مسئلہ فلسطین راہِ حل
یہ بالکل صحیح وقت ہے کہ جب صیہونی ریاست اسرائیل اپنے ایٹمی اثاثوں کو تحفظ دینے کی کوشش میں مصروف عمل ہے...
LONDON:
یہ بالکل صحیح وقت ہے کہ جب صیہونی ریاست اسرائیل اپنے ایٹمی اثاثوں کو تحفظ دینے کی کوشش میں مصروف عمل ہے اور دنیا کی عالمی طاقتیں اس اہم مسئلے سے صرف نظر کیے ہوئے ہیں، عین اسی وقت ہونا تو یہ چاہیے کہ دنیا کی با ضمیر ریاستیں اور بالخصوص مسلم ممالک عالمی برادری پر دباؤ ڈالیں اور مطالبہ کریں کہ مسئلہ فلسطین کے حل کی خاطر جنیوا کانفرنس بلائی جائے اور اس کانفرنس میں فلسطین کے مسئلہ کو فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی کوشش کی جائے ،آخرکیوں سامراجی طاقتوں نے شام اور ایران کے مسئلے پر تو جنیوا کانفرنس بلانے میں دیر نہیں کی اور گزشتہ پینسٹھ برسوں سے صیہونی اسرائیلی مظالم کی چکی میں پسنے والے لاکھوں بے گناہ فلسطینیوں کی داد رسی نہیں کی گئی؟ آخر مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے جنیوا کانفرنس کیوں نہیں بلائی جاتی؟
یقینا مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستوں کے قیام میں نہیں ہے، کیونکہ ماضی میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ غاصب اسرائیل کے ساتھ ہونے والے کسی بھی معاہدے پر اسرائیل کی جانب سے عمل نہیں کیا گیا۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے مسئلہ فلسطین کو فلسطینیوں کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق حل کرنے کے لیے عالمی طاقتیں کردار ادا کریں تا کہ فلسطین میں بسنے والے لاکھوں فلسطینیوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق بھی میسر آ سکیں۔
ماضی کے مشاہدات میں دیکھنے میں آیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدے میں طے پایا تھا کہ غاصب اسرائیلی حکومت پہلے مرحلے میں 1967ء کی سرحدوں تک واپس چلی جائے ، حالانکہ یہ مسئلہ فلسطین کا درست حل نہیں تھا تاہم اسرائیل جسے ہٹ دھرمی اور ظلم و بربریت کے عنوان سے سونے کے تمغے سے نوازا جانا چاہیے اس نے اس معاہدے کی پاسداری بھی نہ کی اور مزید فلسطینی زمینوں کو اپنے غاصبانہ تسلط میں لیتے ہوئے تاحال فلسطینیوں کی زمینوں اور گھروں پر صیہونیوں کے لیے گھروں کی تعمیرات میں مصروف عمل ہے تاہم فلسطین کے حل اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف ایک جنیوا کانفرنس کا انعقاد اس بات کی دلیل بن سکتا ہے کہ دنیا کی باضمیر حکومتیں اور انسان فلسطینی مظلومین کے ساتھ ہیں۔
عالمی سامراجی طاقتوں کے جہاں کہیں مفادات ہوتے ہیں وہاں تو جنگ سے لے کر مذاکرات اور کانفرنسوں سمیت ہر قسم کے اقدامات عمل میں لائے جاتے ہیں لیکن یہاں سر زمین انبیاء ؑ فلسطین پر گزشتہ پینسٹھ برسوں سے خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہیں لیکن عالمی طاقتوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے، مسئلہ فلسطین کا حل انتہائی سادہ ہے ، 1948ء سے سر زمین فلسطین پر بسنے والے تمام فلسطینیوں کو سر زمین فلسطین واپس لایا جائے اور ان تمام فلسطینیوں کے درمیان ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جائے جس میں فلسطینی باشندے اپنے لیے نظام حکومت کا اختیار کرتے ہوئے اس بات کا بھی فیصلہ کریں کہ آیا 1948ء سے قبل اور فلسطین پر قبضے کے دوران دنیا بھر سے لا کر بسائے جانے والے صیہونیوں کو سر زمین فلسطین پر رہنے دیا جائے یا نہیں، بس اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر فلسطینی عوام یہ فیصلہ کریں کہ 1948ء سے دنیا بھر سے لا کر بسائے جانے والے صیہونی اپنے اپنے وطن کو لوٹ جائیں۔ تو پھر صیہونیوں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ سر زمین فلسطین پر غاصبانہ طریقے سے رہیں تاہم آسان ترین حل یہی ہے کہ فلسطینی جنھیں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے وہ فلسطین واپس آئیں اور اپنی سر زمینوں ، کھیتوں اور گھروں کو آباد کریں جب کہ جو صیہونی دنیا کے دیگر ممالک سے لا کر بسائے گئے ہیں انھیں بھی چاہیے کہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور اپنی زندگی گذاریں ، خلاصہ یہ ہے کہ ہر کسی کو چاہیے کہ وہ اپنے آبائی وطن لوٹ جائے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے سنجیدگی کے ساتھ جنیوا کانفرنس کا انعقاد کیا جائے اور اس حوالے سے مسلم ممالک کے حکمران مثبت کردار ادا کرتے ہوئے عالمی سامراجی طاقتوں کی خوشامد کی بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فلسطینیوں کے حقوق کا مسئلہ اٹھائیں تو وہ وقت دور نہیں جب کہ فلسطین آزاد ہو گا اور دنیا بھر میں در بدر پھرنے والے لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں میں واپس لوٹ جائیں گے جو کہ ان کا بنیادی حق ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اسرائیل جیسی غاصب ریاست کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات بے نتیجہ اور بے معنی ہیں ، کیونکہ ایک ریاست کہ جس کا وجود ہی غیر قانونی ہو تو اس ریاست کے ساتھ کس طرح مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم فلسطین کے اندر کام کرنے والی ایک جماعت الفتح کو بھی چاہیے کہ فلسطینی عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے مسلم امہ کی رائے کو ترجیح دے اور غاصب اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو ترک کر دے اور مسئلہ فلسطین کے حل کو درج بالا سطور میں پیش کیے جانے والے حل کی طرف گامزن کرنے کی کوشش کرے، کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان قتل و غارت گری پر یقین نہیں رکھتا ہے اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے ہیں کہ تمام اسرائیلیوں کو کسی سمندر میں پھینک دیا جائے یا پھر انھیں قتل کر دیا جائے۔ بلکہ ہمارا پیش کردہ حل سیدھا ہے کہ تمام فلسطینی اپنے وطن فلسطین چلے جائیں جو 1948ء میں فلسطین میں تھے اور تمام صیہونی جو فلسطین میں لا کر بسائے گئے ہیں وہ بھی اپنے وطن جہاں جہاں سے لائے گئے تھے واپس چلے جائیں۔
بیس سال قبل ہونے والے اوسلو معاہدے کے بعد سے آج تک اسرائیلی طرز عمل تبدیل نہیں ہوا ہے،لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اسرائیل جو کہ ایک خطرناک ایٹمی طاقت کے طور پرمشرق وسطیٰ جیسے اہم خطے میں موجود ہے، صرف فلسطین کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے۔دوسری طرف اسرائیل کی ایٹمی طاقت کے ساتھ ساتھ صیہونی لابی ہے جو امریکی کانگریس میں بیٹھ کر غاصب اسرائیل کے جرائم پر پردہ پوشی کرنے میں مصروف عمل ہے۔تاہم حال ہی میں ایران کے معاملے پر جنیوا کی کامیابی اور عنقریب شام کے مسئلے کے پر امن حل کی امید کے بعد ضرورت ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر جنیوا کانفرنس کا انعقاد کیا جائے اور غاصب اسرائیل کے خلاف اقدامات عمل میں لائے جائیں تا کہ نہ صرف فلسطین اور مشرق وسطیٰ کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکے بلکہ پوری دنیا کو صیہونی غاصب حکومت کے شر اور خطرے سے محفوظ بنایا جائے۔