چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے 9 طبی مراکزمیں بچوں کا علاج جاری

ڈاکٹر احسن ربانی بچوں کی ایمرجنسی سہولت بہتربنانے کیلیے کوشاں،ایمرجنسی ٹیلی ہیلتھ میڈیسن کے ذریعے مربوطکردی گئی


Kashif Hussain November 09, 2020
ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ایمرجنسی مراکزمیں بچوںکی نبض،دھڑکن،دوائوںاورصورتحال پرڈاکٹراورطبی عملہ نظررکھتاہے

تین ماہ کی بریال بچوں کی ایمرجنسی کے ایک چھوٹے سے بیڈ پر لیٹی ہوئی ہے، بریال پاکستان میں بچوں کی اموات کی ایک اہم وجہ نمونیا بگڑجانے کی وجہ سے کوئٹہ کے سول اسپتال میں قائم چائلڈ لائف ایمرجنسی میں لائی گئی ہے۔

ننھی بریال کا سینہ بری طرح پھول اور پچک رہا ہے اور پسلیوں کے ابھار سے ظاہر ہے کہ اسے سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے، دل کی دھڑکنوں کی رفتار، نبض کی پیمائش کے لیے مختلف تار بریال کے جسم سے چپکے ہوئے ہیں اور سانس کی ایک نالی کے ذریعے تنفس بہتر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پھول جیسی ننھی کلی نے اپنی نازک سی سفید انگلیوں سے قریب کھڑی ماں کی انگلیاں سختی سے تھام رکھی ہیں جس سے اس کی انگلیوں کی سفیدی اور بھی بڑھ گئی ہے بریال کی ماں بظاہر اپنی بچی کو بہلانے کے لیے اس کی انگلیوں میں دبی ہوئے اپنے ہاتھ کو ہلارہی ہے۔

یہ مناظر سول اسپتال کراچی میں چائلڈ فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والی ایمرجنسی اور ٹیلی ہیلتھ میڈیسن کے مرکزی کنٹرول روم سے براہ راست دیکھے جارہے ہیں کنٹرول روم کے پینل اور کیمروں کے ذریعے مریض بچوں کی نگرانی کرنے والا طبی عملہ واضح طور پر دیکھ سکتا ہے کہ بریال کی ماں کا ہاتھ اپنی بچی کی حالت دیکھ کر بری طرح کانپ رہا ہے لیکن اس کی پریشانی میں ڈوبی ہوئی آنکھوں میں امید کی روشنی بھی موجود ہے۔

سندھ اور بلوچستان کی ہزاروں ماؤں کی آنکھوں میں یہ امید جگائے رکھنے کے لیے چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر احسن ربانی اور ان کی ٹیم دن رات کوشاں ہے، ڈاکٹر احسن ربانی7سال سے چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے ساتھ وابستہ ہیں۔

سوشل مارکیٹنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والے ڈاکٹر احسن کثیر القومی کمپنیوں کے انتظامی عہدوں پر کام کرنے کا 10سال کا تجربہ رکھتے ہیں اور غیر منافع بخش تنظیموں میں کلیدی عہدوں پر فائض رہ چکے ہیں اور اب چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے سی ای او کی حیثیت سے ملک میں بچوں کے لیے ایمرجنسی کی سہولت کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

ڈاکٹر احسن ربانی اور مخیر اداروں اور شخصیات کے تعاون سے چائلڈ لائف فاؤنڈیشن نے پاکستان میں عالمی معیار کی بچوں کی ایمرجنسی سہولت قائم کی ہے جو سندھ کے 9 اور کوئٹہ کے ایک سرکاری ٹیچنگ اسپتال میں قائم ہے سندھ اور بلوچستان کے تمام سرکاری اسپتالوں میں بچوں کی ایمرجنسی کو ٹیلی ہیلتھ میڈیسن کے ذریعے مربوط کیا جارہا ہے۔

شدیدبیمار بچے ٹیچنگ اسپتالوں میں لائے جاتے ہیں

چائلڈ لائف فاؤنڈیشن نے پہلے میڈیکل کے ٹیچنگ اسپتالوں کا انتخاب کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ بیمار ترین بچے ٹیچنگ اسپتالوں میں لائے جاتے ہیں ان سرکاری ٹیچنگ اسپتالوں میں آنے والے بچے انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو مہنگا علاج برداشت نہیں کرسکتے پاکستان میں 43 سرکاری ٹیچنگ اسپتال ہیں۔

جن میں سے 9 سندھ اور ایک بلوچستان میں ہے باقی 33 پنجاب، آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا میں ہیں چائلڈ لائف فائونڈیشن کا مشن ان تمام ٹیچنگ اسپتالوں میں بچوں کی جدید ایمرجنسی قائم کرنا ہے، چائلڈ لائف فائونڈیشن ان 10مراکز میں سالانہ 10 لاکھ سے زائد بچوں کو ایمرجنسی کی سہولت فراہم کررہا ہے ، بچوں کی یہ ایمرجنسی کورونا کی وبا کے دوران بھی پوری طرح فعال رہی ۔

تھرپارکر میں بچوں کی اموات کے 2 بڑے عوامل ہیں

تھرپارکر میں بچوں کی اموات کی وجہ کے 2 بڑے عوامل ہیں ایک تو وہاں ضلعی اسپتال خراب حالت میں ہیں تھرپارکر کا رقبہ کراچی سے 5 گنا زیادہ ہے 61 بنیادی صحت کے مراکز اور 3 تعلقہ اسپتال ہونے کے باوجود مٹھی کے اسپتال میں 75فیصد بچے مٹھی کے باہر سے تھرپارکر کے دیگر علاقوں سے لائے جاتے ہیں جو زیادہ تر تشویشناک حالت میں ہوتے ہیں، بچوں کی اموات کی وجہ خراب طبی سہولتیں اوربچوںکاکم وزن پیداہوناہے۔

مٹھی میں جتنے بچوں کی اموات ہوئیں ان میں 75فیصد کا وزن کم ہوتا ہے،تھر کے بچوں کی جان بچانے کے لیے پورے صحت کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا ضلعی اور تعلقہ اسپتالوں کی حالت بہتر بنانا ہوگی ،یہ بات ڈاکٹر احسن ربانی نے گفتگو میں بتائی،انھوں نے کہا کہ تھر میں بچوں کی ہلاکت کی ایک دوسری بنیادی وجہ بچوں کا کم وزن (انڈر ویٹ) پیدا ہونا ہے جس کا ماں کی صحت سے براہ راست تعلق ہے، 17سال کی لڑکیاں بغیر کسی وقفے کے تیسرے بچے کو جنم دیں گی تو نہ بچے کی زندگی محفوظ ہوگی اور نہ ہی ماں کی۔

بچوں کی ایمرجنسی میں ٹیلی میڈیسن کارگرثابت ہوا
ا
بچوں کی ایمرجنسی کے لیے ٹیلی میڈیسن کا طریقہ انتہائی کارگر ثابت ہورہا ہے چائلڈ لائف فائونڈیشن نے 2017سے ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ضلعی اسپتالوں میں بھی ایمرجنسی میں بچوں کی نگہداشت میں معاونت کا آغاز کردیاکیونکہ کراچی میں ہی 30 فیصد سے زائد بچے دوسرے شہروں سے لائے جاتے ہیں۔

ان سیکنڈری اسپتالوں میں جدید کیمروں پر مشتمل کمیونی کیشن سسٹم نصب کیا گیا رواں سال کے آخر تک سندھ کے تمام سرکاری ضلعی اور تعلقہ اسپتالوں میں بچوں کی ایمرجنسی کو چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے ٹیلی میڈیسن نظام سے منسلک کردیا جائے گا۔

بچوں کی ایمرجنسی کے لیے 50فیصدوسائل سندھ حکومت مہیاکررہی ہے
ڈاکٹر احسن ربانی نے بتایاکہ بچوں کی ایمرجنسی چلانے کے لیے 50فیصد مالی وسائل سندھ حکومت ہی مہیا کرتی ہے، بلاول بھٹو زرداری نے کورنگی کے لیے ایمرجنسی سینٹر کی اراضی کی فراہمی ایک مہینے میں ممکن بنادی، آج تک سندھ حکومت نے کسی تعیناتی یا بھرتی کے لیے سفارش نہیں کی۔

5سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات8.9فیصد سے کم ہوکر7.4فیصدہوگئی
2019کے سروے میں پاکستان میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات 8.9 فیصد سے کم ہوکر 7.4فیصد کی سطح پر آگئی، ڈاکٹر احسن ربانی کہتے ہیں کہ اس کمی میں چائلڈ لائف فائونڈیشن کی ٹیم اور مخیر اداروں اور شخصیات کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے، ڈاکٹر احسن ربانی نے کہا کہ اسی عزم کے ساتھ مل جل کر کام کیا جائے تو وہ دن دور نہیں کہ ہم بچوں کی شرح اموات کو بنگلہ دیش اور انڈیا کے برابر 4 فیصد کے آس پاس لے آئیں تو سالانہ مزید 2 لاکھ بچوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جاسکے گا، تاہم اس کے لیے قومی سطح پر ایمرجنسی پروگرام کی ضرورت ہے۔

اسپتالوں کاانتظام چلانے کیلیےسسٹم اور تربیت ضروری ہے
سپر ڈاکٹر کا تصور کارگر نہیں ہوسکتا ڈاکٹروں کے ساتھ طبی عملہ نرسیں فارماسسٹ کا تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے سب مل کر کام کریں گے تو پوری سپلائی چین موثر ہوگی جس طرح کسی اچھی پراڈکٹ کے لیے پورا سسٹم موثر اور مربوط طریقے سے کام کرتا ہے اسی طرح اسپتالوں کا انتظام چلانے کے لیے بھی سسٹم بنانے اور ڈاکٹروں سمیت تمام عملے کو تربیت فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔

نمونیا سے روز250 بچے فوت ہوجاتے ہیں
پاکستان میں صرف نمونیا سے یومیہ 250 سے زائد بچے فوت ہوجاتے ہیں نمونیا ایک روز میں نہیں بگڑتا کم از کم ایک ہفتہ دس روز میں بچوں کی حالت بگڑتے بگڑتے اس سطح تک خراب ہوتی ہے کہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے ،نمونیا کی ابتدائی علامات پر ہی ان بچوں کو نزدیکی سرکاری اسپتال میں علاج کی سہولت مل جائے تو پاکستان میں بچوں کی شرح اموات کو خاطر خواہ حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

بچوں کے والدین کی دعائوں سے نظام آگے بڑھتا گیا،احسن ربانی
ڈاکٹر احسن ربانی کہتے ہیں کہ چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کا کوئی گیم پلان نہیں ہے دو 2010میں جب سیلاب آیا تو سول اسپتال میں بچوں کے وارڈ کی حالت بہت خراب تھی مخیر حضرات کو ساتھ ملاکر سول اسپتال سے کام شروع کیا پھر این آئی سی ایچ کے ٹرسٹیز نے بھی رجوع کیا اور سول کے بعد این آّئی سی ایچ میں بچوں کی ایمرجنسی قائم کی گئی یہ ماڈل خود بہ خود ضرورت کے مطابق evolve ہوتا گیا اور صحتیاب ہونے والے بچوں کے والدین کی دعائوں سے یہ نظام آگے بڑھتا گیا، اب یہی گیم پلان ہے کہ محنت کرتے رہیں اور آگے بڑھتے رہے۔

پاکستان میں بچوں کی اموات کی بڑی وجہ3امراض ہیں
پاکستان نوزائیدہ اور شیر خوار بچوں کی بلند شرح اموات کے حامل ملکوں میں شامل ہیں جہاں 5 سال سے کم عمر کے یومیہ ایک ہزار سے زائد بچے زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں، ڈاکٹر احسن ربانی نے بتایا کہ پاکستان میں بچوں کی اموات کی وجہ بننے والے تین امراض میں نظام تنفس کی خرابی، پھیپھڑوں کے امراض یا نمونیا سب سے اہم وجہ ہے اس کے علاوہ ہیضہ، پیٹ کے امراض اور اندرونی انفیکشن بھی بچوں کی اموات کی وجہ بننے والے امراض میں شامل ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں