فوجی قیادت کا نام لینے کی حمایت کرتا ہوں مولانا فضل الرحمان
وزیراعظم اور صدر کا نام لیا جاسکتا ہے تو کسی ادارے کے بندے کا نام کیوں نہیں؟ سربراہ پی ڈی ایم کی میڈیا سے گفتگو
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ میں فوجی قیادت کا نام لینے کی حمایت کرتا ہوں، جب وزیراعظم اور صدر کا نام لیا جا سکتا ہے تو کسی ادارے کے فرد کا نام کیوں نہیں لیا جاسکتا؟
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔ اس دوران پوچھا گیا کہ سوال ی ڈی ایم کے جلسوں میں فوجی قیادت کے نام لینے کے حوالے سے کیا بات ہوئی؟ تو مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کسی کا نام لینا یا نہ لینا کوئی مسئلہ نہیں، یہ مسئلہ صرف میڈیا نے بنایا ہوا ہے، میں فوجی قیادت کا نام لینے کی حمایت کرتا ہوں، وزیراعظم اور صدر کا نام لیا جاسکتا ہے تو کسی ادارے کے بندے کا نام کیوں نہیں؟ ہمارا ایشو نام لینا نہیں، ملک ک نظام ٹھیک کرنا ہے۔
یہ پڑھیے: جلسے میں فوجی قیادت کا نام لینا نواز شریف کا ذاتی فیصلہ تھا، بلاول بھٹو
انہوں نے بتایا کہ آج کے اجلاس میں پارٹی سربراہان اور ان کے نمائندے شریک ہوئے، معاشی بحران ملک کا سنگین مسئلہ ہے، عوام کا سکون اور عزت نفس چھین لیا گیا ہے، پی ڈی ایم کا اصل ہدف پاکستان میں حقیقی جمہوری نظام کی بحالی ہے، حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک میثاق طے کرنے پر اتفاق کیا ہے، تمام جماعتیں متفقہ میثاق کے لیے 13 نومبر کو اپنی تجاویز پیش کریں گی، 14 نومبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کا سربراہی اجلاس ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں مریم نواز اور ان کے شوہر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی مذمت کی گئی۔ آرمی چیف کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ تاحال نہ آنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس میں وزیرداخلہ کے بیان پر احتجاج کیا گیا۔ وزیر داخلہ نے اعتراف کیا کہ اے این پی کے رہنماء کیوں شہید کیے گئے ریاست کی سطح پر مسلم لیگ ن کو بھی دھمکی دی گئی، سیاست دانوں کو قتل کرنے والے دہشت گردوں کے پیچھے کون لوگ ہیں یہ واضح ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مخالفین کو عدالتوں میں گھسیٹا جارہا ہے اور اپنے کیسز التوا میں جارہے ہیں، عاصم سلیم باجوہ اور جہانگیر ترین کے خلاف الزمات پر خاموشی اختیار کی جارہی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ کے ریمارکس انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ اے پی سی کا اعلامیہ پی ڈی ایم کا چارٹر ہے، جلوسوں میں اسٹیبلشمنٹ کا نام لینا طے ہوا تاہم افراد یا اداروں کا نہیں، افراد کا نام لینا ہے تو اس کے لیے نئی اے پی سی بلانا پڑے گی۔
پی ڈی ایم کا اجلاس
قبل ازیں پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ کا مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں راجہ پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی، محمود خان اچکزئی، اختر مینگل، آفتاب شیرپاؤ، مولانا عبدالغفور حیدری، امیر حیدر ہوتی، میاں افتخار حسین، شاہ اویس نورانی، ساجد میر، حافط عبدالکریم اور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری شریک ہوئے۔
اجلاس میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں پی ڈی ایم کے جلسوں اور آئندہ کی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ علاوہ ازیں پی ڈی ایم کے متفقہ موقف اور بیانیہ کی تشکیل پر مشاورت ہوئی۔
اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں ہمارے پاس بہت سے آپشنز موجود تھے، اپنی پارٹی کے افکار و نظریات سے ذرا بلند ہوکر سوچنا ہوگا، ہماری تحریک کے نتیجے میں کوئی ردعمل آتا ہے تو کیا ہم نے کوئی حکمت عملی بنالی ہے جب کہ کیا ہمارے کارکن اور عوام تیار ہیں۔
ذرائع کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں اہم فیصلے ہوئے اور طے کیا گیا کہ اپوزیشن جماعتیں 22 نومبر کو پشاور،30 نومبر کو ملتان اور 13 دسمبر کو لاہور میں جلسہ کریں گی۔ شرکا نے آئی جی سندھ کے اغوا کی رپورٹ پبلک کرنے اور الیکشن کمیشن سے فارن فنڈنگ کیس بلا تعطل چلانے کا مطالبہ کیا۔
اجلاس میں حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے احتجاج کے مختلف آپشنز پر غور ہوئے، اجلاس میں پی ڈی ایم کے بیانیے سے متعلق پیپلز پارٹی کی قیادت کے بیانات پر بھی گفتگو ہوئی۔ آصف زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کا وہی موقف ہوگا جو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے طے کیا جائے گا۔ اجلاس میں حکومت مخالف تحریک کو مزید تیز کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے سربراہان کا 14 نومبرکو اجلاس بلانے پر اتفاق ہوا جس میں پی ڈی ایم کے متفقہ بیانیہ پرمشاورت ہوگی۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔ اس دوران پوچھا گیا کہ سوال ی ڈی ایم کے جلسوں میں فوجی قیادت کے نام لینے کے حوالے سے کیا بات ہوئی؟ تو مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کسی کا نام لینا یا نہ لینا کوئی مسئلہ نہیں، یہ مسئلہ صرف میڈیا نے بنایا ہوا ہے، میں فوجی قیادت کا نام لینے کی حمایت کرتا ہوں، وزیراعظم اور صدر کا نام لیا جاسکتا ہے تو کسی ادارے کے بندے کا نام کیوں نہیں؟ ہمارا ایشو نام لینا نہیں، ملک ک نظام ٹھیک کرنا ہے۔
یہ پڑھیے: جلسے میں فوجی قیادت کا نام لینا نواز شریف کا ذاتی فیصلہ تھا، بلاول بھٹو
انہوں نے بتایا کہ آج کے اجلاس میں پارٹی سربراہان اور ان کے نمائندے شریک ہوئے، معاشی بحران ملک کا سنگین مسئلہ ہے، عوام کا سکون اور عزت نفس چھین لیا گیا ہے، پی ڈی ایم کا اصل ہدف پاکستان میں حقیقی جمہوری نظام کی بحالی ہے، حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک میثاق طے کرنے پر اتفاق کیا ہے، تمام جماعتیں متفقہ میثاق کے لیے 13 نومبر کو اپنی تجاویز پیش کریں گی، 14 نومبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کا سربراہی اجلاس ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں مریم نواز اور ان کے شوہر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی مذمت کی گئی۔ آرمی چیف کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ تاحال نہ آنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس میں وزیرداخلہ کے بیان پر احتجاج کیا گیا۔ وزیر داخلہ نے اعتراف کیا کہ اے این پی کے رہنماء کیوں شہید کیے گئے ریاست کی سطح پر مسلم لیگ ن کو بھی دھمکی دی گئی، سیاست دانوں کو قتل کرنے والے دہشت گردوں کے پیچھے کون لوگ ہیں یہ واضح ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مخالفین کو عدالتوں میں گھسیٹا جارہا ہے اور اپنے کیسز التوا میں جارہے ہیں، عاصم سلیم باجوہ اور جہانگیر ترین کے خلاف الزمات پر خاموشی اختیار کی جارہی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ کے ریمارکس انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ اے پی سی کا اعلامیہ پی ڈی ایم کا چارٹر ہے، جلوسوں میں اسٹیبلشمنٹ کا نام لینا طے ہوا تاہم افراد یا اداروں کا نہیں، افراد کا نام لینا ہے تو اس کے لیے نئی اے پی سی بلانا پڑے گی۔
پی ڈی ایم کا اجلاس
قبل ازیں پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ کا مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں راجہ پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی، محمود خان اچکزئی، اختر مینگل، آفتاب شیرپاؤ، مولانا عبدالغفور حیدری، امیر حیدر ہوتی، میاں افتخار حسین، شاہ اویس نورانی، ساجد میر، حافط عبدالکریم اور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری شریک ہوئے۔
اجلاس میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں پی ڈی ایم کے جلسوں اور آئندہ کی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ علاوہ ازیں پی ڈی ایم کے متفقہ موقف اور بیانیہ کی تشکیل پر مشاورت ہوئی۔
اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں ہمارے پاس بہت سے آپشنز موجود تھے، اپنی پارٹی کے افکار و نظریات سے ذرا بلند ہوکر سوچنا ہوگا، ہماری تحریک کے نتیجے میں کوئی ردعمل آتا ہے تو کیا ہم نے کوئی حکمت عملی بنالی ہے جب کہ کیا ہمارے کارکن اور عوام تیار ہیں۔
ذرائع کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں اہم فیصلے ہوئے اور طے کیا گیا کہ اپوزیشن جماعتیں 22 نومبر کو پشاور،30 نومبر کو ملتان اور 13 دسمبر کو لاہور میں جلسہ کریں گی۔ شرکا نے آئی جی سندھ کے اغوا کی رپورٹ پبلک کرنے اور الیکشن کمیشن سے فارن فنڈنگ کیس بلا تعطل چلانے کا مطالبہ کیا۔
اجلاس میں حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے احتجاج کے مختلف آپشنز پر غور ہوئے، اجلاس میں پی ڈی ایم کے بیانیے سے متعلق پیپلز پارٹی کی قیادت کے بیانات پر بھی گفتگو ہوئی۔ آصف زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کا وہی موقف ہوگا جو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے طے کیا جائے گا۔ اجلاس میں حکومت مخالف تحریک کو مزید تیز کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے سربراہان کا 14 نومبرکو اجلاس بلانے پر اتفاق ہوا جس میں پی ڈی ایم کے متفقہ بیانیہ پرمشاورت ہوگی۔