ماحولیاتی آلودگی کم کیجئے دل صحتمند رکھئے عالمی ماہرین کی اپیل
سائنسدانوں کی بین الاقوامی ٹیم نے کہا ہے کہ فضائی آلودگی دل کے امراض کی وجہ بن رہی ہے جس پر قابو پانا ضروری ہے
یورپی ہارٹ جرنل میں دنیا کے ممتاز سائنسدانوں کا ایک خط شائع ہوا ہے جس میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ اب عمل کا وقت آگیا ہے کہ ہر قسم کی آلودگی بشمول فضائی آلودگی کو کم کیا جائے تاکہ لوگوں کو قلب کو صحتمند رکھا جائے۔
جرمنی، فرانس، یورپ، برطانیہ اور دیگر ممالک کے سائنسدانوں نے اپنی رپورٹ میں ناقابلِ تردید شواہد پیش کئے ہیں اور کہا ہے کہ شور اور فضائی آلودگی پوری دنیا میں ہرجگہ موجود ہے اور دل کے لیے انتہائی مضر ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس سے قبل تحقیقات بتاتی ہیں کہ پوری دنیا میں فضائی آلودگی قبل ازوقت 90 لاکھ اموات کی وجہ بن رہی ہے جو تمباکو نوشی جیسی مضر ہے۔ اس کے علاوہ صوتی آلودگی اور شور سے دماغی و جسمانی امراض جنم لے رہے ہیں۔اس وقت دنیا کی 90 فیصد آبادی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تحت ماحولیاتی آلودگی میں رہ رہی ہے۔ فضا میں اس آلودگی کی شرح 10 مائیکروگرام فی مربع میٹر ہے جو صحت کے لیے خوفناک اور مضر ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپ میں میں یہ شرح 25 مائیکروگرام فی مربع میٹر ہے جو عالمی ادارے کی حدود سے بھی ڈھائی گنا زائد ہے۔ اگر اسے قابو کرلیا جائے تو صرف یورپ میں ہی ہر سال چار سے پانچ لاکھ افراد کو مرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ تاہم ترقی پذیراور غریب ممالک میں فضائی آلودگی نہایت گھمبیر اور تباہ کن ہے۔
اب یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ گندی ہوا میں سانس لینا ذیابیطس، فالج اور دیگر امراض کو بھی بڑھاتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے بڑی ذمے داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر ممکن طور پر قوانین کو سخت بنائیں تاکہ فضا میں آلودگی کی شرح کم کی جاسکے۔
اگر اس وقت برقی کاروں کو لایا جائے تب بھی بہت کم فرق ہوگا کیونکہ بڑی سواریاں پیٹرول اور ڈیزل پر ہی چل رہی ہیں۔ دوسری جانب ماہرین نے یہ زور بھی دیا ہے کہ غریب ممالک میں بڑی عوامی ٹرانسپورٹ اسکیموں کو متعارف کرایا جائے۔
جرمنی، فرانس، یورپ، برطانیہ اور دیگر ممالک کے سائنسدانوں نے اپنی رپورٹ میں ناقابلِ تردید شواہد پیش کئے ہیں اور کہا ہے کہ شور اور فضائی آلودگی پوری دنیا میں ہرجگہ موجود ہے اور دل کے لیے انتہائی مضر ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس سے قبل تحقیقات بتاتی ہیں کہ پوری دنیا میں فضائی آلودگی قبل ازوقت 90 لاکھ اموات کی وجہ بن رہی ہے جو تمباکو نوشی جیسی مضر ہے۔ اس کے علاوہ صوتی آلودگی اور شور سے دماغی و جسمانی امراض جنم لے رہے ہیں۔اس وقت دنیا کی 90 فیصد آبادی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تحت ماحولیاتی آلودگی میں رہ رہی ہے۔ فضا میں اس آلودگی کی شرح 10 مائیکروگرام فی مربع میٹر ہے جو صحت کے لیے خوفناک اور مضر ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپ میں میں یہ شرح 25 مائیکروگرام فی مربع میٹر ہے جو عالمی ادارے کی حدود سے بھی ڈھائی گنا زائد ہے۔ اگر اسے قابو کرلیا جائے تو صرف یورپ میں ہی ہر سال چار سے پانچ لاکھ افراد کو مرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ تاہم ترقی پذیراور غریب ممالک میں فضائی آلودگی نہایت گھمبیر اور تباہ کن ہے۔
اب یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ گندی ہوا میں سانس لینا ذیابیطس، فالج اور دیگر امراض کو بھی بڑھاتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے بڑی ذمے داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر ممکن طور پر قوانین کو سخت بنائیں تاکہ فضا میں آلودگی کی شرح کم کی جاسکے۔
اگر اس وقت برقی کاروں کو لایا جائے تب بھی بہت کم فرق ہوگا کیونکہ بڑی سواریاں پیٹرول اور ڈیزل پر ہی چل رہی ہیں۔ دوسری جانب ماہرین نے یہ زور بھی دیا ہے کہ غریب ممالک میں بڑی عوامی ٹرانسپورٹ اسکیموں کو متعارف کرایا جائے۔