نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبہ کپتان کا چھکا
حال ہی میں وزیر اعظم نے چھوٹی صنعتوں کے لیے بھی ایک پیکیج کا اعلان کیا ہے
گھر لفظ ذہن میں آتے ہی وجود میں تحفظ اور سکون کا احساس اُبھر آتا ہے ۔ یہ غاروں اور لکڑیوں و تیلوں کے ادوار سے عمارت سازی کے موجودہ جدید طرز تک انسان کی بنیادی ضروریات کی فہرست میں شامل رہا ہے ۔ عوام کو گھر کی سہولت کی فراہمی یقینی بنانا ریاست کی ذمے داری ہے۔
پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک میں دیگر اُمور کی طرح انسانی معیاری طرز زندگی کی اس بنیادی ضرورت کو ثانوی رکھا گیا ہے ۔ یوں تو ہمارے ملک میں 1952سے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے تحت ایسی کوششیں ہوتی آئی ہیں ، موجودہ حکومت نے غریب و متوسط طبقات کے اس بنیادی مسئلے کو اولیتی ترجیح بنایا اور ایک مربوط و مضبوط اداراتی ون ونڈو نظام قائم کرکے کم آمدنی والے غریب ، متوسط اور سفید پوش طبقات کے خوابوں کو تعبیری روپ بخشنے کی ایک مؤثر و مثبت کوشش کی ہے ۔ موجودہ حکومت نے اپنے منشور کے تحت کم آمدن والے طبقات کو پچاس لاکھ گھروں کی فراہمی کے لیے جامع کوششیں اور ٹھوس اقدامات کیے ہیں ۔
فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ اتھارٹی کو ذمے داری سونپی ہے اور مختلف اسکیموں کا آغاز کیا ہے ۔نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے تحت یہ اسکیم پہلے مرحلے میں 7اضلاع : اسلام آباد ، سکھر ، گلگت ، مظفر آباد ، کوئٹہ ، سوات ، فیصل آباد میں شروع کی گئی، جسے بعد میں پورے ملک تک بڑھایا جارہا ہے ۔ حکومت کا یہ نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبہ ملک و ملت کے لیے دوہرے فائدے کا باعث ثابت ہوگا۔ کیونکہ تعمیراتی شعبہ نہ صرف ملک کی معاشی اور صنعتی ترقی میں کردار ادا کرتا ہے بلکہ یہ محنت کش طبقے کے لیے روزگار کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہے ۔
شاید انھی وجوہات کے پیش نظر تعمیراتی شعبے کو حکومت کی جانب سے اولیت دی گئی ہے ۔حکومت نے اس کے لیے ایک بڑے پیکیج کا اعلان کیا ہے ۔ 30 ارب روپے بطور سبسڈی مختص کیے ہیں ۔ کم آمدنی والے طبقے کے لیے بنائے جانے والے ایک لاکھ گھروں پر حکومت فی گھر 3لاکھ روپے سبسڈی فراہم کرے گی ۔ دوسری جانب کم مارک اپ والی شرح کے ساتھ قرضوں کی فراہمی کو بھی اسکیم کا حصہ بنایا ہے ۔جس کے تحت پانچ مرلہ پر پانچ جب کہ 10مرلہ پر سات فیصد مارک اپ پر قرضوں کی سہولت بھی دی گئی ہے ۔
موجودہ حکومت نے اپنے دو سالوں کے دوران گھروں کی تعمیر کے لیے بینکوں سے قرضے حاصل کرنے میں آسانیاں فراہم کرنے کے لیے قانون سازی سمیت دیگر عملی اقدامات کیے ہیں ۔ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے ملکی بینکوں کو بھی اس اسکیم میں شامل کیا گیا ہے ، جس کے تحت بینکوں کی طرف سے 378 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی گئی ہے ۔اس ضمن میں بینکوںکی برانچز میں الگ ڈیسک بنائے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے صوبائی ٹیکسزکی شرح میں خاطر خواہ کمی کی گئی ہے ۔
کنسٹرکشن اور ہاؤسنگ منصوبوں کی ون ونڈو پورٹل کے ذریعے قلیل ترین وقت میں منظوری دی گئی ہے۔500 مربع گز کے مکان اور چار ہزار مربع فٹ کے فلیٹ کی پہلی بار فروخت پر کیپیٹل گین ٹیکس سے ایک بار استثنیٰ اور پلاٹس و بلڈنگز کی خریداری اور نئے تعمیراتی پروجیکٹس میں سرمایہ کاری پر آمدن کے ذرایع کی پوچھ گچھ سے استثنیٰ دیاگیا ہے ۔
غیر منقولہ جائیداد کی نیلامی پر ٹیکس 10فیصد سے کم کرکے 5%کردیا گیا ہے ۔حکومت نے عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف دینے کے لیے بلڈرز اور ڈویلپرز کے لیے فکسڈ ٹیکس کا نظام متعارف کرایا ہے ۔ تعمیراتی سامان اور سروسز کی خریداری پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی سے استثنیٰ کے ساتھ ساتھ کم قیمت پروجیکٹ کی صورت میں فکسڈ ٹیکس میں بھی 90% چھوٹ دی گئی ہے ۔ پلانٹ اور مشینری کی درآمد کے لیے تعمیراتی شعبہ کو سہولت دی گئی ہے ۔
حکومت نے 2019میں بارہ کہو پروجیکٹ کے گرین انکلیو 1- سمیت مختلف تعطل کا شکار منصوبوں کو بحال کیا اور درخواست گذاروں کو 3282 پلاٹ الاٹ کیے۔ اسی طرح اسکائی گارڈن پروجیکٹ کے تحت 5198 پلاٹ ، لائف اسٹائیل ریزیڈنسی اپارٹمنٹ G-13 اسلام آباد کے تحت 3240پلاٹس کی الاٹمنٹ سمیت اپارٹمنٹس کی تعمیر کے کئی منصوبوں پر بھی کام شروع کیا گیا ہے ۔
جن میں کشمیر ایوینیو G-13 اسلام آباد اسکیم کے تحت 7467 اپارٹمنٹ، چکلالہ ہائٹس راولپنڈی اسکیم کے 3432اپارٹمنٹ ، اسکائی لائین اسلام آباد اسکیم کے 3945 اپارٹمنٹس ، لائف اسٹائیل ریزیڈنسی اسکیم لاہور کے 1258اپارٹمنٹس کی تعمیر پر عملی اقدامات شروع کردیے گئے ہیں ۔ دوسری جانب صوبائی حکومتوں کے ساتھ باہمی اشتراکی بنیادوں پر آزاد جموں کشمیر میں 798 اپارٹمنٹس، ماہی گیروں کے لیے 16ہزار اپارٹمنٹس ، بلوچستان میں 18000 اپارٹمنٹس اور 12000پلاٹ اور کے پی کے میں 750اپارٹمنٹس پر بھی کام کررہی ہے ۔
مکانات کی تعمیر کے لیے فزیکل پلاننگ اور ہاؤسنگ پروگراموں کے لیے رواں مالی سال کے دوران 18ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ جب کہ نجی اراضی پر مشترکہ منصوبوں کے تحت بھی بڑے پیمانے پر کام کا آغاز ہوچکا ہے ۔ ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق صرف گزشتہ ماہ کے دوران 63 ارب روپے مالیت کے 127تعمیراتی منصوبے تمام مراحل طے کرکے حتمی رجسٹریشن کرواچکے ہیں اور 109ارب روپے کے 114 منصوبے عارضی رجسٹریشن کرواچکے ہیں۔ جن میں سے 61 کراچی ، 44لاہور ، 30اسلام آباد ، 19 راولپنڈی ، 10 فیصل آباد اور دیگر مختلف شہروں کے منصوبے شامل ہیں ۔ ہاؤسنگ اتھارٹی ملک میں سالانہ چار لاکھ ہاؤسنگ یونٹس کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد فراہم کرے گی ۔
اس پروگرام میں لوگوں کی دلچسپی اور جوش و خروش کی یہ صورتحال رہی کہ جب رجسٹریشن فارم نادرا کی ویب سائیٹ پر اپ لوڈ کیے گئے تو 176 ممالک سے بیک وقت 2 لاکھ لوگوں نے ویب سائٹ پر رسائی حاصل کی اور ایک سیکنڈ میں 10 ہزار ہٹس موصول ہوئیں۔ یوں پہلے ہی گھنٹے میں 62 ہزار فارم ڈاؤن لوڈ کیے گئے ۔ جس کی وجہ سے ویب سائٹ عارضی طور پر متاثر ہوئی ، جسے بعد میں توسیع کے بحال کیا گیا ۔
حال ہی میں وزیر اعظم نے چھوٹی صنعتوں کے لیے ایک پیکیج کا اعلان کیا ہے ۔ جس کے تحت یکم نومبر سے چھوٹی صنعتوں کو اضافی بجلی نصف نرخوں پر دستیابی کو یقینی بنایا جارہا ہے ۔ جس سے پیداوار اور روزگار کے مواقعے میں نمایاں اضافہ ہوگا ، جب کہ تعمیراتی شعبے کو بھی صنعت کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔
یہ دونوں بنیادی اصطلاحات خصوصاً نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم تعمیراتی صنعت کے ساتھ ساتھ دیگر 40 سے 72 الحاقی صنعتوں کی بحالی کا بھی ذریعہ ثابت ہوگی ۔ اس اسکیم کے تحت ایک لاکھ گھروں کی تعمیرکے مراحل کے دوران کم از کم 25 لاکھ لوگوں کو روزگار مہیا ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے ۔اور اگر یہ تخمینہ درست ہے تو اس اسکیم کی تکمیل پی ٹی آئی کے انتخابی منشور والے50لاکھ گھراور ایک کروڑ ملازمتوں کے وعدوں کی بھی تکمیل ممکن ہوتی نظر آرہی ہے ۔ اسی کو دور اندیشی اور درست حکمت عملی کہتے ہیں کہ درست وقت پر درست سمت کا تعین کرکے درست طریقے و رفتار سے آگے بڑھا جائے ۔