو ہے مگر سفرکے شوقین، سفرکی مصیبتوں سے گھبرانے کے بجائے لطف اندوز ہوتے ہیں اور مناظر قدرت کی دید سے اپنے دل و دماغ کو تر و تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ معلومات کا خزانہ حاصل کرتے ہیں۔
ہم ابن بطوطہ کو کیسے بھلا سکتے ہیں وہ مراکش میں واقع اپنے شہر طنجہ سے دنیا کی سیر کے لیے نکلا کہیں پیدل کہیں گدھے اور کہیں اونٹ پر سوار ہوکر شمالی افریقہ، عربستان اور ایران کی سیاحت کرتا ہوا ہندوستان آ پہنچا۔ وہ اس طرح سفر کرنے کے علاوہ کرتا بھی کیا اس لیے کہ اس وقت آج کی طرح جدید آمدورفت کے ذرایع تو تھے نہیں۔ اس نے اپنے جنون سفر کی تسکین کے لیے سفر کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور پھر اس کا سفر تاریخ کا انمول سفر بن گیا۔
یہ آج کل ''سفر نامہ ابن بطوطہ'' کے نام سے مشہور ہے۔ یہ سفر نامہ اپنی گوناگوں خوبیوں کی وجہ سے صدیاں گزرنے کے بعد بھی بے انتہا مقبول ہے ۔واضح ہو کہ جس شخص کے سر میں بھی خبط سفر سوار ہوتا ہے وہ عام انسانوں سے ہٹ کر ہی ہوتا ہے۔ حال ہی میں ایک نیا سفرنامہ ''شوق کا سفر'' کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔ یہ سفر نامہ ایک خاتون کی شوقِ آوارگی کا شاہکار ہے۔ سلیم عالم ان کا نام ہے۔ وہ اس فن میں اپنا مقام پیدا کرچکی ہیں۔
ان کے اس نئے سفرنامے سے پہلے تین سفرنامے شایع ہو چکے ہیں اور عوام میں پسندیدگی کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ وہ اس طرح ہیں (۱)قصہ شہر نوردی (۲)مرٹن ہماری بستی ہمارا گھر (۳)اک جہانِ تازہ۔ قصہ شہر نوردی میں موصوفہ نے یورپ کے کئی ممالک کے سفرکی داستان رقم کی ہے۔ دوسری کتاب ''مرٹن ہماری بستی، ہمارا گھر'' میں سلیم عالم نے برطانیہ کی سیر کا تفصیل سے حال لکھا ہے، تیسری کتاب جہانِ تازہ میں مالدیپ کے جزیروں کی انوکھی دنیا کو نہایت سرشاری کی ایک بھرپور کیفیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہاں کے ذرایع آمد و رفت انوکھے اور زندگی کا ڈھنگ عجوبہ ہے۔
بجلی، بارش ،کڑک، طوفانی نہریں، حصول مسرت کی دھن میں آنسوؤں کی لہریں بھی ہیں۔ اب ہم سلیم عالم کے نئے شاہکار سفرنامے ''شوق کا سفر'' کی جانب آتے ہیں۔ اس سفرنامے میں انھوں نے بڑی مہارت اور شوق سے غرناطہ، جبرالٹر، تھائی لینڈ بیلو، لبنان، اردن، روس، اور ایران کی سیر کا مفصل احوال درج کیا ہے جو قارئین کو ان ممالک کی مکمل معلومات بھی فراہم کرتا ہے۔ موصوفہ نے ان مقامات کے سفر کو جو عنوانات دیے ہیں وہ اس طرح ہیں۔ غرناطہ، ہسپانیہ سے ایک خط، جبل الطارق، جرأت کا مظاہرہ، تھائی لینڈ گولڈن ٹیمپل کی سیر، بروج اور برسلز۔ اب ہم لبنان چلتے ہیں، اردن، عجوبہ عالم پیٹرا کا گھر، پھر روس اور آخری باب میں سعدی حافظ کے ملک ایران کی سیر کا حال لکھا گیا ہے۔
مصنفہ مناظر فطرت کا گہرا اثر قبول کرتی ہیں۔ ان کے قلم میں وہ جادو ہے جو تحریر کو دلچسپ اور یادگار بنا دیتا ہے۔ سلیم عالم درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں۔ وہ ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ دنیا کو نہ صرف دیکھتی ہیں بلکہ ان پر نئی دنیائیں منکشف ہوتی رہتی ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کی تاریخ، جغرافیہ، شناخت اور تہذیب کو بھی بیان کرتی ہیں اور اس کامیابی اور خوبی سے کہ قاری ان کے ساتھ ساتھ نہ صرف خود سفر کو محسوس کرتا ہے بلکہ ان کے طلسمی بیان سے مسحور بھی ہوتا ہے۔ سلیم عالم نے اپنے سفر نامے ''شوق کا سفر'' میں سب سے پہلے غرناطہ کا ذکر کیا ہے یہ ماضی کے مسلم اندلس کا اہم شہر تھا۔
مسلمان سیاح غرناطہ کی سیر کرکے اپنے اسلاف کے کارناموں سے جذباتی ہوجاتے ہیں۔ الحمرا میں بھی مسلمانوں کو اپنا قابل فخر ماضی کی یاد ستانے لگتی ہے۔ اسپین کے بعد وہ جبرالٹر جس کا اصل نام جبل الطارق ہے کے سفر پر روانہ ہوتی ہیں۔ یہ جزیرہ مسلمانوں کے لیے بہادری کا بے مثل استعارہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہاں پہنچ کر مسلم سیاح خود کو طارق بن زیاد کے لشکر کا حصہ سمجھنے لگتا ہے اور دنیا پر پھر سے اسلام کا سکہ بٹھانے کے لیے بے چین ہو جاتا ہے۔ تھائی لینڈ کے سفر میں جو سکون ملتا ہے وہ کہیں اور نہیں۔ یہاں کا شہر بینکاک سیاحوں کی جنت ہے۔ سلیم عالم نے اس شہر کے تاریخی اور تفریحی مقامات کی خوب سیر کی۔ انھوں نے یہاں کے مشہور زمانہ گولڈن ٹیمپل کی خوب تصویرکشی کی ہے۔
لکھتی ہیں ''ہم ایمرلڈ بدھا کے مندر کے اندر پہنچے تو وہاں ایک گو نہ سکون اور خاموشی کا عالم تھا ہر طرف صندل کا خوشبودار دھواں چھایا ہوا تھا۔ بدھے کا چہرہ کہہ رہا تھا ''نفسانی خواہشات کی غلامی درست نہیں۔ اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اختیار کرو، اگر تمہیں مغفرت اور نجات حاصل کرنا ہو۔'' بیلجیم کے شہر بروج اور برسلز کی سیر کے بارے میں لکھتی ہیں ''ان شہروں کو دیکھے بغیر سیر مکمل نہیں ہوتی۔ یہ دونوں شہر بیلجیم کی انگوٹھی میں دو نگینوں کی طرح ہیں۔ بروج کی جھیل محبتوں کی امین کہلاتی ہے اس کے کناروں پر روٹھے ہوئے ملتے ہیں اور ایک ہو جاتے ہیں۔
لبنان کے بارے میں لکھتی ہیں یہ مصنف، شاعر اور عظیم مصور خلیل جبران کا دیس ہے۔ جن کی تحریر اظہارکی قوت اور سوچ کی شدت قاری کی توجہ کو ایک طاقتور مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتی ہے۔ لبنان کی تہذیب بہت قدیم ہے مگر خانہ جنگی سے پہلے یہ دنیا کی جدید تہذیب کا گہوارا بن گیا تھا۔ بیروت کی رنگینیاں پوری دنیا میں مشہور تھیں مگر اب یہ شہر اپنی دلکشی کھو چکا ہے۔
لبنان کے بعد اردن کا ذکر ہے۔ یہاں کے تاریخی شہر پیٹرا کی قدامت پر سیر حاصل لکھا گیا ہے۔ اس کے بعد روس کا تذکرہ ہے جس کے طول و عرض کی موصوفہ نے خوب سیر کی۔ ان کے مطابق روس اب پہلے جیسا نہیں رہا ہے ، یہاں کے عوام اب کھل کر سانس لیتے ہیں کیونکہ یہ اب ایک جمہوری ملک بن گیا ہے۔ ماسکو میں سلیم عالم نے کئی دن گزارے وہ وہاں کے کئی تاریخی شہروں کو دیکھنے گئیں اور ان کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔
آخر میں ایران کی سیرکا حال لکھا ہے۔ تہران امریکی پابندیوں کے باوجود ایک پر رونق شہر ہے وہاں کے عوام تہذیب یافتہ اور پرسکون نظر آئے۔ سلیم عالم نے وہاں کے کئی مقدس شہروں کی سیر کی اور مزارات پر حاضری دی۔ ''شوق کا سفر'' پڑھ کر قاری کے دل میں سیر جہاں کی امنگ جاگ اٹھتی ہے۔ پھر مصنفہ کے قلم میں ایسا جادو ہے کہ قاری ان کے سفر میں خود کو ان کے ساتھ محسوس کرتا ہے اور یہی کسی سفرنامے کی وہ خوبی ہے جو اسے امر بنا دیتی ہے اور قاری اسے بار بار پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔