رابرٹ فسک اس کا قبیلہ قائم رہے گا
بمباری سے ہلاک ہونے والے بچے امریکا کے تمام اتحادیوں سے کہتے ہیں کہ ہمیں اسرائیل نہیں، آپ ہلاک کر رہے ہیں۔
40 کی دہائی میں الفریڈ ہچکاک نے جب فلم ''فارن کارسپونڈنٹ'' بنائی تو اس کے وہم گمان میں بھی نہ ہو گا کہ اس کی یہ فلم دنیا کو ایک بہت بڑا صحافی دے گی۔
رابرٹ ولیم فسک کے باپ نے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لیا تھا اور بچ کر آگیا تھا۔ جنگ سے واپس آنے کے بعد اس نے دنیا میں دل لگانا چاہا لیکن اس میں وہ ناکام ہوا۔ رابرٹ ولیم فسک اس کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس نے راتوں کو جب بیٹے کو جنگ کی کہانیاں سنائیں تو اس کا کہنا تھا کہ ''جنگ سے زیادہ تباہ و برباد کرنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی۔''
بیٹا بڑا ہو رہا تھا اور یہ سوچتا رہتا تھا کہ وہ جب پڑھ لکھ جائے گا تو بڑا ہو کر کیا بنے گا۔ باپ کی طرح اسے فوجی بننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، ابھی وہ اس ادھیڑ بن میں تھا کہ اس کے شہر میں الفرڈ ہچکاک کی فلم ''فارن کارسپانڈنٹ'' آئی اور وہ اسے دیکھنے گیا۔ اس فلم نے فسک کو اتنا متاثر کیا کہ اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ غیر ملکی نمایندہ بنے گا۔ اس وقت وہ صرف 12 برس کا تھا۔ اس کی زندگی کا ایک اہم واقعہ یہ تھا کہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر اس کے باپ کو حکم دیا گیا کہ وہ ایک سپاہی کو گولی مار دے۔ باپ نے اپنے افسر اعلیٰ کی یہ بات ماننے سے انکارکردیا جس کے نتیجے میں اسے فوج سے برخاست کر دیا گیا۔ رابرٹ فسک کا کہنا ہے کہ یہ اس کی زندگی کی شاندار بات تھی، جب اس نے اپنے جیسے ایک شخص کوگولی مارنے سے انکار کر دیا تھا۔
رابرٹ کی زندگی اس طرح کی باتیں کرتے اور سنتے گزری۔ ہچکاک کی فلم وہ دیکھ چکا تھا اور اس کا ہیرو جونی جونز اس کا آئیڈیل بن چکا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے چھوٹے موٹے اخباروں میں ملازمت کی، یہاں تک کہ وہ سنڈے ایکسپریس میں کالم لکھنے لگا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بلفاسٹ میں شورش اپنے عروج پر تھی۔ وہ ان اخبار نویسوں میں سے نہیں تھا جو صرف خبر دیتے ہیں۔ وہ کسی بھی خبر کی تہہ میں پہنچتا تھا اور ''اندرکی بات'' نکال لاتا تھا۔ اس نے پرتگال کی شورش پر لکھنے کے ساتھ ہی 1979 میں ہونے والے ''انقلاب ایران'' کے بارے میں متعدد کالم لکھے۔
امریکی اور دوسرے غیر ملکی شہری جس طرح ایران میں یرغمال بنے اور پھر وہاں سے نکلے، اس پر ایک فلم ''ایران ایئر فلائیٹ 655'' بن چکی ہے اور یہ ہمارے یہاں بھی دکھائی جا چکی ہے۔ 1976 میں وہ شرق اوسط کے خصوصی نمایندے کے طور پر تعینات ہوا اور 1989 میں وہ ''دی انڈیپنڈنٹ'' سے وابستہ ہو گیا۔ اس کی یہ وابستگی آخری سانس تک رہی۔ ان 30 برسوں کے دوران اس نے لبنان میں صابرہ اور شتیلا کا قتل عام دیکھا۔ وہ ان صحافیوں میں سے تھا جنھوں نے صابرہ کے مذبح خانے میں قدم رکھا اور بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کی لاشیں دیکھیں اور نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کے بھنبھوڑے ہوئے بدن دیکھے جن پر ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں مکھیاں بھنبھاتی تھیں اور بدبو ایسی تھی کہ انسان ہفتوں کچھ کھانے پینے کے قابل نہیں رہے۔
90 کی دہائی ختم ہوئی تو وہ برطانیہ کا سب سے زیادہ جانا پہچانا اور مشہور صحافی ہو چکا تھا۔ 1976 سے وہ بیروت میں رہا اور اس نے وہاں کی خانہ جنگی دیکھی۔ لبنان میں جو ناقابل یقین واقعات ہو رہے تھے اور جنھیں دیکھنے کے بعد انسان اور انسانیت پر سے یقین اٹھ جائے، فسک ایسے تمام واقعات کا چشم دید گواہ تھا۔ انگریزی دنیا میں اس کے کالموں کا انتظار کیا جاتا تھا۔ وہ ان صحافیوں میں سے نہیں تھا جو کسی محفوظ ہوٹل میں لیٹ کر مقامی اخبار نویسوں کی لائی ہوئی خبروں کا انتظار کرتے ہیں اور پھر ان میں مرچ مسالا لگا کر اور ان کی انگریزی درست کر کے اپنے نام سے بھیج دیتے ہیں۔ وہ ان میں سے تھا جن کے ہاتھ میں رائفل یا کلاشنکوف نہیں ہوتی لیکن جو اپنی قلم سے ہتھیار کا کام لیتے ہیں اور عین موقع پر موجود ہوتے ہیں۔
ان کے بھیجے ہوئے ڈسپیچ اسی لیے لوگوں کو بہت پسند آتے تھے اور وہ ان کا بے تابی سے انتظار کرتے تھے۔ ان ہی میں سے ایک میں بھی تھی۔ میں نے رابرٹ فسک کا کوئی ڈسپیچ نہیں چھوڑا۔ اس نے لبنان میں ہونے والی جنگ پر جو ڈسپیچ لکھے، اسے مرتب کرکے Pity the Naion کے عنوان سے 1990 میں ایک کتاب شایع کی۔ یہ عنوان اس نے لبنانی ادیب اور شاعر خلیل جبران کی ایک مشہور نثری نظم سے لیا تھا۔ ہمارے یہاں بھی اس کا پیپر بیک ایڈیشن خوب فروخت ہوا۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ قطار اندر قطار لاشے ہیں جن سے لہو بہہ رہا ہے اور جن کے لیے انتہائی غم و اندوہ محسوس کرتے ہوئے ہم بے بس ہیں۔ بیروت جس کے بارے میں فیضؔ صاحب نے لکھا تھا۔
بیروت بدیل باغ جناں
اور جہاں انھوں نے بمباری کے وہ دن گزارے تھے کہ سماعت طیاروں کی گھن گرج سے مجروح ہوتی تھی، کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ جاتے تھے اور دیواروں سے پلاسٹر گرتا رہتا تھا۔ یہ وہ شہر تھا جس کی آزادی اور سلامتی کے ہم سب نے خواب دیکھے تھے۔ اس شہر کے بارے میں اسامہ بن لادن کی تحریروں میں کئی جگہ رابرٹ فسک کا حوالہ ملتا ہے۔ اسامہ لکھتا ہے کہ مغربی مقتدرین کو رابرسٹ فسک کی تحریریں پڑھنی چاہیئں۔
رابرٹ فسک مغربی دنیا کے بہت سے لوگوں کے لیے ایک ناپسندیدہ شخص تھا۔ جب وہ پاکستان کے شہر کوئٹہ میں تھا اور سڑک پر چلنے والوں نے اسے پہچان کر زدوکوب کیا تو یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس کے بچانے والے اسے زخمی حالت میں اسپتال لے گئے۔ اس واقعے کے بارے میں رابرٹ فسک کا کہنا تھا کہ مجھے ان افغان مہاجرین سے کوئی شکایت نہیں جو مجھ پر حملہ آور ہوئے تھے ۔ اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو یہی کرتا۔ اس کی تمام ہمدردیاں ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو اپنے گھروں سے نکالے گئے اور جنھیں ایسی جنگوں میں گھسیٹ لیا گیا جو ان کی نہ تھیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے بڑوں اور بچوں کی لاشیں اٹھائیں، اپنے گھروں کو ملبے کا ڈھیر دیکھا اور جو در بہ در ہو گئے۔
تیس برس تک وہ مشرق وسطیٰ کے مختلف جنگ زدہ علاقوں میں ایک خانہ بدوش کی طرح پھرتا رہا۔ وہ ٹینکوں پر چڑھ جاتا اور میدان جنگ سے ہی اپنی خبریں بھیجتا۔ اس کا کہنا تھا کہ کسی بھی جنگ زدہ علاقے میں یہ غیر ملکی نامہ نگار کا فرض ہے کہ وہ غیر جانبدار رہے، کسی قسم کے تعصب کو دل میں جگہ نہ دے اور ستم سہنے والوں کا مذہب، مسلک، زبان اور نقطہ نظر کچھ بھی ہو، اگر وہ مظلوم ہیں تو ان کا ساتھ دے۔
اس نے ایک جگہ لکھا تھا کہ لبنان کے خلاف اسرائیل نے جس نوعیت کی جارحیت کی اس میں ہم مغربی ممالک بھی شامل ہیں۔ اس میں وہ ملک بھی شامل ہیں جو نائن الیون کے بعد امریکی صدر کی جنگی کار گزاریوں میں شریک تھے۔ وہ انھیں یقین دلا رہے تھے کہ ہم آپ کے اتحادی ہیں، ہم فرٹ لائن اسٹیٹ ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتا ہے۔
بمباری سے ہلاک ہونے والے بچے امریکا کے تمام اتحادیوں سے کہتے ہیں کہ ہمیں اسرائیل نہیں، آپ ہلاک کر رہے ہیں۔ ہمارا قاتل اسرائیل نہیں امریکا ہے، مغربی طاقتیں ہیں جو مظلوم کے نہیں، ظالم کے ساتھ ہیں۔
ایسی کڑوی باتیں لکھنے والا، مشرق وسطیٰ، افغانستان اور دوسرے کمزور ملکوں کے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہنے والا کہ آپ اپنے مظلوموں کے خلاف امریکا اور اس کے حلیفوں کا اس لیے ساتھ دیتے ہیں کہ آپ کا راج سنگھاسن ڈانواں ڈول نہ ہو۔ لیکن یاد رکھیں کہ آخری شکست آپ کی ہو گی۔
وہ بچہ 12 برس کا تھا جس نے ہچکاک کی فلم دیکھ کر فیصلہ کیا تھا کہ وہ غیر ملکی نامہ نگار بنے گا، اس نے خود سے کیا ہوا یہ وعدہ آخری سانس تک نبھایا۔ وہ چلا گیا ہے، ہم خواہش کرتے ہیں کہ اس جیسے چند دوسرے آ جائیں۔ اس کا قبیلہ قائم رہے اور اس کا قلم کسی اور کے ہاتھ میں ہو، وہ جو طاقتور ظالم کو ''ظالم'' لکھ سکے اور جو مظلوم کا ساتھ دے سکے۔
رابرٹ ولیم فسک کے باپ نے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لیا تھا اور بچ کر آگیا تھا۔ جنگ سے واپس آنے کے بعد اس نے دنیا میں دل لگانا چاہا لیکن اس میں وہ ناکام ہوا۔ رابرٹ ولیم فسک اس کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس نے راتوں کو جب بیٹے کو جنگ کی کہانیاں سنائیں تو اس کا کہنا تھا کہ ''جنگ سے زیادہ تباہ و برباد کرنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی۔''
بیٹا بڑا ہو رہا تھا اور یہ سوچتا رہتا تھا کہ وہ جب پڑھ لکھ جائے گا تو بڑا ہو کر کیا بنے گا۔ باپ کی طرح اسے فوجی بننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، ابھی وہ اس ادھیڑ بن میں تھا کہ اس کے شہر میں الفرڈ ہچکاک کی فلم ''فارن کارسپانڈنٹ'' آئی اور وہ اسے دیکھنے گیا۔ اس فلم نے فسک کو اتنا متاثر کیا کہ اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ غیر ملکی نمایندہ بنے گا۔ اس وقت وہ صرف 12 برس کا تھا۔ اس کی زندگی کا ایک اہم واقعہ یہ تھا کہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر اس کے باپ کو حکم دیا گیا کہ وہ ایک سپاہی کو گولی مار دے۔ باپ نے اپنے افسر اعلیٰ کی یہ بات ماننے سے انکارکردیا جس کے نتیجے میں اسے فوج سے برخاست کر دیا گیا۔ رابرٹ فسک کا کہنا ہے کہ یہ اس کی زندگی کی شاندار بات تھی، جب اس نے اپنے جیسے ایک شخص کوگولی مارنے سے انکار کر دیا تھا۔
رابرٹ کی زندگی اس طرح کی باتیں کرتے اور سنتے گزری۔ ہچکاک کی فلم وہ دیکھ چکا تھا اور اس کا ہیرو جونی جونز اس کا آئیڈیل بن چکا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے چھوٹے موٹے اخباروں میں ملازمت کی، یہاں تک کہ وہ سنڈے ایکسپریس میں کالم لکھنے لگا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بلفاسٹ میں شورش اپنے عروج پر تھی۔ وہ ان اخبار نویسوں میں سے نہیں تھا جو صرف خبر دیتے ہیں۔ وہ کسی بھی خبر کی تہہ میں پہنچتا تھا اور ''اندرکی بات'' نکال لاتا تھا۔ اس نے پرتگال کی شورش پر لکھنے کے ساتھ ہی 1979 میں ہونے والے ''انقلاب ایران'' کے بارے میں متعدد کالم لکھے۔
امریکی اور دوسرے غیر ملکی شہری جس طرح ایران میں یرغمال بنے اور پھر وہاں سے نکلے، اس پر ایک فلم ''ایران ایئر فلائیٹ 655'' بن چکی ہے اور یہ ہمارے یہاں بھی دکھائی جا چکی ہے۔ 1976 میں وہ شرق اوسط کے خصوصی نمایندے کے طور پر تعینات ہوا اور 1989 میں وہ ''دی انڈیپنڈنٹ'' سے وابستہ ہو گیا۔ اس کی یہ وابستگی آخری سانس تک رہی۔ ان 30 برسوں کے دوران اس نے لبنان میں صابرہ اور شتیلا کا قتل عام دیکھا۔ وہ ان صحافیوں میں سے تھا جنھوں نے صابرہ کے مذبح خانے میں قدم رکھا اور بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کی لاشیں دیکھیں اور نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کے بھنبھوڑے ہوئے بدن دیکھے جن پر ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں مکھیاں بھنبھاتی تھیں اور بدبو ایسی تھی کہ انسان ہفتوں کچھ کھانے پینے کے قابل نہیں رہے۔
90 کی دہائی ختم ہوئی تو وہ برطانیہ کا سب سے زیادہ جانا پہچانا اور مشہور صحافی ہو چکا تھا۔ 1976 سے وہ بیروت میں رہا اور اس نے وہاں کی خانہ جنگی دیکھی۔ لبنان میں جو ناقابل یقین واقعات ہو رہے تھے اور جنھیں دیکھنے کے بعد انسان اور انسانیت پر سے یقین اٹھ جائے، فسک ایسے تمام واقعات کا چشم دید گواہ تھا۔ انگریزی دنیا میں اس کے کالموں کا انتظار کیا جاتا تھا۔ وہ ان صحافیوں میں سے نہیں تھا جو کسی محفوظ ہوٹل میں لیٹ کر مقامی اخبار نویسوں کی لائی ہوئی خبروں کا انتظار کرتے ہیں اور پھر ان میں مرچ مسالا لگا کر اور ان کی انگریزی درست کر کے اپنے نام سے بھیج دیتے ہیں۔ وہ ان میں سے تھا جن کے ہاتھ میں رائفل یا کلاشنکوف نہیں ہوتی لیکن جو اپنی قلم سے ہتھیار کا کام لیتے ہیں اور عین موقع پر موجود ہوتے ہیں۔
ان کے بھیجے ہوئے ڈسپیچ اسی لیے لوگوں کو بہت پسند آتے تھے اور وہ ان کا بے تابی سے انتظار کرتے تھے۔ ان ہی میں سے ایک میں بھی تھی۔ میں نے رابرٹ فسک کا کوئی ڈسپیچ نہیں چھوڑا۔ اس نے لبنان میں ہونے والی جنگ پر جو ڈسپیچ لکھے، اسے مرتب کرکے Pity the Naion کے عنوان سے 1990 میں ایک کتاب شایع کی۔ یہ عنوان اس نے لبنانی ادیب اور شاعر خلیل جبران کی ایک مشہور نثری نظم سے لیا تھا۔ ہمارے یہاں بھی اس کا پیپر بیک ایڈیشن خوب فروخت ہوا۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ قطار اندر قطار لاشے ہیں جن سے لہو بہہ رہا ہے اور جن کے لیے انتہائی غم و اندوہ محسوس کرتے ہوئے ہم بے بس ہیں۔ بیروت جس کے بارے میں فیضؔ صاحب نے لکھا تھا۔
بیروت بدیل باغ جناں
اور جہاں انھوں نے بمباری کے وہ دن گزارے تھے کہ سماعت طیاروں کی گھن گرج سے مجروح ہوتی تھی، کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ جاتے تھے اور دیواروں سے پلاسٹر گرتا رہتا تھا۔ یہ وہ شہر تھا جس کی آزادی اور سلامتی کے ہم سب نے خواب دیکھے تھے۔ اس شہر کے بارے میں اسامہ بن لادن کی تحریروں میں کئی جگہ رابرٹ فسک کا حوالہ ملتا ہے۔ اسامہ لکھتا ہے کہ مغربی مقتدرین کو رابرسٹ فسک کی تحریریں پڑھنی چاہیئں۔
رابرٹ فسک مغربی دنیا کے بہت سے لوگوں کے لیے ایک ناپسندیدہ شخص تھا۔ جب وہ پاکستان کے شہر کوئٹہ میں تھا اور سڑک پر چلنے والوں نے اسے پہچان کر زدوکوب کیا تو یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس کے بچانے والے اسے زخمی حالت میں اسپتال لے گئے۔ اس واقعے کے بارے میں رابرٹ فسک کا کہنا تھا کہ مجھے ان افغان مہاجرین سے کوئی شکایت نہیں جو مجھ پر حملہ آور ہوئے تھے ۔ اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو یہی کرتا۔ اس کی تمام ہمدردیاں ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو اپنے گھروں سے نکالے گئے اور جنھیں ایسی جنگوں میں گھسیٹ لیا گیا جو ان کی نہ تھیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے بڑوں اور بچوں کی لاشیں اٹھائیں، اپنے گھروں کو ملبے کا ڈھیر دیکھا اور جو در بہ در ہو گئے۔
تیس برس تک وہ مشرق وسطیٰ کے مختلف جنگ زدہ علاقوں میں ایک خانہ بدوش کی طرح پھرتا رہا۔ وہ ٹینکوں پر چڑھ جاتا اور میدان جنگ سے ہی اپنی خبریں بھیجتا۔ اس کا کہنا تھا کہ کسی بھی جنگ زدہ علاقے میں یہ غیر ملکی نامہ نگار کا فرض ہے کہ وہ غیر جانبدار رہے، کسی قسم کے تعصب کو دل میں جگہ نہ دے اور ستم سہنے والوں کا مذہب، مسلک، زبان اور نقطہ نظر کچھ بھی ہو، اگر وہ مظلوم ہیں تو ان کا ساتھ دے۔
اس نے ایک جگہ لکھا تھا کہ لبنان کے خلاف اسرائیل نے جس نوعیت کی جارحیت کی اس میں ہم مغربی ممالک بھی شامل ہیں۔ اس میں وہ ملک بھی شامل ہیں جو نائن الیون کے بعد امریکی صدر کی جنگی کار گزاریوں میں شریک تھے۔ وہ انھیں یقین دلا رہے تھے کہ ہم آپ کے اتحادی ہیں، ہم فرٹ لائن اسٹیٹ ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتا ہے۔
بمباری سے ہلاک ہونے والے بچے امریکا کے تمام اتحادیوں سے کہتے ہیں کہ ہمیں اسرائیل نہیں، آپ ہلاک کر رہے ہیں۔ ہمارا قاتل اسرائیل نہیں امریکا ہے، مغربی طاقتیں ہیں جو مظلوم کے نہیں، ظالم کے ساتھ ہیں۔
ایسی کڑوی باتیں لکھنے والا، مشرق وسطیٰ، افغانستان اور دوسرے کمزور ملکوں کے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہنے والا کہ آپ اپنے مظلوموں کے خلاف امریکا اور اس کے حلیفوں کا اس لیے ساتھ دیتے ہیں کہ آپ کا راج سنگھاسن ڈانواں ڈول نہ ہو۔ لیکن یاد رکھیں کہ آخری شکست آپ کی ہو گی۔
وہ بچہ 12 برس کا تھا جس نے ہچکاک کی فلم دیکھ کر فیصلہ کیا تھا کہ وہ غیر ملکی نامہ نگار بنے گا، اس نے خود سے کیا ہوا یہ وعدہ آخری سانس تک نبھایا۔ وہ چلا گیا ہے، ہم خواہش کرتے ہیں کہ اس جیسے چند دوسرے آ جائیں۔ اس کا قبیلہ قائم رہے اور اس کا قلم کسی اور کے ہاتھ میں ہو، وہ جو طاقتور ظالم کو ''ظالم'' لکھ سکے اور جو مظلوم کا ساتھ دے سکے۔