کورونا وائرس کی دوسری لہراحتیاط نہ کی تو نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں
’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’کورونا وائرس کی دوسری لہر اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر منعقدہ مذاکرہ میں شرکاء کی گفتگو
پاکستان نے کورونا وائرس کی پہلی لہر پر موثر اقدامات سے قابو پایا جسے دنیا بھر میں سراہا گیا۔
اب اس وباء کی دوسری لہر آئی ہے جس میں کورونا متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ سرد موسم کی وجہ سے ماہرین صحت اس لہر کو خطرناک قرار دے رہے ہیں اور سختی سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ترغیب بھی دے رہے ہیں۔
اس اہم مسئلے کو دیکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''کورونا وائرس کی دوسری لہر اور ہماری ذمہ داریاں'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، سول سوسائٹی ، بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین صحت کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
مسرت جمشید چیمہ
(ترجمان پنجاب حکومت و چیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ پنجاب اسمبلی)
جب کورونا کی وباء آئی تو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہی دینا تھا۔ اس حوالے سے اپوزیشن ہم پر تنقید کرتی تھی اور جو ایس او پیز پر عمل نہیں کرنا چاہتا تھا وہ اس آڑ میں چھپتا تھا کہ ہمیں آگاہی نہیں دی گئی۔ کورونا کی دوسری لہر میں حکومت کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ اب آگاہی مسئلہ نہیں ہے اور لوگ اس وباء کے حوالے آگاہ ہیں۔
لہٰذا اب آگاہی پر اٹھنے والے اخراجات لوگوں کو سہولیات دینے میں خرچ ہوسکیں گے۔ کورونا کی وباء میں حکومت نے جس تیزی کے ساتھ کام کیا اس کے بعد اب ہمارے ہسپتالوں میں کپیسٹی ہے اور ایک پورا میکانزم موجود ہے جس کے تحت کورونا کے خلاف آگے بڑھا جاسکتا ہے لہٰذا اب لاک ڈاؤن نہیں بلکہ مائیکرو سمارٹ لاک ڈاؤن ہوگا اور موثر حکمت عملی کے ساتھ کورونا کے پھیلاؤ کو روکا جائے گا۔
سرد موسم کورونا کیلئے موزوں ہے۔ چین ، امریکا و دیگر ممالک میں سرد موسم میں کورنا آیا اور وہاں اموات زیادہ ہوئی، اب پاکستان میں بھی ویسا ہی موسم ہے جس کے باعث صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، اگر احتیاط نہ کی گئی تو خدانخواستہ حالات بگڑ سکتے ہیں لہٰذا لوگوں کو اس بیماری کے حوالے ڈرانا ہوگا تاکہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتیاط کریں۔
این سی او سی، ڈاکٹرز، میڈیا، و دیگر سٹیک ہولڈرز نے بہت اچھا کام کیا، یقین ہے کورونا کے فیز ٹو میں بھی اسی موثر انداز سے کامیابی حاصل کریں گے۔ ہم ماضی میں بھی لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھے مگر مجبوری میں یہ قدم اٹھانا پڑا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ملکی معیشت کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا۔ میرے نزدیک کاروبار کے اوقات کم کرنا حل نہیں ہے البتہ جہاں مائیکرو سمارٹ لاک ڈاؤن ہوگا وہاں تھوڑی سختی کرنا پڑے گی، جہاں کورونا کے کیسز ہوں گے وہاں پر بھی سختی کی جائے گی،باقی مقامات پر معالات معمول کے مطابق چلیں گے اور تمام کاروباری حضرات کو ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کا پابند کیا جائے گا اور جو خلاف ورزی کرے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی، اس حوالے سے انتظامیہ کو ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔
ماسک کے حوالے سے بھی سختی کی جارہی ہے، اس میں عام آدمی سے لے کر بڑی گاڑیوں میں گھومنے والوں تک، کسی کو خلاف ورزی پر کوئی رعایت نہیں دی جائے گی، سب کو سزا ملے گی۔ کورونا کی وباء میں سول سوسائٹی نے بھی بہت اچھا کردار ادا کیا، یہ بھی اب ہر طرح سے تیار ہیں اور پہلے سے زیادہ موثر انداز میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح اب ہمارے پاس والنٹیئر فورس بھی موجود ہے جس کے ذریعے ہمیںمقامی سطح پر کورونا سے نمٹنے اور لوگوں کی مدد کرنے میں آسانی ہوگی۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے اور ہماری زیادہ تر آبادی کیلئے دو وقت کی روٹی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
سادگی سے شادی ہمارا اسلامی طریقہ ہے اور ہمیں اسے اپنانا چاہیے۔ جہیز کے خلاف میری طرف سے پیش کیا گیا بل اسمبلی سے منظور ہوچکا ہے لہٰذا اب اس پر قانون سازی ہونے جارہی ہے۔ ہمیں جہیز اور شادی بیاہ پر دیگر فضول خرچیوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ کورونا اس حوالے سے ایک موقع ہے کہ ہم سادگی اپنائیں اور جہیز وغیرہ پر خرچ کیے جانے والی رقم اپنے بچوں، بچیوں کی تعلیم اور مستقبل پر لگائیں۔ ہم اس سوچ کو فروغ دیں گے اور جہیز کے حوالے سے قانون سازی کے بعد اس پر سختی سے عملدرآمد بھی کروایا جائے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم
(وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور)
کورونا کی دوسری لہر آ نہیں رہی، آچکی ہے لہٰذا اب پہلے سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ کورونا کی پہلے فیز میں اللہ تعالیٰ نے خاص کرم کیا۔ اس میں حکومتی پالیسی اور ''این سی او سی'' کا کردار انتہائی اہم تھا۔ کس وقت لاک ڈاؤن کرنا تھا اور کہاں کرنا تھا، کہاں نہیں کرنا تھا، کس وقت سمارٹ، مائیکرو اور الٹرا مائیکرو سمارٹ لاک ڈاؤن کرنا تھا، یہ تمام فیصلے انتہائی ذمہ داری اور دانشمندی کے ساتھ لیے گئے جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ان اقدامات کی وجہ سے ہم صرف خطے ہی نہیں بلکہ دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جن کا رسپانس اچھا تھا۔
ہماری بے شمار قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا لیکن اگر موثر حکمت عملی نہ ہوتی تو یہ نقصان ہمارے ہمسایہ ملک کی طرح زیادہ ہوسکتا تھا۔ اس بہتر پالیسی کا کریڈٹ یقیناحکومت کو جاتا ہے۔ کورونا کی دوسری لہر تشویشناک ہے اور اس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔
اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ لوگ انفرادی سطح پر اور عوامی سطح پر کتنی موثر حکمت عملی اپناتے ہیں۔ ہم جذباتی قوم ہیں اور جب کورونا کم ہوا تو سب نے سمجھا کہ کورونا ختم ہوگیا ہے اور جیت کو مناتے ہوئے ایس او پیز پر عملدرآمد چھوڑ دیا گیا۔ کورونا وائرس تقریباََ دو سال رہے گا۔ اس کا حل صرف ویکسین ہے، جب تک 30 سے 40 فیصد لوگوں کی ویکسی نیشن نہیں ہوتی، تب تک اس کا خطرہ رہے گا، اس وقت تک ہمیں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے۔ کورونا کے ساتھ رہنے کا طریقہ سب کو معلوم ہے، لوگوں کو صرف اپنے جذبات اور شوق کی قربانی دینی پڑے گی۔
کورونا سے بچاؤ کیلئے احتیاط کریں، ماسک پہنیں،ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ رکھیں اور اپنے فنکشنز کو محدود کریں۔شادیاں سادگی سے اسلامی طریقے سے کریں اور بفے کے بجائے لنچ باکس میں کھانا دیں کیونکہ کھانے کے وقت سب کا ماسک اتارنا بھی انتہائی خطرنا ک ہوسکتا ہے۔ اگر کسی تقریب میں 500افراد شریک ہیں تو اس میں لازمی 5-10 افراد وائرس کیرئر ہونگے لہٰذا ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ میں اور میرا خاندان اگر کسی تقریب میں جاتے ہیں تو اس کا اثر کیا ہوگا۔ ہمیں خود بھی بچنا ہے اور دوسروں کو بھی بچانا ہے، اس کے لیے ہمیں اپنی زندگیوں اور رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔
ریسٹورنٹس میں کرسیاں، میزیں کم ، فاصلہ زیادہ رکھنا چاہیے اور ''ٹیک آوے'' پر انحصار کرنا چاہیے۔ اس طرح ریسٹورنٹ چلتے رہیں گے اور بند بھی نہیں ہوں گے۔ تعلیم پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا، اسے روکنے سے معاشرہ پیچھے چلا جاتا ہے۔ ہماری یونیورسٹی ورچوئل چل رہی ہے اور ہماری کلاسز بھی آن لائن ہورہی ہیں۔
میڈیکل کی تعلیم بہت مشکل ہے اور طلبہ کو ہسپتال میں تربیت دینا لازمی ہے مگر ہم حالات کے پیش نظر آن لائن کر رہے ہیں اور جب معمول پر آئیں گے تو یہ سب کام کروا دیں گے۔ کورونا سے بچاؤ کا سب سے موثر ہتھیار ماسک ہے۔ اگر دونوں نے ماسک نہیں پہنا اورکسی ایک کو کورونا ہے تو منتقلی کے امکانات 75 سے 80 فیصد ہیں۔ اگر کسی ایک نے ماسک پہنا ہے تو 50فیصد اور اگر دونوں نے پہنا ہے تو اس کی منتقلی کے امکانات 10 فیصد رہ جاتے ہیں۔
ماسک کے بعد ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ، ہاتھ دھونا اورصفائی ستھرائی کا خیال رکھنا، احتیاطی تدابیر میں شامل ہیں۔ بہتر ہے کہ صابن سے ہاتھ دھوئیں کیونکہ الکوحل والے سینی ٹائزر کے زیادہ استعمال سے آنکھوں کی بینائی متاثر ہونے سمیت و دیگر مسائل ہوسکتے ہیں۔ سگریٹ نوشی کرنے والے شخص میں وائرس چلا جائے تو اس میں عام آدمی کی نسبت موت کا خطرہ چار گنا زیادہ ہوتا ہے۔
اگر آپ سگریٹ پیتے ہیں تو اپنی زندگی کی خاطر اسے چھوڑ دیں۔ اسی طرح بلڈ پریشر، شوگر و دیگر بیماریوں کے مریضوں کو بھی اپنی صحت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، اگر بلڈ پریشر، شوگر کنٹرول رہے گا تو جسم کورونا کے ساتھ بہتر طریقے سے نمٹ سکے گا۔ سب کو وٹامن ڈی کا ٹیسٹ کروانا چاہیے اور اس کی کمی کو فوری پورا کرنا چاہیے۔
اس سے بہتر نتائج آتے ہیں۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے کورونا وائرس کے دوران کیے جانے والے اقدامات پر 450 صفحات پر مشتمل سپلیمنٹ شائع کیا ہے۔ ہمارے ادارے نے کورونا کی وباء میں 57 مختلف اقدامات کیے، 18 کروڑ روپے کی رقم سے مفت ماسک، سینی ٹائزر، پی پی ای کٹس و دیگر سہولیات فراہم کی ۔ ہم نے عالمی اداروں اور یونیورسٹیوں کے ساتھ مل کر تحقیقات بھی کی اور دنیا کی سب سے بڑی پروٹیکٹ سٹڈی کی جس میں 9 ہزار مریضوں پر مختلف ادویات ٹیسٹ کی گئی۔
ان اقدامات کے بعد سے اب ہمارے پاس ہر قسم کی صلاحیت موجود ہے اور ہم کورونا کی دوسری لہر میں مزید بہتر کام کرنے کیلئے تیار ہیں اور کر بھی رہے ہیں۔ ہماری یونیورسٹی پاکستان کی واحد درسگاہ ہے جو ویکسینیشن پروگرام کر رہی ہے۔ ہم باہر سے ویکسین نہیں لا رہے بلکہ یہاں ڈویلپ کر رہے ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس تین مختلف ویکسین موجودہیں جو ہزاروں لوگوں کو مفت لگائی جاچکی ہیں۔ ہم ویکسین کا کامیاب ٹرائل کر رہے ہیں جو آخری مراحل میں ہے، اس کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں لہٰذا جلد اسے مارکیٹ میں پیش کریں گے۔ کورونا کے ہیروز کیلئے گورنر ہاؤس میں خصوصی دیوار بنائی گئی جہاں کورونا کی وباء میں اچھا کام کرنے والوں کے نام درج ہیں، ان میںہمارے ادارے کے لوگوں کے نام سرفہرست ہیں ۔
صدر پاکستان نے بھی کورونا کے ہیروز میں ایوارڈز تقسیم کیے جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ یقین ہے کورونا کی دوسری لہر میں سب اسی جوش و جذبے اور لگن کے ساتھ کام کریں گے۔ اللہ کے کرم اور حکومتی اقدامات کے بعد، کورونا کی پہلی لہر میں کامیابی کی وجہ موسمیاتی تبدیلی اور ہماری عادات ہیں۔
ہم ہلال کھاتے ہیں، دن میں 5 مرتبہ وضو کرتے ہیں اور صفائی ہمارا نصف ایمان ہے جو کورونا کے پھیلاؤ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ سردیوں میں شرح اموات زیادہ ہوسکتی ہے، بڑوں اور بچوں پر خصوصی توجہ دیں اور خود بھی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔حکومت اگر لاک ڈاؤن نہیں کر رہی تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ خود کو لاک نہ کریں، بلاوجہ باہر نہ نکلیں اور جسمانی دوری اختیار کریں۔
راجہ حسن اختر
(نمائندہ بزنس کمیونٹی )
کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت متاثر ہوئی۔ بڑی شپنگ کمپنیاں، ایئر لائنز بند ہوگئی۔ بے شمار ممالک کی معاشی حالت اتنی خراب ہوئی کہ انہیں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے پاس جانا پڑا۔ یہ اللہ کاخاص فضل ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ اس میں یقینا حکومت، ادارے، بزنس کمیونٹی، ٹریڈر، دکاندار، سول سوسائٹی، میڈیا سب نے اہم کردار ادا کیا۔ لوگوں کو اس وباء سے نمٹنے کیلئے آگاہی دی گئی۔ ابتداء میں ہمیں مسائل درپیش ہوئے مگر جیسے جیسے آگاہی ملی معاملات بہتر ہوئے اور اب ہر دوکان کے باہر کورونا کے حوالے سے احتیاتی تدابیر کا نوٹس لگا ہے اور ماسک پہننے کی تلقین بھی کی جارہی ہے بلکہ لوگوں کو خود مفت ماسک بھی دیے جارہے ہیں اور استعمال کیلئے وہاں سینی ٹائزر بھی موجود ہے۔
حکومت، اداروں، بزنس کمیونٹی، سول سوسائٹی، عوام و دیگر سٹیک ہولڈرز نے کورونا کے پہلے فیز میں انتہائی مثبت کردار ادا کیا جس کا فائدہ ہوا۔ امید ہے کہ کورونا کی دوسری لہر میں بھی معاملات بہتری کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ کورونا کے منفی اثرات کی بات کی جائے تو اس کے پہلے فیز میں کاروبار شدید متاثر ہوا۔ گرے لسٹ میں ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹ پہلے ہی متاثر تھی، کورونا نے مزید نقصان کیا۔ ایکسپورٹ آرڈر منسوخ ہوئے، انڈسٹری بند ہوگئی ، دیہاڑی دار طبقہ بے روزگار ہوا اور خیرات مانگنے پر مجبور ہوگیا۔
بعض فیکٹری مالکان نے اپنے ملازمین کو تنخواہ نہیں دی جس سے شدید مسائل پیدا ہوئے۔ اس مرتبہ ہم نے پہلے ہی ایسی صنعتوں کے مالکان کے ساتھ بات چیت کر لی ہے کہ اگر خدانخواستہ کورونا کے دوسرے فیز میں حالات خراب ہوئے تو مزدور کو اس کی تنخواہ لازمی ملے گی۔ حکومت سے میری گزارش ہے کہ لاک ڈاؤن کی طرف نہ جائے اورنہ ہی کاروبار کے اوقات کم کیے جائیں بلکہ اپوزیشن، سول سوسائٹی، بزنس کمیونٹی سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کورونا سے نمٹنے کی بہتر پالیسی بنائی جائے تاکہ ملکی معیشت کو سنبھالا مل سکے۔
موجودہ حالات میں حکومت کو انڈسٹری، ٹریڈرز اور دکانداروں کو سہولت فراہم کتنی چاہیے تاکہ ملکی معیشت کا پہیہ چلے اور مسائل کم ہوں۔ کورونا کی پہلی لہر میں مکمل لاک ڈاؤن کے بعد جب مارکیٹ کھلی تو عوام نے اپنی ضروریات زندگی کیلئے بازاروں اور مارکیٹوں کا رخ کیا اور انہیں معلوم نہیں تھا کہ آگے کیا صورتحال ہوگی مگر اب حالات مختلف ہیں۔ لوگوں کو علم ہے کہ کورونا کیا ہے اور احتیاطی تدابیر کیا ہیںاور وہ اس سے بہتر طریقے سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں۔
حکومت نے بجلی کے حوالے سے اندسٹری کو جو ریلیف دیا ہے یہ خوش آئند ہے تاہم یہ صرف اعلان تک نہیں رہنا چاہیے بلکہ صحیح معنوں میں اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ کورونا وائرس سے بچاؤکیلئے احتیاط ضروری ہے۔ حکومت اس حوالے سے جو بھی ایس او پیز بنائے گی، بزنس کمیونٹی وسیع تر قومی مفاد میں حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔
ہمیں تعاون کا ایک ایسا لائحہ عمل بنانا چاہیے کہ نہ کاروبار بند ہو، نہ معیشت کا پہیہ جام ہو اور نہ ہی غریب آدمی روٹی کیلئے دربدر پھرے۔ امید ہے کہ جس طرح ہم نے پہلے فیز میں کورونا پر قابو پایا، اب بھی اسی طریقے سے اس پر قابو پالیں گے۔ کورونا کے حوالے سے ڈاکٹرز کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ان کے بغیر اس پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔
شاہنواز خان
(نمائندہ سول سوسائٹی )
جب کورونا وائرس کی وباء آئی تو سول سوسائٹی نے اس نئے وائرس کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دینے پر کام کیا ۔ اس حوالے سے بڑے پیمانے پر ہاتھ دھونے، ماسک پہننے اور دیگر احتیاطی تدابیر کے حوالے سے لوگوں کو آگہی دی گئی۔ یہ کام صرف شہروں ہی نہیں بلکہ دور دراز علاقوں اور دیہاتوں میں بھی کیا گیا جس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔
میڈیا، سوشل میڈیا اور گلی محلوں میں آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں مفت ماسک و سینی ٹائزر بھی تقسیم کیے گئے۔حکومتی سطح کی بات کریں تو گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے ''پنجاب ڈویلپمنٹ نیٹ ورک'' بنایا، سول سوسائٹی کے اداروں کو اکٹھا کیا تاکہ امدادی کاموں کا دائرہ کار بڑھایا جاسکے۔
اس حوالے سے ایک سسٹم بنایا گیا جس میں امداد ملنے والوں کا ڈیٹا موجود تھا اور اس نیٹ ورک میں موجود ادارے کسی بھی شخص کو مدد دینے سے پہلے اس کا شناختی کارڈ نمبر لکھ کر تفصیل چیک کرلیتے تھے کہ اس شخص کو پہلے امداد ملی ہے یا نہیں۔ گورنر پنجاب نے یہ اعلان کیا تھا کہ کورونا کے دوران خدمات دینے والوں کے لیے ایک دیوار بنائی جائے گی جس پر ان کے نام لکھے جائیں گے ۔ حال ہی میں اس کا افتتاح کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ صدر پاکستان گورنر ہاؤس تشریف لائے اور کورونا کے ہیروز میں ایوارڈز تقسیم کیے۔
ہمارے ادارے نے تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور تمام پناہ گاہوں میں ''ہینڈ واشنگ سٹیشن'' لگائے گئے۔ ہم نے نشتر ہسپتال ملتان میں 32 بیڈز پر مشتمل آئی سی یو -ایچ ڈی یو بنایا اور اس وقت نشتر ہسپتال کا آئی سی یو سب سے بڑا ہے۔جس سے جنوبی پنجاب سمیت سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کو فائدہ ہوا۔
پوری قوم نے انتہائی ذمہ داری اور خدمت کے جذبے کے ساتھ کورونا وائرس کی پہلی لہر پر موثر انداز میں قابو پایا، اب اس کی دوسری لہر ہے لہٰذا ہمیں ایک بارپھر اسی جذبے کے ساتھ یکجان ہوکر کورونا کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ لوگوں میں کورونا کا خوف ختم ہوگیا اور اب وہ بالکل احتیاط نہیں کر رہے۔
اگر ہم نے لاپرواہی برتی تو خدانخواستہ حالات خطرناک ہوسکتے ہیں۔ پاکستان غریب ملک ہے ، ہم لاک ڈاؤن کی طرف بھی نہیں جاسکتے لہٰذا ہمیں کورونا کے ساتھ جینے کے رویے پیدا کرنا ہوں گے۔ ماسک لازمی لگائیں اور سینی ٹائزر ساتھ رکھیں۔ سماجی اداروں، مخیر حضرات اور بزنس کمیونٹی کو چاہیے کہ لوگوں میں مفت ماسک تقسیم کریں۔
اب اس وباء کی دوسری لہر آئی ہے جس میں کورونا متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ سرد موسم کی وجہ سے ماہرین صحت اس لہر کو خطرناک قرار دے رہے ہیں اور سختی سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ترغیب بھی دے رہے ہیں۔
اس اہم مسئلے کو دیکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''کورونا وائرس کی دوسری لہر اور ہماری ذمہ داریاں'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، سول سوسائٹی ، بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین صحت کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
مسرت جمشید چیمہ
(ترجمان پنجاب حکومت و چیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ پنجاب اسمبلی)
جب کورونا کی وباء آئی تو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہی دینا تھا۔ اس حوالے سے اپوزیشن ہم پر تنقید کرتی تھی اور جو ایس او پیز پر عمل نہیں کرنا چاہتا تھا وہ اس آڑ میں چھپتا تھا کہ ہمیں آگاہی نہیں دی گئی۔ کورونا کی دوسری لہر میں حکومت کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ اب آگاہی مسئلہ نہیں ہے اور لوگ اس وباء کے حوالے آگاہ ہیں۔
لہٰذا اب آگاہی پر اٹھنے والے اخراجات لوگوں کو سہولیات دینے میں خرچ ہوسکیں گے۔ کورونا کی وباء میں حکومت نے جس تیزی کے ساتھ کام کیا اس کے بعد اب ہمارے ہسپتالوں میں کپیسٹی ہے اور ایک پورا میکانزم موجود ہے جس کے تحت کورونا کے خلاف آگے بڑھا جاسکتا ہے لہٰذا اب لاک ڈاؤن نہیں بلکہ مائیکرو سمارٹ لاک ڈاؤن ہوگا اور موثر حکمت عملی کے ساتھ کورونا کے پھیلاؤ کو روکا جائے گا۔
سرد موسم کورونا کیلئے موزوں ہے۔ چین ، امریکا و دیگر ممالک میں سرد موسم میں کورنا آیا اور وہاں اموات زیادہ ہوئی، اب پاکستان میں بھی ویسا ہی موسم ہے جس کے باعث صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، اگر احتیاط نہ کی گئی تو خدانخواستہ حالات بگڑ سکتے ہیں لہٰذا لوگوں کو اس بیماری کے حوالے ڈرانا ہوگا تاکہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتیاط کریں۔
این سی او سی، ڈاکٹرز، میڈیا، و دیگر سٹیک ہولڈرز نے بہت اچھا کام کیا، یقین ہے کورونا کے فیز ٹو میں بھی اسی موثر انداز سے کامیابی حاصل کریں گے۔ ہم ماضی میں بھی لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھے مگر مجبوری میں یہ قدم اٹھانا پڑا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ملکی معیشت کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا۔ میرے نزدیک کاروبار کے اوقات کم کرنا حل نہیں ہے البتہ جہاں مائیکرو سمارٹ لاک ڈاؤن ہوگا وہاں تھوڑی سختی کرنا پڑے گی، جہاں کورونا کے کیسز ہوں گے وہاں پر بھی سختی کی جائے گی،باقی مقامات پر معالات معمول کے مطابق چلیں گے اور تمام کاروباری حضرات کو ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کا پابند کیا جائے گا اور جو خلاف ورزی کرے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی، اس حوالے سے انتظامیہ کو ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔
ماسک کے حوالے سے بھی سختی کی جارہی ہے، اس میں عام آدمی سے لے کر بڑی گاڑیوں میں گھومنے والوں تک، کسی کو خلاف ورزی پر کوئی رعایت نہیں دی جائے گی، سب کو سزا ملے گی۔ کورونا کی وباء میں سول سوسائٹی نے بھی بہت اچھا کردار ادا کیا، یہ بھی اب ہر طرح سے تیار ہیں اور پہلے سے زیادہ موثر انداز میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح اب ہمارے پاس والنٹیئر فورس بھی موجود ہے جس کے ذریعے ہمیںمقامی سطح پر کورونا سے نمٹنے اور لوگوں کی مدد کرنے میں آسانی ہوگی۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے اور ہماری زیادہ تر آبادی کیلئے دو وقت کی روٹی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
سادگی سے شادی ہمارا اسلامی طریقہ ہے اور ہمیں اسے اپنانا چاہیے۔ جہیز کے خلاف میری طرف سے پیش کیا گیا بل اسمبلی سے منظور ہوچکا ہے لہٰذا اب اس پر قانون سازی ہونے جارہی ہے۔ ہمیں جہیز اور شادی بیاہ پر دیگر فضول خرچیوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ کورونا اس حوالے سے ایک موقع ہے کہ ہم سادگی اپنائیں اور جہیز وغیرہ پر خرچ کیے جانے والی رقم اپنے بچوں، بچیوں کی تعلیم اور مستقبل پر لگائیں۔ ہم اس سوچ کو فروغ دیں گے اور جہیز کے حوالے سے قانون سازی کے بعد اس پر سختی سے عملدرآمد بھی کروایا جائے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم
(وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور)
کورونا کی دوسری لہر آ نہیں رہی، آچکی ہے لہٰذا اب پہلے سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ کورونا کی پہلے فیز میں اللہ تعالیٰ نے خاص کرم کیا۔ اس میں حکومتی پالیسی اور ''این سی او سی'' کا کردار انتہائی اہم تھا۔ کس وقت لاک ڈاؤن کرنا تھا اور کہاں کرنا تھا، کہاں نہیں کرنا تھا، کس وقت سمارٹ، مائیکرو اور الٹرا مائیکرو سمارٹ لاک ڈاؤن کرنا تھا، یہ تمام فیصلے انتہائی ذمہ داری اور دانشمندی کے ساتھ لیے گئے جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ان اقدامات کی وجہ سے ہم صرف خطے ہی نہیں بلکہ دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جن کا رسپانس اچھا تھا۔
ہماری بے شمار قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا لیکن اگر موثر حکمت عملی نہ ہوتی تو یہ نقصان ہمارے ہمسایہ ملک کی طرح زیادہ ہوسکتا تھا۔ اس بہتر پالیسی کا کریڈٹ یقیناحکومت کو جاتا ہے۔ کورونا کی دوسری لہر تشویشناک ہے اور اس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔
اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ لوگ انفرادی سطح پر اور عوامی سطح پر کتنی موثر حکمت عملی اپناتے ہیں۔ ہم جذباتی قوم ہیں اور جب کورونا کم ہوا تو سب نے سمجھا کہ کورونا ختم ہوگیا ہے اور جیت کو مناتے ہوئے ایس او پیز پر عملدرآمد چھوڑ دیا گیا۔ کورونا وائرس تقریباََ دو سال رہے گا۔ اس کا حل صرف ویکسین ہے، جب تک 30 سے 40 فیصد لوگوں کی ویکسی نیشن نہیں ہوتی، تب تک اس کا خطرہ رہے گا، اس وقت تک ہمیں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے۔ کورونا کے ساتھ رہنے کا طریقہ سب کو معلوم ہے، لوگوں کو صرف اپنے جذبات اور شوق کی قربانی دینی پڑے گی۔
کورونا سے بچاؤ کیلئے احتیاط کریں، ماسک پہنیں،ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ رکھیں اور اپنے فنکشنز کو محدود کریں۔شادیاں سادگی سے اسلامی طریقے سے کریں اور بفے کے بجائے لنچ باکس میں کھانا دیں کیونکہ کھانے کے وقت سب کا ماسک اتارنا بھی انتہائی خطرنا ک ہوسکتا ہے۔ اگر کسی تقریب میں 500افراد شریک ہیں تو اس میں لازمی 5-10 افراد وائرس کیرئر ہونگے لہٰذا ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ میں اور میرا خاندان اگر کسی تقریب میں جاتے ہیں تو اس کا اثر کیا ہوگا۔ ہمیں خود بھی بچنا ہے اور دوسروں کو بھی بچانا ہے، اس کے لیے ہمیں اپنی زندگیوں اور رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔
ریسٹورنٹس میں کرسیاں، میزیں کم ، فاصلہ زیادہ رکھنا چاہیے اور ''ٹیک آوے'' پر انحصار کرنا چاہیے۔ اس طرح ریسٹورنٹ چلتے رہیں گے اور بند بھی نہیں ہوں گے۔ تعلیم پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا، اسے روکنے سے معاشرہ پیچھے چلا جاتا ہے۔ ہماری یونیورسٹی ورچوئل چل رہی ہے اور ہماری کلاسز بھی آن لائن ہورہی ہیں۔
میڈیکل کی تعلیم بہت مشکل ہے اور طلبہ کو ہسپتال میں تربیت دینا لازمی ہے مگر ہم حالات کے پیش نظر آن لائن کر رہے ہیں اور جب معمول پر آئیں گے تو یہ سب کام کروا دیں گے۔ کورونا سے بچاؤ کا سب سے موثر ہتھیار ماسک ہے۔ اگر دونوں نے ماسک نہیں پہنا اورکسی ایک کو کورونا ہے تو منتقلی کے امکانات 75 سے 80 فیصد ہیں۔ اگر کسی ایک نے ماسک پہنا ہے تو 50فیصد اور اگر دونوں نے پہنا ہے تو اس کی منتقلی کے امکانات 10 فیصد رہ جاتے ہیں۔
ماسک کے بعد ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ، ہاتھ دھونا اورصفائی ستھرائی کا خیال رکھنا، احتیاطی تدابیر میں شامل ہیں۔ بہتر ہے کہ صابن سے ہاتھ دھوئیں کیونکہ الکوحل والے سینی ٹائزر کے زیادہ استعمال سے آنکھوں کی بینائی متاثر ہونے سمیت و دیگر مسائل ہوسکتے ہیں۔ سگریٹ نوشی کرنے والے شخص میں وائرس چلا جائے تو اس میں عام آدمی کی نسبت موت کا خطرہ چار گنا زیادہ ہوتا ہے۔
اگر آپ سگریٹ پیتے ہیں تو اپنی زندگی کی خاطر اسے چھوڑ دیں۔ اسی طرح بلڈ پریشر، شوگر و دیگر بیماریوں کے مریضوں کو بھی اپنی صحت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، اگر بلڈ پریشر، شوگر کنٹرول رہے گا تو جسم کورونا کے ساتھ بہتر طریقے سے نمٹ سکے گا۔ سب کو وٹامن ڈی کا ٹیسٹ کروانا چاہیے اور اس کی کمی کو فوری پورا کرنا چاہیے۔
اس سے بہتر نتائج آتے ہیں۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے کورونا وائرس کے دوران کیے جانے والے اقدامات پر 450 صفحات پر مشتمل سپلیمنٹ شائع کیا ہے۔ ہمارے ادارے نے کورونا کی وباء میں 57 مختلف اقدامات کیے، 18 کروڑ روپے کی رقم سے مفت ماسک، سینی ٹائزر، پی پی ای کٹس و دیگر سہولیات فراہم کی ۔ ہم نے عالمی اداروں اور یونیورسٹیوں کے ساتھ مل کر تحقیقات بھی کی اور دنیا کی سب سے بڑی پروٹیکٹ سٹڈی کی جس میں 9 ہزار مریضوں پر مختلف ادویات ٹیسٹ کی گئی۔
ان اقدامات کے بعد سے اب ہمارے پاس ہر قسم کی صلاحیت موجود ہے اور ہم کورونا کی دوسری لہر میں مزید بہتر کام کرنے کیلئے تیار ہیں اور کر بھی رہے ہیں۔ ہماری یونیورسٹی پاکستان کی واحد درسگاہ ہے جو ویکسینیشن پروگرام کر رہی ہے۔ ہم باہر سے ویکسین نہیں لا رہے بلکہ یہاں ڈویلپ کر رہے ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس تین مختلف ویکسین موجودہیں جو ہزاروں لوگوں کو مفت لگائی جاچکی ہیں۔ ہم ویکسین کا کامیاب ٹرائل کر رہے ہیں جو آخری مراحل میں ہے، اس کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں لہٰذا جلد اسے مارکیٹ میں پیش کریں گے۔ کورونا کے ہیروز کیلئے گورنر ہاؤس میں خصوصی دیوار بنائی گئی جہاں کورونا کی وباء میں اچھا کام کرنے والوں کے نام درج ہیں، ان میںہمارے ادارے کے لوگوں کے نام سرفہرست ہیں ۔
صدر پاکستان نے بھی کورونا کے ہیروز میں ایوارڈز تقسیم کیے جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ یقین ہے کورونا کی دوسری لہر میں سب اسی جوش و جذبے اور لگن کے ساتھ کام کریں گے۔ اللہ کے کرم اور حکومتی اقدامات کے بعد، کورونا کی پہلی لہر میں کامیابی کی وجہ موسمیاتی تبدیلی اور ہماری عادات ہیں۔
ہم ہلال کھاتے ہیں، دن میں 5 مرتبہ وضو کرتے ہیں اور صفائی ہمارا نصف ایمان ہے جو کورونا کے پھیلاؤ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ سردیوں میں شرح اموات زیادہ ہوسکتی ہے، بڑوں اور بچوں پر خصوصی توجہ دیں اور خود بھی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔حکومت اگر لاک ڈاؤن نہیں کر رہی تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ خود کو لاک نہ کریں، بلاوجہ باہر نہ نکلیں اور جسمانی دوری اختیار کریں۔
راجہ حسن اختر
(نمائندہ بزنس کمیونٹی )
کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت متاثر ہوئی۔ بڑی شپنگ کمپنیاں، ایئر لائنز بند ہوگئی۔ بے شمار ممالک کی معاشی حالت اتنی خراب ہوئی کہ انہیں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے پاس جانا پڑا۔ یہ اللہ کاخاص فضل ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ اس میں یقینا حکومت، ادارے، بزنس کمیونٹی، ٹریڈر، دکاندار، سول سوسائٹی، میڈیا سب نے اہم کردار ادا کیا۔ لوگوں کو اس وباء سے نمٹنے کیلئے آگاہی دی گئی۔ ابتداء میں ہمیں مسائل درپیش ہوئے مگر جیسے جیسے آگاہی ملی معاملات بہتر ہوئے اور اب ہر دوکان کے باہر کورونا کے حوالے سے احتیاتی تدابیر کا نوٹس لگا ہے اور ماسک پہننے کی تلقین بھی کی جارہی ہے بلکہ لوگوں کو خود مفت ماسک بھی دیے جارہے ہیں اور استعمال کیلئے وہاں سینی ٹائزر بھی موجود ہے۔
حکومت، اداروں، بزنس کمیونٹی، سول سوسائٹی، عوام و دیگر سٹیک ہولڈرز نے کورونا کے پہلے فیز میں انتہائی مثبت کردار ادا کیا جس کا فائدہ ہوا۔ امید ہے کہ کورونا کی دوسری لہر میں بھی معاملات بہتری کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ کورونا کے منفی اثرات کی بات کی جائے تو اس کے پہلے فیز میں کاروبار شدید متاثر ہوا۔ گرے لسٹ میں ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹ پہلے ہی متاثر تھی، کورونا نے مزید نقصان کیا۔ ایکسپورٹ آرڈر منسوخ ہوئے، انڈسٹری بند ہوگئی ، دیہاڑی دار طبقہ بے روزگار ہوا اور خیرات مانگنے پر مجبور ہوگیا۔
بعض فیکٹری مالکان نے اپنے ملازمین کو تنخواہ نہیں دی جس سے شدید مسائل پیدا ہوئے۔ اس مرتبہ ہم نے پہلے ہی ایسی صنعتوں کے مالکان کے ساتھ بات چیت کر لی ہے کہ اگر خدانخواستہ کورونا کے دوسرے فیز میں حالات خراب ہوئے تو مزدور کو اس کی تنخواہ لازمی ملے گی۔ حکومت سے میری گزارش ہے کہ لاک ڈاؤن کی طرف نہ جائے اورنہ ہی کاروبار کے اوقات کم کیے جائیں بلکہ اپوزیشن، سول سوسائٹی، بزنس کمیونٹی سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کورونا سے نمٹنے کی بہتر پالیسی بنائی جائے تاکہ ملکی معیشت کو سنبھالا مل سکے۔
موجودہ حالات میں حکومت کو انڈسٹری، ٹریڈرز اور دکانداروں کو سہولت فراہم کتنی چاہیے تاکہ ملکی معیشت کا پہیہ چلے اور مسائل کم ہوں۔ کورونا کی پہلی لہر میں مکمل لاک ڈاؤن کے بعد جب مارکیٹ کھلی تو عوام نے اپنی ضروریات زندگی کیلئے بازاروں اور مارکیٹوں کا رخ کیا اور انہیں معلوم نہیں تھا کہ آگے کیا صورتحال ہوگی مگر اب حالات مختلف ہیں۔ لوگوں کو علم ہے کہ کورونا کیا ہے اور احتیاطی تدابیر کیا ہیںاور وہ اس سے بہتر طریقے سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں۔
حکومت نے بجلی کے حوالے سے اندسٹری کو جو ریلیف دیا ہے یہ خوش آئند ہے تاہم یہ صرف اعلان تک نہیں رہنا چاہیے بلکہ صحیح معنوں میں اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ کورونا وائرس سے بچاؤکیلئے احتیاط ضروری ہے۔ حکومت اس حوالے سے جو بھی ایس او پیز بنائے گی، بزنس کمیونٹی وسیع تر قومی مفاد میں حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔
ہمیں تعاون کا ایک ایسا لائحہ عمل بنانا چاہیے کہ نہ کاروبار بند ہو، نہ معیشت کا پہیہ جام ہو اور نہ ہی غریب آدمی روٹی کیلئے دربدر پھرے۔ امید ہے کہ جس طرح ہم نے پہلے فیز میں کورونا پر قابو پایا، اب بھی اسی طریقے سے اس پر قابو پالیں گے۔ کورونا کے حوالے سے ڈاکٹرز کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ان کے بغیر اس پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔
شاہنواز خان
(نمائندہ سول سوسائٹی )
جب کورونا وائرس کی وباء آئی تو سول سوسائٹی نے اس نئے وائرس کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دینے پر کام کیا ۔ اس حوالے سے بڑے پیمانے پر ہاتھ دھونے، ماسک پہننے اور دیگر احتیاطی تدابیر کے حوالے سے لوگوں کو آگہی دی گئی۔ یہ کام صرف شہروں ہی نہیں بلکہ دور دراز علاقوں اور دیہاتوں میں بھی کیا گیا جس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔
میڈیا، سوشل میڈیا اور گلی محلوں میں آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں مفت ماسک و سینی ٹائزر بھی تقسیم کیے گئے۔حکومتی سطح کی بات کریں تو گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے ''پنجاب ڈویلپمنٹ نیٹ ورک'' بنایا، سول سوسائٹی کے اداروں کو اکٹھا کیا تاکہ امدادی کاموں کا دائرہ کار بڑھایا جاسکے۔
اس حوالے سے ایک سسٹم بنایا گیا جس میں امداد ملنے والوں کا ڈیٹا موجود تھا اور اس نیٹ ورک میں موجود ادارے کسی بھی شخص کو مدد دینے سے پہلے اس کا شناختی کارڈ نمبر لکھ کر تفصیل چیک کرلیتے تھے کہ اس شخص کو پہلے امداد ملی ہے یا نہیں۔ گورنر پنجاب نے یہ اعلان کیا تھا کہ کورونا کے دوران خدمات دینے والوں کے لیے ایک دیوار بنائی جائے گی جس پر ان کے نام لکھے جائیں گے ۔ حال ہی میں اس کا افتتاح کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ صدر پاکستان گورنر ہاؤس تشریف لائے اور کورونا کے ہیروز میں ایوارڈز تقسیم کیے۔
ہمارے ادارے نے تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور تمام پناہ گاہوں میں ''ہینڈ واشنگ سٹیشن'' لگائے گئے۔ ہم نے نشتر ہسپتال ملتان میں 32 بیڈز پر مشتمل آئی سی یو -ایچ ڈی یو بنایا اور اس وقت نشتر ہسپتال کا آئی سی یو سب سے بڑا ہے۔جس سے جنوبی پنجاب سمیت سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کو فائدہ ہوا۔
پوری قوم نے انتہائی ذمہ داری اور خدمت کے جذبے کے ساتھ کورونا وائرس کی پہلی لہر پر موثر انداز میں قابو پایا، اب اس کی دوسری لہر ہے لہٰذا ہمیں ایک بارپھر اسی جذبے کے ساتھ یکجان ہوکر کورونا کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ لوگوں میں کورونا کا خوف ختم ہوگیا اور اب وہ بالکل احتیاط نہیں کر رہے۔
اگر ہم نے لاپرواہی برتی تو خدانخواستہ حالات خطرناک ہوسکتے ہیں۔ پاکستان غریب ملک ہے ، ہم لاک ڈاؤن کی طرف بھی نہیں جاسکتے لہٰذا ہمیں کورونا کے ساتھ جینے کے رویے پیدا کرنا ہوں گے۔ ماسک لازمی لگائیں اور سینی ٹائزر ساتھ رکھیں۔ سماجی اداروں، مخیر حضرات اور بزنس کمیونٹی کو چاہیے کہ لوگوں میں مفت ماسک تقسیم کریں۔